آئمہ اسلام کا بدعت کو “حسنة” اور “سيئة” میں تقسیم کرنے کا شبہ
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر بدعت مطلقاً گمراہی ہوتی تو بڑے بڑے ائمہ بدعت کو “حسنة” اور “سيئة” میں تقسیم نہ کرتے۔ وہ امام شافعیؒ، امام عز بن عبدالسلامؒ، امام نوویؒ اور امام سیوطیؒ وغیرہ کے اقوال بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم اس شبہے کا جائزہ لیں گے اور دکھائیں گے کہ دراصل یہ اقوال بدعتِ لغوی (یعنی لغوی معنی میں نئی چیز) کے بارے میں ہیں، بدعتِ شرعی کے بارے میں نہیں۔

بریلوی حضرات کا بدعت کے جواز میں شبہ

اعتراض یہ ہے:
“بدعت کو حسنة و سيئة میں تقسیم کرنا بدعت کے منکرین کا انکار ہے، حالانکہ امام شافعیؒ، عز بن عبدالسلامؒ اور دیگر علما نے اسے تسلیم کیا ہے۔”

اس بریلوی شبہ کا مدلل جواب

➊ شریعت کے نصوص بدعت کو ہمیشہ مذموم بتاتے ہیں

سب سے پہلے نبی ﷺ کا قول:

عربی:
«كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ»
ترجمہ: “ہر بدعت گمراہی ہے۔”
حوالہ: صحیح مسلم (حدیث: 867)، سنن النسائي (حدیث: 1578)

یہ عموم (عام الفاظ) پر ہے، اور اس میں کسی استثناء کا ذکر نہیں۔ اس لئے بدعت شرعی کو اچھا یا برا تقسیم کرنا قرآن و سنت کے خلاف ہے۔

➋ امام شافعیؒ کا قول

امام شافعیؒ سے منسوب قول ہے:

عربی:
«المحدثات من الأمور ضربان: أحدهما ما أحدث مما يخالف كتاباً أو سنةً أو أثراً أو إجماعاً، فهذه البدعة الضلالة. والثاني ما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا، فهذه محدثة غير مذمومة.»
ترجمہ: “نئی پیدا شدہ چیزیں دو طرح کی ہیں: ایک وہ جو قرآن، سنت، اثر یا اجماع کے خلاف ہو، تو یہ بدعتِ ضلالہ ہے۔ اور دوسری وہ جو خیر میں سے ہو اور ان میں سے کسی کے خلاف نہ ہو، تو یہ ناپسندیدہ بدعت نہیں ہے۔”
حوالہ: ابن حجر، فتح الباري (13/253)

📌 وضاحت: امام شافعیؒ یہاں لغوی بدعت کی بات کر رہے ہیں، یعنی وہ کام جو نیا ہے مگر شریعت کے خلاف نہیں (جیسے علمِ نحو کی تدوین، مدارس کا قیام وغیرہ)۔ یہ “عباداتِ محدثہ” کے بارے میں نہیں ہے۔

➌ امام ابن رجبؒ کی وضاحت

امام ابن رجبؒ فرماتے ہیں:

عربی:
«فكل من أحدث شيئاً ونسبه إلى الدين، ولم يكن له أصل من الدين يرجع إليه، فهو ضلالة والدين بريء منه، وأما ما وقع في كلام السلف من استحسان بعض البدع فإنما ذلك في البدع اللغوية لا الشرعية.»
ترجمہ: “جو کوئی نئی چیز دین میں داخل کرے اور اس کی کوئی اصل شریعت میں نہ ہو تو وہ بدعت اور گمراہی ہے، اور دین اس سے بری ہے۔ اور سلف کے کلام میں جہاں بعض بدعات کو اچھا کہا گیا ہے وہاں مراد صرف لغوی بدعت ہے، شرعی بدعت نہیں۔”
حوالہ: جامع العلوم والحكم (ص 252)

📌 مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی نئی چیز دین کے نام پر ایجاد کی جائے تو وہ بدعت ہے، چاہے وہ اچھی نظر آئے۔ اور اگر دنیاوی معاملات میں نئی چیزیں ہوں (مثلاً اسکول، کاغذ پر قرآن کی طباعت)، تو یہ لغوی بدعت ہے۔

➍ ائمہ کے اقوال کو ان کے اصول پر سمجھنا ضروری ہے

امام شافعیؒ خود فرماتے ہیں:

عربی:
«من استحسن فقد شرع.»
ترجمہ: “جس نے استحسان (اپنی پسند سے اچھا قرار دینا) کیا تو اس نے شریعت سازی کی۔”
حوالہ: الشافعي، الرسالة (ص 507)

📌 اس سے معلوم ہوا کہ امام شافعیؒ کے نزدیک اپنی مرضی سے کسی عبادت کو “اچھا” کہنا شریعت سازی ہے۔ لہٰذا ان کے قول کو بدعت شرعی کے جواز پر دلیل بنانا ان کے اپنے اصول کے خلاف ہے۔

➎ صحابہ کا فہم

سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کا قول ہے:

عربی:
«كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة.»

ترجمہ: “ہر بدعت گمراہی ہے، چاہے لوگ اسے اچھا ہی کیوں نہ سمجھیں۔”
حوالہ: رواه البيهقي في السنن الكبرى (4/316)

اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا:

عربی:
«اتبعوا ولا تبتدعوا فقد كفيتم، وكل بدعة ضلالة.»
ترجمہ: “اتباع کرو (سنت کی) اور بدعت نہ نکالو، تمہیں کافی دے دیا گیا ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”
حوالہ: الدارمي في سننه (حديث: 211)

📌 یہ اقوال واضح کرتے ہیں کہ صحابہ کے نزدیک بدعت شرعی میں کوئی حسن نہیں تھا۔

خلاصہ

  • نبی ﷺ کا فرمان ہے: “ہر بدعت گمراہی ہے” — اس میں کوئی تقسیم نہیں۔

  • امام شافعیؒ اور دوسرے علما جب “بدعتِ حسنہ” کہتے ہیں تو وہ لغوی بدعت مراد لیتے ہیں (دنیاوی یا انتظامی نئی چیزیں، جیسے مدارس، کتابت قرآن، وغیرہ)۔

  • عبادات میں نئی چیز ایجاد کرنا شریعت کے خلاف ہے اور بدعتِ ضلالہ ہے۔

  • صحابہ کرامؓ کا فہم بھی یہی ہے کہ بدعت ہمیشہ گمراہی ہے۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے