یتیم کے مال کی حفاظت اور اسلامی احکام
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

یتیم کے مال میں تصرف کرنا

یتیم کے مال میں، اگر اس کی ذاتی مصلحت اور مفاد نہ ہو تو تصرف اور خورد برد کرنا حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ» [الأنعام: 152]
”اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ یتیم کا مال کھانا سات ہلاک کر دینے والے کاموں میں سے ایک ہے، لہٰذا اپنی مصلحت اور ذاتی مفاد کے لیے تمہارے لیے اس میں تصرف کرنا جائز نہیں، بلکہ سرپرست اور نگران کو چاہیے کہ وہ یتیم کے مال کی نمو کرے اور اسے اس کی مصلحت کے لیے تجارت میں لگائے۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا: ”یتیموں کے لیے ان کے مالوں سے رزق تلاش کرو، انہیں زکاۃ نہ کھا جائے۔“
[اللجنة الدائمة: 5504]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے