جواب: ہوا خارج ہونے پر استنجا کرنا جائز نہیں ، بلکہ بدعت ہے ۔ کیوں کہ ہوا خارج ہونے پر وضو فرض ہوتا ہے ۔ استنجا کو وضو نہیں کہتے ۔ یہ غلو کے زمرہ میں آتا ہے ۔ دین میں غلو حرام ہے ۔ نیز اجماع امت کی مخالفت بھی ہے ۔
حافظ نووي رحمه الله (676 ه) لكهتے هيں:
وأجمع العلماء على أنه لا يجب الاستنجاء من الريح والنوم ولمس النساء والذكر وحكي عن قوم من الشيعة أنه يجب والشيعة لا يعتد بخلافهم
”اہل علم کا اجماع ہے کہ ریح (ہوا خارج ہونے) ، نیند ، عورتوں اور (کپڑے کے اوپر سے) شرم گاہ کو چھونے سے استنجا واجب نہیں ہوتا ۔ شیعہ کے ایک گروہ سے اس کا واجب ہونا منقول ہے ۔ شیعہ کا اجماع کی مخالفت کرنا معتبر نہیں ۔“ (المجموع شرح المهذب: ١١٣/٢)
علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وليس على من نام أو خرجت منه ريح استنجاء ولانعلم فى هذا خلافا
”جو سو گیا یا جس کی ہوا خارج ہو گئی ، دونوں پر استنجا نہیں ہے ، ہمارے مطابق اس میں کوئی اختلاف نہیں ۔“ [ المغني: 111/1]
فتاوی عالمگیری میں ہے:
والخامس بدعة وهو الاستنجاء من الريح
”ہوا خارج ہونے پر استنجا کرنا بدعت ہے ۔“ [فتاوي عالمگيري: ٥٠/١]
ہوا خارج ہونے پر استنجا قرآن وسنت ، صحابہ اور ائمہ دین سے منقول نہیں ۔ استنجا تو نجاست زائل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے ، ہوا خارج ہونے سے وہ محل نجس نہیں ہوتا ۔ ثابت ہوا کہ ہوا خارج ہونے پر استنجا عبث ہے ۔