کیا ہر چیز تقدیر سے منسلک ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں
تحریر: قاری اسامہ بن عبدالسلام حفظہ اللہ

تقدیر کا مفہوم

تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پہلے سے طے کر رکھا ہے اور وہی سب کچھ جانتا ہے جو ہو چکا، جو ہو رہا ہے اور جو ہوگا۔ تاہم، اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان مکمل طور پر مجبور ہے، بلکہ اسلام میں تقدیر اور اختیار دونوں کا ایک متوازن نظام موجود ہے۔

 قرآن کی روشنی میں تقدیر

الف) ہر چیز اللہ کی لکھی ہوئی ہے

📖 سورۃ الحدید (57:22)

مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍۢ فِى ٱلْأَرْضِ وَلَا فِىٓ أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِى كِتَٰبٍۢ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌ
(سورۃ الحدید: 22)

ترجمہ:
"زمین میں یا تمہاری ذات میں کوئی مصیبت نہیں آتی مگر وہ ایک کتاب میں لکھی جا چکی ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے وجود میں لائیں۔ بے شک یہ اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔”

نکتہ:
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ ہر چیز اللہ کے علم میں پہلے سے موجود ہے اور اس کی تقدیر لکھی جا چکی ہے۔

 ہر کام اللہ کے حکم سے ہوتا ہے

📖 سورۃ الفرقان (25:2)

وَخَلَقَ كُلَّ شَىْءٍۢ فَقَدَّرَهُۥ تَقْدِيرًۭا
(سورۃ الفرقان: 2)

ترجمہ:
"اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کی ایک تقدیر مقرر کی۔”

نکتہ:
ہر چیز کی ایک خاص مقدار، وقت اور طریقہ پہلے سے طے شدہ ہے، چاہے وہ کسی کی زندگی ہو، رزق ہو یا دیگر معاملات۔

حدیث کی روشنی میں تقدیر

الف) تقدیر پہلے سے لکھی جا چکی ہے

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دی تھی۔”
(مسلم: 2653)

نکتہ:
یہ حدیث بتاتی ہے کہ ہر چیز پہلے سے لکھی جا چکی ہے، اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا مکمل علم ہے۔

انسان کے اعمال بھی تقدیر کا حصہ ہیں

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

"ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔”
(بخاری: 1358، مسلم: 2658)

نکتہ:
یہ حدیث اس بات کو واضح کرتی ہے کہ انسان کے اعمال بھی تقدیر میں شامل ہیں، لیکن اسے اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اچھے یا برے راستے کا انتخاب کرے۔

 کیا انسان مجبور ہے یا آزاد

الف) تقدیر اور اختیار کا توازن

📖 سورۃ الدھر (76:3)

إِنَّا هَدَيْنَٰهُ ٱلسَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًۭا وَإِمَّا كَفُورًۭا
(سورۃ الدھر: 3)

ترجمہ:
"بے شک ہم نے انسان کو راستہ دکھا دیا، اب وہ چاہے شکر گزار بنے یا ناشکرا۔”

نکتہ:
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ نے انسان کو نیکی اور بدی کا راستہ دکھایا، لیکن انتخاب انسان کے اختیار میں ہے۔

 دعا، اعمال اور محنت سے تقدیر بدل سکتی ہے

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے، اور نیکی عمر میں اضافہ کرتی ہے۔”
(ترمذی: 2139، ابن ماجہ: 90)

نکتہ:
یہ حدیث بتاتی ہے کہ دعا اور اعمال کے ذریعے بعض امور میں تبدیلی آ سکتی ہے، لیکن یہ بھی اللہ کے علم میں ہوتا ہے کہ کون کیا دعا کرے گا اور کون کیا عمل کرے گا۔

4. تقدیر کی اقسام

علمائے کرام کے مطابق، تقدیر کی دو اقسام ہیں:

علمی تقدیر (Permanent Fate):

یہ اللہ کے علم میں پہلے سے موجود ہے اور کبھی نہیں بدلتی۔

مثال:
◈ قیامت کا دن
◈ جنت اور جہنم کا نظام
◈ بنیادی قوانینِ قدرت

عملی تقدیر (Conditional Fate):

یہ بعض اعمال سے تبدیل ہو سکتی ہے، جیسے دعا، نیک اعمال اور محنت۔

مثال:
◈ اگر کوئی بیمار ہو اور دعا کرے یا علاج کرے تو صحتیاب ہو سکتا ہے۔
◈ صدقہ اور خیرات سے بلائیں ٹل سکتی ہیں۔

5. خلاصہ

1. ہر چیز اللہ کے علم میں ہے، اور تقدیر پہلے سے لکھی جا چکی ہے۔
2. اللہ نے ہر چیز کی تقدیر مقرر کر رکھی ہے، لیکن انسان کو بھی محدود اختیار دیا گیا ہے۔
3. دعا، نیکی اور محنت سے بعض چیزیں بدلی جا سکتی ہیں۔
4. انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے، اور اسی بنیاد پر قیامت کے دن اس کا حساب ہوگا۔

نتیجہ:

ہر چیز تقدیر سے جُڑی ہوئی ہے، لیکن انسان کے پاس نیکی اور بدی کے درمیان انتخاب کا اختیار ہے۔ لہٰذا، ہمیں اپنی زندگی میں اچھے اعمال کو ترجیح دینی چاہیے اور دعا کے ذریعے بہتری کی کوشش کرنی چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1