کیا نماز جمعہ کے لیے دو آذانیں دی جائیں گی
تحریر: عمران ایوب لاہوری

کیا نماز جمعہ کے لیے دو آذانیں دی جائیں گی

حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان النداء يوم الجمعة أوله إذا جلس الإمام على المنبر على عهد النبى صلى الله عليه وسلم وأبي بكر رضي الله عنه و عمر رضي الله عنه فلما كان عثمان رضي الله عنه و كثر الناس زاد النداء الثالث على الزوراء
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمعہ کی پہلی آذان اس وقت دی جاتی تھی جب امام خطبے کے لیے منبر پر بیٹھتا ، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی تو وہ مقام زوراء سے ایک (تیسری یعنی آذان اور اقامت کے علاوہ) آذان دلوانے لگے ۔“
[بخاري: 912 ، كتاب الجمعة: باب الأذان يوم الجمعة ، أبو داود: 1087 ، ترمذي: 516 ، نسائي: 100/3 ، ابن ماجة: 1135 ، بيهقى: 205/3 ، أحمد: 450/3 ، ابن خزيمة: 1773 ، بغوي: 574/2]
(بخاریؒ) بیان کرتے ہیں کہ الزوراء موضع بالسوق بالمدينة ”زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام ہے ۔“
[بخاري: 912]
(ابن حجرؒ ) زوراء کی جو تفسیر امام بخاریؒ نے کی ہے وہی قابل اعتماد ہے اور جو ظاہری طور پر معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس فعل کو تمام شہروں میں اختیار کر لیا کیونکہ وہ خلیفہ وقت تھے اور یقیناً خلیفہ کی اقتداء کرنا عوام اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔
[فتح البارى: 55/3]
(شوکانیؒ) تیسری آذان کا ذکر اس بات کو لازم کرتا ہے کہ پہلے دو آذانیں موجود تھیں اور ان سے مراد آذان اور اقامت ہے۔
[نيل الأوطار: 552/2]
معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمعہ کے لیے صرف ایک ہی آذان دی جاتی تھی لیکن پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی کثرت کے باعث بازار میں ایک اونچے مقام (زوراء ) پر ایک آذان کا اضافہ محض اس لیے کیا تا کہ لوگوں کو بآسانی خبر دار کیا جا سکے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پھر اسی کو اختیار کر لیا۔ یقیناً اگر آج بھی ایسی صورت ہو تو یہ عمل مباح ہو گا لیکن اگر ایسا نہ ہو جیسا کہ عصر حاضر میں تقریباََ ہر مسجد میں لاؤڈ سپیکر موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے دور دراز علاقوں تک آذان کی آواز پہنچانا کوئی مسئلہ نہیں رہا اس لیے ایسی کسی آذان کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔ اس صورت میں پہلی آذان کا جواز نکالنا قطعی طور پر درست نہیں۔
علاوہ ازیں صرف مسجد میں ہی دونوں آذانیں کہنا (جیسا کہ ہمارے ہاں اکثر یہی رواج ہے ) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بھی سنت نہیں ہے اس لیے اگر یہ لوگ سنت عثمانی پر ضرور ہی عمل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ بازار میں جا کر کسی اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر پہلی آذان دیں۔ اپنے اس موقف کے اثبات کے لیے یہ دلیل پیش کرنا: عليـكـم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين ”میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔“ بھی درست نہیں کیونکہ خلفائے راشدین کی وہی سنت اختیار کی جا سکتی ہے جو در حقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔
[تحفة الأحوذى: 69/3]
اس کے علاوہ یہ دعوی کرنا کہ تیسری آذان کے جواز پر صحابہ کا اجماع سکوتی ہے ، پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتا کیونکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
الأذان الأول يوم الجمعة بدعة
”جمعہ کے دن پہلی آذان کہنا بدعت ہے ۔“
[ابن أبى شيبة: 5437]
(ابن حجرؒ ) اس میں احتمال ہے کہ (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ) نے یہ بات علی سبیل الانکار (یعنی اظہار تعجب کرتے ہوئے ) کہی ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ انہوں نے اس سے یہ مراد لیا ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ آذان نہیں تھی اور ہر ایسی چیز جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ ہو اس کا نام بدعت ہے۔
[فتح البارى: 55/3]
(ابن ابی شیبہؒ ) حافظ ابن حجرؒ کے دونوں احتمالوں میں سے پہلا راجح ہے۔
[مصنف ابن أبى شيبة: 145/2]
یاد رہے کہ اسے ہم بدعت نہیں کہہ سکتے کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ آذان دوسری نمازوں پر قیاس کرتے ہوئے شروع کر دی تھی ۔ وہ اس طرح کہ کسی بھی نماز کے لیے آذان اس لیے دی جاتی ہے تا کہ لوگوں کو نماز کے وقت سے خبردار کیا جا سکے اب چونکہ لوگوں کی کثرت کے باعث جمعہ کے دن ایسا ممکن نہ تھا کہ ایک ہی آذان سے سب کو اطلاع ہو جائے اور یقیناً دیر سے آنے کی وجہ سے کثیر تعداد کے جمعے کا اجر بھی ضائع ہونے کا اندیشہ تھا اس لیے انہوں نے یہ آذان شروع کروا دی۔
[مزيد تفصيل كے ليے ديكهيے: نیل الأوطار: 552/2 ، فتح الباري: 55/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1