جواب :
جی ہاں!
طلاق کی نوبت شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
إن عرش إبليس على البحر، فيبعث سراياه فيفيون الناس، فأعظمهم عنده منزلة أعظمهم فتنة، يجىء أحدهم فيقول: فعلت كذا وكذا، فيقول: ما صنعت شيئا، ثم يجيء أحدهم فيقول: ما تركته حتى فرقت بينه وبين امرأته فيدنيه ويقول: نعم أنت .
” بے شک ابلیس اپنا تخت سمندر پر رکھتا ہے، پھر وہ لشکروں کو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے روانہ کرتا ہے تو اس کے نزدیک جو سب سے زیادہ گمراہ کرتا ہے، وہ سب سے عظیم ہوتا ہے، ان میں سے ایک آ کر کہتا ہے: میں نے فلاں فلاں کام کیا ہے تو ابلیس کہتا ہے: تو نے تو کچھ نہیں کیا، پھر ایک دوسرا آ کر کہتا ہے: میں نے اس (مرد) کو اس وقت تک نہیں چھوڑا، جب تک اس (مرد) کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہیں ڈال دی، تو وہ (ابلیس) اسے اپنے قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے: ہاں تو نے کام کیا ہے۔ “
اس روایت سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی کے درمیان طلاق شیطان کے بہکاوے اور مکروفریب کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس لیے اے بھائی ! فوراً طلاق کی نوبت پر نہ اتر آیا کرو، بلکہ درج ذیل امور کو اختیار کیا کرو :
➊ بارہا بیوی کو اچھی نصیحت کرو۔
➋ اگر وہ باز نہ آ ئے تو اس سے بستر الگ کر لے، مگر گھر کو نہیں چھوڑنا، یعنی گھر ہی میں اس سے الگ ہو جاؤ۔
➌ اگر وہ اس کا اثر بھی نہ قبول کرے تو ہلکی مار مارو۔
➍ پھر بھی معاملہ درست نہ ہو تو پھر اس کے گھر والوں سے ایک فیصل لے آو، کیونکہ قرآن مجید اس بات کی تلقین کرتا ہے :
فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ
”سو انہیں نصیحت کرو اور بستروں میں ان سے الگ ہو جاؤ اور انہیں مارو۔“ [ النساء: 34 ]
ان میں سے کوئی حربہ کارگر ثابت نہ ہو تو پھر طلاق آخری حل ہے۔