كِتابُ الْحَج
حج کے مسائل
حج کا مطلب ہے قصد کرنا۔ مخصوص اعمال و شرائط کے ساتھ بیت اللہ کا قصد کرنا حج کہلاتا ہے۔ یہ اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے۔ یہ صرف صاحب استطاعت شخص پر فرض ہوتا ہے اور اس کی ادائیگی ذوالحجہ میں ہوتی ہے۔ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا کبیرہ گناہ ہے اور اس کا سرے سے انکار کرنا کفر ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق ایسے لوگوں سے جزیہ لیا جائے جو حج کے منکر ہوں، کیونکہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں [تلخيص الحبير: 223/2] اس کی فضیات کی بابت نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ حج مبرور کی جزا صرف جنت ہے۔ [صحيح البخاري: 1773]
بابُ الْمَوَاقِيتِ مواقیت کا بیان
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ وَلا أَنَّ رَسُولَ اللهِ وَقَتَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلَأَهْلِ الشَّامِ الْجُحْفَةَ، وَلَأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ الْمَنَازِلِ، وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ ، هُنَّ لَهُمْ وَلِمَنْ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِ أَهْلِهِنَّ مِمَّنْ أَرَادَ الْحَجَّ أَوِ الْعُمْرَةَ، وَمَنْ كَانَ دُونَ ذَالِكَ فَمِنْ حَيْثُ أَنْشَأَ ، حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ مِنْ مَكَّةَ .
عبد اللہ بن عباسی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ ، اہل شام کے لیے حجفہ ، اہل نجد کے لیے قرن المنازل اور اہل یمن کے لیے یلملم کو میقات مقرر فرمایا۔ یہ (مواقیت ) ان کے لیے ہیں اور اس شخص کے لیے بھی جو حج و عمرہ کرنا چاہے اور وہ ان (بلا دو ممالک ) کا رہنے والا نہ ہو لیکن ان (مواقیت ) پر سے آئے ، اور جو اس کے علاوہ ہے تو (اس کا میقات ) وہیں سے ہوگا جہاں سے وہ سفر کی ابتدا کرے، یہاں تک کہ اہل مکہ ، مکہ ہی سے ۔
[صحيح البخارى، كتاب الحج، باب مهل أهل مكة للحج والعمرة ، ح: 1524 – صحيح مسلم ، كتاب الحج ، باب مواقيت الحج والعمرة ، ح: 1181 .]
شرح المفردات:
الْمَوَاقِيتُ: یہ میقات کی جمع ہے، مراد اس سے وہ جگہ ہے جہاں سے حجاج احرام باندھتے ہیں۔
ذُو الْحَلِيفَة: یہ اہل مدینہ کا میقات ہے، جسے آج کل ابیار کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے اور یہ ملکہ سے 430 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔
الجحفة: یہ اہل مصر، اہلِ شام اور مغربی ممالک کا میقات ہے، یہ مکہ سے 201 کلومیٹر دور ہے۔
يَلمُلَمُ: یہ اہلِ ہند ، اہل ، جاوہ، اہل چین اور اہل مصر کا میقات ہے، جو مکہ سے 80 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔
قَرْنَ الْمَنَازِلِ: یہ اہل طائف، اہل نجد ، نجد یمن اور نجد حجاز کا میقات ہے، یہ بھی مکہ سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اسے اب سیل کبیر کا نام دے دیا گیا ہے۔
ایک پانچواں میقات بھی ہے، ذات عرق ، اسے آج کل ضریبہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہاں سے اہلِ عراق ، اہل ایران اور مشرقی ممالک کے لوگ احرام باندھتے ہیں اور یہ بھی مکہ سے80 کلومیٹر دور ہے۔ شرح الحدیث اس حدیث میں مختلف بلا دو ممالک سے آنے والے حجاج و معتمرین کے لیے ان کے الگ الگ میقات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ہر شخص اپنے علاقے کے حساب سے وہیں سے احرام باندھے گا جہاں اس کا میقات ہوگا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کا باب ”باب مهل أهل مكة للحج والعمرة“ قائم کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ حج اور عمرہ کا میقات ایک ہی ہے، اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔
الْحَدِيثُ الثَّانِي: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ [ ص: 434] رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ { يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ ، وَأَهْلُ الشَّامِ مِنْ الْجُحْفَةِ ، وَأَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ . قَالَ: وَبَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ } .
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں گے، اہل شام حجفہ سے احرام باندھیں گے اور اہل نجد قرن منازل سے احرام باندھیں گے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ کہتے ہیں کہ یہ بات بھی میرے علم میں آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہلِ یمن یلملم سے احرام باندھیں گے۔
[صحيح البخارى، كتاب الحج، باب ميقات أهل المدينة ، ح: 1525- صحيح مسلم، كتاب الحج، باب مواقيت الحج والعمرة ، ح: 1182 .]
شرح الحدیث :
اس حدیث میں بھی صرف مواقیت کا بیان ہے۔
بَابُ مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنَ الشَّيَابِ :
محرم کے لباس کا بیان
الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: { أَنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنْ الثِّيَابِ؟ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . لَا يَلْبَسُ الْقُمُصَ ، وَلَا الْعَمَائِمَ ، وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ ، وَلَا الْبَرَانِسَ ، وَلَا الْخِفَافَ ، إلَّا أَحَدٌ لَا يَجِدُ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ ، وَلَا يَلْبَسْ مِنْ الثِّيَابِ شَيْئًا مَسَّهُ زَعْفَرَانٌ أَوْ وَرْسٌ } . وَلِلْبُخَارِيِّ { وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ . وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ } .
سیدنا عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول ! محرم کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قمیض ، پگڑی ، شلوار، ٹوپی اور موزے نہیں پہن سکتا، ہاں ایک صورت میں کہ اگر اسے جوتے نہ ملیں تو پھر موزے پہن لے اور ان دونوں کے نچیے کا حصہ کاٹ لینا چاہیے اور وہ کوئی ایسا کپڑا بھی نہ پہنے جسے زعفران اور ورس لگا ہو۔
[صحيح البخارى، كتاب الحج، باب ما لا يلبس المحرم من الثياب ، ح: 1542 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب ما يباح للمحرم بحج أو عمرة ومالا يباح ، ح: 1177.]
وَلِلْبُخَارِيِّ: وَلَا تَنْتَقِبِ الْمَرْأَةُ ، وَلَاتَلْبَسِ الْقُفَّازَيْنِ .
بخاری میں ہے: عورت نہ تو نقاب اوڑھے اور نہ ہی دستانے پہنے۔
شرح المفردات:
السراويلاتُ: یہ سروال کی جمع ہے اور اس سے مراد کپڑوں کا وہ حصہ ہے جس سے بدن کا نچلا حصہ ڈھانپا جاتا ہے۔
الْبَرَانِسُ: يه بُرنس کی جمع ہے اور اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے سر چھپایا جائے۔
الْخِفَافُ: یہ خُف کی جمع ہے ، اس سے مراد وہ چیز ہے جو پاؤں میں پہنی جاتی ہے اور نصف پنڈلی تک اس نے پاؤں کو ڈھانپا ہوتا ہے۔
الوَرُسُ: یہ عرب حبشہ اور ہندوستان میں پائی جانے والی ایسی بوٹی ہے جو رنگائی کے کام آتی ہے، اسے ہندوستانی زعفران بھی کہا جاتا ہے۔
لَا تُنتَقِبِ الْمَرْأَةُ: عورت نقاب نہ اوڑھے یعنی اپنے چہرے کو نہ چھپائے۔ واحد مؤنث غائب فعل نہی معلوم، باب افتعال ۔
شرح الحديث :
اس حدیث میں اسلوب بیان ملاحظہ ہو کہ سوال تو یہ کیا گیا تھا کہ محرم کون سا لباس پہن سکتا ہے؟ تو جواب یہ دے دیا گیا ہے کہ کون کون سا نہیں پہن سکتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ محرم کے لیے جو لباس پہننے جائز ہیں وہ بے شمار تھے اور جو نا جائز ہیں وہ شمار ہو سکتے تھے، اس لیے جو کم تھے انھیں ذکر کر کے اشارہ فرما دیا کہ ان کے علاوہ باقی تمام جائز ہیں ۔ یہ افصح العرب صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت لسانی ہے۔
احرام والے شخص کے لیے سر ڈھانپنا جائز نہیں ہے۔ [ارشاد الساري للقسطلاني: 109/3] مگر علماء کے نزدیک چہرہ ڈھانپنا جائز ہے، بلکہ عثمان رضی اللہ عنہ کا اس پر عمل بھی ہے جسے امام مالک نے روایت کیا ہے ۔ [مــوطا: 327/1] لیکن امام احمد اسے سر کے حکم میں لیتے ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ محرم ایسا نہیں کر سکتا، لیکن اگر وہ ایسا کرتا بھی ہے تو اس پر فدیہ نہیں ہے۔ [كشف اللثام للسفاريني: 114/4 – 115]
محرم کے لیے کسی خیمے وغیرہ میں یا کپڑا تان کر اس سے سایہ حاصل کرنا جائز ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی خیمہ لگایا گیا تھا۔ [صحيح مسلم: 1218] ورس اور زعفران لگے کپڑے پہنا مرد و عورت دونوں کے لیے جائز نہیں ہے۔
الْحَدِيثُ الثَّانِي: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: { سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ بِعَرَفَاتٍ : مَنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ ، وَمَنْ لَمْ يَجِدْ إزَارًا فَلْيَلْبَسْ السَّرَاوِيلَ: لِلْمُحْرِمِ } .
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات میں خطبہ دیتے سنا: جس شخص کو جوتے دستیاب نہ ہوں اسے موزے پہن لینے چاہئیں اور جو کوئی تنہ بند نہ پائے تو وہ شلوار پہن لے۔
[صحيح البخارى، كتاب اللباس، باب السراويل ، ح: 5804 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب ما يباح للمحرم بحج أو عمرة ومالا يباح ، ح 1178 .]
شرح الحديث یہ رخصت صرف اسی صورت میں ہے کہ جب جوتے یا تنہ بند میسر نہ ہوں۔
الْحَدِيثُ الثَّالِثُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا { أَنَّ تَلْبِيَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ ، وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ } . قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَزِيدُ فِيهَا ” لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ ، وَسَعْدَيْكَ ، وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ ، وَالرَّغْبَاءُ إلَيْكَ وَالْعَمَلُ ” .
سید نا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ ہوتا تھا: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ ، لَا شَرِيكَ لَكَ ”ہم تیرے سامنے حاضر ہیں، اے اللہ ! ہم تیرے سامنے حاضر ہیں، ہم تیرے حضور حاضر ہیں، ہم تیرے حضور حاضر ہیں، تیرا کوئی بھی شریک نہیں ہے، یقیناً تمام تعریفات، سب نعمتیں اور ساری بادشاہت تیرے ہی لیے ہے، تیرا کوئی بھی شریک نہیں ہے۔“
قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَزِيدُ فِيهَا: لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَط وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ .
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس میں یہ اضافہ کیا کرتے تھے: لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ ہم تیری جناب میں حاضر ہیں، ہم تیری جناب میں حاضر ہیں، اور تیرے فضل سے اس سعادت سے بہرہ مند ہیں، ساری بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے اور ساری رغبتیں اور نیک اعمال تیری ہی طرف ہیں۔
[صحيح البخاري، كتاب الحج، باب التلبية ، ح: ١٥٤٩ – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب لاتلبية وصفتها ووقتها ، ح: 1174 .]
شرح المفردات : لبيك: تیرا حکم بجالاتے ہوئے اور تیری اطاعت میں سر تسلیم خم کیسے تیرے سامنے حاضر ہوں۔
سَعدَيْكَ: تیری ہی توفیق سے میں اس عظیم سعادت سے بہرہ مند ہوا ہوں ۔
الرَّغْبَاءُ: ساری رغبتیں ، امیدیں اور تمنائیں۔
شرح الحديث
حافظ ابن حج رحمہ اللہ نے امام طحاوی رحمہ اللہ اور امام قرطبی رحمہ اللہ کا قول ذکر کیا ہے کہ علماء کا اس
تلبيه لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ ، لَا شَرِيكَ لَكَ .
پر اجماع ہے ۔ [فتح الباري: 410/3] اور سیدنا ابن عم رضی اللہ عنہ کا اضافہ متفق علیہ نہیں ہے۔
[كشف اللثام للسفاريني: 136/4]
الْحَدِيثُ الرَّابِعُ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ { لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاَللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ إلَّا وَمَعَهَا حُرْمَةٌ } . وَفِي لَفْظِ الْبُخَارِيِّ ” لَا تُسَافِرُ مَسِيرَةَ يَوْمٍ إلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ ” .
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الل صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ بغیر محرم کے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کا سفر کرے۔
وَفِي لَفْظِ الْبُخَارِيِّ لَا تُسَافِرُ مَسِيرَةَ يَوْمٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ .
بخاری کے الفاظ ہیں: عورت ایک دن کی مسافت کا سفر نہ کرے مگر محرم کے ساتھ (کر سکتی ہے )۔
[صحيح البخارى، كتاب الكسوف ، باب فى كم يقصر الصلاة ، ح: 1088 – صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب سفر المرأة مع محرم الى حج وغيره ، ح: 1339]
شرح المفردات:
ذى مَحرَم: اس سے مراد وہ رشتہ دار شخص ہے جس سے نکاح کرنا حرام ہو ۔
شرح الحدیث:
ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میری بیوی حج کے لیے جارہی ہے، جبکہ میں فلاں غزوے میں اپنا نام لکھوا چکا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انْطَلِقْ فَحُجَّ مَعَهَا جاؤ اور اس کے ساتھ حج کرو۔ [صحيح مسلم: 1341]
علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اس مسئلہ میں بوڑھی اور جوان عورت میں تفریق نہیں کی جائے گی ، یعنی دونوں کے لیے ہی محرم کا ساتھ ضروری ہے۔ [الفروع لابن مفلح: 175/3]
بَابُ الْفِدْيَةِ :
فدیہ کا بیان:
الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ قَالَ: { جَلَسْتُ إلَى كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ . فَسَأَلَتْهُ عَنْ الْفِدْيَةِ؟ فَقَالَ: نَزَلَتْ فِي خَاصَّةً . وَهِيَ لَكُمْ عَامَّةً . حُمِلْتُ إلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَى وَجْهِي . فَقَالَ: مَا كُنْتُ أُرَى الْوَجَعَ بَلَغَ بِكَ مَا أَرَى – أَوْ مَا كُنْتُ أُرَى الْجَهْدَ بَلَغَ بِكَ مَا أَرَى – أَتَجِدُ شَاةً؟ فَقُلْتُ: لَا . فَقَالَ: صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ ، أَوْ أَطْعِمْ سِتَّةَ مَسَاكِينَ ، لِكُلِّ مِسْكِينٍ نِصْفَ صَاعٍ وَفِي رِوَايَةٍ فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُطْعِمَ فَرَقًا بَيْنَ سِتَّةٍ ، أَوْ يُهْدِيَ شَاةً ، أَوْ يَصُومَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ } .
عبد اللہ بن معقل بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا تو میں نے ان سے فدیے کے بارے میں سوال کیا، تو انھوں نے فرمایا کہ یہ حکم میرے بارے میں خاص طور پہ نازل ہوا ہے لیکن تمھارے لیے عام ہے، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اتنی تکلیف نہیں سمجھ رہا تھا جس میں مبتلا میں تجھے اب دیکھ رہا ہوں، یا (فرمایا) میں اتنی مشقت نہیں سمجھ رہا تھا جس میں اب تجھے مبتلا دیکھ رہا ہوں ۔ کیا تیرے پاس بکری ہے؟ میں نے کہا: نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین دن کے روزے رکھ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا ، ہر مسکین کے لیے آدھا صاع ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم فرمایا کہ وہ چھ لوگوں کو ایک فرق“ کھانا کھلائے ، یا ایک بکری کی قربانی دے یا تین دن کے روزے رکھے۔
[صحيح البخاري ، كتاب المحصر ، باب الاطعام فى الفدية نصف صاع ، ح: 1816 ۔ صحيح مسلم ، كتاب الحج، باب جواز حلق الرأس للمحرم— ، ح: 1201]
شرح المفردات :
ما كنتُ أرى: میں گمان نہیں کیا کرتا تھا، میں خیال نہیں کیا کرتا تھا۔ /واحد مذکر و مؤنث متکلم فعل مضارع معلوم (استمراری)، باب فَتَحَ يَفْتَحُ ۔
الوجع: : تكليف ۔
الجَهْدُ: مشقت ۔
الفرق: یہ مدینے کا پیمانہ تھا، جو تین صاع پر مشتمل ہوتا تھا۔
شرح الحديث . اس میں یہ دلیل ہے کہ جب کوئی عام حکم کسی خاص سبب کے پیش نظر وارد ہوا ہو تو وہ اپنے عموم پر ہی ہوتا ہے، جیسا کہ فقہی قاعدہ ہے: الْعِبْرَةُ بِعُمُومِ اللَّفْظِ لا بِخُصُوصِ السَّبَبِ یعنی اس مسئلہ میں بیان عمومی حکم کا اعتبار کیا جائے گا، نہ کہ اس خصوصی سبب کا جس کی وجہ سے وہ صادر ہوا ہے۔
دوسرا اس حدیث سے یہ بات احاطہ علم میں آتی ہے کہ قرآن میں مذکورا جمالی احکام کی تفصیل حدیث سے معلوم ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن میں مطلقا فدیہ کا حکم ہے لیکن اس کی مقدار حدیث سے معلوم ہوئی۔ لہذا منکرین حدیث صرف قرآن ہی کو احکام اسلام سمجھنے کے لیے کافی کیسے قرار دے سکتے ہیں؟ حافظ ابن حجر رحمہ االلہ اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں کہ اس حدیث میں ان لوگوں کے موقف کا رد ہے جنھوں نے گندم اور کھجور میں فرق کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور اہل کوفہ کا قول ہے کہ نصف صاع گندم کا ہونا چاہیے، لیکن اگر کھجور ہو تو وہ نصف صاع نہیں بلکہ ایک صاع دینا پڑے گی۔ ان کا یہ موقف قطعی درست نہیں ہے، کیونکہ یہ حدیث ہی اس کی تردید کر رہی ہے۔ [فتح الباري لابن حجر: 91/4]
راوى الحديث :
عبد الله بن معقل رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو ولید تھی اور آپ ثقہ تابعی تھے۔ کوفہ سے تعلق تھا۔ عبدالرحمن بن معقل کے بھائی تھے ۔ 83 ہجری میں آپ کی وفات ہوئی۔