جی پی فنڈ کی شرعی حیثیت
سوال : ہم سرکاری ملازمین کا واسطہ جی پی فنڈ سے پڑتا ہے کیا شریعت اسلامیہ کی رو سے یہ جائز ہے؟
جواب : جی پی فنڈ سے مراد وہ رقم ہے جو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے حکومت ہر ماہ کاٹتی ہے پھر ان کی ریٹائرمنٹ پر مع اضافہ انہیں دے دیتی ہے۔ قرآن و سنت کی رو سے زائد وصول شدہ رقم سود ہے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ﴿278﴾ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿279﴾ »
اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ اور جو کچھ سود سے باقی رہ گیا ہے، چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو بس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ۔ اگر تم نے توبہ کر لی تو تمہارے لئے تمھارا اصل مال ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اصل مال لینے کا حکم فرمایا ہے اور زائد رقم کی وصولی سے روک دیا ہے۔ ور یہ بھی بتایا کہ سودی رقم لینا ایمان کی منافی ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کے مترادف ہے۔ اسی طرح احادیث میں سود لینے والے پر لعنت مذکور ہے۔ لہٰذا ملازم آدمی صرف اپنی اصل رقم جو اس کی کاٹی جاتی ہے وہی وصول کر سکتا ہے۔ زائد رقم اگر لیتا ہے تو وہ اس کا مالک نہیں۔ وہ یقیناً سود کھا کر لعنت کا مستحق بنتا ہے اور یہ بات حکومتی طبقہ جانتا ہے کہ جی پی فنڈ میں جو زائد رقم دی جاتی ہے وہ سود ہے۔ جیسا کہ گورنمنٹ اکاؤنٹ میں جو فارم ملتا ہے اس کے خانہ نمبر 14 میں یہ بات درج ہے کہ کیا ملازم اپنی جمع شدہ رقم پر سود کا خواہش مند ہے یا نہیں؟ اگر ملازم لکھ دے کہ میں سود وصول نہیں کروں گا تو اس کی جمع شدہ رقم کو سود کی آلائشوں و آمیزش بھی سے پاک رکھا جاتا ہے اس لیے تمام ملازمین کو اس رقم کی وصولی سے اجتناب کرنا چاہیے۔