کیا اہل حدیث قبر نبوی علیہ التحیۃ والسلام کی زیارت کو حرام سمجھتے ہیں؟
جھنگوی شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کر پورے جذم ویقین کے ساتھ غلط بیانی کرتے ہوئے تحریر کرتا ہے کہ اہل سنت حضور علیہ السلام کے روضہ کی زیارت کو ثواب سمجھتے ہیں جبکہ غیر مقلد اہل حدیث اسے حرام کہتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 54)
الجواب : – اولاً :-
جھنگوی نے اہل حدیث کی طرف یہ منسوب کیا ہے کہ یہ روضہ اقدس کی زیارت کو حرام کہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں یہ غلط بیانی ہے جھنگوئی اور اس کے رفقاء اور مشیر جنہوں نے اس کتاب کی تالیف میں بڑے بڑے قیمتی مشورے دیئے اور مصنف کی خوب پیٹھ ٹھونکی ہے وہ سب مل کر اور پوری کوشش کر کے اس انکشاف کا ثبوت دکھا دیں ورنہ (لعنة الله على الكاذبين ) کی وعید سے ڈر جائیں۔
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ
(وان كان المسافر الى مسجده يزور قبره ﷺ بل هذا من افضل الاعمال الصالحة )
یعنی اگر مسافر مسجد نبوی کی طرف جائے تو آپ صلى الله عليه وسلم کی قبر کی زیارت کرے بلکہ یہ افضل اعمال صالحہ سے ہے۔
(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ص 330 ج 27)
ثانیاً:-
ہاں البتہ اہل حدیث کے نزدیک خاص قبر اطہر کی زیارت کے لیے سفر جائز نہیں بلکہ سفر میں نیت مسجد نبوی کی زیارت کی کرنی چاہیے ۔ اور وہاں جاکر قبر نبوی علیہ السلام کی زیارت کرنا مستحب اور عمل حسنہ ہے ۔ اور اس پر متواتر احادیث ہیں۔ مثلا حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ برسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ
(لا تشد الرحال الا الى ثلثة مساجد المسجد الحرام ومسجد الاقصى ومسجدى) الحديث
یعنی ثواب کی نیت سے سفر نہ کیا جائے مگر تین مساجد کی طرف‘ بیت اللہ مسجد اقصیٰ اور میری مسجد ( یعنی نبوی)
( بخاری ص 159 ج 1 و مسلم ص 433 ج 1 )
اس حدیث کو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عام ہی سمجھا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ طور سے واپس آئے تو لا تشد الرحال کی حدیث کے راوی حضرت بصرہ بن ابی بصر والغفاری رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہاں سے آئے؟ تو حضرت ابو ہریرہؓ نے جب بتایا تو حضرت بصرہؓ کہنے لگے کہ
(لو لقيتك من قبل ان تاتيه لم تأته قلت له ولم ؟ قال اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لا تعمل المطى الا الى ثلثة مساجد المسجد الحرام ومسجدى ومسجدبيت المقدس ) (الحديث)
اگر تم مجھ سے طور پر جانے سے پہلے ملتے تو وہاں نہ جاتے۔ میں (ابو ہریرہؓ) نے کہا کیوں ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سنا ہے آپ علیہ السلام فرماتے تھے نہ سفر اختیار کیا جائے مگر تین مساجد کی طرف ایک مسجد حرام‘ دوسری میری مسجد اور تیسری مسجد بیت المقدس۔
(الحدیث) ( سنن نسائی ( مجتبیٰ ) ص 168 ج 1) (رقم الحدیث 1431) والسنن الکبریٰ للنسائى ص 540 ج 1 ( رقم الحدیث 1754) و موطاامام مالک ص 92 و مسند احمد ص 7 ج 6 و مشکل الاثار للطحاوی ص 242 ج 1‘ طبع مجلس دار انتظام ہند ) ومسند ابوداؤد طیالسی (1348,2506) و طبرانی کبیر ص 276 ج 2 و طبرانی الاوسط ص 378 ج 3 والتمهيد لمانی الموطا من المعانی والاسانید ص 36 ج 23)
علامہ البانی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے‘ ارواء الغلیل ص 228 ج 3
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام نے حدیث‘ لا تشد الرحال‘ کو عام سمجھا تھا جس سے ثابت را کہ ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مقام کی زیارت زیاتی ثواب کی غرض سے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ اس ساری تفصیل سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اہل حدیث کے نزدیک روضہ نبوی صلى الله عليه وسلم کی زیارت تو مستحب اور اعمال حسنہ سے ہے۔ البتہ سفر کرتے وقت مسجد نبوی کی زیارت کی نیت کرنی چاہیے اور وہاں جا کر جہاں مسجد نبوی کی زیارت کرنی چاہئے روضہ رسول کی بھی زیارت کر لینی چاہئے۔
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ
حج سے پہلے یا بعد جب مدینہ میں داخل ہو تو مسجد نبوی میں آئے اور وہاں نماز پڑھے‘ وہاں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نماز سے زیادہ ہے الحدیث اور تشد رحال نہ کرے مگر مسجد نبوی‘ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰٰ کی طرف جیسا کہ بخاری ص 168 ج 1 و مسلم ص ج 1 میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے…
پھر نبی صلى الله عليه وسلم پر درود پڑھے اور ان کے صاحبین (ابو بکرؓ و عمرؓ) پر سلام کہے کیونکہ آپ علیہ السلام کا فرمان ہے
کہ جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا تو اللہ تعالیٰ میری روح کو لوٹا دیتا ہے اور اسے جواب دیتا ہوں۔ ابوداؤد
حضرت عبد اللہ بن عمر جب مسجد نبوی میں داخل ہوتے تو فرماتے کہ
(السلام عليك يارسول الله‘ السلام عليك يا ابابكر‘ السلام عليك يا ابت):
پھر واپس پلٹ آتے اسی طرح تمام صحابہ کرام کرتے تھے۔
(مجموع فتاویٰ ابن تیمہ ص 146 ج 26 )
مولانا محمد بشیر صاحب سہوانی مرحوم فرماتے ہیں کہ
(لانزاع في نفس مشروعية زيارة قبر نبينا ﷺ واماما نسب إلى شيخ السلام ابن تيمية من القول بعدم مشروعية زيارة قبر نبينا ﷺ فافتراء )
یعنی شرعی طریقہ پر آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی قبر اطہر کی زیارت کرنے میں قطعا کوئی نزاع نہیں ہے اور اس بارہ میں علامہ ابن تیمیہ پر یہ محض جھوٹا بہتان ہے کہ قبر نبوی صلى الله عليه وسلم کی زیارت کو نا جائز کہتے تھے۔
( صيانتہ الانسان ص 3)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ زیارت میں اختلاف نہیں بلکہ سفر کی نیت میں اختلاف ہے۔ مگر جھنگوی صاحب غلط بیانی کرتے ہوئے ذرا بھر حیا نہیں کرتے۔ ہم انہیں چیلنج کرتے ہیں کہ جو بات آپ نے لکھی ہے اس کا ثبوت دیں ورنہ یاد رکھے غلط بیانی کرنا مومن کی شایان شان نہیں بلکہ منافقت کی علامت ہے واذا احدث كذب اللہ سمجھ اور ہدایت عطا کرے۔ آمین