«باب لا يشمت العاطس إذا لم يحمد الله»
چھینک دینے والے کا جواب نہیں دیا جائے گا اگر وہ الحمدللہ نہ کہے
✿ «عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال: عطس عند النبى صلى الله عليه وسلم رجلان، فشمت احدهما ولم يشمت الآخر، فقال: الذى لم يشمته عطس فلان فشمته وعطست انا فلم تشمتني، قال: ” إن هذا حمد الله وإنك لم تحمد الله.» [متفق عليه: رواه البخاري 6221، 6225، ومسلم 2991.]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں نے چھینک ماری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک شخص کی چھینک کا جواب دیا۔ اور دوسرے کی چھینک کا جواب نہیں دیا۔ تو اس شخص نے جس کی چھینک کا جواب آپ نے نہیں دیا تھا عرض کیا: فلاں شخص نے چھینک ماری تو آپ نے اس کی چھینک کا جواب دیا۔ اور میں نے بھی چھینک ماری تو میری چھینک کا جواب نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقینا اس شخص نے اللہ کی تعریف کی (الحمد للہ کہا) اور تم نے اللہ کی تعریف نہیں کی (الحمد للہ نہیں کہا) اس لیے میں نے تمھاری چھینک کا جواب نہیں دیا۔
✿ «عن ابي بردة، قال: دخلت على ابي موسى وهو فى بيت بنت الفضل بن عباس، فعطست فلم يشمتني، وعطست فشمتها، فرجعت إلى امي، فاخبرتها فلما جاءها، قالت: عطس عندك ابني فلم تشمته، وعطست فشمتها، فقال: إن ابنك عطس فلم يحمد الله فلم اشمته، وعطست فحمدت الله، فشمتها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: ” إذا عطس احدكم فحمد الله، فشمتوه فإن لم يحمد الله فلا تشمتوه ".» [صحيح: رواه مسلم 2992.]
حضرت ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: میں ابو موسی کے پاس گیا اور وہ فضل ابن عباس کی بیٹی کے گھر میں تشریف فرما تھے۔ میں نے چھینک ماری، اور انھوں نے میری چھینک کا جواب نہیں دیا اور بنت فضل نے چھینک ماری تو انھوں نے ان کی چھینک کا جواب دیا۔ میں اپنی ماں کے پاس گیا اور انھیں اس کی خبر دی۔ پھر جب وہ میری ماں کے پاس آئے تو میری ماں نے پوچھا: میرے بیٹے نے آپ کے سامنے چھینکا، تو آپ نے اس کی چھینک کا جواب نہیں دیا۔ اور بنت فضل نے چھینک ماری تو آپ نے ان کی چھینک کا جواب دیا (اس کی کیا وجہ ہے؟)تو ابو موسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یقینا تمھارے بیٹے نے چھینک ماری اور اس نے الحمد للہ نہیں کہا، اس لیے میں نے اس کی چھینک کا جواب نہیں دیا۔ اور بنت فضل نے چھینک ماری اور اس نے الحمد للہ کہا۔ تو میں نے اس چھینک کا جواب دیا۔ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے ”جب تم میں سے کوئی شخص چھینک مارے، پھر الحمد للہ کہے تو اس کی چھینک کا جواب دو۔ پھر اگر وہ الحمد للہ نہ کہے تو اس کی چھینک کا جواب نہ دو۔
✿ «عن أبى هريرة قال عطس رجلان عند النبى صلى الله عليه وسلم احدهما أشرف من الاخر فعطس الشريف فلم يحمدالله فلم يشمته النبى صلى الله عليه وسلم وعطس الآخر فى فحمد الله فشمته النبى صلى الله عليه وسلم قال فقال الشريف عطست عندك فلم تشمتني وعطس هذا عندك فشمته قال فقال إن هذا ذكرالله فذكرته وانك نسيت الله فنسيتك .» [حسن: رواه أحمد 8346، والبخاري فى الأدب المفرد 932.]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چھینک ماری۔ ان میں سے ایک دوسرے کے مقابلے میں زیادہ شریف تھا۔ جو شریف تھا، اس نے چھینک ماری اور الحمد للہ نہیں کہس تو نبی کریم نے اس کی چھینک کا جواب نہیں دیا اور دوسرے نے چھینک ماری اور اس نے الحمد للہ کہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی چھینک کا جواب دیا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس شریف نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہا: میں نے آپ کے ہاں چھینک ماری لیکن آپ نے میری چھینک کا جواب نہیں دیا۔ اور اس نے چھینک ماری تو آپ نے اس کی چھینک کا جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقینا اس شخص نے اللہ کا ذکر کیا تو میں نے بھی اس کا ذکر کیا۔ اور تم الله کو بھول گئے تو میں بھی تمہیں بھول گیا۔