سوال
کیا پوتا کسی اور مسلک کے مطابق دادا کی وراثت میں حصہ دار بن سکتا ہے؟
جواب
احناف کے ہاں:
پوتا دادا کی وراثت میں اس وقت حصہ دار نہیں بنتا جب دادا کے بیٹے (یعنی پوتے کے والد) یا دیگر حقیقی اولاد زندہ ہو۔
دیگر فقہی مذاہب کا موقف:
تمام مشہور فقہی مذاہب (حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ، شیعہ امامیہ، زیدیہ اور ظاہریہ) اس بات پر متفق ہیں کہ اگر دادا کی حقیقی اولاد زندہ ہو، تو پوتا یا پوتی وارث نہیں بنتے۔
شریعت کا اصول:
شریعت میں وراثت کے لیے "الأقرب فالأقرب” (زیادہ قریبی رشتہ دار کو ترجیح) کا اصول اپنایا گیا ہے۔
بیٹا دادا کے ترکے میں قریبی وارث ہے، اس لیے پوتے یا پوتی کو وراثت نہیں ملتی۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں
قرآن کریم:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے۔ مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصوں کے برابر ہے۔”
(النساء: 11)
لفظ "اولاد” میں براہِ راست بیٹے اور بیٹیاں شامل ہیں، جبکہ پوتے اور پوتیاں صرف اس وقت شامل ہوتے ہیں جب بیٹے نہ ہوں۔
حدیثِ مبارکہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"وراثت کے مقررہ حصے ان کے حقداروں کو دو، پھر جو بچ جائے وہ میت کے سب سے زیادہ قریبی مذکر کے لیے ہے۔”
(صحیح بخاری، حدیث: 6732)
پاکستان میں قانون:
1961ء کے ایک قانون کے مطابق، اگر کوئی شخص ایسے بیٹے یا بیٹی کی اولاد چھوڑ جائے جو اس کی زندگی میں وفات پا چکے ہوں، تو وہ پوتے یا پوتی ان کا حصہ پائیں گے جو ان کے والدین کو ملتا۔
یہ قانون اسلامی تعلیمات اور اجماعی فقہی موقف کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔
اسلامی حل:
اسلام میں یتیم پوتے یا نواسے کی ضروریات کا خیال رکھنے کے لیے درج ذیل اصول موجود ہیں:
◄ مرنے والا وصیت کے ذریعے اپنے یتیم پوتے یا پوتیوں کے لیے کچھ حصہ مختص کر سکتا ہے (وصیت کل ترکے کے ایک تہائی تک ہو سکتی ہے)۔
◄ اگر دادا نے اپنی زندگی میں انہیں ہبہ (تحفہ) دے دیا ہو، تو یہ شریعت کے مطابق جائز ہے۔
خلاصہ:
کسی بھی مسلک کے مطابق دادا کی حقیقی اولاد کی موجودگی میں پوتا یا پوتی وارث نہیں بنتے۔
شریعت میں قریبی وارث کو ترجیح دی گئی ہے، اور پوتے یا پوتیوں کو صرف اس وقت حصہ ملتا ہے جب دادا کی حقیقی اولاد نہ ہو۔
یتیم پوتے پوتیوں کی مالی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وصیت یا ہبہ کا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔