وقت پر نماز کی فرضیت
➊ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا کہ ”اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب تم پر ایسے لوگ حکمران ہوں گے جو نماز فوت کر دیں گے یا نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کر کے ادا کریں گے؟ کہتے ہیں کہ میں نے کہا آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
وصل الصلاة لوقتها
”نماز اس کے وقت میں ادا کرنا ۔“
اور اگر تم ان کے ساتھ بھی نماز پا لو تو پڑھ لینا وہ تمہارے لیے نفل بن جائیں گے۔
[مسلم: 648 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة : باب كراهية تأخير الصلاة من وقتها المختار ، أبو داود 431 ، ترمذي 176 ، نسائي 75/2 ، ابن ماجة 1256 ، ابن خزيمة 1637 ، أبو عوانة 448/4 ، ابن حيان 1482 ، عبد الرزاق 3780 ، بيهقي 301/2 ، أحمد 137/5]
➋ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اے علی ! تین کاموں میں تاخیر نہ کرنا :
الصلاة إذا أنت …
[ضعيف : الدراية لابن حجر 105/1 ، ترمذي 171 ، كتاب الصلاة : باب ما جاء فى الوقت الأول من الفضل ، ابن ماجة 1486 ، احمد 105/1 ، شيخ البانیؒ نے اس كے معنى كو صحيح كها هے۔ المشكاة 605]
”نماز جب اس کا وقت آجائے.“
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
”یہ منافق کی نماز ہے، وہ بیٹھا رہتا ہے، سورج کا انتظار کرتا ہے۔“ حتى إذا اصفرت ” جب سورج زرد ہو جاتا ہے اور شیطان کے (سر کے ) دونوں کناروں کے درمیان ہوتا ہے تو منافق ( نماز کے لیے) کھڑا ہوتا ہے، اور جلدی جلدی چار رکعت ادا کرتا ہے، ان میں بہت ہی کم اللہ کا ذکر کرتا ہے۔“
[صحيح : أبو داود 413 ، كتاب الصلاة : باب فى وقت صلاة العصر ، مسلم 622 ، مؤطا 220/1 ، ترمذي 160 ، نسائي 511 ، عبد الرزاق 2080 ، بيهقى 444/1 ، ابن خزيمة 333 ، شرح السنة 29/2]
یہ تمام دلائل اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ نماز کو اس کے ابتدائی وقت پر ہی پڑھنا لازم و افضل ہے البتہ نماز عشاء کو تاخیر سے پڑھنا افضل ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی پسند فرمایا ہے اور اسی طرح سخت گری میں ظہر کو بھی کچھ تاخیر سے پڑھنا بہتر ہے لیکن بلا وجہ نمازوں کو ان کے اوقات سے مؤخر کر کے پڑھنا بالاتفاق نا جائز ہے۔
[السيل الجرار 189/1 ، شرح مسلم للنووى 115/3 ، نيل الأوطار 483/1 ، الروضة الندية 208/1]