مضمون کے اہم نکات:
وضع احادیث کے اسباب
وضع احادیث کے متعدد اسباب ہیں جن پر محد ثین کرام نے مفصل گفتگو کی ہے۔ ان میں سے ایک سبب تقلید بھی ہے۔ مقلدین نے قرآن و حدیث کی بجائے شخصی اقوال کو دین و مذهب قرار دیا تو ان کے اقوال کی تقویت و حمایت کی غرض سے احادیث کو وضع کیا امام قرطبی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں:
(استجاز بعض فقهاء أهل الرأى نسبة الحكم الذي دل عليه القياس الجلي إلى رسول ا نسية قولية فيقولون في ذلك قال رسول الله له كذا ولهذا ترى كتبهم مشحونة بأحاديث تشهد متونها بانها موضوعة تشبة فتاوى الفقهاء ولانهم لا يقيمون لها سندا)
اہل الرائے نے اس حکم کی نسبت جس پر قیاس علی دلالت کرے کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ایسے فرمایا ہے اگر آپ فقہ کی کتابیں ملاحظہ فرما ئیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ ایسی روایات سے بھری ہوئی ہیں جن کے متن من گھڑت ہونے پر گواہی دیتے ہیں۔ وہ متن ان کتابوں میں اس وجہ سے درج ہیں کہ وہ فقہاء کے فتوؤں کے موافق مشابہت رکھتے ہیں ۔ حالانکہ وہ ان کی سند بھی نہیں پاتے۔(بحوالہ الباعث الحمید ص 88)
مولانا عبد الحئی لکھنوی مرحوم حنفی نے کھل کر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ (السادس قوم حملهم على الوضع التعصب المذهبي والتجمد التقليدي كما وضع مامون الهروى حديث من رفع يديه في الركوع فلا صلوة له ووضع حديث من قرأ خلف الامام فلا صلوة له وضع ايضا حديثا في ذم الشافعي و حديثا في منقبة أبي حنيفة)
یعنی روایات کو وضع کرنے کا چھٹا گروہ وہ ہے جن کومزہبی تعصب اور تقلیدی جمود نے وضع پراُبھارا ہے جیسا کہ مامون ہروی نے یہ روایات وضع کیں کہ جور فع الیدین کرے گا اس کی نماز نہیں، جو امام کے پیچھے قرآت کرے اس کی نماز نہیں، اسی طرح امام شافعی کی مزمت اور مناقب ابو حنیفہ (میں اس نے روایت کو ) وضع کیا ہے۔
(الاثار المرفوعه في الاخبار الموضوعة ص 17)
مولانا لکھنوی مرحوم نے جو بات کہی ہے وہ بالکل انصاف پر مبنی ہے ، تقلیدی تعصب اور اقوال فقہاء اور آراء الرجال کی تائید و نصرت میں ان کے مقلدین نے متعدد روایات کو وضع کیا ہے ،آج بھی یہ لوگ وضع احادیث کرنے سے نہیں ڈرتے۔ مولوی اسماعیل جھنگوی مؤلف تحفہ اہل حدیث نے بھی دو احادیث کو وضع کیا ہے بلکہ ان کے اکابرین نے تو خود آیات بھی بنا ڈالی ہیں، مولوی محمود حسن خان حنفی دیوبندی ،دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث تھے۔ حنفی انہیں شیخ الھند کے نام سے یاد کرتے ہیں، انہوں نے معروف سلفی عالم حضرت مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی مرحوم کے ایک اشتہار کا جواب ’ادلہ کاملہ‘ کے عنوان سے لکھا، جس میں انہوں نے ایک سطر عربی عبارت اپنی طرف سے بنا کر اسے قرآن کریم کی آیت باور کراکر تقلید کا وجوب ثابت کیا‘ ’’ادلہ کاملہ‘‘ کا جواب مولوی محمد احسن امروہی (جو نواب صدیق حسن خان مرحوم کا ملازم تھا اور بعد میں مرتد ہو کر قادیانی ہو گیا) نے ’مصباح الادلہ‘ کے نام سے لکھا، جس میں امروہی نے حضرت شیخ الھند پر گرفت کی‘ مگر مولوی محمود حسن خان نے تو بہ اور شرمندگی و اصلاح کی بجائے بڑے جزم وثوق سے لکھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ارشاد ہوا:
(فان تنازعتم في شئى فردوه إلى الله والرسول والى اولى الأمر منكم )
اور ظاہر ہے کہ اولی الامر سے مراد اس آیت میں سواء انبیاء کرام علیھم السلام اور کوئی ہیں سو دیکھئے اس آیت میں صاف ظاہر ہے کہ حضرات انبیاء و جملہ اولی الامر واجب الاتباع ہیں آپ نےآیت
(فردوه إلى الله والرسول ان كنتم تومنون بالله واليوم الآخر)
تو دیکھ لی اور آپ کو یہ اب تک معلوم نہ ہوا کہ جس قرآن میں یہ آیت ہے اسی قرآن میں آیت مذکورہ بالا معروضہ احقر بھی موجود ہے۔ عجب نہیں کہ آپ دونوں آیتوں کو حسب عادت متعارض سمجھ کر ایک ناسخ اور دوسری کے منسوخ ہونے کا فتوی لگانے لگیں۔ ( ایضاح الادلہ 93 مطبوعہ دیو بند کتب خانہ رحیمیہ ‘و103 مطبوعہ مطبع جمال پر ملنگ در کس دعلی و93 مطبوعه مطبع قاسمی دیوبند) اس پر ہم کوئی اپنی طرف سے تبصرہ کریں تو شاید جھنگوی صاحب ناراض ہو جائیں اس لئے ہم مولانا عامر عثمانی دیو بندی کا تبصرہ جو انہوں نے مولانا آزاد رحمانی کی کتاب پر رقم فرمایا تھا نقل کرتے ہیں، مولانا عثمانی فرماتے ہیں کہ مولانار حمانی کو حیرت ہے اور بجا حیرت ہے کہ وہ کون سا قرآن ہے جس سے حضرت شیخ الہند نے بڑے جزم اور وثوق کے ساتھ الفاظ کے ایک ایسے مجموعے کو قرآن کی آیت قرار دے دیا ہے جو تیس پاروں میں کسی جگہ موجود نہیں۔ تجلی دیو بند نومبر 1962ء صفحہ 62 اور صفحہ 61 پر لکھتے ہیں کہ کتابت کی غلطی اس لیے نہیں کہی جاسکتی کہ حضرت شیخ الہند کا استدلال بھی اس ٹکڑے پر قائم ہے جو اضافہ شدہ ہے اور آیت کا اسی اضافہ شدہ شکل کا قرآن میں موجود ہو نا وہ شدومد سے بیان فرمار ہے ہیں۔ اولی الامر کے واجب الاتباع ہونے کا استنباط بھی اسی سے کر رہے ہیں اور حیرت در حیرت یہ کہ جس مقصد کے لیے یہ اصل آیت نازل ہوئی تھی ان کے اضافہ کردہ فقرے اور اس کے استدلال نے بالکل الٹ دیا ہے۔ ( بحوالہ توضیح الکلام ص 255 ج 1 ) اسی طرح جھنگوی صاحب کا پیر و مرشد اور فن مغالطہ کا امام مولوی ماسٹر محمد امین اوکا ڑوی لکھتا ہے کہ نیز اللہ تعالی فرماتے ہیں:
يا ايها الذين امنوا قيل لهم‘ كفوايديكم واقيموالصلوۃ‘ اے ایمان والو اپنے ہاتھوں کو روک کر رکھو جب نماز پڑھو۔
اس آیت سے بھی بعض لوگوں نے نماز کے اندر رفع یدین کے منع پر دلیل لی ہے۔ ( تحقیق مسئلہ رفع یدین من 6 طبع اول)
اس عبارت کو پڑھیے ضرور پڑھئے ‘اسے کاتب کی غلطی قطعاً نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ حضرت صفدر صاحب ان الفاظ کا ترجمہ بھی کر رہے ہیں۔ الغرض آل دیو بند نے ہماری معلومات کی حد تک ان دو آیات کو خود وضع کیا ہے بہر حال اصل موضوع کی طرف آئیے اور ٹھنڈے دل سے ہماری گزارشات کو ملاحظہ کریں اور مقلدین حنفیہ کی وضع کردہ روایات کا مطالعہ کریں۔
ابوداؤد میں پہلی تحریف
سنن ابی داؤد کا شمار صحاح ستہ میں ہوتا ہے۔ اس میں صحیح، حسن، ضعیف اور منقطع اسناد سے روایات مروی ہیں حضرت امام ابو داؤد نے باب القنوت فی الوتر کے تحت شافعیہ کی دلیل درج کرتے ہوئے ایک ضعیف سند سے روایت نقل کی تھی کہ
(ان عمر بن الخطاب رضى الله عنه جمع الناس على أبي بن كعب فكان يصلي لهم عشرين ليلة ولا يقنت الا في النصف الباقي فاذا كانت العشر الا واخر تخلف فصلى في بيته فكانوا يقولون ابق أبي)
(ابو داؤد مع عون ص 538 ج 1 ‘, طبع محمدی دہلی 1264 ص 203 و طبع کانپورص 209 ج او طبع قادری دہلی 1272ھ ص 201 ج1)
یعنی عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر جمع کر دیا اور وہ ا نہیں بیس رات تک نماز پڑھاتے تھے مگر قنوت نصف آخر میں پڑھتے تھے‘ جب آخری عشرہ کے دس دن رہ جاتے تو اپنے گھر میں ہی نماز پڑھا کرتے اور لوگ کہتے کہ ابی بھاگ گئے۔
تحریف کی ابتدا
مولوی محمود حسن خان حنفی دیوبندی نے سب سے اول اس تحریف کا آغاز کیا اور سنن ابی داؤد کو شائع کرتے ہوئے متن ابو داؤ میں تو عشرین لیلتہ‘ ہی رہنے دیا البتہ حاشیہ میں نسخہ کی علامت دیگر رکعتہ’ کا لفظ لکھا۔
(ابو داؤد ص 209 ج 1 طبع 1316ء )
اس رد و بدل سے بیس رات کی بجائے معنی بیس رکعت بن جاتا ہے اور اس تحریف کا مقصود رکعات نماز تراویح کا ثبوت دینا تھا۔
تحریف کی انتہا
مولوی فخر الحسن گنگوہی حنفی دیوبندی نے جب اپنی تصحیح سے ابو داؤد کو شائع کیا تو عشرین لیلتہ کو متن سے نکال کر عشرین رکعتہ بنا دیا البتہ حاشیہ میں لیلتہ کے نسخہ کی صراحت کر دی۔ (سنن ابو داؤد ص ۲۰۲ ج طبع کراچی) اور اب جو نسخہ شائع ہو رہا ہے اس میں متن میں (رکعتہ) ہی ہے، لیکن نسخہ کی صراحت کو بھی حذف کر دیا گیا ہے، حالانکہ مولوی محمود حسن خان کی تحریف سے قبل جس قدر نسخے شائع ہوئے تھے ان میں عشرین لیلتہ کے الفاظ ہی تھے کسی اور نسخہ کا کوئی حوالہ نہ تھا۔ اسی طرح ابوداؤد کے تمام قلمی نسخہ جات میں بھی عشرین لیلۃ کے الفاظ ہیں مگر یار لوگوں نے اسے بدل کر تراویح کی بیس رکعات کی دلیل بنالیا۔
لیلہ یا رکعته
روایت کی اندرونی گواہی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ لیلتہ کے الفاظ ہی درست ہیں رکعتہ تحریف ہے اولاً :- امام ابو داؤد اس کو قنوت کے باب میں لائے ہیں تراویح کے ابواب میں اس کا ذکر نہیں کیا۔
ثانیا: حضرت ابی بن کعب آخری عشرہ میں قیام نہ کرتے تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ لیلتہ ہی ہے رکعت نہیں ہے۔
ثالثا: امام بیھقی نے (السنن الکبری ص 2498) میں عشرین لیلۃ کے الفاظ ہی ابو داؤد سے نقل کیے ہیں۔
گھر کی شہادت
علامہ زیلعی حنفی نے ( نصب الرایہ ص 126 ج2) میں ابن نجیم حنفی نے (البحر الرائق ص 40 ج 2 ) میں‘ ابن حمام نے ( فتح القدیر ص 375 ج 1) میں علامہ حلبی نے (مستملی ص 416) میں اور مفتی احمد یار حنفی بریلوی نے (جاء الحق ص 95ج2) میں اسے ابو داؤد کے حوالے سے نقل کیا ہے‘ اور ان تمام نے ‘عشرین لیلتہ‘ کے الفاظ نقل کرتے ہوئے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اسی طرح ابن ترکمانی نے ( جو ہر النقی ص 498 ج 2) میں اس روایت کے ضعیف و منقطع ہونے کی صراحت کی ہے۔
حنفی شارحین
ملا علی القاری حنفی متوفی 1410 ھ نے (مرقاۃ ص 184 ج 3 میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی حنفی نے (اشعتہ المعاث ص 581 ج 1 ) میں اور مولوی قطب الدین دھلوی حنفی نے ( مظاہر حق ص 416 ج 1 ) میں اس روایت کو ابو داؤد سے عشرین رکعتہ کے الفاظ سے ہی ذکر کیا ہے۔
ابو داؤد میں دوسری تحریف
امام ابو داؤد نے حضرت عبد اللہ بن مسعورضی اللہ عنہ سے مروی روایت عدم رفع الیدین پر جرح کرتے ہوئے کہا تھا کہ
هذا حديث مختصر من حديث طويل وليس هو بصحيح على هذا اللفظ
یعنی یہ ایک طویل حدیث کا اختصار ہے اور یہ صحیح نہیں اس معنی پر کہ دوبارہ رفع یدین نہ کرتے تھے۔
(ابوداؤد مع عون ص 273 ج 1 وابوداؤد ص 173 ج 1 طبع حلب 1952ء) امام ابوداؤد کی اس جرح کو ان کے حوالے سے صاحب ( مشکوٰۃ ص 77) میں‘ علامہ ابن عبدالبر نے ( التمھید ص 220 ج9) میں ‘حافظ ابن حجر نے (التلخیص ص 222 ج 1) پر اور علامہ شوکانی نے (نیل الاوطار ص 187 ج2) میں نقل کیا ہے۔ محدث عظیم آبادی نے (عون المعبود شرح سنن ابی داؤد ص 273 ج 1) میں صراحت کی ہے کہ میرے پاس دو صحیح و معتبر قلمی نسخے ہیں جن میں یہ جرح موجود ہے، لیکن کتنے ستم کی بات ہے جب دیوبندی مکتب فکر کے محدث عظیم مولوی فخر الحسن گنگوہی نے ابو داؤد کو اپنی تصحیح سے شائع کیا تو اس جرح کو متن سے نکال دیا۔(ابوداؤد ص 109)
گھر کی شہادت
حالانکہ مولوی محمود حسن خان کی تصحیح سے جو ابو داؤد کا نسخہ شائع ہوا تھا اس کے صفحہ 116 جلد اول کے حاشیہ پر نسخہ کی علامت دے کر لکھا ہوا تھا کہ ایک نسخہ میں یہ عبارت بھی موجود ہے پھر مذ کورہ تمام عبارت کو نقل کیا گیا ہے۔
ابوداؤد میں تیسری تحریف
سنن ابي داؤد ص 120 ج 1 میں امام ابو داؤد نے ایک عنوان باب من رای القراة اذا لم يجهر کا باندھا تھا مگر مولوی محمود حسن خان حنفی دیوبندی نے جب ’’ابوداؤد‘‘ کو اپنی تصحیح سے شائع کروایا تھا اسے باب من كره القرأة الفاتحة الكتاب اذا جهر الامام سے بدل دیا‘ حالانکہ کسی بھی نسخہ میں یہ عنوان نہ تھا۔
(دیکھئے ابو داؤد مع عون ص 305 ج 1)
اہل علم جانتے ہیں کہ محدث عظیم آبادی رحمہ اللہ سنن ابو داؤد کے متن کی جب عون المعبود میں شرح کرتے ہیں تو اختلاف نسخہ کا ذکر کرتے ہیں۔ اگر کسی نسخہ میں اس عنوان کا باب بھی ہوتا جو دیو بندیوں کے شیخ الہند نے قائم کیا ہے تو صاحب عون المعبود اس کا ذکر کرتے‘ مگر محدث عظیم آبادی اس پر خاموشی سے گزر گئے ہیں جو اس بات کا روشن پہلو ہے کہ کسی بھی نسخہ میں اس عنوان کا باب نہ تھا۔ مگر شیخ الھند اس کا ذکر کرتے ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون‘یہ سب حنفیت کی حمایت میں کیا جارہا ہے کہ ان کے نزدیک قراۃ فاتحہ مکروہ ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں تحریف
مصنف ابن ابی شیبہ حدیث و آثار کا بہترین ذخیر ہ ہے۔ اس کی اشاعت کا متعدد اداروں کو شرف حاصل ہے۔ سب سے پہلے مولانا عبد التواب کی تعلیق سے اس کی اشاعت ملتان سے ہوئی‘ بعد میں حیدر آباد دکن سے مولانا ابو الکلام آزاد اکادمی نے 1386ھ میں اس کی پہلی جلد کو شائع کیا۔ بعد میں الدار السلفیہ بمبیَ نے اس کو پند رہ جلدوں میں شائع کیا۔
مصنف میں حد ثنا وكيع عن موسى بن عمیر عن علقمة بن وائل بن حجر عن ابی‘ کی سند سے ایک حدیث مروی تھی کہ :
رايت النبي موضع بيمينه على شماله في الصلاة
یعنی میں نے نبی صلى الله عليه وسلم کو دیکھا کہ آپ علیہ السلام نے نماز کے اندر داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر رکھا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ص 390 ج 1 مطبوعہ بمبئی وحید ر آباد دکن)
دیو بند کے محدث شہیر مولانا حبیب الرحمن صاحب الا عظمی نے مصنف کی ابتدائی تین چار جلدیں بھی 1984ء میں شائع کی تھیں۔ (جواب مکمل چھپ چکی ہے ) اس کے صفحہ 351 جلد دوم طبع مطابع الرشيد مدینته المنورہ 1984ء میں بھی یہ حدیث انہیں الفاظ کے ساتھ موجود ہے‘ مگر جب دیوبندیوں نے ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی سے 1986ء میں اس کی اشاعت کی تو متن حدیث سے تحریف کرتے ہوئے (تحت السرۃ) کا اضافہ بھی کر دیا۔ اس اضافہ سے حدیث کا یہ مفہوم بن گیا کہ ’’نبی صلى الله عليه وسلم نے نماز کے اندر ناف کے نیچے ہاتھ باندھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
حالانکہ یہ صریحا بد دیانتی ہے۔ یہ حدیث ایک درجن کے قریب کتب حدیث میں پائی جاتی ہے اور کسی میں بھی (تحت السرہ ) کا اضافہ نہیں ہے۔ اور جس نسخہ کے حوالے سے اس اضافہ کا دعویٰ کیا جاتا ہے اس کے ضعیف و معلول ہونے کا دیو بندی اکا برین کو بھی اقرار ہے۔ تفصیل کے لئے خاکسار کی تالیف دین الحق ص ۲۲۰ ج ۱کا مطالعہ کریں۔
مسند حمیدی میں تحریف
مسند حمیدی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی تھی جس کے الفاظ حسب ذیل ہیں۔
((رایت رسول الله لك اذا افتتح الصلوة رفع يديه حذو منكبيه واذا اراد ان يركع و بعد ما يرفع راسه من الركوع ولا يرفع بين السجدين ))
(مسند حمیدی ص 177 طبع الاحدیث ٹرسٹ کراچی)
یعنی میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب نماز کو شروع کرتے تو کندھوں کے برابر تک رفع الیدین کرتے اور جب رکوع کرنے کا ارادہ کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور دونوں سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہ کرتے تھے۔ مسند حمیدی کے نسخہ ظاہر یہ میں یہ روایت اس طرح ہے۔ علاوہ ازیں مسند حمیدی کی روایت حد ثنا سفیان قال حدثنا الزھری کی سند سے مروی ہے اور اسی سند کے ساتھ مذکورہ الفاظ میں ہی یہ حدیث (مسند احمد ص 8 ج 2 و ابوداؤد ص 104 ج 1‘ ونسائی ص 123 ج 1 ( مجتبیٰ) و ایضاً السنن الکبریٰ ص 350 ج1) میں بھی موجود ہے مگر نہایت ہی ستم کی بات یہ ہے کہ جب دیوبندیوں کے محدث شہیر مولوی حبیب الرحمٰن اعظمی نے مسند حمیدی کو شائع کیا تو اس کے متن کو بدل دیا جس سے یہ حدیث رفع الیدین کرنے کی بجائے نہ کرنے کی دلیل بن گئی ، آپ بھی ملاحظہ کریں۔((رایت رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا افتح الصلوة رفع يديه حذو منكبيه واذا اراد ان يركع وبعد ما يرفع راسه من الركوع فلا يرفع ولا بين السجدين )) (مسند حمیدی ص 277 ج 2)
قدرت الہی کا کرشمہ
مگر اللہ تعالی نے اپنے دین کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے۔ اس نے اپنے دست قدرت سے دیو بندی محدث سے ایسا تصرف کروایا کہ اس تحریف کے باوجود یہ دیابنہ کی دلیل نہ بن سکتی تھی۔ وہ یہ کہ امام حمیدی اور زھری کے درمیان امام سفیان کا واسطہ تھا جو گر گیا‘ جس کا معلق کتاب ’’الا عظمی‘‘ کو بھی بعد میں پتا چلا‘ کیونکہ کتاب کے آخر میں جو غلطیوں کاچارٹ ہے اس میں بھی اس غلطی کا ازالہ نہیں کیا گیا ہے۔
الغرض اس روایت کو دیوبندی حضرات دلیل تو بناتے تھے مگر سفیان کے واسطہ کو سہواگرا ہوا بتاتے تھے نور الصباح ص59‘ جس پر محقق العصر مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے تعاقب کرتے ہوئے کہا کہ اگر حروف جوڑنے والے کی غلطی سے حد ثناسفیان کے الفاظ چھوٹ سکتے ہیں تو کاتب سے یہاں بعض الفاظ ذکر کرنے میں غلطی کیوں ناممکن ہے۔
(مسئلہ رفع الیدین پر ایک نئی کاوش کا تحقیقی جائزہ صفحہ 25)
اس اعتراض سے جان چھڑانے کی غرض سے جب دیو بندیوں نے مسند حمیدی کی دوبار و اشاعت گوجر انوالہ سے کی تو امام سفیان کے واسطہ کو درمیان میں ڈال کر سند کی تصحیح کر دی گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون (گویا کہ مکتبہ حنفیہ کے ناشر نے تحریف در تحریف کا ارتکاب کیا۔)
لطیفہ موضوع کی مناسبت سے ہم ذکر کر رہے ہیں‘ جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ بریلوی مکتب فکر کے ایک صاحب خاکسار کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ مجھے معلوم ہوا ہے که مسند حمیدی میں رفع الیدین نہ کرنے کی ایک صحیح‘ مرفوع‘ متصل سند سے حدیث آتی ہے ۔ ان کے سوال پر راقم کو بے ساختہ ہنسی آگئی وہ فرمانے لگے کہ آپ ہنس کیوں پڑے ہیں‘ راقم نے کہا کہ مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا ہے وہ یہ کہ ’’کسی گاؤس میں ایک صاحب نے سید ہونے کا دعوی کر دیا۔ جب کہ اسی گاؤں میں ایک اصلی سید بھی رہائش پذیر تھا اس نے نقلی سید پر تو ہین سادات کا مقدمہ درج کر وا دیا، جس پر نقلی سید کو عدالت سے سمن آگیا۔ فریقین عدالت میں پیش ہوئے‘ مد عاعلیہ سے جج نے اس کے سید ہونے پر دلیل مانگی‘ اگلی تاریخ پر اس نے ایک گواہ پیش کر دیا‘ گواہ نے گواہی دی کہ واقعی یہ صاحب سید ہیں ، جج نے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہے کہ یہ سید ہے۔ گواہ جو ابا کہنے لگا اے جی ہمارے سامنے ہی سید بنا ہے‘‘۔ یہ لطیفہ سنا کر میں نے عرض کی کہ اس حدیث کا ہمیں بخوبی علم ہے کہ یہ ہمارے سامنے ہی بنائی گئی ہے اس جواب پر اس نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
ابن ماجہ میں تحریف
سنن ابن ماجہ کو بعض نے صحاح ستہ میں شمار کیا ہے۔ درسی اور متداول کتاب ہے‘ اس میں صحیح و ضعیف بلکہ موضوع روایات بھی ہیں اس میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت ہے:
‘‘من كان له امام فقرأة الامام له قرأة ’’
جس کا ( نماز میں ) امام ہے تو امام کی قراۃ اس کی قرآت ہے۔ (ابن ماجہ ص 61)
حنفیہ کا اس روایت سے ترک قرآۃ خلف الامام پر استدلال ہے ۔ ( تدقیق الکلام ص 195 ج 1 )
علماء اہل حدیث کی طرف سے یہ جواب دیا گیا کہ اس کی سند میں جابر الجعفی راوی کذاب ہے۔ ( تحقیق الکلام ص 134 ج 2)
حنفیہ نے حق بات کو تسلیم کرنے کی بجائے سنن ابن ماجہ میں ہی تحریف کر دی۔
اصل سند اس طرح تھی
((حدثنا على بن محمد ثنا عبيدالله بن موسى عن الحسن بن صالح عن جابر عن ابي الزبير عن جابر))
اسے بدل کر جابر و عن ابی الزبیر بنادیا‘ جابر اور ابی الزبیر کے درمیان حرف واؤ کا اضافہ اس مقصد کے لیے کیا گیا تا کہ یہ تاثر دیا جائے کہ جابر الجعفی اسے بیان کرنے میں منفرد نہیں بلکہ اس کا ثقہ متابع ابی الزبیر بھی موجود ہے جو جابر الجعفی کا ہم سبق ہے اور یہ دونوں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
حالانکہ اہل علم جانتے ہیں کہ اگر ابن ماجہ میں حرف واؤ ہو تا اور جابر الجعفی اور ابی الز بیر دونوں ہم سبق ہوتے تو جابر و عن ابی الز بیر کی بجائے جابر وابی الز بیر ہو تا ‘گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ حرف واؤ کا اضافہ کرنے والا جہاں خائن و بد دیانت ہے وہاں جاہل و اناڑی بھی ہے۔
ابن ماجہ کی سند محدثین کی عدالت میں
یہ روایت ابن ماجہ کے علاوہ متعدد محد ثین کرام نے روایت کی ہے۔ مگر ان تمام نے جابر عن ابی الزبیر ہی بیان کیا ہے۔ دیکھئے
(سنن دار قطنی ص 331 ج 1‘ ابن عدی ص 542 ج 2 و کتاب القراة ص 158 و مسند احمد339 ج3)
گھر کی شہادت
اکا بر احناف نے بھی اس روایت کو جابر عن ابی الزبیر سے ہی بیان کیا ہے‘ دیکھئے ( شرح معانی الا ثارص 149 ج 1) علاوہ ازیں مولانا عبد الحئی لکھنوی حنفی مرحوم نے ابن ماجہ سے جابر عن ابی الزبیر ہی نقل کیا ہے۔ امام الکلام ص 187 والتعلیق الممجد ص 96‘ علامہ زیلعی حنفی نے بھی نصب الرایہ ص 7 ج 2 میں واؤ کے بغیر جابر عن ابی الز بیر ہی نقل کیا ہے جو اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ ابن ماجہ میں واؤ کا اضافہ دیابنہ کی بد دیانتی اور تحریف ہے اور انہوں نے سند میں گڑبڑ کر کے ایک من گھڑت روایت کو فرمان مصطفیٰ باور کرانے کی کوشش کی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
ابو عوانہ میں تحریف
امام ابو عوانہ نے مسند میں بیان رفع اليدين في افتتاح الصلاة قبل التكبير بحذا منكبيه والركوع ولرفع راسه من الركوع وانه لا يرفع بين السجدتين‘‘ عنوان کے تحت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع حدیث بیان کی تھی۔
((رایت رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا فتح اصلاة رفع يديه حتى يحاذى بهما وقال بعضهم حذو منكبيه واذا اراد ان يركع وبعد ما يرفع راسه من الركوع ولا يرفعهما وقال بعضهم ولا يرفع بين السجدتين والمعنى واحد)) (مخطوطہ مسند ابو عوانہ بحوالہ نور العينين ص 169) یعنی میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب نماز کو شروع کرتے تو دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے یہاں تک کہ ان دونوں ہاتھوں کو برابر کرتے بعض راویوں نے کہا کہ کندھوں کے برابر کرتے اور جب رکوع کرنے کا ارادہ کرتے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد رفع الیدین کرتے‘ اور نہ کرتے رفع الیدین اور بعض راویوں نے کہا ہے کہ دونوں سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہ کرتے اور ان کا معنی ایک ہی ہے۔ مگر نہایت دکھ کی بات ہے کہ جب احناف نے مسند ابو عوانہ کو شائع کیا تو من الركوع ولا يرفعھما سے حرف واؤ کو عمد ا کَر ا دیا۔ مسند ابو عوانہ ص 90 ج 2‘ بعدہ اس حدیث کو عدم رفعح کی دلیل بنالیا، نور الصباح صفحہ 53
تبصرہ بلا تبصرہ:
اولا: امام ابو عوانہ نے اس حدیث کو رفع الیدین کرنے کے باب میں ذکر کیا ہے۔
ثانیا: حدیث کے متن کو سمجھنے کے لیے اس کے الفاظ پر غور کیجئے کہ (ولا یرفعهما) کا تعلق کس سے ہے ماقبل کی جزا ہے یا اس کا تعلق بعد کے جملہ سے ہے‘ دراصل امام ابو عوانہ نے جیسے رفع الیدین کی کیفیت کے بارہ میں راویوں کا اختلاف بیان کیا ہے کہ بعض نے ’’حتی یھازی بھما‘‘کہا ہے اور بعض نے ’’حذو منکبیہ‘‘کہا ہے‘ اسی طرح بعد میں بھی یہی مقصود ہے کہ بعض نے’’ولا يرفعهما ‘‘ اور بعض نے ’’ولا يرفع بين السجدتین‘‘ کہا ہے اور اس کی امام صاحب کے الفاظ ’’والمعنی واحد‘‘ معنی و مقصد ایک ہی سے بھی تائید ہوتی ہے کہ ’’ ولا يرفعهما‘‘ کہا جائے یا ’’ولا یرفع بين السجدتين‘‘ معنوی اعتبار سے کوئی جوہری فرق نہیں سوال یہ ہے کہ اگر ’’ولا یر فعهما‘‘ ما قبل کی جزا ہے جیسا کہ دیوبندی کہتے ہیں تو پھر اس کے بعد ’’ وقال بعضهم ولا يرفع بين السجدتين والمعنی واحد‘‘ میں بعض کا ذکر کر کے کس جملہ سے تعرض واختلاف کا اشارہ ہے اور یہان کون سے دو لفظ ہیں کہ فرمایا جارہا ہے کہ معنی ایک ہی ہے اگر یہاں دولفظ نہیں تو معنی واحد کہنے کا کیا مطلب؟
ثالثا: امام ابو عوانہ نے یہ روایت عبد اللہ بن ایوب سعدان بن نصر اور شعیب بن عمرو غیر هم کی سند سے بیان کی ہے جس کا مطلب واضح ہے کہ سفیان سے عبد اللہ سعد ان اور شعیب وغیرہ یہ روایت ان الفاظ سے بیان کرتے ہیں اب دیکھئے کہ دوسری کتب حدیث میں کوئی روایت ان کے واسطہ سے آتی ہے تو وہ کس طرح ہے۔ چنانچہ چ میں سعدان عن سفیان کے واسطے سے یہی روایت موجود ہے جس کے الفاظ یوں ہیں:
((ان رسول الله من كان اذا افتتح الصلاة رفع يديه حتى يحاذى منكبيه واذا اراد ان . يركع و بعد ما يرفع من الركوع ولا يرفع بين السجدتين )) صحیح ابو عوانہ کی روایت سے ان الفاظ کا مقابلہ کیجئے یہاں رواۃ کے اختلاف کا ذکر نہیں گویا‘ سعدان ‘کی روایت میں ’’ حتى يحاذی منکبیہ اور ولا يرفع بين السجدتین ‘‘ کے الفاظ ہیں یہ طریق بھی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ’’ولا یرفعهما ‘‘ سے مراد محض راویوں کے مابین اختلاف کا ذکر کرنا مقصود ہے۔
(مسئلہ رفع الیدین پر ایک نئی کاوش کا تحقیقی جائزہ ص 22)
را بعا ۔ امام ابو عوانہ نے یہ روایت سفیان بن عیینہ کی سند سے بیان کی ہے اور سفیان کی روایت ( صحیح مسلم ص 168 ج 1 ) میں موجود ہے ۔ جس کے الفاظ ” ولا يرفعهما بين السجدتین” کے ہیں الغرض اس جملہ کا تعلق ما بعد کی عبارت سے ہے مگر خنفیت کے وکلاء نے مسند ابو عوانہ میں تحریف کر کے اسے عدم رفع کی دلیل بنالیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
صحیح مسلم میں تحریف
ملک سراج الدین اینڈ سنز نے 1376ھ میں مولوی محمد ادریس کاندھلوی وغیرہ دیوبندی کی تحقیق سے صحیح مسلم کو شائع کیا۔ اس میں حنفیت کی تائید کی غرض سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حسب ذیل سند وضع کی گئی۔
((حدثني عبيد الله بن معاذ العنبری قال تا ابی قال نا محمد بن عمرو الليثي عن عمرو بن مسلم بن عمارة عن بن اكيمه الليثى قال سمعت سعيد بن المسيب يقول سمعت ام سلمة زوج النبي الخ ))
( صحیح مسلم ص 168 ج 2)
حالانکه درست سند حدیث حسب ذیل ہے۔
(حدثني عبيد الله بن معاذ العنبري قال نا ابي قال نا محمد بن عمرو الليثي عن عمر ابن مسلم بن عمار بن اكيمة الليثى قال سمعت سعيد بن المسيب يقول سمعت ام سلمة زوج النبي )
( صحیح مسلم ص 160 ج 2)
یہی روایت ( ابو داؤد ص 30 ج 2 ‘ ترمذی مع تحفہ ص 365 ج 2 ‘نسائی مجتبی ص 194 ج 2 ‘ابن ماجہ ص 234 بیھقی ص 266 ج 9 ‘المحلی لا بن حزم ص 3 ج 6 اور شرح معانی الاثار ص 334 ج2 وغیرہ میں صحیح مسلم کی سند سے مروی ہے ان سب میں عمر ابن مسلم بن عمار کے آگے ابن اکیمتہ اللیثی کا واسطہ قطعا نہیں ہے۔
وجہ تحریف
ترمذی مع تحفہ ص 254 ج 1 میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ایک حدیث مروی ہے جس سے فریق ثانی ترک قرآة خلف الامام کا استدلال کرتا ہے۔ (احسن الکلام ص 278 ج 1 )
مگر اس کی سند میں ابن آکیمتہ اللیثی راوی ہے۔ صحیح مسلم میں تحریف اس غرض سے کی گئی تا کہ ابن آکیمتہ اللیثی کو صحیح مسلم کا راوی باور کرایا جائے اہل علم سے گزارش ہے کہ وہ حافظ ابن حجر کی تالیف "تہذیب التہذیب 410 ج 7 ” کا مطالعہ کر لیں کہ انہوں نے اسے سنن اربعہ کا راوی تو بتایا ہے مگر صحیح مسلم کا نہیں‘ اگر مز کورہ سند میں اس کا واسطہ ہوتا تو وہ اسے ذکر کرتے۔ علاوہ ازیں اگر سند میں اس کا واسطہ ہو تا تو عن عمارة بن اکیمتہ اللیثی یا عن ابن آکیمته اللیثی ہوتا مگر یہاں عن ابن اکیمتہ اللیثی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تحریف کرنے والا جہاں خائن ہے وہاں اناڑی و جاہل بھی ہے۔
مستدرک حاکم میں تحریف
مستدرک حاکم میں ابان بن یذید عن قتادة عن زرارة بن اوفى عن سعد بن هشام کی سند سے ایک روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے وتر کی تعداد کے بارے مروی ہے جو متن کے اعتبار سے شاذ ہے۔
(تفصیل دین الحق ص 434 ج 1 میں دیکھئے)
اس حدیث کے الفاظ تھے کہ :
((عن عائشة قالت كان رسول الله ہوتر بثلاث لا يقعد الا في آخر هن ))
یعنی ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تین رکعت وتر پڑھتے تھے نہ بیٹھتے تھے ان کے درمیان مگر آخر میں۔ مگر احناف نے جب مستدرک حاکم کی اشاعت کی تو ’’لا یقعد‘‘ کو ’’لا يسلم‘‘ بنا دیا۔ اس تحریف سے ان لوگوں نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔
(1) حنفیہ کے نزدیک وتر کی دوسری رکعت میں تشہد ہے جبکہ اس روایت میں تشہد کی نفی ہوتی تھی لہذا ان ایمان دار لوگوں نے الفاظ کو بدل کر اپنی تردید کے الفاظ کا مفہوم ہی بگاڑ دیا۔
(۲) حنفیہ کے نزدیک چونکہ وتر کے درمیان سلام نہیں پھیرنا چاہیے اس غرض کے تحت ان لوگوں نے ’’ لا يقعد‘‘ کو’’ لا یسلم‘‘ بنا دیا جس سے نماز وتر کی دوسری رکعت میں سلام کی نفی ہو گئی۔ یوں ان لوگوں نے متن روایت میں تحریف کر کے حنفیت کو سہارا دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
محدثین کی گواہی
امام بیھقی نے (السنن الکبری ص 28 ج 3) میں اس روایت کو مستدرک کی سند سے ہی بیان کیا ہے جس کے الفاظ ’’ لا يقعد‘‘ ہیں۔ علامہ زھمی نے ( تلخیص مستدرک ص304 جز1) میں‘ حافظ ابن حجر نے (فتح الباری ص 385 ج 2) اور (تلخیص الحبیر ص15 ج2) میں اسے مستدرک سے نقل کیا ہے اور الفاظ ’’لا يقعد‘‘ ہی نقل کیے ہیں۔
حنفیہ کی شہادت
علامہ نیموی حنفی مرحوم نے (آثار السنن ص 206) میں اسے مستدرک سے نقل کیا ہے مگر الفاظ ’’ لا یقعد‘‘ بیان کیے ہیں اور اس کے حاشیہ در حاشیہ تعلیق التعلیق میں صراحت کی ہے کہ امام بھیقی نے معرفة السنن والا ثار میں کہا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ابان کے طریق میں ’’لا یقعد‘‘ کے الفاظ ہیں۔ پس صحیح الفاظ اس روایت میں ’’لا یسلم‘‘ کی بجائے ’’لا یقعد‘‘ ہیں۔ ( حاشیہ آثار السفن ص 206)
تنبیہ: زراقم کو (دین الحق ص 235) میں وہم ہوا ہے کہ مذکورہ عبارت کو مولوی فیض احمد صاحب کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ لہذا قارئین اس کی تصحیح کرلیں۔
مسند احمد میں تحریف
حنفیہ نے مسند احمد کو حیدر آباد دکن سے شائع کیا تھا۔ حسب عادت ان لوگوں نے اس میں بھی تحریف کی اور بے لذت کی ہے۔ مثل معروف ہے کہ ’’چور چوری سے گیا مگر ھیرا پھیری سے نہ گیا ‘‘ یہی کچھ یہاں معاملہ در پیش آیا ہے کہ مذکورہ تحریفات تو کسی مقصد اور مطلب کی غرض سے کی تھیں مگر اس تعریف کو بے مقصد ہی کر ڈالا یا شاید اس کے نیچے بھی کوئی مقصود ہو جس کو راقم معلوم نہ کر سکا۔ بہر حال آئیے حدیث کے الفاظ ملاحظہ کریں۔
:حضرت عمرو بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی کہ کلمہ پڑھ چکا ہوں‘ نماز پڑھتا ہوں‘ زکوۃ دیتا ہوں‘ روزے رکھتا ہوں آپ علیہ السلام نے فرمایا
(( من مات على هذا كان مع النبين والصديقين والشهداء يوم القيمة هكذا و نصب تحقه حنفيه اصبعيه ))
جس شخص کو ان اعمال پر موت آجائے وہ قیامت کے دن نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کی معیت اور صحبت میں اس طرح ہو گا اپنی دونوں انگلیوں کو کھڑی کر کے دکھلایا۔ الحدیث اس حدیث کو (حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر ص 523 ج 1) میں مسند احمد سے بمع سند نقل کیا ہے اسی طرح علامہ سیوطی نے (در منثور ص 182 ج2) میں اور علامہ ھیثمی نے ( مجمع الزوائد ص 46 ج 1 و ص 150 ج 8) میں اسے مسند احمد سے نقل کیا ہے۔ اس حدیث پرمزید بحث خاکسار کی تخریج محمدیہ پاکٹ بک میں (غیر مطبوعہ ) ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ علم نبوی ﷺ کے واحد ٹھیکے داروں نے اس روایت کو مسند احمد سے خارج کیا ہوا ہے۔ اناللہ واناالیہ راجعون
فصل دوم
الفاظ نبوی میں حک واضافہ کی مثالیں
صاحب ھدایہ کا باطل طوفان
الفاظ نبوی میں ہیرا پھیری کرنے میں سب سے زیادہ نڈر اور بے باک صاحب ھدایہ ہے‘ یہ الفاظ نبوی میں اپنے مخصوص مقاصد کی غرض سے حک و اضافہ کرتا ہے اور پھر ان حک و اضافہ شدہ الفاظ کو دلیل بنا کر فریق مخالف کو مطعون کرنا اس کا عام شیوہ اور دستور ہے۔
(1) صاحب ھدا یہ کتاب الحج باب الحج عن الغیر میں فرماتے ہیں کہ (( وبذلك تشهد الاخبار الواردة فى الباب كحديث الخثعمية فانه قال فيه حجى عن ابيك و اعتمری ))
(ھدايه مع فتح القدير ص 66 ج 3) یعنی اس پر گواہ ہیں اس سلسلہ میں مروی احادیث جیسا کہ حدیث نثعمیہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے اسے کہا تھا کہ اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ ادا کر۔
یہ حدیث ( بخاری ص 350 ج 1‘ مسلم ص 431 ج 1) کے علاوہ سنن اربعہ میں موجود ہے مگر کسی روایت میں بھی ” و اعتمری “ کا لفظ نہیں ہے۔
علامہ زیلعی حنفی فرماتے ہیں کہ :
((هذا وهم من المصنف فان حديث الخثعمية ليس فيه ذكرالاعتمار )) ( نصب الرایہ ص 156 ج 3)
یعنی یہ مصنف کا وہم ہے کیونکہ حدیث نثعمیہ میں عمرہ کا ذکر نہیں۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ :
(( ولم أرفى شى من طريق الخثعمية الأمر بالاعتمار فالظاهر انه انتقال من المصنف))
یعنی حضرت نثعمیہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں عمرہ کرنے کے حکم کا ذکر نہیں ہے‘ ظاہرہے کہ یہ مصنف ھدایہ کا خود ساختہ لفظ ہے۔ (درایہ ص 50 ج2)
ھدا یہ کتاب الہیوع باب مسائل منشورہ میں لکھتے ہیں کہ :
((لقوله عليه السلام في ذلك الحديث فاعلمهم ان لهم ما للمسلمين وعليهم ما على المسلمين))
یعنی آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ انہیں سمجھا دو کہ جو مسلمانوں کے لیے ہے وہ ان کے لیے ہے اور جو مسلمانوں پر ہے وہی ان پر ہے۔ (ھدا یہ مع فتح القدیر ص 248 ج 6) حالانکہ جس روایت کی طرف صاحب ھدایہ نے اشارہ کیا ہے اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں۔ علامہ زیلعی حنفی فرماتے ہیں کہ میں اس حدیث کو نہیں جانتا جس کی طرف مصنف ھدایہ نے اشارہ کیا ہے اوپر پہلے اس معنی کی کوئی روایت نہیں گزری مگر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث کتاب الزکاة میں اور بر یرہ رضی اللہ عنہا کی کتاب السیر میں گذر چکی ہے اور ان میں سے کسی میں بھی یہ الفاظ نہیں ہیں۔ ( نصب الرایہ ص 55ج2) ۔ کتاب الصوم باب ما یوجب القضاء والكفار میں حالت روزہ میں جماع کرنے کی حدیث کفارہ کو لائے ہیں جس کے آخر میں یہ الفاظ بھی بیان کیے ہیں کہ ’’ولا یجزی احدا بعدك‘‘ یعنی تیرے بعد کسی کو یہ جائز نہیں ہے۔ ( مع فتح القدير ص 264 ج 2)
حالانکہ حدیث کفاره ( بخاری ص 259 ج1 ‘و مسلم 355 ج1) میں اور متعدد کتب احادیث میں آتی ہیں مگر کسی ایک میں بھی ’’ولا یجزی احدا بعدك‘‘ کے الفاظ نہیں علامہ زیلعی حنفی فرماتے ہیں ’’لم اجده في شي من طرق الحديث‘‘ ( نصب الرایہ ص 453 ج 3) یعنی حدیث کے طرق میں سے ان الفاظ کا قطعاً وجود نہیں ہے‘ یہی حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ (درایہ ص 280 ج1)
مگر صاحب ھدایہ ان الفاظ کو وضع کرتے ہوئے آخر میں لکھتا ہے کہ’’وهو حجة على الشافعی‘‘ پہلے متن حدیث میں اپنی طرف سے اضافہ کیا پھر اسے دلیل بناتے ہوئے امام شافعی رحمہ اللہ کو دھر لیا کہ یہ ان کے اوپر حجت ہے‘ اللہ اکبر ۔
کتاب الطلاق باب الظھار میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’لقوله عليه السلام واقع في ظهار قبل الكفار استغفر الله‘‘ یعنی آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے اس شخص کو جس نے اپنی بیوی سے ظہار کیا تھا اور کفارہ ادا کرنے سے پہلے مجامعت کر بیٹھا تھا فرمایا تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کر۔ (ھدايه مع فتح القدر ۸۸/۲)
یہ حدیث سنن اربعہ اور متعدد کتب حدیث میں آتی ہے جو شواہد کی وجہ سے حسن کے درجہ میں ہے بلکہ علامہ البانی نے صحیح کہا ہے۔ (ارواَ الغلیل ص 179 ج 7) مگر کسی بھی کتاب میں استغفار کرنے کا حکم نہیں ہے۔ یہ صاحب ھدایہ کا اپنی طرف سے اضافہ ہے ۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ (( لم اجده في شي من طرقه ذكر الاستغفار)) یعنی حدیث کے طرق میں ان الفاظ کا وجود نہیں ہے ۔ (درایہ ص 75ج2)
کتاب الایمان میں امام شافعی کی تردید کرتے ہوئے بغیر قصد کے بھی اگر کوئی قسم کھالے تو اس پر کفارہ دینا پڑے گا‘ کی دلیل درج کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ((لقوله ﷺ جدهن جدا وهزلهن جدا النكاح والطلاق واليمين )) یعنی تین چیزوں میں قصد اور مذاق برابر کا حکم رکھتے ہیں۔ نکاح‘ طلاق اور قسم۔ (حدايه مع فتح القدير ص 352 ج 4)
ابو داؤد‘ ابن ماجہ (طلاق ) اور ترمذی (النکاح) میں یہ حدیث مروی ہے مگر ان سب میں یمین کی بجائے رجعت کا لفظ ہے ‘گویا صاحب ھدایہ نے مطلب بر آدمی کے لیے‘ رجعت کو یمین میں بدل کر اپنا الو سیدھا کیا ہے۔ علامہ زیلعی نے ( نصب الرایہ ص 293ج 2) میں‘ ابن ھمام نے (فتح القد ء 352 ج4) میں اور حافظ ابن حجر نے (درایہ ص 90 ج 2 ) میں صاحب ھدایہ کی تردید کی ہے۔
:کتاب البیوع باب مسائل منشورہ میں کتے کی تجارت کے سلسلہ میں ایک ضعیف حدیث نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
((ولنا عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع الكلب الأكلب صيدا او ما شية))
یعنی ہماری دلیل آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ آپ علیہ السلام نے کتے کی خرید و فروخت سے منع کیا ہے مگر شکاری کتے کی اور جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتے کی۔ (ھدايد مع فتح القدير ص 246 ج 6)
حالانکہ یہ روایت سنن ترمذی باب ’’ما جاء في كراهية ثمن الكلب والسنور‘‘ میں موجود ہے مگر اس میں او ماشية ( ریوڑ کا کتا) کے الفاظ قطعاً نہیں۔
علامہ زیلعی نے (نصب الرایہ ص 3 5 ج 4) میں اور ابن ھمام نے ( فتح القدیر ص 246 ج 6) میں اپنے مخصوص انداز میں اسے غریب کہا ہے ‘حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ (( لم اجده بهذا اللفظ)) یعنی مجھے ان الفاظ سے یہ روایت نہیں ملی۔ (درایہ ص 161 ج 2)
کتاب آداب القاضی میں ایک حدیث ذکر کرتے ہیں کہ ((انما بنيت المساجد لذکر الله تعالى والحكم)) یعنی آپ علیہ السلام کا فرمان ہے کہ مسجدیں صرف اللہ کا ذکر کرنے اور فیصلے کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ (ھدايه مع فتح القدير ص 369 ج 6)
الفاظ کا یہ مجموعہ کتب احادیث میں سے کسی کتاب میں نہیں پایا جاتا اگر الفاظ کی ترتیب کو نظر انداز کر دیا جائے تو یہ حدیث مسلم شریف میں موجود ہے۔ لیکن’’ وللحكم ‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔ (مسلم ص 138 ج 1)
حافظ زیلعی فرماتے ہیں ((غریب بهذا اللفظ واخرجه مسلم ليس فيه الحكم)) ( نصب الراية ص 70 ج 4)
ان الفاظ سے یہ روایت غریب ہے۔ مسلم نے اسے روایت کیا ہے مگر ’’اللحکم‘‘ (قضاء) کے الفاظ نہیں ہیں یہی بات حافظ ابن حجر نے کہی ہے۔ (درایہ ص 168 ج 2)
اس کے قریب قریب علامہ ابن ھمام نے نقد کیا ہے۔ (فتح القدیر ص 370 ج 6) مولانا محمد جونا گڑھی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: دراصل یہاں صاحب ھدایہ کو دو کام کرنے تھے ایک شافعی مذھب کی تردید کہ مسجد میں فیصلہ کے لئے قاضی کو بیٹھنا مکروہ ہے‘ دوسرا اپنے مذھب کا ثبوت کہ قاضی فیصلوں کے لئے مسجد میں ظاہر کھلم کھلا بیٹھے۔ علامہ موصوف نے ایک حدیث میں ایک لفظ ایسا پڑھا دیا کہ دونوں مطلب نکل آئے۔ شافعی مذھب اڑ گیا حنفی جم گیا اور فتح مندی کا سہر اسر پر بندھ گیا۔ گو نبی صلى الله عليه وسلم پر جھوٹ بولنا ہو لناک جرم ہے لیکن مذہب کی پاسداری بھی عجیب چیز ہے جو انسان کے دل میں سوائے اس کی وقعت کے جس کا مذھب مانتا ہے کسی اور کو باوقعت رہنے ہی نہیں دیتی۔ (درایت محمد ی ص 36)
کتاب الکراھیۃ فصل فی بیع میں فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک ارض حرم کو فروخت کرنا مکروہ ہے پھر اس کی دلیل درج کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ((لانبی حنفية قوله عليه السلام الا ان مكة حرام لا تباع رباعها ولا تورث)) یعنی امام ابو حنیفہ کی دلیل آپ علیہ السلام کا یہ ارشاد ہے کہ مکہ حرم ہے نہ اس کے گھر بیچے جائیں اور نہ ورثے میں دیئے جائیں۔ (ھدا یہ مع فتح القدیر ص 495ج8) پہلے تو اس حدیث کے معنی کو دیکھئے کہ رباع زمین کو نہیں بلکہ گھر کو کہتے ہیں جیسا کہ ابن ھمام نے فتح القدیر میں بحوالہ قاموس صراحت کی ہے۔ دوسری بات یہ کہ متن روایت میں اپنی طرف سے ’’لاتورث‘‘ کے لفظ کا اضافہ کر دیا ہے حالانکہ یہ کسی بھی روایت میں موجود نہیں ‘حافظ ابن حجر نے اس لفظ کے اضافہ کی پر زور تردید کی ہے۔ (درایہ ص 236ج2) واضح رہے کہ اس لفظ کے بغیر بھی مذ کو رہ روایت ضعیف و معلول ہے۔ تفصیل کے لیے ( نصب الرایہ ص 265 ج 4) کی مراجعت کریں۔ مذکورہ مقام کے اس صفحہ میں فرماتے ہیں کہ ارض حرم کو کرایہ پر دینا جائز نہیں‘ اس کی دلیل درج کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ (( لقوله عليه السلام من اجرارض مكة فكانما أكل الربا)) یعنی آپ علیہ السلام کا فرمان ہے کہ جس نے مکہ مکرمہ کی زمین کو کرایا پر دیا گویا اس نے سود کھایا۔ (ھدایہ مع فتح القدير ص 495 ج 8)
اولً: ان الفاظ سے کوئی روایت صحیح مروی نہیں ہے۔
ثانیاً: جن من گھڑت اور ضعیف روایات میں ان الفاظ کا مجموعہ پایا جاتا ہے ان میں بھی’’ اكل الربا‘‘ کی بجائے ’’كل النار‘‘ کے الفاظ ہیں۔ ( دیکھئے نصب الرایہ ص266ج4 ودرایہ ص236ج2) مگر صاحب ھدایہ نے متن روایت میں تصرف کرتے ہوئے ”نار“ کو ”ربا“ میں بدل دیاہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
کتاب الصلوۃ باب ما يفسد الصوم میں اپنے مذھب کی ترجمانی کرتے ہوئے صحرا ( جنگل) میں نماز پڑھتے ہوئے سترہ ر کھنے کی دلیل درج کرتے ہوئے فرماتے ہیں که (( لقوله عليه السلام اذا صلى احدكم فى الصحرا فليجعل بين يديه سترة )) یعنی نبی صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے کہ جب تم میں سے کوئی جنگل میں نماز پڑھے تو اپنے آگے سترہ رکھ لے۔ (ھدایہ منع فتح القدیر ص 354 ج 1)
یہ حدیث متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے مگر کسی میں بھی ’’فی الصحرا‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں ۔ ابن ھمام نے‘ فتح القدیر ص 354 ج 1‘ میں اور زیلعی نے (نصب الرایہ ص80ج2) میں غریب بھذا اللفظ‘ کہا ہے حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ ’لم أره بقيد الصحرا‘ یعنی حدیث نبوی میں صحرا کی قید نہیں۔ (درایہ ص 179 ج1)
تلک عشرة کاملة
یہ دس ہیرا پھیریاں ہم نے محقق سلفی عالم مولانا محمد صاحب جونا گڑھی مرحوم کی کتاب ( درایت محمدی) سے تخریج کے ساتھ نقل کی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی حضرت نے متعدد امثلہ ذکر کی ہیں ، باذوق حضرات مراجعت فرما ئیں لیکن ہمارا کام استیعاب نہیں بلکہ ڈھیر سے مٹھی بھر کی نشان دہی کرنا ہے۔
اکا بر احناف صاحب ھدایہ کے نقش قدم پر
اب آئیے دیگر محققین حنفیہ کی حدیث نبوی کے الفاظ میں حک و اضافہ کی امثلہ سنیے علامه ابن همام ماشاء اللہ ھدایہ کے شارح ہیں۔ حنفی ان کو محقق علی الاطلاق اور مجتہد فی المذهب کا درجہ دیتے ہیں‘ ان کے تبحر فی الحدیث کا دعوی بھی کیا جاتا ہے ۔ وہ صفا کی سعی کے بعد دو رکعت نماز نفل کے استحباب کی بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب سعی سے فارغ ہو تو مستحب ہے کہ دو رکعت نماز نفل ادا کرے پھر اس کی دلیل درج کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ((روى المطلب بن ابي وداعة قال رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين فرغ من سعيه جاء حتى اذا حاذى الركن فصلى ركعتين في حاشية المطاف وليس بينه وبين الطائفين احد ))
(رواه احمد وابن ماجه وابن حبان ) یعنی مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو دیکھا جب ( صفاء و مروہ کی) سعی سے فارغ ہونے کے بعد بیت اللہ تشریف لائے اور مطاف کے کناره دورکعت نماز پڑھی ، آپ علیہ السلام اور طواف کرنے والوں کے درمیان کوئی نہ تھا۔ اس کو احمد ابن ماجہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ ( فتح القدير ص 263 ج 2)
بلاشبہ یہ حدیث مسند احمد ص 399 ج 6‘ ابو داؤد ص 160 ج 2 (2008)‘ نسائی ص 34 ج 2 ‘ ابن ماجہ (2958)‘ ابن حبان (موارد ) 415 ‘اور بھیقی ص 273 ج 2 وغیرہ میں موجود ہے مگر اس روایت کا تعلق سعی سے فارغ ہو کر دور کعت نفل پڑھنے سے نہیں بلکہ طواف سے فارغ ہو کر دو رکعت پڑھنے سے ہے ۔ حدیث کے الفاظ ’’حين فرغ من سبعہ‘‘ کے ہیں مگر علامہ ابن ھمام نے تقلیدی ہاتھ کی صفائی سے مطلب بر آری کی غرض سے ’’سبعہ ‘‘ کو ”سعیہ “ بنا دیا ہے جس سے حدیث کا مفہوم بگڑ گیا اور طواف کی بجائے سعی سے فارغ ہو کر نوافل ادا کرنے کا ایک بہانہ ہاتھ لگ گیا۔
کتب فقہ حنفیہ میں ایک روایت ان الفاظ سے بیان کی جاتی ہے
((ثلث من اخلاق النبوة تعجيل الافطار وتاخير السحور ووضع الكف على الكف تحت السرة ))
یعنی تین چیزیں نبوت کی عادات سے ہیں افطار میں جلدی کرنا، سحری دیر سے کھانا‘ نماز میں داھنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا۔ (جاء الحق ص 15 ج 2 والبحر الرائق ص 303 ج 1 )
حالانکہ اس روایت میں ’’وضع الكف على الكف تحت السرة‘‘ کے الفاظ قطعا نہیں۔ (دیکھئے ابن ابی شیبہ ص 13 ج 3 و بھیقی ص 238 ج 4‘ ابوداؤد طیالسی ص 346 و طبرانی بحوالہ نصب الراية ص 470 ج 2) الغرض ’’ تحت السره ‘‘ کا اضافہ فقہاء احناف نے اپنی طرف سے متن روایت میں کیا ہے۔ علامہ ابن نجیم نے البحر میں اعتراف کیا ہے کہ ہمارے اسلاف نے جو ان الفاظ کو بیان کیا ہے وہ کتب احادیث میں قطعاً نہیں۔
(۳) شیخ عبد الحق دھلوی منفیت کے معروف وکیل اور ناصر گزرے ہیں۔ انہیں یہ حضرات محدث کے لقب سے یاد کرتے ہیں ، جو ماشاء اللہ مشکوٰۃ جیسی معروف حدیث کی کتاب کے شارح بھی ہیں، انہوں نے ایک حدیث ان الفاظ سے ذکر کی ہے۔ ((قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من صلى على ميت في المسجد فلا اجر له)) یعنی جس نے مسجد میں میت پر نماز جنازہ پڑھی اس کے لیے کوئی اجر و ثواب نہیں۔ (المعات بحوالہ حاشیہ مشکوة 145 ‘اور اشعۃ اللمعات ص 724 ج 1) میں اس کا فارسی زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے حالانکہ اس روایت کی سندی حیثیت سے قطع نظر یہ جیسی بھی ہے اس میں ’’ فلا اجر لہ‘‘ کے الفاظ قطعا نہیں بلکہ ’’فلاشی لہ‘‘ کے ہیں۔ (ابوداؤد باب الصلاة على الجنائز في المسجد وابن ماجہ 110 بحوالہ نصب الرایہ ص 275 ج 2)
مولوی سر فراز خان صفدر دیوبندی مکتب فکر کے ایک نامور اور جید عالم دین ہیں، جن کے القاب کے ساتھ شیخ الحدیث بھی لکھا جاتا ہے رد وہابیت میں سرگرم اور غلو کی حد تک ان سے عداوت ہے۔ روحانی نسب کے لحاظ سے مولوی اسماعیل مؤلف تحفہ اہل حدیث کے والد گرامی ہیں۔ غسل جنابت میں کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کے مؤقف امام ابو حنیفہ کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ (ابو داؤد ص 48 ج 1) میں روایت ہے: (الصعيد الطيب وضوء المسلم الى ان قال فاذا وحدت الماء فامسه جلد وشعرك الخ ) (خزائن السنن 90)
حالانکہ ابو داؤد میں ’’و شعرک‘‘ کے الفاظ موجود ہی نہیں۔ جبکہ مولانا کا بنیادی استدلال ہی ان الفاظ سے ہے۔
حضرت مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت مولانا موصوف نے اس سے قبل صفحہ 89 میں ’’تحت كل شعرة جنابة‘‘ سے بھی استدلال کیا ہے کہ ہر بال کے نیچے جنابت ہے اور فرمایا کہ چونکہ ناک کے اندر بھی بال ہوتے ہیں لہذا جنابت کا اثر وہاں بھی ہوتا ہے اس استدلال سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ مذکورہ الصدر روایت میں ’’و شعرك‘‘ کا اضافہ بھی اس کی تائید میں ہے اور اس سے مقصد یہ ہے کہ ناک میں پانی ڈالنے کی فرضیت کی ایک دلیل یہ بھی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ( مولاناسرفرازاپنی تصانیف کےآئینہ میں ص 179)
مولانا سر فراز خاں صاحب کا شاگرد رشید اور مولوی اسماعیل کی گینگ کا ایک معروف رکن حافظ حبیب اللہ ڈیروی بھی ہے جو بغض سنت اور عداوت اہل حدیث کی علامت ہے۔ ان کی ہیرا پھیری کی تفصیل میں جانے سے قبل ایک مختصر تمہید کی ضرورت ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ (سنن نسائی ص 129 ج 1 ) میں حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے ایک روایت مروی ہے جس میں سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنے کا ذکر ہے‘ یه روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے مگر کسی تاریخ کی غلطی سے اس میں تصحیف ہو گئی جس کی وجہ سے بادی النظر میں یہ روایت صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ سند میں امام قتادہ سے روایت کرنے والے امام سعید بن ابی عرو بہ تھے‘ مگر ناسخ نے غلطی سے سعید کی بجائے شعبہ لکھ دیا اور اصول حدیث کا یہ قاعدہ ہے کہ جب امام قتادہ سے امام شعبہ روایت کریں تو ان کی تدلیس ختم ہو جاتی ہے۔ علمائے اہل حدیث کی طرف سے یہ جواب دیا جاتارہا کہ شعبہ کتابت کی غلطی ہے دلیل یہ دیتے رہے کہ حافظ ابن حجر نے (فتح الباری ص 177 ج 1) (اور ابن حزم نے انکلی ص 38) میں سنن نسائی سے یہی روایت نقل کی ہے اور ان میں سعید بن ابی عرو بہ ہی ہے (بلکہ مسند امام احمد ص 436 ج3) میں بھی سعید ہی ہے۔ (استیصال التقليد 191 حاشیہ نسائی ص129 ج 1) اس حقیقت کا اعتراف ڈیروی صاحب کے محدث عظیم مولانا انور شاہ صاحب مرحوم نے بھی کیا ہے۔ (نیل الفرقدین 32) اس کے جواب میں ڈیروی صاحب فرماتے ہیں کہ علامہ کشمیری کا حافظ ابن حجر کے بارے میں یہ حسن ظن صحیح نہیں ہے‘ کیونکہ جس طرح شعبہ نسائی میں موجود ہے اس طرح صحیح ابو عوانہ میں بھی موجود ہے‘ معلوم ہوا کہ شعبہ کا ذکر نہ تو نسائی میں غلط ہے اور نہ صحیح ابو عوانہ میں بلکہ حافظ ابن حجر کا وہم ہے اور علامہ کشمیری کا نرا حسن ظن ہے۔ (نورالصباح 230) حالانکہ یہ غلط ہے۔ کیونکہ ابو عوانہ میں کوئی ایسی روایت نہیں جس میں سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنے کا ذکر ہو اور اس کی سند میں امام شعبہ قتادہ سے روایت بیان کر رہے ہوں۔
(مزید تفصیل دین الحق ص 367ج1 میں دیکھئے۔)
الغرض امام شعبہ کے طریق میں سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنے کا ذکر بحوالہ ابو عوانہ ڈیروی کا خانہ ساز جھوٹ ہے۔
فصل سوم
حنفیت کی تائید میں وضع احادیث
مبتدعین دیابنہ اور بریلویہ کو حنفی ہونے پر فخر ہے۔ وطن کے لحاظ سے یہ لوگ عراقی ہیں اور عراق فتنہ کی سر زمین ہے‘ جیسا کہ مخبر صادق صلى الله عليه وسلم نے اس کی خبر دی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فجر کی نماز پڑھی‘ تو منتقل ہو کر ایک قوم پر آئے تو فرمایا کہ اے اللہ ہمارے مدینہ میں برکت ڈال‘ ہمارے مد اور صاع میں برکت ڈال‘ ہمارے شام اور یمن میں برکت ڈال۔ ایک شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ عراق؟ ( کے بارے میں دعا کیجئے ) تو آپ علیہ السلام خاموش رہے پھر کہا کہ اے اللہ ہمارے مدینے میں برکت ڈال‘ ہمارے مد اور صاع میں برکت ڈال‘ اے اللہ ہمارے حرم میں برکت ڈال اور ہمارے شام و یمن میں برکت ڈال (اس پر اس شخص نے کہا‘ ’’والعراق یا رسول الله‘‘ اے اللہ کے رسول عراق کے بارے بھی دعا کیجئے اس
پر آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ((من ثم يطلع قرن الشيطان وتهيج الفتن )) وہاں سے قرن شیطان طلوع ہو گا اور فتنے و فساد جنم لیں گے۔ (طبرانی الاوسط ص 63 ج 5ر قم الحديث (4110))
علامہ ھیثمی حنفی فرماتے ہیں کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد 308 ج 3)
یہ روایت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے متعدد اسناد سے ثابت ہے۔ دیکھئے‘ (طبرانی کبیر ص 293 ج 2 1 الحديث 13422) (المعرفة والتاريخ الامام المفسوى ص 746 751 ج 12، تاریخ ابن عساکر ص 58,59 ج 1 مخطوطه و کنز العمال ص 135 و 172ج14) یہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جس کی سند کے راویوں کو علامہ منذری نے ثقہ کہا ہے۔ (الترغیب والترهيب ص 227 ج 2)
مخبر صادق علیہ السلام کی پیشگوئی کے عین مطابق سر زمین عراق سے فتنوں و فسادوں نے جنم لیا۔ قرن شیطان یہاں سے طلوع ہوا۔ چنانچہ آپ کتب رجال اور تراجم کی کتابوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیے تو آپ حضرات کو یہ مانے بغیر کوئی چارہ نہ ہو گا کہ جس قدر و جال و کذاب اور وضع احادیث میں معروف لوگ ہیں ان میں سے نوے فیصد اسی سرزمین سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((ان من العراق قوما يكذبون و يسخرون)) بلاشبہ عراق میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو جھوٹ بولتے ہیں اور دین سے مذاق کرتے ہیں۔ (ابن سعد ۹/۱۳)
تبع تابعین نے بھی اپنے تجربات سے اس حقیقت کو جان لیا تھا کہ اہل عراق کس کماش کے لوگ ہیں چنانچہ امام طاؤس فرماتے ہیں کہ :
((اذا حدثك العراقي مائة حديث فاطرح تسعه و تسعين )) جب کوئی عراقی موحد یثیں روایت کرے تو ان میں سے نناوے کو پھینک دو۔
امام هشام بن عروہ فرماتے ہیں کہ : ((اذا حدثك العراقي بالف حديث فالق تسعمائة و تسعين و كن من الباقي في شك )) یعنی اگر عراقی ہزار حدیثیں روایت کرے تو ان میں سے نو سو نوے (990) کو پھینک دو اور جو باقی دس ہیں ان کے بارے میں بھی شک میں رہو۔ امام المحد ثین امام زہری فرماتے ہیں (( ان في حديث أهل الكوفة دغلا كثير )) ( تدريب الراوی فی شرح تقریب النواوى ص 85 ج 1) یعنی اہل کوفہ کی حدیث میں بہت زیادہ مکر و فریب اور دغا ہوتا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ((ليس لحديث اهل الكوفة نور)) یعنی اہل کوفہ کی روایت میں نور نہیں ہوتا۔ (سنن ابی داؤد ص 341 ج 2) ان آئمہ کے اقوال کو بھی جانے دیجیے ہم اپنے دعویٰ کے ثبوت میں اہل کوفہ کی معنوی اولاد کو پیش کرتے ہیں جنہوں نے خوف الہیٰ کو بالائے طاق رکھ کر وضع احادیث کی ہیں۔
مؤلف تحفہ اہل حدیث کی وضع کردہ روایات
مولوی اسماعیل نے ایک صد سے کم صفحات کی کتاب تحفہ اہل حدیث تحریر کی ہے۔ اس کے ایک صفحہ میں دور وایات وضع کی ہیں۔ لکھتا ہے: نبی کریم علیہ السلام تو ننگے سر آدمی کے سلام کا جواب تک نہیں دیتے۔ (مشکوۃ) جب مسح فرماتے ہیں تو ایک ہاتھ سے عمامہ مبارک کو معمولی او پر اُٹھاتے ہیں اور ایک ہاتھ سے مسح فرماتے ہیں۔ نبی ﷺ اتنی دیر تک بھی ننگے سر رہنا پسند نہیں فرماتے کہ عمامہ کو اُتار کر نیچے رکھ دیں۔ ( تحفہ اہل حدیث ص 13)
تبصرہ بلا تبصرہ:
یہ دونوں روایات مولوی ابو بلال اسماعیل کی وضع کردہ ہیں ، مشکوٰۃ تو کجا پورے ذخیرہ احادیث میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے‘ راقم الحروف سترہ (17) اکتوبر 1999ء بروز اتوار بوقت پونے آٹھ بجے صبح مولوی اسماعیل کے پاس حاضر ہوا تھا، اپنا تعارف کرواتے ہوئے خاکسار نے کہا کہ آپ کی تالیف تحفہ اہل حدیث کا بندہ نے جواب لکھا ہے اور یہ احادیث را قم کو نہیں مل سکیں، آپ مہربانی کر کے مجھے یہ دونوں روایات دکھا دیں‘ راقم کا یہ مطالبہ سن کر مولوی اسماعیل کا رنگ فق ہو گیا۔ شرمندگی اور خفت سے اس پر بولنا محال ہو گیا‘ آخر سر جھکا ہوئے کہنے لگا کہ ممکن ہے کہ میں نے کہیں سے سنی سنائی لکھ دی ہوں لہذا اس وقت اس کا حوالہ را تم کو یاد نہیں۔ اس پر راقم نے کہا کہ افسوس آپ نے کتاب میں محض سنی سنائی حدیث لکھ دی اور وہ بھی خصم پر حجت کے لیے ((كفى بالمرء كذب ان يحدث بكل ماسمع)) (مسلم)۔ اس کے جواب میں مولوی اسماعیل کہنے لگا کہ اچھا آپ نے اس پر کیا لکھا ہے ؟ راقم نے کہا کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ بڑی تلخ حقیقت ہے۔ ویسے ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ تو بہ کر لیں اور ہم کو لکھ کر دے دیں کہ ان روایات کو میں نے خود وضع کیا تھا جس سے میں تو بہ کرتا ہوں۔ مولوی اسماعیل کہنے لگا آپ اشتہار شائع کر کے بد نام کریں گے‘ خاکسار نے کہا کہ اشتہار شائع نہ کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔ ہاں البتہ تحفہ اہل حدیث کے جواب میں آپ کی تو بہ شائع کر دوں گا۔ مولوی اسماعیل کہنے لگا کہ آپ کا مقصود صرف بدنام کرتا ہے اصلاح کرنا نہیں ؟ اس پر راقم نے کہا کہ آپ نے بھی تو اصلاح کے نام پر تخریب کاری کی ہے ورنہ آپ قسماً کہہ سکتے ہیں کہ اہل حدیث شیعہ کی طرح ہیں۔ مولوی اسماعیل کہنے لگا کہ آپ اہل حدیث حضرات شیعہ کی طرح نہیں ہیں۔ ہاں البتہ اب میں نے کہیں ایک ضروری کام جانا ہے لہٰذا کسی اور دن تشریف لائیں اور میں ان روایات کے بارے میں تحقیق کرلوں گا جو آپ کو دکھادی جائیں گی۔ اس پر خاکسار نے کہا کہ اب میں خود تو نہیں آؤں گا البتہ کسی آدمی کو بھیجوں گا۔ مولوی اسماعیل نے 25 اکتوبر 1999ء بروز اتوار بوقت صبح کا وعدہ کیا، جس پر راقم واپس آگیا۔ پروگرام کے مطابق راقم نے اپنے بھانجے حکیم عثمان عبد الرحمٰن کو بھیجا جو خیر سے حنفی دیوبندی اور اسی مسجد کا نمازی ہے جس میں مولوی اسماعیل پیش امام ہے مگر مولوی اسماعیل نے حکیم عثمان عبد الرحمٰن کو یہ روایات نہ دکھا ئیں بلکہ کہا کہ آپ اپنے ماموں سے کہیں کہ وہ کتاب کو شائع کر دیں میں اس کا جواب لکھ دوں گا۔ الغرض یہ روایات مولوی اسماعیل نہ دکھا سکا کیونکہ کتب احادیث میں ان کا قطعاً کوئی وجود نہیں اور سینہ گزٹ روایات کا ثبوت نہیں ہوا کر تا‘ ہم آج بھی اپنے دین وایمان کی محکمی اور خداداد فراست کو بروئے کار لا کر یہ دوعویٰ کرتے ہیں کہ یہ مولوی اسماعیل کا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم پر افترا ہے۔ اللہ اسے توبہ کی توفیق دے۔
مولوی محمد امین صفدر اوکاڑوی حنفی:
مبتد عین دیابنہ کی حیاتی پارٹی کے سر گرم کارکن اور مناظر اعظم ہیں۔ اہل حدیث کے رد میں متعدد کتب کے مصنف اور فن مغالطہ کے امام ہیں‘ اختلافی مسائل میں سے مسئلہ آمین پر بھی انہوں نے ایک کتابچہ تحریر کیا ہے جس میں فرماتے ہیں: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب اللہ اکبر کہتے تو تھوڑی دیر خاموش رہتے اور جب وہ ولا الضالین کہتے تو تھوڑی دیر خاموش رہتے اور جب دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوتے تو خاموش نہ رہتے بلکہ الحمد للہ رب العالمین کہتے۔ (مسئلہ تحقیق آمین ص 29) حلانکہ ایسی کوئی حدیث رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے ثابت نہیں یہ مولوی امین اوکاڑوی کی سینہ گزٹ ہے۔
مولوی حبیب الرحمٰن حنفی دیوبندی صدیقی کاندھلوی
دیوبندی مکتب فکر کے نامور عالم دین مفتی اشفاق الر حمن کاندھلوی مرحوم کے فرزند ہیں اور متعدد کتب کے مصنف ہیں جن کے ٹائٹل پر موصوف کے القاب ماہر تاریخ محقق و نقاد شیخ القرآن و امام الحدیث وغیرہ لکھے ہوتے ہیں بعض رسائل میں اہل حدیث پر بھی کڑی تنقید کی ہے۔ فاتحہ خلف الامام کے بارے میں ایک رسالہ تحریر کیا تھا جس میں ارشاد فرماتے ہیں کہ امام بھیقی نے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا (من ادرك الركوع مع الإمام فقد ادرك الركعة ) ( سنن الكبرى ص 4290) جس نے امام کے ساتھ رکوع پایا اس نے رکعت پالی۔ (رسالہ فاتحہ خلف الامام 10 تا 11 طبع اول) حالانکہ ان الفاظ کے ساتھ یہ حدیث بیھقی تو کجا پورے ذخیر ہ حدیث میں موجود نہیں ہے۔
مولوی سید محمد انور شاہ کاشمیری:
دیوبندی حلقہ کے خاتم التحقین مولوی محمد مانور شاہ کاشمیری جو متعدد کتب کے مصنف اور دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث تھے اہل حدیث کے رد میں مختلف مسائل پر ان کے رسائل بھی ہیں۔ سنن ترمذی پر ان کی المائی تقریر‘ عرف الثزی’ کے نام سے مطبوع ہے‘ اس کے باب ما جاء فی تعجیل العصر‘ میں اپنے کوئی مذھب کی وکالت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ : ((منها ما في ابي داؤد عن على ان وقت الاشراق من جانب طلوع الشمس بعد العصر )) حالانکہ ان الفاظ کے ساتھ کوئی روایت ابو داؤد میں ہے اور نہ ہی کسی دوسری حدیث کی کتاب میں اس کا وجود ہے۔ حضرت محدث مبارکپوری فرماتے ہیں کہ (( قلت حديث على هذا بهذا اللفظ ليس في أبي داود البتة ولا في كتاب من كتب الحديث فعليه ان يثبت أولا كونه في أبي داود اوفى كتاب آخر من كتب الحديث بهذا اللفظ المذكور)) میں کہتا ہوں کہ ان الفاظ کے ساتھ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے ابو داود میں کوئی روایت نہیں اور نہ کتب حدیث میں سے کسی کتاب میں اس کا وجود ہے لہذا اس پر لازم ہے کہ وہ ان الفاظ کو پہلے ابو داود یا پھر کتب احادیث میں سے کسی کتاب سے مذکورہ الفاظ سے ثابت کرے۔ (تحفۃ الاحوذی ص 149 ج 1)
قاضی نور محمد صاحب: ماضی قریب میں یہ حنفیت کے نامور مناظر ومدرس گزرے ہیں‘ ‘بلاشبہ صاحب علم اور توحید سے محبت تھی فرقہ دیانہ کی ممانی پارٹی کے قائدین میں ان کا شمار ہوتا ہے اہل حدیث کے رد میں متعدد کتب و رسائل کے مصنف ہیں۔ مسئلہ رفع الیدین پر ایک رسالہ از التہ الرین کے نام سے انہوں نے تحریر کیا تھا اس میں انہوں نے ایک مسلسل روایت وضع کی ہے فرماتے ہیں کہ: ((اخذ اهل الكوفة الصلوة عن ابراهيم النخعى و اخذ ابراهيم النخعي عن اسود بن يزيد عن أبي بكر الصديق عن النبي وهذا اخذ. عن جبریل وهو احد عن الله تبا رك وتعالى و ابراهيم النخعى لم يكن يرفع يديه الا في أول تكبير من الصلوة ثم لا يعود )) ( از الته الرین ص 61) یہ حدیث کسی بھی کتاب میں نہیں پائی جاتی ۔
حافظ حبیب اللہ ڈیروی:
ان کا شہر حیاتی دیو بندی پارٹی کے صفدری گروپ سے ہے۔ رواہل حدیث میں کوثری المشرب ہیں‘ مسئلہ رفع الیدین پر‘ نور الصباح فی ترک رفع اليدين بعد الافتتاح’ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی ہے۔ اس میں فرماتے ہیں کہ حضرت امام ابو حنیفہ نے ترک رفع الیدین والی نماز اپنے استاد حماد وغیرہ سے سیکھی ہے اور انہوں نے حضرت ابراھیم نخعی سے اور انہوں نے حضرت اسود و علقمہ سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے اور انہوں نے جناب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے اور انہوں نے حضرت جبریل علیہ السلام سے اور حضرت جبریل خدا تعالی سے لے کر آیا۔ فلھز اللہ تعالی کا حکم ہے کہ نماز میں رفع الیدین نہ کیا کرو۔ ( نور الصباح ص 219) یہ روایت ماشاء اللہ ڈیروی صاحب کی ایجاد ہے جس کا وجود کتب احادیث میں قطعاً نہیں پایا جاتا۔
مولانا محمود حسن خان صاحب:
ان کا شمار آل دیو بند کے اکابرین میں ہوتا ہے۔ مولانا قاسم علی نانوتوی کے شاگر در شید اور دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس تھے۔ اہل حدیث کی مخالفت ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ مختلف فیہ مسائل پر ان کی ایک کتاب "ایضاح الادلہ " ہے اس میں تحریر کرتے ہیں کہ : (( قول عبد الله بن مسعود رفع رسول الله مي فرفعنا وترك فتركنا ))
(ایضاح الادلہ17 ) یعنی عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے رفع الیدین کی تو ہم نے بھی کی۔ جب آپ علیہ السلام نے چھوڑ دی تو ہم نے بھی چھوڑ دی۔ یہ من گھڑت روایت فقہ حنفی کی معروف کتاب ( بدائع الصنائع ص 208 ج1 ) میں موجود ہے اگر کوئی حنفی سپوت اور منکر سنت اس کا وجود کتب احادیث سے ثابت نہیں کر سکتا- اسی طرح علامہ حسام الدین حنفی متوفی 714 نے ھدایہ کیشرح میں درجہ ذیل حدیث وضع کی ہے کہ : ((عن عبد الله بن الزبير انه رأى رجلا يرفع يديه في الصلوة عند الركوع وعند الرفع فقال لا تفعل فان هذا شي فعله رسول الله ثم تركه )) (بحوالہ عمدة القاری ص 273ج5)
حضرت عبد اللہ بن زبیر نے ایک شخص کو رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت ہاتھ اٹھاتے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ ایسانہ کرو کیونکہ یہ کام حضور نے پہلے کیا تھا پھر چھوڑ دیا۔ (جاء الحق ص 56 ج 2)
علامہ کا سانی حنفی متوفی 585 اپنی بلند پایہ کتاب’بدائع‘ میں فرماتے ہیں کہ : ((روی انهﷺ رای بعض اصحابه يرفعون أيديهم عند الركوع وعند الرفع الراس من الركوع فقال مالي اراكم رافعی ایدیکم کا نها از تاب خیل شمس اسکوافی الصلوة‘)) (بدائع الصنائع ص 207 ج1) یعنی بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے بعض صحابہ کو رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے دیکھا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے کیا ہے کہ میں تمہیں سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ ہلاتے دیکھتا ہوں نماز میں سکون اختیار کرو۔ یہ سب جھوٹ کا باطل طوفان ہے ‘ان لوگوں نے خوف الہی کو بالائے طاق رکھ کر روز قیامت کے حساب سے نڈر ہو کر ان احادیث کو وضع کیا ہے۔
مولوی احمد علی سہارنپوری:
ان کا شمار مبتدعین دیابنہ کے ہیرو اور شارحین بخاری میں ہوتا ہے۔ بعض اہل حدیث سے ان کا سینہ لبریز اور مرجؔی المشرب ہونے کی وجہ سے اہل ، حدیث کار د خوب کرتے تھے۔ مسئلہ فاتحہ خلف الامام پر ان کا ایک رسالہ (الدليل القوی) ہے جس میں حدیث کے مفہوم کو بگاڑتے ہوئے حسب ذیل الفاظ نقل کیے ہیں: (( لا يقرأن احد منكم شيأ من القرآن اذا جهرت بالقرآن وقال الدارقطني رجاله كلهم ثقات الدليل القوى ۲۸) ) ( بحوالہ تحقیق الکلام ص 198 ج 2) حالانکہ ’’ اذا جهرت القرأة‘‘ کے درمیان’’ الايام القرآن ‘‘ کے الفاظ تھے۔ تقدیر عبارت یوں تھی: (اذا جهرت بالقرأة الا بام القرآن) (سنن دار قطنی ص 320ج1) مگر دیا بنہ کے مایہ ناز محقق نے مطلب بر آری کے لیے اس مخالف جملہ کو ہضم کر کے امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کی دلیل کو نہ پڑھنے کی بنادیا۔ اس زیادتی کی کوئی حد اور اس ہیرا پھیری اور بے ایمانی کا کوئی کنارہ ہے۔
ملا علی قاری حنفی شارح مشکوۃ :
آل دیاینہ کے مفتی اعظم ملا علی القاری حنفی نے اپنے مسلک کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے: ((وفيه حديث صريح أخرجه الدار قطني عن ابن عمر ان النبي له قال اذا صليت في اهلك ثم ادركت فصلها الا الفجر والمغرب )) یعنی اس سلسلہ میں صریح حدیث ہے جسے دار قطنی نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جب تم گھر میں نماز پڑھ لو پھر اگر جماعت کو پالو تو نماز دوبارہ پڑھ لیا کرو مگر صبح اور مغرب کی نماز (مرقاة ص 305 ج 3) ان الفاظ کو دار قطنی تو کجا پورے ذخیرہ احادیث سے کوئی حنفی سپوت ثابت نہیں کر سکتا۔
علامہ حصکفی صاحب در مختار:
ان کا شمار فقہائے احناف کے ان گنے چنے افراد میں ہوتا ہے جن کی نقل پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ تنویر الابصار کے شارح ہیں ، خود مولوی اسماعیل کو ان کی کتاب در مختار پر فخر ہے‘ اسے مدینہ کی تصنیف کہتے ہیں۔ اس رتبہ وشان کے آدمی نے بھی وضع احادیث کا کاروبار کر رکھا تھا اور کم از کم موضوع و من گھڑت روایات کو نقل کرتے ہوئے ان کا ضمیر انہیں ملازمت نہ کرتا تھا۔ ہم اختصار کے ساتھ چند روایات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ (((۱) ان آدم افتخر بي وانا افتخر برجل من امتی اسمه نعمان و کنیته ابو حنيفة هو سراج امتى )) یعنی نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام کو مجھ پر فخر تھا اور مجھے اپنے ایک امتی کی وجہ سے فخر ہے جس کا نام نعمان اور کنیت ابو حنیفہ ہے‘ جو کہ میری امت کا روشن چراغ ہے- (مقدمه در مختار مع ردالمختار ص 52 ج 1) اسی مقام پر دوسرا افترا یہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نےفرمایا: ((ان سائر الانبياء يفتخرون بي وانا افتخر أبي حنيفة من احبه فقد احبنى ومن ابغضه فقد أبغضني )) یعنی تمام انبیاء کو مجھ پر فخر ہے اور مجھے ابو حنیفہ پر ہے‘ جس نے اس سے محبت کی اس نے میرے ساتھ محبت کی اور جس نے اس سے بغض کیا اس نے میرے ساتھ بغض کیا۔ (در مختار) یہ سب من گھڑت اور واحیات ہیں۔
ملا جیون اصولی حنفی:
اصول فقہ حنفی کی درسی کتاب ’’نور الانوار‘‘ کے مصنف ہیں۔ اس میں ایک حدیث ان الفاظ سے بیان کرتے ہیں: ((اشار عليه السلام بقوله الخمر لهم كا الخل لنا والخنزير لهم كالشاة لنا )) یعنی اسی طرف ہی آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے اپنے قول میں اشارہ کیا ہے کہ ان کے لیے شراب ایسے ہے جیسے ہمارے لیے سرکا ہے‘ اور ان کے لیے خنزیر اس طرح ہے جس طرح ہمارے لیے بکری ہے۔ ( نور الانوار صفحہ 60 مبحث الامر ) یہ بھی خالص رسول اللہ صلى الله عليه وسلم پر افترا ہے، کوئی ابو بزل ہو یا ابو مغالطہ اس روایت کو ثابت نہیں کر سکتا۔
علامہ ابن همام:
بن کا شہر فقہاء احناف کے ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں ابو بلال جیسے تمام مقلد مجتہد فی المذهب کہتے ہیں۔ موصوف ابن ھمام گردن پر مسح کے جواز کے ثبوت میں فرماتے ہیں کہ ترمذی نے حضرت وائل بن حجر سے روایت کی ہے: ((ثم مسح على راسه ثلاثا و ظاهرا ذنيه ثلاثا و ظاهر رقبته )) یعنی پھر رسول اللہ ﷺ نے سر مبارک کا مسح تین بار فرمایا اور تین بار ہی کانوں کے ظاہری حصہ کا مسح فرمایا اور ایساہی تین بار گردن کا مسح فرمایا۔ (فتح القدیر ص 23 ج 1) ان الفاظ کا مجموعہ ترمذی تو کجا پورے ذخیرہ احادیث میں نہیں ہے۔ یہ مولوی اسماعیل کے مجتہد فی المذهب ( ابن ھمام) کی وضع کردہ ہے۔
صاحب ہدایہ:
ان کا شمار فقہائے احناف کے ان لوگوں میں ہوتا ہے جن پر تمام مقلدین کو فخر ہے‘ انہوں نے موضوع و من گھڑت روایات اس قدر بیان کی ہیں کہ اگر ہم ان کو شمار کریں تو چالیس اربعین بنا سکتے ہیں، مگر ہمارا مقصود استیعاب نہیں صرف یہ بتانا مطلوب ہے کہ وضاعین میں ان کا بھی شمار ہوتا ہے۔ چنانچہ اپنے مذھب کی وکالت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (( لقوله عليه السلام من صلى خلف عالم تقى فكانما صلى خلف النبي )) یعنی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جس نے متقی عالم کی اقتداء میں نماز ادا کی اس نے گویانبی کے پیچھے نماز پڑھی۔ (حدایہ ص122ج1)
پورے ذخیرہ احادیث میں اس کا قطعاً کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ صاحب ھدایہ نے اللہ کے خوف کو بالائے طاق رکھ کر وضع کی ہے۔ حافظ ابن حجر نے (درایہ ص 161 ج1 ) میں ’’لم اجد‘‘ کہا ہے ملا علی القاری حنفی نے ( موضوعات 121) میں ’لا اصل لہ‘کہا ہے، علامہ زیلعی حنفی نے (نصب الرایہ ص 26 ج 2) میں ’غریب‘ لکھا ہے علامہ البانی نے ’’لا اصل لہ کہا ہے‘‘ الضعیفہ رقم الحدیث 573 ‘علامہ فتنی نے’ الم اقف علیہ بھذا الفظ‘ کہا ہے‘ تذکرہ 40
حنفیت کے چالیس جواہر پارے
اس تحریر کی فصل اول میں ہم نے حنفی دیو بندیوں کی دس ایسی ھیرا پھیریاں نقل کی ہیں جو ان لوگوں نے کتب احادیث میں کی ہیں۔ فصل دوم میں پند رہ ایسی خیانتوں کو بتایا ہے جس میں انہوں نے الفاظ نبوی میں مسلک کی پاسداری میں حک و اضافہ کیا ہے اور فصل سوم میں حنفی دیو بندی اور اکابر احناف کی پندرہ ایسی روایات کی نشان دہی کی ہے جنہیں ان لوگوں نے اپنی طرف سے ایجاد کر کے رسول اللہ ﷺ پر بہتان و افترا کیا ہے۔