نماز کے ممنوع اوقات میں نماز اور جماعت میں شامل ہونے کا حکم
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 02

سوال

اگر نماز کا وقت ختم ہونے کے قریب ہو اور نماز شروع کر دی جائے یا ممنوعہ اوقات میں نماز ادا کی جائے، اور اسی دوران جماعت کھڑی ہو جائے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اس بارے میں کیا عمل تھا؟

جواب

حدیث میں اس بارے میں یہ ارشاد موجود ہے:
"من أدرك ركعةً من الصبحِ قبلَ أن تطلعَ الشمسُ فقد أدرك الصبحَ ومن أدركَ ركعةً من العصرِ قبلَ أن تغربَ الشمسُ فقد أدرك العصرَ”
(متفق علیہ، مشکوٰة باب تعجیل الصلوٰة)

ترجمہ: "جو شخص طلوع شمس سے پہلے فجر کی ایک رکعت پا لے، اس نے فجر کی نماز پا لی، اور جو شخص غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لے، اس نے عصر کی نماز پا لی۔”

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے ایک رکعت ادا کر لی جائے، تو پوری نماز مکمل کرنی چاہیے۔ لیکن اگر جماعت کھڑی ہو جائے اور آپ پہلی نماز کی آخری رکعت کے رکوع میں نہ پہنچے ہوں، تو نماز کو توڑ دینا چاہیے اور جماعت میں شامل ہو جانا چاہیے۔

حدیث میں آیا ہے:
"إذا أقيمت الصلاةُ فلا صلاةَ إلَّا التي أُقيمَت”
(مسند احمد، ابوداؤد)

ترجمہ: "جب جماعت کی اقامت ہو جائے، تو پھر کوئی اور نماز نہیں ہوتی سوائے اس نماز کے جس کی اقامت ہوئی ہے۔”

اقامت کے بعد نماز کی نفی

اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اقامت کے بعد کوئی اور نماز نہیں ہونی چاہیے، چاہے وہ فرض ہو یا نفل۔ نماز کا کم از کم درجہ ایک رکعت ہے، جیسا کہ وتر کی نماز ایک رکعت ہے، اور صلوٰة الخوف میں بھی ایک رکعت ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص ایک رکعت پڑھ چکا ہے، تو وہ نماز مکمل کر لے۔ لیکن اگر ایک رکعت بھی نہیں پڑھ پایا، تو نماز توڑ دے اور جماعت میں شامل ہو جائے۔

اقامت کے بعد نماز کی نیت

اگر نماز عصر کی جماعت کھڑی ہو اور کسی شخص کی ظہر کی نماز باقی ہو، تو کیا وہ ظہر کی نیت کرے یا عصر کی؟ اس معاملے میں عصر کی نیت کرنے کی دلیل اس حدیث کے ظاہر الفاظ ہیں کہ "جب اقامت ہو جائے، تو وہی نماز پڑھی جائے جس کی اقامت ہوئی ہے”۔ لہذا، عصر کی نیت کرنی چاہیے۔

اگر امام کو دیر ہو جائے اور عصر کا وقت ختم ہونے کے قریب ہو، تو ظہر کی نیت کرنے کی صورت میں دونوں نمازیں (ظہر اور عصر) قضاء ہو سکتی ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ امام کے ساتھ عصر کی نیت کر کے نماز پڑھ لی جائے، تاکہ عصر کی نماز قضا نہ ہو، اور بعد میں ظہر کی قضاء کر لی جائے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ ثابت ہے کہ اگر کسی کی پہلی نماز رہ جاتی اور جماعت کی اقامت ہو جاتی، تو وہ جماعت میں شامل ہو جاتے اور جماعت کی نماز مکمل کرنے کے بعد اپنی قضاء نماز ادا کرتے۔

ظہر اور مغرب کی نیت

اگر عصر یا عشاء کی اقامت ہو جائے اور کسی شخص کی ظہر یا مغرب کی نماز رہ گئی ہو، تو کیا وہ امام کے ساتھ ظہر یا مغرب کی نیت کر کے نماز پڑھے؟ اس بارے میں دو رائے پائی جاتی ہیں:

پہلی نماز کی نیت

پہلی نماز کی نیت کرنے کی دلیل یہ ہے کہ عصر اور فجر کے بعد نماز کا وقت مکروہ ہوتا ہے، اور اگر امام کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی جائے تو ظہر کی نماز مکروہ وقت میں پڑھی جائے گی، جو درست نہیں۔ نیز ترتیب کا لحاظ ضروری ہے، یعنی پہلی نماز پہلے اور دوسری بعد میں ادا کرنی چاہیے۔

پچھلی نماز کی نیت

اگر پچھلی نماز (عصر یا عشاء) کی نیت کر لی جائے، تو اس کا فائدہ یہ ہے کہ کم از کم وہ نماز وقت پر ادا ہو جائے گی۔ بعض علماء کے نزدیک دونوں طرف دلائل موجود ہیں، اس لیے کسی بھی نماز کی نیت کی جا سکتی ہے۔

مکروہ اوقات میں نماز

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عصر اور فجر کے بعد فرض نمازوں کی قضاء دینا درست نہیں، کیونکہ ان اوقات میں نماز منع ہے۔ لیکن یہ خیال درست نہیں، کیونکہ مکروہ اوقات میں قضاء نماز منع نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد ظہر کی سنتوں کی قضاء کی ہے، اور فجر کی سنتیں بھی فجر کی نماز کے بعد ادا کی جا سکتی ہیں۔

خلاصہ

◄ اگر نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے ایک رکعت ادا کر لی جائے، تو پوری نماز مکمل کرنی چاہیے۔
◄ اقامت کے بعد وہی نماز پڑھی جائے جس کی اقامت ہوئی ہو۔
◄ اگر پچھلی نماز رہ گئی ہو، تو امام کے ساتھ موجودہ نماز کی نیت کریں اور بعد میں پچھلی نماز کی قضاء کر لیں۔
◄ دونوں طرف دلائل موجود ہیں، اس لیے کسی بھی نماز کی نیت کی جا سکتی ہے، لیکن ترتیب کا لحاظ بہتر ہے۔

حوالہ جات

"من أدرك ركعةً من الصبحِ قبلَ أن تطلعَ الشمسُ فقد أدرك الصبحَ ومن أدركَ ركعةً من العصرِ قبلَ أن تغربَ الشمسُ فقد أدرك العصرَ”
(متفق علیہ، مشکوٰة باب تعجیل الصلوٰة)
"إذا أقيمت الصلاةُ فلا صلاةَ إلَّا التي أُقيمَت”
(مسند احمد، ابوداؤد)
تنظیم اہل حدیث، جلد نمبر ۳، شمارہ نمبر ۲۷

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے