وَرَوَى عَلْقَمَةُ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: صَلَّى [لَنَا رَسُولُ اللَّهِ لَهِ قَالَ إِبْرَاهِيمُ: زَادَ أَوْ نَقَصَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَفِيهِ: إِذَا شَكٍّ أَحَدُكُمُ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَتَحَرَّ الصَّوَابَ فَلْيُتِمَّ عَلَيْهِ ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْن – لفظ مُسلِم
علقمہ نے روایت کیا کہتے ہیں کہ عبداللہ نے بیان کیا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ابراہیم نے بیان کیا کہ آپ نے نماز میں اضافہ کر دیا یا کمی کر دی، پھر حدیث بیان کی اور اس میں یہ بھی کہا: ”جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شک کرے تو درستی تلاش کرے اور اس پر اپنی نماز پوری کرے پھر دو سجدے کر لے ۔“
تحقیق و تخریج:
بخاری: 401 ، مسلم: 572
فوائد:
➊ نماز پڑھتے ہوئے جب بھول ہو جائے تو دو سجدے سہو کے کیسے جائیں گے یہ دو سجدے نماز میں کمی واقع ہونے کی صورت میں سلام سے پہلے ہوں گے اور اگر زیادتی واقع ہو جائے تو سلام کے بعد ہوں گے ۔
➋ نمازی کانماز میں بھول جانا کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ یہ لازم دیکھنا چاہیے کہ آیا میں نے تین رکعت نماز پڑھی ہے یا چار ۔ شک کے لاحق ہونے پر شک کو دور کیا جائے اور ایک بات پر یقین کر لیا جائے ۔ مثال کے طور پر اس نے یہ یقین کیا کہ ”ظہر“ کی رکعات تین پڑھی ہیں تو چوتھی رکعت پڑھے گا اور سلام سے پہلے دو سجدے سہو کے کر کے سلام پھیرے گا لیکن دو سجدوں کے بعد تشہد نہیں پڑھے گا اگر پڑھ لے تو حرج نہیں ہے ۔
➌ بھول کا یاسہو کا کفارہ دو سجدے ہیں ان کی جگہ پر اور کوئی عمل نہیں کیا جا سکتا اور یہ دو سجدے ہی کیے جائیں گے ایک سجدہ نہ
ہو گا ہاں اگر کوئی سہو کا ایک سجدہ کرتا ہے دوسرا بھول جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں بھول کا کفارہ ادا ہو جائے گا ۔
➍ یہ دو سجدے شیطان کی ذلت کا موجب ہوتے ہیں ۔
➎ جب نمازی بھول جائے یا شک پیدا ہو جائے تو خوب سوچ و بچار سے کام لینا چاہیے تاکہ معاملہ واضح ہو جائے پھر اگر کوئی رکعت رہتی ہو تو پڑھ لے سلام سے پہلے دو سجدے کرے گا ۔
وَعِنْدَ أَبِي دَاوُدَ: فَلْيُتِمَّ عَلَيْهِ ثُمَّ لِيُسَلِّمْ، ثُمَّ لِيَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحَيْنِ
ابوداؤد کے نزدیک یہ ہے ”اس پر نماز کو پورا کرے پھر سلام پھیر دے پھر دو سجد کرے ۔“ اس حدیث کے راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں ۔
تحقیق و تخریج:
یہ حدیث صحیح ہے ۔ ابوداؤد: 1020 ۔
وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ فَقَالَ: إِذَا زَادَ الرَّجُلُ أَوْ نَقَصَ فَلْيَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ
مسلم کی ایک روایت میں ہے آپ نے فرمایا: ”جب آدمی نماز میں اضافہ کرے یا کمی تو دو سجدے کر لے“
تحقيق و تخریج:
مسلم: 572
فوائد:
➊ اگر نماز میں زیادتی واقع ہو جائے تو پھر سلام کے بعد دو سجدے کرنے چاہئیں لیکن ان دو سجدوں کے بعد تشہد میں اختیار ہے تشہد پڑھ بھی سکتا ہے نہ بھی پڑھے تو حرج نہیں ہے ۔
➋ نماز میں بھول کر نمازی زیادتی کر بیٹھے تو گناہ نہیں ہے اسی طرح کمی واقع ہونے پر بھی گناہ نہیں ہے ۔ یعنی بھول قابل گرفت عمل نہیں ہے ۔
وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللهِ إِحْدَى صَلَاتِي الْعَشِيِّ: إِمَّا الظُّهْرَ وَإِمَّا الْعَصْرَ، فَسَلَّمَ فِي رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَنِّي جِدعًا فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ فَاسْتَنَدَ إِلَيْهَا مُغْضَبًا وَفِي الْقَوْمِ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، فَهَا يَا أَنْ يُكَلِّمَاهُ، وَخَرَجَ سَرْعَانَ النَّاسُ فَقَالُوا قُصِرَتِ الصَّلَاةُ فَقَامَ ذُو الْيَدَيْنِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَقْصِرَتِ الصَّلَاةُ أَمْ نَسِيتَ؟ فَنَظَرَ النَّبِيُّ لَمْ يَمِينًا وَشِمَالًا فَقَالَ: مَا يَقُولُ ذُو الْيَدَيْنِ؟ فَقَالُوا: صَدَقَ لَمْ تُصَلِّ إِلَّا رَكْعَتَيْنِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ كَبَّرَ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ كَبَّرَ، فَرَفَعَ ثُمَّ كَبَّرَ وَسَجَدَ، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ قَالَ: وَأُخْبِرْتُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ أَنَّهُ قَالَ: وَسَلَّمَ – لَفْظُ مُسْلِمٍ
محمد بن سیرین سے روایت ہے وہ حضرت بوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھائی ظہر کی یا عصر کی، دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیا پھر آپ مسجد میں قبلہ جانب ایک درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے آپ ناراض دکھائی دیتیتھے، قوم میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے وہ آپ سے بات کرنے سے ہچکچائے، لوگ جلدی سے نکلے باتیں کرنے لگے کہ نماز کم ہو گئی ہے ذوالیدین کھڑا ہوا تو اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں دیکھا اور فرمایا: ”ذوالیدین کیا کہتا ہے؟ “ لوگوں نے کہا: یہ سچ کہتا ہے آپ نے صرف دو رکعتیں پڑھی ہیں ، پھر آپ نے دو رکعتیں پڑھیں اور سلام پھیر دیا پھر اللہ اکبر کہا اور سجدہ کیا پھر اللہ اکبر کہا اور سجدہ کیا پھر اللہ اکبر کہا: اور سر اٹھایا ، راوی کا بیان ہے کہ عمران بن حصین نے کے ذریعے مجھے پتا چلا اور کہا کہ آپ نے سلام پھیر دیا ۔ مسلم کے الفاظ ہیں ۔
تحقیق و تخریج:
بخاری: 1229 ، مسلم: 573
وَفِي رِوَايَةٍ عِنْدَ الْبُخَارِيِّ فَقَالَ: أُنسِيتَ أَمْ قَصُرَتِ [الصَّلَاةُ؟ فَقَالَ: لَمُ أَنْسَ وَلَمْ تَقْصُرُ قَالَ: بَلَى قَدْ نَسِيتَ
بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے، اس نے کہا کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز کم کر دی گئی ہے آپ نے فرمایا: ”نہ میں بھولا ہوں اور نہ ہی نماز کم کی گئی ہے اس نے کہا جی ہاں آپ بھول گئے ہیں ۔
تحقيق و تخریج:
بخاری 1229
وَفِي رِوَايَةٍ عِندَ أَبِي دَاوُدَ: فَاؤُمَؤُوا أَي نَعَمْ وَعِندَهُ فِي رِوَايَةٍ فِي قِصَّةِ ذِي الْيَدَيْنِ كَبَّرَ ثُمَّ كَبَّرَ وَسَجَدَ
ابوداؤد کی ایک روایت میں ہے ”انہوں نے اشارہ کیا کہ ہاں“ اسی کی روایت میں زولیدین کے قصے میں یہ ہے ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا پھر اللہ اکبر کہا: اور سجدہ کیا ۔ “
تحقیق و تخریج:
یہ حدیث صحیح ہے ۔ ابوداؤد: 1011، 1008
فوائد:
➊ بھول جانا منصب نبوت اور عالی مقام نبی کی شان میں عیب نہیں ہے ۔ اسی طرح کوئی نبی غیب نہیں جانتا اور نہ ہی اس نے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ کیا ہے یہ بھی معلوم ہوا بھول جانا انسان کا خاصہ ہے اور ہر نبی ورسول بالکل انسان ہی تھا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھول سرزد ہوئی ہے اس میں ائمہ کرام اور جمہور علماء متفق ہیں حتی کہ صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اس بات کے معتقد تھے اور ان کا مشاہدہ بھی ہے اس امر میں کسی تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
➋ امام مسجد کسی ستون یا اور چیز کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ سکتا ہے کوئی حرج نہیں جبکہ وہ نماز پڑھا لے ۔
➌ غصہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے ۔ یہ انسان کے مزاج کی عکاسی کرتا ہے غصہ کا استعمال جائز ہونا چاہیے مثال کے طور پر انسان کسی سے لڑتا ہے تو اس موقع پر غصہ پر کنٹرول کرنا چاہیے غصے پر قابوپاکر نہ لڑنا یہ بہت بڑا عمل ہے اس کے برعکس انسان اپنی آنکھوں کے سامنے ایک مسلمان کی عزت لٹتی دیکھے یا برائی ہوتے دیکھے یا اللہ اور اس کے رسول کی ذلت ہوتے دیکھے پھر غصہ نہ آئے تو یہ جذبے کا تقاضہ نہ ہو گا بلکہ اس موقع پر غصہ کرنا اور غصہ سے پیش آنا جب وہ طاقتور بھی ہو تو جائز ہے ۔
➍ مقتدیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ امام کے پیچھے توجہ سے کھڑے ہوں امام بھول جائے تو اس کو متنبہ کریں اگر اس دوران مقتدیوں کو بھی شک گزرے تو امام جب سلام پھیر لے تو بعد میں وہ امام سے نماز کی زیادتی یا کمی کے بارے سوال کر سکتے ہیں لیکن امام کے آداب کو بجالاتے ہوئے امام سے بات کی جائے کیونکہ امام ایک مقدس ہستی ہوتی ہے اس کا احترام مقتدیوں پر ضروری ہے مقتدیوں کو اتنا احترام کرنا چاہیے کہ وہ امام سے بات کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کریں جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ڈرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات نہ کی ۔
➎ اگر کوئی مقتدی امام کے بھول جانے پر اس کو یاد دلائے تو امام کو احسن انداز سے تسلیم کر لینا چاہیے نہ کہ آگے سے خوب جھڑ کنا چاہیے یہ امام کی شان کے خلاف ہے بلکہ کوئی بتائے تو مزید تاکید کے لیے دیگر نمازیوں سے مشورہ لینا چاہیے اور پھر اس بھول کا فور اً ازالہ کرنا چاہیے ۔ جہاں نمازیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ امام کی قدر کریں وہاں امام کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے مقتدیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھے اور عمدہ طریقے سے پیش آئے ۔
➏ کسی کے سوال کا جواب صرف سر ہلا کر دینا بھی درست ہے ۔
➐ کسی کو پیار سے اس کا اصل نام کی بجائے اور نام سے پکارنا درست ہے استہزاء اور تکلیف دینے کی غرض سے کسی کا الٹا نام لینا شرعاً ناجائز ہے ۔
➑ کوئی نماز چار رکعت ہو اور نمازی نے دو رکعتیں اداکی ہوں اور سلام پھیرا گیا ہو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ دو رکعتیں کھڑا ہو کر پڑھے اور سجدہ سہو کرے ۔ اس حدیث میں سجدہ سہو سلام کے بعد ہے سجدہ سہو میں تکبیر بھی کہنی چاہیے ۔
➒ امام کی بھول بھی کی بھول ہوتی ہے جبکہ مقتدیوں کی بھول امام پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔
وَفِي حَدَيْثٍ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ عِنْدَ مُسْلِمٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ صَلَّى الْعَصْرَ فَسَلَّمَ عَنْ ثَلاثِ رَكَعَاتٍ، فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ الْخِرُبَاقُ، وَكَانَ فِي يَدَيْهِ طُولٌ فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَذَكَرَ لَهُ صَنِيعَهُ، فَخَرَجَ غَضْبَانَ يَجُرُّ رِدَاءَ هُ حَتَّى انْتَهَى إِلَى النَّاسِ فَقَالَ: أَصَدَقَ هَذَا؟ قَالُوا: نَعَمْ فَصَلَّى رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ
مسلم شریف میں عمران بن حصین کے حوالے سے حدیث مذکور ہے ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی اور تین رکعت کے بعد سلام پھیر دیا اپنے گھر میں داخل ہو گئے ، آپ کی طرف ایک آدمی اٹھ کر گیا’ جس کا نام خرباق تھا اور اس کے ہاتھ لمبے تھے، اس نے عرض کی یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، پھر آپ کا عمل بیان کر دیا ، آپ یہ سن کرغصے سے اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے یہاں تک کہ لوگوں کے پاس آئے اور فرمایا: ”کیا یہ سچ کہتا ہے؟“ سب نے کہا ہاں ، پھر آپ نے دو رکعتیں پڑھی اور پھر سلام پھیر دیا پھر دو سجدے کئے پھر سلام پھیر دیا ۔
تحقیق و تخریج:
مسلم: 574
فوائد:
➊ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد مقامات پر متعدد انداز سے سہو ثابت ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے جمہور علماء صحابہ کرام ائمہ تابعین اور علمائے کرام ۔
➋ اس حدیث میں سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو کا ذکر ہے ۔
➌ تہبند استعمال کرنا سنت ہے ۔ اس کو ٹخنوں سے اوپر رکھنا بھی سنت ہے ۔ یہ جو حدیث میں مذکور ہے کہ آپ چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے دوسری احادیث سے ثابت ہے کہ آپ ہمیشہ چادر ٹخنوں سے اوپر رکھتے یہ مراد نہیں ہے کہ تہبند والی چادر نیچے لگ رہی تھی بلکہ وہ چادر ہے جو آپ نے اوپر لی ہوتی تھی وہ تو بعض دفعہ جلدی میں نیچے گر جاتی ہے ۔
➍ نماز میں کئی بار بھول ہو جائے تو سجدے دو ہی ہوں گے ۔
وَعِنْدَأَبِي دَاوُدَ عَنْ عِمْرَانَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى بِهِمْ فَسَهَا، فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ تَشَهَّدَ ثُمَّ سَلَّمَ
ابوداؤد میں عمران سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی تو آپ بھول گئے آپ نے دو سجدے کیے پھر تشہد کیا پھر سلام پھیرا ۔
تحقیق و تخریج:
ابوداود: 1039، ترمذی: 395، نسائی: 62/3، ابن خزيمة: 1062، ابن حبان: 2660 مستدرك حاكم: 1/323
فوائد:
➊ سلام کے بعد اور سجدہ سہو کرنے کے بعد تشہد بیٹھنا اور پڑھنا اختیاری عمل ہے یہ ضروری نہیں ہے ۔
➋ اللہ تعالیٰ کے کاموں میں بھول ہو جائے تواللہ تعالیٰ سے معذرت کرنی چاہئیے اور معذرت و معافی کے لیے بہترین طریقہ سجدہ ہے جو کہ قرب الہی کا سریع ذریعہ ہے ۔ اس میں سبق ہے کہ خطا کا ازالہ سجدے سے ہوتا ہے اگر انسان انسان کے حق میں کوتاہی کرے تو ایک دوسرے سے معذرت بھی کرنی چاہیے اور سجدے میں گر کر اللہ سے بھی معافی مانگنی چاہیے ۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُحَيِّنَةَ الْأَرْدِي حَلِيفٍ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَامَ فِي صَلَاةِ الظُّهْرِ وَعَلَيْهِ جُلُوسٌ، فَلَمَّا أَتَمَّ صَلَاتَهُ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ: يُكَبِّرُ فِي كُلِّ سَجْدَةٍ وَهُوَ جَالِسٌ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ وَسَجَدَهُمَا النَّاسُ مَعَهُ مَكَانَ مَا نَسِيَ مِنَ الْجُلُوسِ
لَفْظُ رِوَايَةِ مَالِكَ عِندَ الْبُخَارِيِّ –
عبد الله بن بجینہ ازدی جو بنی عبدالمطلب کا حلیف تھا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی اور آپ ایک مرتبہ بیٹھنا بھول گئے، جب نماز مکمل کر لی تو دو سجدے کیے سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے ہوئے اور ہر سجدہ میں آپ تکبیر کہتے تھے اور لوگوں نے بھی سجدہ کیا آپ کے ساتھ ، اس کے بدلے جو بیٹھنے سے بھولے تھے ۔
بخاری کے ہاں مالک کی روایت کے لفظ ہیں ۔
تحقیق و تخریج:
بخاری: 1230، مسلم: 570۔
فوائد:
➊ دو رکعتوں کے بعد والے تشہد کی بھول پر دو سجدہ سہو کرنے ہوں گے یہی کافی ہے اسی طرح یہ بھی ثابت ہوا کہ سجدہ سہو سلام پھیرنے سے قبل بھی جائز ہے ۔ سجدہ کسی بھول کا قائم مقام ہوتا ہے جیسے اس حدیث میں ہے پہلے تشہد کے لیے دو سجدہ سہو کے کفایت کیے ۔ تشہد کی قضائی کی ضرورت پیش نہ آئی ۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيُّ اللَّهِ صَلَّى الظُّهُرَ خَمْسًا فَسَجَدَ فَقِيلَ لَهُ: أَزِيدَ فِي الصَّلَاةِ؟ فَقَالَ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالُوا: صَلَّيْتَ خَمْسًا فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ لَفظُ الْبُخَارِي
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھ لی تو آپ نے سجدہ کیا آپ سے کہا گیا کیا ، نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کیا بات ہے؟ “ انہوں نے کہا آپ نے پانچ رکعت پڑھی ہیں آپ نے سلام کے بعد دو سجدے کیے ۔
تحقیق و تخریج:
بخاری: 1117 ، مسلم: 572
وَفِي رِوَايَةٍ عِنْدَ مُسْلِمٍ وَفِيهَا قِصَّةٌ: فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ
مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کیے پھر سلام پھیر دیا“
تحقیق و تخریج:
مسلم: 572
فوائد:
➊ اگر نماز میں زیادتی واقع ہو جائے تو سجدہ سہو سلام پھیرنے کے بعد ہو گا اور وہ بھی دونوں طرف سلام پھیرنے سے ۔ ایک طرف سلام پھیر کر سجدہ سہو کرنا غیر شرعی انداز ہے ۔ یہ تب ہے جب جان کر ایسے کرے اسی طرح جگہ بدلنا بھی جائز نہیں ہے ۔
➋ سجدہ سہو اسی امام کی قیادت میں ہو گا جس نے جماعت کروائی ۔
بَابُ صَلَاةِ الْمَرِيضِ