نماز سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

نماز دین اسلام کا رکن ہے

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾
(البقرة: 110)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور نماز قائم کرو اور زکاۃ دو اور جو بھلائی بھی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے، اسے اللہ کے پاس پاؤ گے، اللہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھ رہا ہے۔“

حدیث نمبر 1:

«قال عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والحج، وصوم رمضان»
(صحیح بخاری، کتاب الإیمان، رقم: 8، صحیح مسلم، کتاب الإیمان، رقم: 111، 112)
”عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ “

نماز دین اسلام کا ستون ہے

حدیث نمبر 2:

«عن معاذ بن جبل رضي الله عنه: كنت مع النبى صلى الله عليه وسلم فى سفر. قال: ألا أخبرك برأس الأمر كله وعموده وذروة سنامه؟ قلت: بلي يا رسول الله ! قال: رأس الأمر الإسلام، وعموده الصلاة، وذروة سنامه الجهاد»
(سنن ترمذی، کتاب الإیمان، رقم: 2616، مسند أحمد، رقم: 231۔ 5، مصنف عبدالرزاق، رقم: 20303، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح اور علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
”سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھا، آپ نے فرمایا: کیا میں تجھے اسلام کا سر، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتلاؤں؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ضرور بتائیں۔ تو آپ نے فرمایا: دین اسلام کا سر خود کو اللہ اور اس کے رسول کے سپرد کرنا ہے، اس کا ستون نماز اور اس کی چوٹی جہاد ہے۔ “

نماز رب تعالیٰ کے ساتھ مناجات ہے

حدیث نمبر 3:

«عن أنس بن مالك رضي الله عنه: أن النبى صلى الله عليه وسلم ر أى نخامة فى القبلة فشق ذلك عليه حتي رئي فى وجهه فقام فحكه بيده فقال: إن أحدكم إذا قام فى صلاته فإنه يناجي ربه أو إن ربه بينه وبين القبلة فلا يبصقن أحدكم قبل قبلته ولكن عن يساره أو تحت قدميه ثم أخذ طرف ردائه فبصق فيه ثم رد بعضه على بعض فقال: أو يفعل هكذا»
صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، رقم: 405
”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف (دیوار پر) بلغم دیکھا، جو آپ کو ناگوار گزرا اور ناگواری کے آثار آپ کے چہرہ مبارک پر نمایاں تھے۔ پھر آپ اٹھے اور خود اپنے ہاتھ سے اسے کھرچ ڈالا اور فرمایا: جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے، یا یوں کہ اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص (نماز میں اپنے) قبلہ کی طرف نہ تھوکے۔ البتہ بائیں طرف یا اپنے قدموں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔ پھر آپ نے اپنی چادر کا کنارہ لیا، اس پر تھوکا، پھر اسے الٹ پلٹ کیا اور فرمایا: یا اس طرح کر لیا کرو۔ “

نماز اللہ کے قریب کرتی ہے

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب﴾
(العلق: 19)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے پیغمبر! ہرگز نہیں، آپ اس کی بات نہ مانئے، اور اپنے رب کے سامنے سجدہ کیجیے اور اس کا قرب حاصل کیجیے۔ “

حدیث نمبر 4:

«عن أبو هريره رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أقرب ما يكون العبد من ربه وهو ساجد فأكثروا الدعاء»
(صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، رقم: 1083)
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ حالت سجدہ میں اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، لہٰذا سجدے میں کثرت سے دعا کیا کرو۔ “

نماز گناہوں کو مٹا دیتی ہے

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ﴾
(المائدة: 12)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اگر تم لوگ نماز قائم کرو گے، اور زکاۃ دو گے، اور میرے رسولوں پر ایمان لاؤ گے، اور ان کی مدد کرو گے، اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو گے، تو بے شک میں تمہارے گناہوں کو مٹا دوں گا، اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ پس تم میں سے جو کوئی اس عہد و پیمان کے بعد کفر کی راہ اختیار کرے گا وہ یقیناً سیدھی راہ سے بھٹک گیا۔ “

حدیث نمبر 5:

«عن أبو هريره رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وفي حديث بكر انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: أرأيتم لو أن نهرا بباب أحدكم يغتسل منه كل يوم خمس مرات هل يبقي من درنه شيء؟ قالوا: لا يبقي من درنه شيء. قال فذلك مثل الصلوات الخمس يمحو الله بهن الخطايا»
(صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلوات، رقم: 528، صحیح مسلم، کتاب المساجد، رقم: 1522)
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو، اور وہ روزانہ اس میں پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے، کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں، ہرگز نہیں یا رسول اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔“

وصیتِ نماز

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ‎. وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ﴾
(الحجر: 98 تا 99)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”پس آپ اپنے رب کی تعریف بیان کیجیے اور اس کے حضور سجدہ کرتے رہیے۔ اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیے، یہاں تک کہ آپ کو موت آ جائے۔“
وقالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا﴾
(مريم: 31)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور جب تک زندہ رہوں، مجھے نماز اور زکاۃ کی وصیت کی ہے۔ “

حدیث نمبر 6:

«عن أنس بن مالك رضي الله عنه: كانت عامة وصية رسول الله صلى الله عليه وسلم حين حضرته الوفاة وهو يغرغر بنفسه الصلاة وما ملكت أيمانكم»
(سنن ابن ماجہ، کتاب الوصایا، رقم: 2697، إرواء الغلیل، رقم: 2178، فقه السیرہ، رقم: 501، علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
”سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آخری لمحات زندگی میں بوقت رحلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام وصیت اور امت سے آپ کا آخری عہد و پیمان یہی تھا کہ وہ نماز کے متعلق اور غلاموں کے سلسلہ میں اللہ سے ڈریں۔“

حدیث نمبر7:

«عن أبو الدرداء رضي الله عنه: أوصاني خليلي صلى الله عليه وسلم أن: لا تشرك بالله شيئا وإن قطعت وحرقت ولا تترك صلاة مكتوبة متعمدا فمن تركها متعمدا فقد برئت منه الذمة ولا تشرب الخمر فإنها مفتاح كل شر»
(سنن ابن ماجہ، کتاب الدعاء، رقم: 4034، إرواء الغلیل، رقم: 2086، التعليق الرغیب: 1-195، مشکوۃ المصابیح، رقم: 580، علامہ البانی نے اسے حسن کہا ہے۔ )
”سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے میرے انتہائی مخلص دوست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی: تم اللہ کے ساتھ کسی غیر کو شریک نہ ٹھہرانا، چاہے تجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا تجھے جلا دیا جائے۔ اور فرض نماز کو قصداً نہ چھوڑنا کیونکہ جس نے فرض نماز کو جان بوجھ کر چھوڑا اس سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت اٹھ گئی۔ اور شراب مت پینا کیونکہ وہ ہر برائی کا دروازہ کھولنے والی چیز ہے۔ “

نماز آنکھوں کی ٹھنڈک ہے

حدیث نمبر8:

«عن أنس رضي الله عنه: أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: حبب إلى من الدنيا النساء والطيب وجعل قرة عيني فى الصلاة»
(صحیح الجامع الصغیر، رقم: 3124، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیاوی اشیاء میں سے مجھے میری بیویاں اور خوشبو پسند ہے، اور نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ “

نماز باعث بخشش ہے

وقالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ .‏ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ.﴾
(إبراهيم: 40 تا 41)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنا دے، اے ہمارے رب! اور میری دعا کو قبول فرما۔ اے ہمارے رب! تو مجھے اور میرے والدین کو اور مومنوں کو اس دن معاف کر دے جب حساب ہو گا۔ “

حدیث نمبر9:

«قال عباده بن الصامت رضي الله عنه: أشهد أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: خمس صلوات افترضهن الله تعالي من أحسن وضوءهن وصلهن لوقتهن وأتم ركوعهن وخشوعهن كان له على الله عهد أن يغفر له ومن لم يفعل فليس له على الله عهد إن شاء غفر له وإن شاء عذبه»
(سنن ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، رقم: 425، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
”سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جو شخص ان نمازوں کے لیے اچھی طرح وضو کرے، اور انہیں ان کے اوقات مقررہ میں پڑھے، اور ان کے رکوع اور خشوع کا پوری طرح خیال رکھے، تو یہ بات اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے لی ہے کہ اسے بخش دے۔ اور جو اس طرح نہ کرے تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے تو اسے معاف کر دے اور چاہے تو اسے عذاب دے۔ “

روز محشر نماز کے بارے پرسش ہوگی

حدیث نمبر10:

«عن أبو هريره رضي الله عنه: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن أول ما يحاسب به العبد يوم القيمة من عمله صلاته فإن صلحت فقد أفلح وأنجح وإن فسدت فقد خاب وخسر فإن انتقص من فريضته شيء قال الرب تبارك وتعالي أنظروا هل لعبدي من تطوع فيكمل بها ما انتقص من الفريضة ثم يكون سائر عمله على ذلك»
(سنن ترمذی، ابواب الصلاۃ، رقم: 413، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: روز قیامت ہر بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کا حساب لیا جائے گا، اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب و کامران ہو گا، اور اگر نماز خراب ہوئی تو ناکام و نامراد ہو گا۔ اگر بندہ کے فرائض میں کچھ کمی ہوئی تو رب تعالیٰ فرمائے گا: میرے بندے کے نامہ اعمال میں دیکھو کوئی نفلی عبادت ہے؟ اگر ہوئی تو نفل کے ساتھ فرائض کی کمی پوری کی جائے گی، پھر اس کے تمام اعمال کا حساب اسی طرح ہو گا۔ “

سنن راتبہ کی محافظت کا حکم

حدیث نمبر11:

«عن أم حبيبه رضي الله عنها: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى فى يوم وليلة اثنتي عشرة ركعة بني له بيت فى الجنة أربعا قبل الظهر وركعتين بعدها وركعتين بعد المغرب وركعتين بعد العشاء وركعتين قبل صلاة الفجر»
(سنن ترمذی، کتاب الصلاۃ، رقم: 419، مسند أبو داؤد طیالسی، رقم: 419، مصنف ابن أبی شیبہ: 2-204، 203، مسند أحمد: 6-326، 327، صحیح ابن خزیمہ، رقم: 1185، 1186، 1392، 1187، صحیح ابن حبان، رقم: 2452، 2451، مستدرک حاکم: 1-311، ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم اور محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
”سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص باقاعدگی سے بارہ رکعت سنتیں ادا کرے، اس کے لیے جنت میں گھر بنا دیا جاتا ہے ظہر سے پہلے چار رکعت، اور اس کے بعد دو رکعت، دو رکعت نماز مغرب کے بعد، دو رکعت نماز عشاء کے بعد اور دو رکعت نماز فجر سے پہلے۔ “

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد پر مداومت

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا﴾
(الإسراء: 79)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور رات کے کچھ حصے میں تہجد کے لیے قرآن پڑھیے، یہ آپ کے لیے زائد نماز ہوگی۔ امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر پہنچا دے گا۔ “

حدیث نمبر12:

«عن المغيره رضي الله عنه: قام النبى صلى الله عليه وسلم حتي تورمت قدماه فقيل له: غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر؟ قال: أفلا أكون عبدا شكورا؟»
(صحیح بخاری، کتاب التفسیر، رقم: 4836)
”سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اتنا لمبا قیام فرماتے کہ آپ کے دونوں پاؤں مبارک کو ورم پڑ جاتا۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کر دی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ “

نماز میں خشیت الٰہی

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ. الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ.﴾
(المؤمنون: 1، 2)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”یقیناً ان مومنوں نے فلاح پا لی جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں۔ “

حدیث نمبر13:

«عن ثابت عن مطرف عن أبيه: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وفي صدره أزيز كأزيز الرحي من البكاء»
(سنن أبو داؤد، كتاب الصلاة، باب البكاء فى الصلاة، رقم: 904، صحيح ابن حبان، رقم: 753، مستدرك حاكم: 1-246، مسند أحمد: 4-25، رقم: 161312، ابن حبان، حاکم، ذہبی اور علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
”سیدنا عبد اللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا، نماز میں رونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے سے چکی چلنے کی طرح آواز آ رہی تھی۔ “

نماز دنیا سے بے رغبتی کا درس دیتی ہے

حدیث نمبر 14:

«عن أبو أيوب الأنصاري رضي الله عنه: جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: عظني وأوجز فقال: إذا قمت فى صلاتك فصل صلاة مودع ولا تكلم بكلام تعتذر منه غدا واجمع الإياس مما فى يدي الناس»
(معجم كبیر للطبرانی: 446، رقم: 5459، الاصابہ: 3-70، مسند أحمد: 4-205، رقم: 23498، حافظ ابن حجر نے اس کے راویوں کو ثقہ اور شیخ شعیب نے اس کی سند کو حسن کہا ہے)
”سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: مجھے مختصر الفاظ میں نصیحت کیجیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نماز پڑھو تو اسے الوداعی نماز سمجھ کر ادا کرو اور ایسی بات مت کرو کہ کل کو اس سے معذرت کرنی پڑے ۔ “

نماز عصر سے پہلے چار رکعت سنتیں ادا کرنے کا حکم

حدیث نمبر 15:

«عن ابن عمر رضي الله عنهما: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: رحم الله امرأ صلى قبل العصر أربعا»
(سنن أبو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ قبل العصر، رقم: 1271، سنن ترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ما جاء فی الأربع قبل العصر، رقم: 430، مسند ابو داؤد طیالسی، رقم: 1936، مسند أحمد: 2-117، السنن الكبری للبیہقی: 473، شرح السنہ، رقم: 893، صحیح ابن خزیمہ، رقم: 1193، صحیح ابن حبان، رقم: 2453، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اسے صحیح اور علامہ البانی نے اسے حسن کہا ہے)
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نماز عصر سے قبل چار رکعتیں ادا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ “

نماز میں بھول جانے پر سجدہ سہو کا حکم

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ . مَلِكِ النَّاسِ ‎. إِلَٰهِ النَّاسِ ‎.‏ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ . الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ .‏ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ.﴾
(الناس: 1 تا 6)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے میرے نبی! آپ کہہ دیجیے: میں انسانوں کے رب کی پناہ میں آتا ہوں، انسانوں کے حقیقی بادشاہ کی پناہ میں، انسانوں کے تنہا معبود کی پناہ میں، وسوسہ پیدا کرنے والے، چھپ جانے والے شیطان کے شر سے، جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ پیدا کرتا ہے، چاہے وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔ “

حدیث نمبر 16:

«ان أبو هريره رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا نودي بالأذان أدبر الشيطان له ضراط حتي لا يسمع الأذان فإذا قضي الأذان أقبل فإذا ثوب بها أدبر فإذا قضي التنويب أقبل يخطر بين المرء ونفسه يقول اذكر كذا اذكر كذا لما لم يكن يذكر حتي يظل الرجل إن يدري كم صلى فإذا لم يدر أحدكم كم صلى فليسجد سجدتين وهو جالس»
(صحیح البخاری، کتاب السهو، باب اذا لم یدر كم صلی الخ، رقم: 1174، صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب فضل الأذان، رقم: 389)
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مؤذن نماز کی اذان دیتا ہے تو شیطان دور بھاگتا ہے اور اس کی ہوا نکلتی جاتی ہے، تاکہ وہ اذان کے الفاظ نہ سن لے۔ جب اذان ختم ہوتی ہے تو وہ واپس لوٹ آتا ہے، پھر جب اقامت ہوتی ہے تو بھاگ جاتا ہے، جب اقامت ختم ہوتی ہے تو واپس پلٹ آتا ہے، حتیٰ کہ انسان کے خیالات میں گھس جاتا ہے، اور اسے ایسی ایسی چیزیں یاد دلاتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں نہیں ہوتیں، حتیٰ کہ اسے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ جب تم میں سے کسی کے ساتھ یہ معاملہ ہو تو وہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے۔ “

نماز انسان کو راحت پہنچاتی ہے

حدیث نمبر 17:

«عن سالم بن أبى الجعد: قال رجل من خزاعة: ليتني صليت فاسترحت فكأنهم عابوا عليه ذلك فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يا بلال أقم الصلاة أرحنا بها»
(سنن أبو داؤد، کتاب الأدب، باب فی الصلاۃ العتمة، رقم: 4985، المشكاة، رقم: 1253، علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
”سالم بن ابو الجعد سے روایت ہے کہ خزاعہ (قبیلہ) کے ایک شخص نے کہا: کاش! میں نماز ادا کر لیتا اور راحت حاصل کر لیتا۔ یوں لگا جیسے بعض لوگوں نے اس کی بات کو معیوب سمجھا، تو اس نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: اے بلال! نماز کی تکبیر کہو اور ہمیں اس سے راحت پہنچاؤ۔ “

گھر والوں کو نماز کا حکم دینا

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا﴾
(طه: 132)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجیے اور خود بھی اس کی پابندی کیجیے۔“
وقالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ﴾
(مريم: 55)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکاۃ کا حکم دیتے تھے۔“

حدیث نمبر 18:

«عن أبو هريره رضي الله عنه: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: رحم الله رجلا قام من الليل فصلي وأيقظ امراته فإن أبت نضح فى وجهها الماء رحم الله امرأة قامت من الليل فصلت وأيقظت زوجها فإن أبى نضحت فى وجهه الماء»
(سنن أبو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب قیام اللیل، رقم: 1308، صحیح أبو داؤد، للألبانی: 1-358)
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے، اور اپنی اہلیہ کو بھی جگائے، اور اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔ اللہ تعالیٰ اس عورت پر بھی رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے، اور اپنے خاوند کو بھی جگائے، پس اگر وہ انکار کرے تو وہ اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔ “

اولاد کو نماز کی تعلیم دینا

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ﴾
(لقمان: 17)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” (لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کہا ) اے میرے بیٹے! نماز قائم کر، بھلائی کا حکم دے، اور برائی سے روک، اور تجھے جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کر، بے شک یہ سارے کام بڑی ہمت کے اور ضروری ہیں۔ “

حدیث نمبر 19:

«عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين واضربوهم عليها وهم أبناء عشر وفرقوا بينهم فى المضاجع»
(سنن أبو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب متى یؤمر الغلام بالصلاۃ، رقم: 495، صحیح أبو داؤد، للألبانی: 1-144، 145)
”جناب عمرو اپنے باپ شعیب سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی اولاد کو سات برس کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم کرو، جب دس برس کے ہو جائیں تو انہیں نماز نہ پڑھنے پر سزا دو، اور ان کے بستر بھی الگ کر دو۔ “

بے نماز مشرک ہے

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾
(الروم: 31)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اس سے ڈرو، اور نماز کو قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ۔“
وقالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ‎. وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ.﴾
(التوبة: 11، 12)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”پس اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں، اور ہم اپنی آیتیں جاننے والوں کے لیے تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ اور اگر وہ معاہدہ کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں عیب نکالیں تو سرداران کفر سے جنگ کرو، ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں، شاید کہ وہ (اپنی کافرانہ حرکتوں سے) باز آ جائیں۔ “

حدیث نمبر 20:

«عن أبو سفيان: سمعت جابرا رضى الله عنه يقول: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: إن بين الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلاة»
(صحیح مسلم، کتاب الإیمان، رقم: 247، سنن ترمذی، کتاب الإیمان، رقم: 2619)
”سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے سنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرما رہے تھے بے شک بندے اور شرک و کفر کے درمیان فرق قائم کرنے والی نماز ہے۔ “

حدیث نمبر 21:

«عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أمرت أن أقاتل الناس حتي يشهدوا أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله ويقيموا الصلاة ويؤتوا الزكوة فإذا فعلوا عصموا مني دماهم وأموالهم إلا بحقها وحسابهم على الله»
(صحیح بخاری، کتاب الایمان، رقم: 25، صحیح مسلم، کتاب الایمان، رقم: 22)
”حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑائی کروں حتیٰ کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کریں، اور زکاۃ ادا کریں۔ پس جب وہ یہ کام کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنی جان و مال کو محفوظ کر لیں گے، سوائے اسلام کے حق کے۔ (رہا ان کے دل کا حال تو) ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ “

حدیث نمبر 22:

«عن أم سلمه رضي الله عنها: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ستكون أمراء فتعرفون وتنكرون فمن عرف برئ ومن أنكر سلم ولكن من رضي وتابع قالوا: أفلا نقاتلهم؟ قال: لا ما صلوا»
(صحیح مسلم، کتاب الإمارة، باب وجوب الإنكار علی الأمراء فی ما یخالف الشرع، رقم: 1854)
”ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب کچھ ایسے امراء ہوں گے کہ جن کو تم پہچانو گے بھی اور انکار بھی کرو گے، جس نے پہچان لیا وہ بری ہو گیا، اور جس نے انکار کر دیا وہ سلامت رہا، سوائے اس کے جو شخص ان سے راضی ہو گیا اور ان کی پیروی کی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں، تم ان سے لڑائی نہ کرو۔ “

تارک نماز کا حشر قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا

وقالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ.عَنِ الْمُجْرِمِينَ ‎.‏ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ . قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ.﴾
(المدثر: 40 تا 43)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”جو لوگ جنتوں میں ہوں گے، مجرمین سے پوچھیں گے: تمہیں کس چیز نے جہنم میں پہنچا دیا؟ وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے۔“

حدیث نمبر 23:

«عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما: أن النبى صلى الله عليه وسلم ذكر الصلاة يوما فقال: من حافظ عليها كانت له نورا وبرهانا ونجاة يوم القيمة ومن لم يحافظ عليها لم يكن له نور ولا برهان ولا نجاة وكان يوم القيمة مع قارون وفرعون وهامان وأبي بن خلف»
(مسند أحمد، رقم: 6576، سنن دارمی، رقم: 301، صحیح ابن حبان، رقم: 1467، ابن حبان نے اسے صحیح اور شیخ شعیب نے اسے حسن کہا ہے)
”سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز نماز کے متعلق گفتگو کی اور فرمایا: جس نے نماز کی حفاظت کی، نماز روز قیامت اس کے لیے نور، برہان اور ذریعہ نجات ہو گی، اور جس نے نماز کی حفاظت نہ کی تو روز قیامت اس کے لیے نہ دلیل، نہ نور اور نہ ہی وسیلہ نجات ہو گی۔ اور قیامت کے دن اس کا حشر قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔ “

نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴾
(البقرة: 43)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”نماز قائم کرو، اور زکاۃ ادا کرو، اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔“

حدیث نمبر 23:

«قال أبو هريره رضي الله عنه: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن أثقل صلوة على المنافقين صلوة العشاء وصلوة الفجر ولو يعلمون ما فيهما لأتوهما ولو حبوا ولقد هممت أن آمر بالصلاة فتقام ثم أمر رجلا فيصلي بالناس ثم أنطلق معي برجال معهم حزم من حطب إلى قوم لا يشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم بالنار»
(صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ العشاء فی الجماعة، رقم: 657، صحیح مسلم، کتاب المساجد، رقم: 1482)
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافقین پر سب سے بھاری نماز عشاء اور فجر کی نماز ہے۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ان میں کتنا زیادہ ثواب ہے (اور چل نہ سکتے) تو گھٹنوں کے بل گھسٹ کر آتے۔ میرا تو ارادہ ہو گیا تھا کہ موذن سے کہوں کہ وہ تکبیر سے نماز کھڑی کرے اور جو جماعت میں حاضر نہیں ہوتے، میں ان پر ان کے گھر جلا دوں۔

نماز سنت کے مطابق ادا کرنا

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾
(الحشر: 7)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور جو تمہیں رسول دیں، وہ لے لو، اور جس سے روکیں، اس سے رک جاؤ، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً سخت سزا دینے والا ہے۔“

حدیث نمبر 25:

«عن أبو قلابه: حدثنا مالك: أتينا إلى النبى صلى الله عليه وسلم ونحن شبة متقاربون فأقمنا عنده عشرين يوما وليلة وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم رحيما رفيقا فلما ظن أنا قد اشهبنا أهلنا أو قد اشتقنا سألنا عمن تركنا بعدنا فأخبرناه قال: ارجعوا إلى أهليكم فأقيموا فيهم وعليموهم ومروهم وذكر أشياء أحفظها أو لا أحفظها وصلوا كما رأيتموني أصلي فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم»
(صحیح بخاری، کتاب الأذان، رقم: 631)
”حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم سب ہم عمر اور نوجوان تھے۔ آپ کی خدمت اقدس میں ہمارا بیس دن و رات قیام رہا۔ آپ بڑے رحم دل اور ملنسار تھے۔ جب آپ نے دیکھا کہ ہمیں اپنے وطن واپس جانے کا شوق ہے تو آپ نے پوچھا کہ تم لوگ اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر آئے ہو؟ ہم نے بتایا۔ پھر آپ نے فرمایا: اچھا، اب تم لوگ اپنے گھر جاؤ اور ان گھر والوں کے ساتھ رہو اور انہیں دین سکھاؤ اور دین کی باتوں پر عمل کرنے کا حکم کرو اور اسی طرح نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور جب نماز کا وقت آ جائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو تم میں سب سے بڑا ہے وہ نماز پڑھائے۔“

حدیث نمبر 26:

«عن زيد بن حارثه رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم أن جبريل عليه السلام أتاه فى أول ما أوحي إليه فعلمه الوضوء والصلاة فلما فرغ من الوضوء أخذ غرفة من ماء فتضح بها فرجه»
(مسند أحمد: 4-161، شیخ حمزه زین حفظہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے)
”سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب جبریل علیہ السلام وحی لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو اور نماز کا طریقہ سکھایا اور جب وہ وضو سے فارغ ہوئے تو آخر میں اپنی شرمگاہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ “

حدیث نمبر 27:

«عن أنس رضى الله عنه قال جاء ثلاثة رهط إلى بيوت أزواج النبى صلى الله عليه وسلم يسألون عن عبادة النبى صلى الله عليه وسلم فلما أخبروا كأنهم تقالوها فقالوا: وأين نحن من النبى صلى الله عليه وسلم قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر؟ قال أحدهم: أما أنا فإني أصلي الليل أبدا وقال آخر: أنا أصوم الدهر ولا أفطر وقال آخر: أنا أعتزل النساء فلا أتزوج أبدا فجاء رسول الله إليهم فقال: أنتم الذين قلتم كذا وكذا أما والله إني لأخشاكم لله وأتقاكم له لكني أصوم وأفطر وأصلي وأرقد وأتزوج النساء فمن رغب عن سني فليس مني»
(صحیح بخاری، کتاب النكاح، باب الترغیب فی النكاح، رقم: 5063)
”سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تین شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے پاس آئے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت سے متعلق سوال کیا۔ جب انہیں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق خبر دی گئی تو انہوں نے اس عبادت کو معمولی سمجھا، اور کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا نسبت ہے، آپ کی تو اللہ نے اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف کر دی ہیں؟ ان میں سے ایک نے کہا: میں تو ہمیشہ رات بھر نفل ادا کروں گا۔ دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ دن بھر کا روزہ رکھوں گا، کبھی افطار نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے دور رہوں گا، کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور ان سے پوچھا: تم نے اس طرح کی باتیں کی ہیں؟ خبردار، اللہ کی قسم! میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور پرہیزگار ہوں، اس کے باوجود روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، رات کو نوافل ادا کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔ “

نماز میں اعتدال کا حکم

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ﴾
(لقمان: 19)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر۔“

حدیث نمبر 28:

«عن شقيق: إن حذيفة رضى الله عنه ر أى رجلا لا يتيم ركوعه ولا سجوده فلما قضي صلاته دعاه فقال له حذيفة: ما صليت قال: وأحسبه قال: ولو مت مت على غير الفطرة التى فطر الله محمدا صلى الله عليه وسلم»
(صحیح بخاری، کتاب الأذان، رقم: 791، المشكاة، رقم: 884)
”حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نہ رکوع پوری طرح کرتا ہے نہ سجدہ، اس لیے آپ نے اس سے کہا کہ تم نے نماز ہی نہیں پڑھی۔ اور اگر تم مر گئے تو تمہاری موت اس سنت پر نہیں ہو گی جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا تھا۔ “

اخلاص نیت

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ﴾
(البينة: 5)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور انہیں صرف یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس کے لیے عبادت کو خالص کر کے، یکسو ہو کر، اور وہ نماز قائم کریں اور زکاۃ دیں، اور یہی نہایت درست دین ہے۔“

حدیث نمبر 29:

«قال شداد بن أوس رضي الله عنه: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من صلى يرائي فقد أشرك ومن صام يرائي فقد أشرك ومن تصدق يرائي فقد أشرك»
(مسند أحمد: 4-126، معجم كبیر للطبرانی، رقم: 7139، مستدرک حاکم: 4-329، رقم: 8008، مجمع الزوائد: 10-221، حاکم نے اسے صحیح کہا ہے)
”سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی، اس نے شرک کیا، جس نے دکھاوے کا روزہ رکھا اس نے شرک کیا، اور جس نے دکھاوے کا صدقہ کیا اس نے بھی شرک کیا۔ “

نماز میں تخفیف کا حکم

حدیث نمبر 30:

«قال أبو هريره رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا صلى أحدكم للناس فليخفف فإن منهم الضعيف والسقيم والكبير وإذا صلى أحدكم لنفسه فليطول ما شاء»
(صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب إذا صلی لنفسہ فلیطول ما شاء، رقم: 703)
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو تخفیف کرے کیونکہ جماعت میں ضعیف، بیمار اور بوڑھے سب ہوتے ہیں۔ لیکن اکیلا پڑھے تو جس قدر جی چاہے طول دے سکتا ہے۔“

نماز سے پہلے طہارت کا حکم

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾
(المائدة: 6)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لو، اور اپنے سروں کا مسح کر لو، اور اپنے پاؤں دونوں ٹخنوں تک دھو لو، اور اگر تم ناپاک ہو تو پاکی حاصل کرو، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کر کے آئے، یا تم نے بیویوں سے مباشرت کی ہو اور پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو، پس اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر اس سے مسح کر لو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں کسی تنگی میں ڈالنا نہیں چاہتا، بلکہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے اور تمہارے اوپر اپنی نعمت کو تمام کرنا چاہتا ہے، تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو۔ “

حدیث نمبر 31:

«عن ابن عمر رضي الله عنهما: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا تقبل صلوة بغير طهور ولا صدقة من غلول»

”حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی اور چوری کیے ہوئے مال سے صدقہ بھی قبول نہیں ہوتا۔ “
(صحیح مسلم، کتاب الطهارة، باب وجوب الطهارة، رقم: 224)

نماز سے پہلے مسواک کا حکم

حدیث نمبر 32:

«عن أبو هريره رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لولا أن أشق على أمتي أو على الناس لأمر تهم بالسواك مع كل صلاة»

”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اپنی امت کے لیے مشکل نہ جانتا تو انہیں ہر نماز سے پہلے مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ “
(صحیح بخاری، کتاب الجمعة، رقم: 887، صحیح مسلم، کتاب الطهارة، رقم: 252)

تحیۃ المسجد کا حکم

حدیث نمبر 34:

«عن أبو قتاده السلمي رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا دخل أحدكم المسجد فليركع ركعتين قبل أن يجلس»

”حضرت ابو قتادہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھا کرو۔ “
(صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، رقم: 444، صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، رقم: 714)

نماز اول وقت میں ادا کرنے کا حکم

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا﴾
(النساء: 103)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”بے شک نماز مقررہ اوقات میں مومنوں پر فرض کر دی گئی ہے۔“

حدیث نمبر 35:

«قالت أم فروه رضي الله عنها: سئل النبى صلى الله عليه وسلم أى الأعمال أفضل؟ قال: الصلاة لأول وقتها»
(سنن ترمذی، کتاب مواقیت الصلاۃ، رقم: 170، صحیح ابو داؤد، رقم: 452، المشكاة، رقم: 607، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
”حضرت ام فروہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اول وقت میں نماز ادا کرنا۔ “

اذان کا حکم اور فضیلت

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾
(الجمعة: 9)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے ایمان والو! جمعہ کے دن جب نماز کے لیے اذان دی جائے تو تم اللہ کو یاد کرنے کے لیے تیزی سے لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، اگر تم سمجھتے ہو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔“

حدیث نمبر 36:

﴿فقال معاويه رضي الله عنه: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: المؤذنون أطول الناس أعناقا يوم القيمة﴾
(صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، رقم: 387)
”سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: قیامت کے روز اذان دینے والوں کی گردنیں سب سے لمبی ہوں گی (یعنی وہ اللہ کا نام بلند کرنے کی وجہ سے مرتبے میں سب سے اونچے ہوں گے۔ )“

نماز باجماعت کی فضیلت

حدیث نمبر 37:

«قال عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: صلاة الجماعة تفضل صلاة الفرد بسبع وعشرين درجة»
(صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعة، رقم: 645)
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باجماعت نماز اکیلے کی نماز سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ “

نماز میں صف بندی کا حکم

قالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالصَّافَّاتِ صَفًّا﴾
(الصافات: 1)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”قسم ہے صف باندھنے والوں (فرشتوں )کی۔“

حدیث نمبر 38:

«عن أنس بن مالك رضي الله عنه: قال النبى صلى الله عليه وسلم: أقيموا صفوفكم فإني أراكم من وراء ظهري وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه»
(صحیح بخاری، کتاب الأذان، رقم: 725)
”سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صفیں برابر کر لو، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں۔ اور (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر) ہم میں سے ہر شخص یہ کرتا کہ (صف میں) اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنا قدم اس کے قدم سے ملا دیتا تھا۔ “

نماز میں ہاتھ سینے پر باندھنے کا حکم

قَالَ الله تَعَالَى: ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾
(الکوثر: 2)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”پس تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔“

حدیث نمبر 39:

«عن وائل بن حجر قال صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فوضع يده اليمنى على اليسرى على صدره»
صحیح ابن خزیمہ، رقم: 479۔ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے اپنے ہاتھ اس طرح باندھے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر سینے پر رکھ کر ، سینے پر رکھے۔ “

نماز میں سورہ فاتحہ کی قراءت کا حکم

قَالَ الله تَعَالَى: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ‎. الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ.‏ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ. إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ‎. اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ‎.‏ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ .﴾
(الفاتحة: 1 تا 6)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام عالم کا پروردگار ہے۔ جو نہایت مہربان بے حد رحم کرنے والا ہے۔ جو مالک ہے روز جزا کا۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ ہم کو سیدھا راستہ دکھا۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔ نہ ان لوگوں کا جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ ان کا جو گمراہ ہو گئے۔ “

حدیث نمبر 40:

«عن عبادة بن الصامت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا صلاة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب»
صحیح بخاری، کتاب الأذان، رقم: 756۔ صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، رقم: 394
”حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں۔ “

آمین بالجہر کی فضیلت

«وقال عطاء آمين دعاء امن ابن الزبير ومن وراءه حتى ان للمسجد للجته»
”اور عطاء نے کہا: آمین دعا ہے۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے پیچھے کھڑے مقتدی آمین بآواز بلند کہتے کہ مسجد گونج اٹھتی۔ “
«عن ابي هريرة ان النبى صلى الله عليه وسلم قال اذا امن الامام فآمنوا فانه من وافق تامينه تامين الملائكة غفر له ما تقدم من ذنبه»
صحیح بخاری، کتاب الأذان، رقم: 780۔ صحیح مسلم، رقم: 410
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ مل گئی اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔ “

نماز میں رفع الیدین کا حکم

حدیث نمبر 41:

«عن نافع ان ابن عمر رضي الله عنهما كان اذا دخل فى الصلاة كبر و رفع يديه واذا ركع رفع يديه واذا قال سمع الله لمن حمده رفع يديه واذا قام من الركعتين رفع يديه و رفع ذلك ابن عمر الى النبى صلى الله عليه وسلم»
صحیح بخاری، کتاب الأذان، رقم: 739
”نافع (استاد امام مالک) سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز میں داخل ہوتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین کرتے ۔ جب رکوع جاتے تورفع الیدین کرتے ۔ جب سمع الله لمن حمده کہتے تو رفع الیدین کرتے اور جب دو رکعتوں سے اٹھتے تو بھی رفع الیدین کرتے۔ اور اس حدیث کو ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع بیان کرتے تھے۔ “
وصلي الله على محمد وعلي اله وصحابته اجمعين، وتابعيهم ومن تبعهم بئاحسان الي يوم الدين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1