نماز جنازہ میں تکبیروں کی تعداد کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

چار یا پانچ تکبیریں کہے

فی الحقیقت چار یا پانچ تکبیریں کہنا ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے البتہ بعض صحابہ سے نو تک تکبیریں کہنا بھی ثابت ہے کہ جسے شیخ البانیؒ نے حکما مرفوع کہتے ہوئے ان پر بھی عمل کو جائز قرار دیا ہے۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
چار تکبیروں کے دلائل:
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کا جنازہ پڑھایا: فكبر عليه أربعا ”تو اس پر چار تکبیریں کہیں ۔“
[بخاري: 1334 ، كتاب الجنائز: باب التكبير على الجنازة أربعا ، مسلم: 952 ، أحمد: 361/3 ، بيهقي: 35/4]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی معنی میں حدیث مروی ہے ۔
[بخاري: 1333 أيضا ، مسلم: 951 ، مؤطا: 226/1 ، أبو داود: 3204 ، نسائى: 72/4 ، ابن ماجة: 1534]
➌ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت سے بھی یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے۔
[بخاري: 1340 ، كتاب الجنائز: باب الدفن بالليل ، مسلم: 954 ، ترمذي: 1057 ، ابن ماجة: 1530]
➍ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی روایات بھی اس پر شاہد ہیں ۔
[بيهقي معلقا: 38/4 ، أيضا]
➎ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد امام سورہ فاتحہ ہلکی آواز میں تلاوت کرے پھر تین تکبیریں کہے اور آخری تکبیر کے ساتھ سلام پھیر دے۔“
[صحيح: أحكام الجنائز: ص/ 141 ، نسائي: 281/1 ، ابن حزم: 129/5]
➏ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان رسول الله كان يكبر أربعا ”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم چار تکبیریں کہا کرتے تھے ۔“
[صحيح: أحكام الجنائز: ص/142 ، بيهقى: 35/4]
پانچ تکبیروں کے دلائل:
حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہتے تھے لیکن ایک جنازے پر انہوں نے پانچ تکبیریں کہیں ، لٰہذا میں نے ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ :
كان رسول الله يكبرها
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یہ (یعنی پانچ ) تکبیریں بھی کہا کرتے تھے ۔“
[مسلم: 957 ، كتاب الجنائز: باب الصلاة على القبر ، أبو داود: 3197 ، ترمذي: 1023 ، نسائي: 72/4 ، ابن ماجة: 1505 ، شرح معاني الآثار: 493/1 ، بيهقى: 36/4 ، ابن أبى شيبة: 302/3 ، أحمد: 367/4]
چھ اور سات تکبیروں کے دلائل:
➊ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
أنه كبر على سهل بن حنيف ستا وقال أنه شهد بدرا
”انہوں نے حضرت سهل بن حنیف رضی اللہ عنہ کے جنازے پر چھ تکبیریں کہیں اور کہا کہ یہ جنگ بدر میں حاضر تھے ۔“
[بخاري: 4004 ، كتاب المغازى: باب شهود الملائكة بدرا]
➋ حضرت موسیٰ بن عبد اللہ بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی :
فكبر عليه سبعا
”اور اس پر سات تکبیریں کہیں ۔“
[صحيح: أحكام الجنائز: ص/ 144 ، بيهقى: 36/4]
نو تکبیروں کے دلائل:
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی :
فكبر تسع تكبيرات
”تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تکبیریں کہیں ۔“
[حسن احكام الجنائز: ص/ 106 ، شرح معاني الآثار: 290/1]
نماز جنازہ کی تکبیروں کی تعداد میں اگرچہ علماء نے اختلاف کیا ہے لیکن اکثریت نے چار تکبیروں کو ہی تر جیح دی ہے۔
(جمہور ، احمدؒ ، شافعیؒ ، مالکؒ) چار تکبیروں کو ترجیح حاصل ہے۔
[نيل الأوطار: 714/2]
(ترمذیؒ) صحابہ اور ان کے بعد والوں میں سے اکثر اہل علم چار تکبیروں کے قائل ہیں۔
[جامع ترمذي: بعد الحديث: / 1022]
(ابن منذرؒ ) اکثر اہل علم چار تکبیروں کے قائل ہیں۔
[الأوسط لابن المنذر: 434/5]
(شوکانیؒ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چار سے کم اور پانچ سے زیادہ تکبیریں کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں نیز چار تکبیریں اختیار کرنا زیادہ راجح اور بہتر ہے۔
[السيل الجرار: 356/1]
(ابن حزمؒ ) چار سے کم اور پانچ سے زیادہ تکبیریں نہیں کہنی چاہیں ۔
[المحلى بالآثار: 347/3]
جن لوگوں نے چار سے زائد تکبیروں کو ممنوع قرار دیا ہے ان کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ اس پر اجماع ہو چکا ہے۔
(ابن عبد البرؒ ) چار تکبیروں پر فقہا اور اہل فتوی حضرات کا اجماع ہو چکا ہے۔
[التمهيد لابن عبالربر: 334/6 ، نيل الأوطار: 715/2]
➋ بعض روایات میں یہ الفاظ بھی مذکور ہیں:
كان آخر ما كبر رسول الله على الجنازة أربعا
”آخر میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیریں کہیں وہ چار تھیں ۔“
[ضعيف: أحكام الجنائز: ص/ 145 ، شيخ البانيؒ نے اس روايت كو ضعيف كها هے ۔]
➌ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے مقتولین کی نماز جنازہ پڑھائی تو نو نو تکبیریں کہیں پھر سات اور پھر چار چار تکبیریں کہیں:
حتي لحق بالله
”حتی کہ اللہ تعالیٰ سے جا ملے ۔“
[أحكام الجنائز: ص/ 145 ، شيخ البانيؒ نے اس روايت كو مردود قرار ديا هے۔]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1