طالب علموں کو نصیحتوں پر مشتمل چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

طالب علم حسب استطاعت تبلیغ ضرور کرے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ ‎﴿١٢٢﴾
(9-التوبة:122)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” تو ہر فرقے میں سے ایک گروہ دین میں سمجھ حاصل کرنے کے لیے کیوں نہ نکلا، تا کہ وہ جب اپنے قبیلے میں واپس جائیں تو انھیں خبر دار کریں، تا کہ وہ ( پیچھے والے بھی اللہ سے) ڈریں۔“

حدیث 1

عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنها ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم بلغوا عنى ولو آية ، وحدثوا عن بني إسرائيل و لا حرج ، و من كذب على متعمدا ، فليتبوأ مقعده من النار
صحیح بخاری، رقم : 3461۔
” حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری طرف سے پہنچا دو خواہ ایک آیت ہی ہو، بنی اسرائیل کے واقعات بیان کرو اس میں کوئی حرج نہیں، اور جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ “

دین کی سمجھ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ‎﴿٢٦٩﴾‏
(2-البقرة:269)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور جس شخص کو حکمت دی گئی تو اسے بہت بھلائی عطا کی گئی اور (ان باتوں سے ) عقل مند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ “

حدیث 2

و عن معاوية رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من يرد الله به خيرا يفقهه فى الدين ، وإنما أنا قاسم والله يعطى
صحیح بخاری، رقم : 71، صحیح مسلم :1038/98.
” اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے، میں تو صرف (علم) تقسیم کرنے والا ہوں، جبکہ (فہم) اللہ عطا کرتا ہے۔ “

طالب علم پر رشک کرنا

حدیث 3

و عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، قال : قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : لا حسد إلا فى اثنتين: رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته فى الحق ، ورجل آتاه الله الحكمة فهو يقضي بها ويعلمها
صحیح بخاری، رقم : 73 ، صحیح مسلم :816/268 .
”اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو قسم کے لوگوں پر رشک کرنا جائز ہے، ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال عطا کیا اور پھر اس کو راہ حق میں اسے خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے حکمت عطا کی اور وہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے اور اسے ( دوسروں کو ) سکھاتا ہے۔ “

طالب علم اپنے علم کو نفع بخش بنائے

حدیث 4

و عن أبى هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة أشياء : صدقة جارية ، أو علم ينتفع به ، أو ولد صالح يدعو له
صحیح مسلم : 1631/14 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو تین کاموں کے سوا اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ ➊ صدقہ جاریہ ➋ وہ علم جس سے استفادہ کیا جائے اور ➌ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے، کے سوا اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ “

طلب علم کے لیے سفر کرنے کی فضیلت

حدیث 5

وعن أبى هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من نفس عن مؤمن كربة من كرب الدنيا، نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة . ومن يسر على معسر يسر يسر الله عليه فى الدنيا والآخرة، ومن ستر مسلما ستره الله فى الدنيا والآخرة . والله فى عون العبد ما كان العبد فى عون أخيه . ومن سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله له به طريقا إلى الجنة، وما اجتمع قوم فى بيت من بيوت الله يتلون كتاب الله و يتدارسونه بينهم ، إلا نزلت عليهم السكينة ، وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملائكة. وذكر هم الله فيمن عنده. ومن بطأ به عمله لم يسرع به نسبه
صحیح مسلم : 2699/38 ۔
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی مومن سے دنیا کی کوئی تکلیف دور کی تو اللہ اس سے قیامت کے دن کی کوئی تکلیف دور فرما دے گا، جس شخص نے کسی تنگ دست پر آسانی کی تو اللہ اس پر دنیا و آخرت میں آسانی فرمائے گا، جس نے کسی مسلمان کی عیب پوشی کی تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیا و آخرت میں عیب پوشی فرمائے گا، اللہ تعالیٰ بندے کی مدد فرماتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے اور جس شخص نے طلب علم کے لیے کوئی سفر کیا تو اللہ اس وجہ سے اس کے لیے راہ جنت آسان فرما دیتا ہے اور جب کچھ لوگ اللہ کے کسی گھر میں اکٹھے ہو کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں پڑھتے پڑھاتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے پاس فرشتوں میں ان کا تذکرہ فرماتا ہے اور جس کے عمل نے اسے پیچھے کر دیا تو اس کا نسب سے آگے نہیں بڑھا سکے گا۔“

طالب علم اپنے اندر اخلاص پیدا کرے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ ‎﴿١١﴾
(39-الزمر:11)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”کہہ دیجیے ! بے شک مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں، اس حال میں کہ دین کو اسی کے لیے خالص کرنے والا ہوں۔“

حدیث 6

وعن أبى هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن أول : الناس يقضى عليه يوم القيامة رجل استشهد ، فأتي به فعرفه نعمته فعرفها ، فقال : فما عملت فيها؟ قال : قاتلت فيك حتى استشهدت. قال: كذبت ، ولكنك قاتلت لان يقال: جرىء، فقدقيل ، ثم أمر به فسحب على وجهه حتى ألقي فى النار. و رجل تعلم العلم وعلمه ، وقرأ القرآن ، فأتي به فعرفه نعمه فعرفها . قال : فما عملت فيها؟ قال: تعلمت العلم و علمته ، و قرأت فيك القرآن قال : كذبت ، ولكنك تعلمت العلم ليقال: إنك عالم ، و قرأت القرآن ليقال : هو قاريء ، فقد قيل ، ثم أمر به فسحب على وجهه حتى ألقي فى النار. و رجل وسع الله عليه و اعطاه من أصناف المال كله ، فأتي به فعرفه نعمه فعرفها ، قال : فما عملت فيها؟ قال: ما تركت من سبيل تحب أن ينفق فيها إلا أنفقت فيها لك . قال: كذبت ، ولكنك فعلت ليقال: هو جواد ، فقد قيل ، ثم أمر به فسحب على وجهه ثم ألقي فى النار
صحیح مسلم 1905/152.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روز قیامت سب سے پہلے شہید کا فیصلہ سنایا جائے گا، اسے پیش کیا جائے گا تو اللہ اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا اور وہ ان کا اعتراف کرے گا، پھر اللہ فرمائے گا: تو نے ان کے بدلے میں (شکر کے طور پر ) کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے تیری خاطر جہاد کیا حتی کہ مجھے شہید کر دیا گیا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا، کیونکہ تو نے داد شجاعت و بہادری حاصل کرنے کے لیے جہاد کیا تھا، پس وہ کہہ دیا گیا۔ پھر اس کے متعلق حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ دوسرا شخص جس نے علم حاصل کیا اور اسے دوسروں کو سکھایا اور قرآن کریم کی تلاوت کی، اسے بھی پیش کیا جائے گا، تو اللہ اسے اپنی نعمتیں یاد کرائے گا، وہ ان کا اعتراف کرے گا، اللہ پوچھے گا کہ تو نے ان کے بدلے میں کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے علم سیکھا اور اسے دوسروں کو سکھایا، اور میں تیری رضا کی خاطر قرآن کی تلاوت کرتا رہا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا، البتہ تو نے علم اس لیے حاصل کیا تھا کہ تمہیں عالم کہا جائے اور قرآن پڑھا تا کہ تمہیں قاری کہا جائے، وہ کہہ دیا گیا، پھر اس کے متعلق حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اور تیسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال وزر کی جملہ اقسام سے خوب نوازا ہوگا، اسے پیش کیا جائے گا تو اللہ اسے اپنی نعمتیں یاد کرئے گا، وہ انہیں پہچان لے گا تو اللہ پوچھے گا: تو نے ان کے بدلے میں کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا: میں نے ان تمام مواقع پر جہاں خرچ کرنا تجھے پسند تھا، خرچ کیا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تو نے جھوٹ کہا: تو نے اس لیے خرچ کیا کہ تجھے بڑا سخی کہا جائے، پس وہ کہہ دیا گیا، پھر اس کے متعلق حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔“

طالب علم بغیر علم کے فتویٰ دینے سے اجتناب کرے

حدیث 7

و عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنها ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء ، حتى إذا لم يبق عالما ، إتخذ الناس رؤوسا جهالا ، فسئلوا فافتوا بغير علم، فضلوا وأضلوا
صحیح بخاری، رقم : 100 ، صحیح مسلم : 2673/13 .
” اور حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ علم کو بندوں کے سینوں سے نہیں نکالے گا بلکہ وہ علماء کی روحیں قبض کر کے علم کو اٹھالے گا، حتی کہ جب وہ کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ جہلا کو اپنا (مفتی) رئیس بنالیں گے، جب ان سے مسئلہ دریافت کیا جائے گا تو وہ علم کے بغیر فتویٰ دیں گے، وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو گمراہ کریں گے ۔“

طالب علم لوگوں کو وعظ کرتے وقت سہولت کا خیال رکھے

حدیث 8

و عن شقيق ، كان عبد الله بن مسعود يذكر الناس فى كل خميس . فقال له رجل : يا أبا عبد الرحمن لوددت أنك ذكرتنا فى كل يوم . قال : أما إنه يمنعني من ذلك أنى أكره أن املكم ، وأني أتخولكم بالموعظة كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتخولنا بها مخافة السامة علينا
صحیح بخاری، رقم : 68 ، صحیح مسلم، رقم 2821/82 ۔
”اور حضرت شقیق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات لوگوں کو وعظ ونصیحت کیا کرتے تھے، کسی آدمی نے ان سے کہا: ابوعبد الرحمن ! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہر روز ہمیں وعظ ونصیحت کیا کریں، انہوں نے فرمایا: سن لو! ہر روز وعظ ونصیحت کرنے سے مجھے یہی امر مانع ہے کہ میں تمہیں اکتاہٹ میں ڈالنا نا پسند کرتا ہوں، میں وعظ ونصیحت کے ذریعے تمہارا ویسے ہی خیال رکھتا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس اندیشے کے پیش نظر کے ہم اکتا نہ جائیں، ہمارا خیال رکھا کرتے تھے۔“

بھلائی کی طرف راہنمائی کرنے والے طالب علم کا ثواب

حدیث 9

و عن أبى مسعود الأنصاري رضي الله عنه رواه ، قال: جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال : إنه أبدع بي فاحملني فقال : ما عندي . فقال رجل : يا رسول الله انا ادله على من يحمله . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من دل على خير فله مثل أجر فاعله
صحیح مسلم :1893/133 .
”اور حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا: میری سواری ہلاک ہوگئی ہے، آپ مجھے سواری عنایت فرمادیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے پاس تو کوئی سواری نہیں۔ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں اسے ایسے آدمی کے متعلق بتاتا ہوں جو اسے سواری دے دے گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خیر و بھلائی کی طرف راہنمائی کرنے والے کو اس بھلائی کو سرانجام دینے والے کے برابر ثواب ملے گا۔“

چیونٹیوں اور مچھلیوں کا طلبہ علم کے لیے دعا کرنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى:الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ‎﴿٧﴾‏ رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُمْ وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ‎﴿٨﴾‏ وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ ۚ وَمَن تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ‎﴿٩﴾
(40-غافر:7تا9)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” وہ (فرشتے) جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو اس کے ارد گرد ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو ایمان لائے ، اے ہمارے رب! تو نے ہر چیز کو رحمت اور علم سے گھیر رکھا ہے، تو ان لوگوں کو بخش دے جنھوں نے توبہ کی اور تیرے راستے پر چلے اور انھیں بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب سے بچا۔ اے ہمارے رب! اور انھیں ہمیشہ رہائش والی ان جنتوں میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کو بھی جو ان کے باپ دادوں اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے لائق ہیں۔ بلا شبہ تو ہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے ۔ اور انھیں برائیوں سے بچا اور تو جسے اس دن برائیوں سے بچالے تو یقیناً تو نے اس پر مہربانی فرمائی اور یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے۔“

حدیث 10

و عن أبى أمامة الباهلي رضي الله عنه ، قال: ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم رجلان : أحدهما عابد والآخر عالم، فقال رسول الله : فضل العالم على العابد كفضلي على أدناكم . ثم قال رسول الله : إن الله وملائكته وأهل السماوات والأرض حتى النملة فى جحرها ، و حتى الحوت ، ليصلون على معلم الناس الخير
سنن الترمذى، كتاب العلم، رقم : 2685، المشكاة رقم : 2685۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک عابد اور دوسرا عالم ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عالم کی عابد پر اس طرح فضیلت ہے جس طرح میری فضیلت تمہارے ادنی آدمی پر ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ ، اس کے فرشتے ، زمین و آسمان کی مخلوق حتی کہ چیونٹی اپنے بل میں ، اور مچھلیاں، لوگوں کو خیر و بھلائی کی تعلیم دینے والے کے لیے دعائے خیر کرتی ہیں۔ “

طالب علم کو حق بیان کرنے کی نصیحت کا بیان

حدیث 11

و عن أبى هريرة رضی اللہ عنہ ، قال : قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : من سئل عن علم علمه ثم كتمه، الجم يوم القيامة بلجام من نار
مسند احمد : 263/2، رقم : 7561 ، 305/2، رقم : 803، سنن ابوداؤد، رقم: 3658، سنن الترمذی، رقم : 2649 ، سنن ابن ماجه ، رقم : 261۔ محدث البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے ، جسے وہ جانتا ہو، پھر وہ اسے چھپائے تو روز قیامت اسے آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔ “

اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے علم حاصل کرنے کا ثواب

حدیث 12

و عن أبى هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من تعلم رضوا علما مما يبتغى به وجه الله، لا يتعلمه إلا ليصيب به عرضا من الدنيا، لم يجد عرف الجنة يوم القيامة
مسند احمد : 338/2، رقم : 8438 ، سنن ابوداؤد، رقم : 3664، سنن ابن ماجة ، رقم : 252۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص ایسا علم ، جس کے ذریعے اللہ کی رضا مندی حاصل کی جاتی ہے محض دنیا کا مال و متاع حاصل کرنے کے لیے سیکھتا ہے تو وہ روز قیامت جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔ “

حدیث 13

و عن ابن مسعود رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : نضر الله عبدا سمع مقالتي فحفظها و وعاها وأداها ، فرب حامل فقه غير فقيه ، ورب حامل فقه إلى من هو افقه منه . ثلاث لا يغل عليهن قلب مسلم: اخلاص العمل لله، والنصيحة للمسلمين، ولزوم جماعتهم، فإن دعوتهم تحيط من ورائهم
مختصر المزني ، ص : 423 ، شعب الإيمان للبيهقي: 1738، سنن الترمذي، رقم: 2658، مسند احمد : 436/1 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 404.
”اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ اس شخص کے چہرے کو ترو تازہ رکھے جس نے میری حدیث کو سنا، اسے یاد کیا، اس کی حفاظت کی اور پھر اسے آگے بیان کیا، بسا اوقات اہل علم فقیہ نہیں ہوتے اور بسا اوقات فقیہ اپنے سے زیادہ فقیہ تک بات پہنچا دیتا ہے، تین خصلتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا: عمل خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو، مسلمانوں کے لیے خیر خواہی ہو اور ان کی جماعت کے ساتھ لگے رہنا، کیونکہ ان کی دعوت انہیں سب طرف سے گھیر لے گی (حفاظت کرے گی )۔“

طالب علم اپنے علم کے مطابق بیان کرے

حدیث 14

و عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه ، قال : يا أيها الناس! من علم شيئا فليقل به ، ومن لم يعلم فليقل : الله أعلم ، فإن من العلم ان تقول لما لا تعلم : الله أعلم . قال الله تعالى لنبيه: قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين
صحیح بخاری، رقم : 4809 ، صحیح مسلم، رقم : 2798/39.
” اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو! جس شخص کو کسی چیز کا علم ہو تو وہ اس کے متعلق بات کرے اور جسے علم نہ ہو تو وہ کہے: ( اللہ اعلم) اللہ بہتر جانتا ہے۔ کیونکہ جس چیز کا تجھے علم نہ ہو اس کے متعلق تمہارا یہ کہنا کہ اللہ بہتر جانتا ہے، یہ بھی علم کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے فرمایا: کہہ دیجیے: میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور میں تکلف کرنے والوں میں سے بھی نہیں ہوں۔ “

طالب علم لوگوں کو کتاب وسنت کی تعلیم دے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ‎﴿١٠٨﴾‏
(12-يوسف:108)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”(اے نبی!) کہہ دیجیے: یہی میری راہ ہے، میں (تمھیں) اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں اور وہ لوگ جنھوں نے میری اتباع کی بصیرت پر ہیں۔ اور اللہ پاک ہے اور مشرکوں میں سے نہیں۔ “

حدیث 15

وعن أنس رضي الله عنه ، أن أهل اليمن قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم قالوا: ابعث معنا رجلا يعلمنا السنة والإسلام ، قال: فأخذ بيد أبى عبيدة، قال: هذا أمين هذه الأمة
صحيح مسلم، رقم : 1297 ، مستدرك الحاكم : 267/3 ، مسند احمد : 125/3، مسند ابو يعلي : 831/2 ، سلسلة احاديث الصحيحة، رقم : 1964 .
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یمنی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: ہمارے ساتھ کوئی ایسا آدمی بھیجیں جو ہمیں سنت اور اسلام کی تعلیم دے۔ آپ نے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا: یہ اس امت کا امین ہے۔ “

حصول علم کے ساتھ ساتھ عمل ضروری ہے

حدیث 16

وعن عباس رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : يظهر هذا الدين حتى يجاوز البحار ، وحتى تخاص بالخيل فى سبيل الله ، ثم يأتى أقوام يقرء ون القرآن، فإذا قرأوا قالوا: قد قرأنا القرآن، فمن أقرء منا؟ من اعلم منا؟ ثم التفت إلى أصحابه، فقال: هل ترون فى أولئك من خير ؟ قالوا: لا – قال: فأولئك منكم ، وأولئك من هذه الأمة ، وأولئك هم وقود النار
مسند ابو یعلی: 6698/56/12 ، مسند البزار ،174/99/1 ، سلسلة الاحاديث الصحيحة، رقم : 3230.
”اور حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ دین منظرِ عام پر آئے گا اور سمندروں سے تجاوز کر جائے گا، حتی کہ اللہ کے راستے میں گھوڑے (سمندر ) میں گھس جائیں گے، پھر ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن پڑھیں گے اور اس کی تلاوت کر چکنے کے بعد کہیں گے: ہم نے قرآن مجید پڑھ لیا ہے، ہم سے زیادہ پڑھنے والا کون ہے؟ ہم سے زیادہ علم والا کون ہے؟ پھر اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا تمھارا کیا خیال ہے کہ ان میں کوئی خیر و بھلائی ہوگی؟ انھوں نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ لوگ تم میں سے ہوں گے، یہ لوگ اس امت میں سے ہوں گے اور یہ لوگ آگ کا ایندھن بنیں گے ۔ “

بیانِ علم مگر دلائل کے ساتھ

حدیث 17

وعن أبى عثمان النهدي ، قال: كنت عند عمر وهو يخطب الناس فقال فى خطبته ، فذكره مرفوعا: إن أخوف ما أخاف على أمتي كل منافق عليم النسان

”اور ابو عثمان نہدی کہتے ہیں: میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، وہ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ ڈر اس منافق کا ہے، جو زبان آور ہوتا ہے۔“
مسند أحمد ،22/1 ، 44 ، الأبانة لإبن بطة : 2/48/5 ، سلسلة الاحاديث الصحيحة، رقم : 1013 .

قرآن وسنت اور فہم و عمل صحابہ کرام کے منہج کو اختیار کریں

حدیث 18

وعن العرباض بن سارية ، قال: وعظنا رسول الله صلى الله عليه وسلم موعظة ذرفت منها العيون ، ووجلت منها القلوب، فقلنا: يارسول الله! إن هذه لموعظة مودع، فما ذا تعهد إلينا؟ قال: قد تركتكم على البيضاء ليلها كنهارها ، لا يزيغ عنها بعدي إلا هالك ومن يعش منكم فسيرى اختلافا كثيرا ، فعليكم بما رفتم من سنتي، وسنة الخلفاء الراشدين المهديين ، عضوا عليها بالنواجذ ، وعليكم بالطاعة وإن عبدا حبشيا ، فإنما المؤمن كالجمل الأنف ، حيثما قيد انقاد
سنن ابن ماجه رقم: 43 مستدرك الحاكم 96/1 ، مسند أحمد: 126/4 ، السلسلة احاديث الصحيحة، رقم : 937.
”اور حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا وعظ کیا کہ آنکھیں بہہ پڑیں اور دل ڈر گئے ۔ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! یہ تو الوداعی وعظ محسوس ہوتا ہے، پس آپ ہمیں کیا وصیت فرمائیں گے؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے تم کو سفید ( اور روشن شریعت) پر چھوڑا ہے، جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اب وہی گمراہ ہوگا، جو ہلاک ہونے والا ہے، تم میں سے جو بھی زندہ رہا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، پس اپنی معرفت کے مطابق میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا اور اس کو مضبوطی سے تھام لینا، اور ( خلیفہ کی) اطاعت تم پر لازم ہوگی، اگر چہ وہ کوئی حبشی غلام ہو، بے شک مومن تکیل شدہ اونٹ کی طرح ہے، جس ( کی نکیل یا لگام یاری) پکڑ کر اس کو جدھر چلایا جاتا ہے، وہ چل پڑتا ہے۔“

بدعات وخرافات سے لوگوں کو بچائیں

قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ‎﴿٦﴾‏
(66-التحريم:6)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں، اس پر سخت دل، بہت مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انھیں حکم دے اور وہ کرتے ہیں جو حکم دیے جاتے ہیں۔“

حدیث 19

وعن أبى هريرة مرفوعا: ترد على أمتي الحوض ، وأنا أذود الناس عنه ، كما يدود الرجل إبل الرجل عن إبله – قالوا: يانبي الله أتعرفنا؟ قال: نعم، لكم سيما ليست لأحد غيركم تردون على غرا محجلين من آثار الوضوء – وليصدن عنى طائفة منكم، فلا يصلون ، فأقول: يارب هؤلاء من صحابي؟! فيجيبني ملك فيقول: وهل تدرى ما أحدثوا بعدك
صحيح مسلم 150/1 ، – مسند أبو عوانة: 137/1 ، مسند أحمد : 300/2، 408، صحيح البخاري رقم : 2367 ، السنة لإبن أبى عاصم : 769 ، سلسلة الأحاديث الصحيحة، رقم : 3952.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت حوض پر میرے پاس آئے گی۔ میں کچھ لوگوں کو اس سے یوں دھتکاروں گا، جیسے کوئی آدمی دوسرے کے اونٹوں کو اپنے اونٹوں سے دور دھتکارتا ہے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے نبی! کیا آپ ہمیں پہچان لیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جی ہاں، تمہاری ایک ایسی علامت ہو گی ، جو دوسروں کی نہیں ہوگی، تم میرے پاس اس حال میں آؤ گے کہ وضو کے اثر کی وجہ سے تمہاری پیشانی، دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں چمکتے ہوں گے۔ لیکن تم میں ایک گروہ کو مجھ سے روک لیا جائے گا، وہ ( مجھ تک ) نہ پہنچ پائیں گے۔ میں کہوں گا: اے میرے ربّ! یہ میرے ساتھی ہیں؟ ایک فرشتہ مجھے جواب دے گا: اور کیا آپ جانتے ہیں کہ انھوں نے آپ کے بعد (دین میں) بدعتوں کو رواج دیا تھا۔“

من گھڑت قصے اور حکایات بیان کرنے سے اجتناب

حدیث 20

وعن خباب، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن بني إسرائيل لما هلكوا قصوا
المعجم الكبير ، رقم : 3705 ، الحلية الأولياء : 362/4 ، سلسلة الصحيحة ، رقم: 1681 ۔
”اور حضرت خباب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بنو اسرائیل ہلاک ہوئے کیونکہ انھوں نے قصہ گوئی شروع کر دی تھی ۔ “

کتمان علم کی ممانعت

حدیث 21

وعن أبى هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: مثل الذى يتعلم العلم ثم لا يحدث به ، كمثل الذى يكتر الكثر فلا ينفق منہ
المعجم الأوسط للطبراني : 689/213/1، جامع بيان العلم لإبن عبد البر: 122/1 ، سنن الدارمي : 134/1 ، مسند أحمد : 499/2، سلسلة احاديث الصحيحة، رقم : 3479۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو آدمی علم حاصل کرتا ہے، لیکن اس کو ( لوگوں کے سامنے ) بیان نہیں کرتا، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے، جو خزانہ جمع کرتا رہتا ہے لیکن اس میں سے خرچ نہیں کرتا۔ “

اسلام کو ہر زبان میں پھیلانے کی کوشش کریں

حدیث 22

وعن خارجة بن زيد ، عن أبيه ، قال : لما قدم النبى صلى الله عليه وسلم المدينة ، أتي بى إليه ، فقرأت عليه ، فقال لي: تعلم كتاب اليهود ، فإنى لا آمنهم على كتابنا – قال: فما مر بي خمس عشرة، حتى تعلمته ، فكنت أكتب للنبي صلى الله عليه وسلم وأقرأ كتبهم إليه
سنن أبو داود، رقم : 3645 ، سنن الترمذى: 119/2 ، مستدرك الحاكم : 75/1 ، مسند أحمد : 186/5 ، سلسلة احاديث الصحيحة، رقم : 187.

” اور خارجہ بن زید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو مجھے آپ کے پاس لایا گیا، میں نے آپ کو کچھ چیزیں پڑھ کر سنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا: تم یہودیوں کا رسم الخط سیکھو، کیونکہ میں اپنے خطوط کے سلسلے میں ان پر مطمئن نہیں ہوں۔ ابھی تک پندرہ روز نہیں گزرے تھے کہ میں نے ان کا خط سیکھ لیا۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( خطوط ) لکھتا تھا اور ان کے خطوط آپ کو پڑھ کر سناتا تھا۔“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طلبہ علم کو خوش آمدید کہتے

حدیث 23

وعن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: حدث صفوان بن عسال المرادي قال: أتيت رسول الله وهو متكي فى المسجد على برد له أحمر فقلت له: يارسول الله صلى الله عليه وسلم ! إنى جئت أطلب العلم ، فقال: مرحبا بطالب العلم، إن طالب العلم لتحفه الملائكة وتظله بأجنحتها ، ثم يركب بعضهم بعضا، حتى يبلغوا السماء الدنيا، من حبهم لما يطلب – قال: قال صفوان: يا رسول الله! لا نزال نسافر بين مكة والمدينة ، فأفتنا عن المسح على الخفين – فقال له رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : ثلاثة أيام للمسافر ، ويوم وليلة للمقيم
المعجم الكبير للطبراني: 7347/64/8 ، الكامل لإبن عدی : 331/6، جامع بیان العلم لإبن عبد البر : 32/1 ، سند احمد 239/4 ، سلسلة احاديث الصحيحة، رقم : 3397 .
” اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ اپنی سرخ چادر پر ٹیک لگائے مسجد (نبوی) میں تشریف فرما تھے ، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور کہا: اے اللہ کے رسول ! میں حصول علم کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مرحبا (خوش آمدید )، بے شک فرشتے طالب علم کو گھیر لیتے ہیں اور اس پر اپنے پروں سے سایہ کرتے ہیں اور (کثرت تعداد کی وجہ سے ) ایک دوسرے پر سوار ہوتے ہوتے آسمانِ دنیا تک پہنچ جاتے ہیں، کیونکہ وہ اس چیز سے محبت کرتے ہیں، جس کو طالب علم حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ حضرت صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مابین سفر میں ہی رہتے ہیں، آپ ہمیں موزوں پر مسح کرنے کے بارے فتوی دے دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسافر کے لیے تین دن اور مقیم کے لیے ایک دن اور رات ( تک مسح کرنے کی گنجائش ہے ) ۔“

اللہ تعالی طالب علم کی خیر و بھلائی چاہتے ہیں

حدیث 24

وعن معبد الجهني، قال: كان معاوية قلما يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا ويقول هؤلاء الكلمات قلما يدعهن أو يحدث بهن فى الجمع عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من يرد الله به خيرا يفقهه فى الدين ، وإن هذا المال حلو خضر فمن يأخذه بحقه يبارك له فيه، وإياكم والتمادح ، فإنه الذبح
مشكل الأثار لطحاوي : 279/2 ، مسند أحمد: 92/4، 93، 98، 99، سلسلة احاديث الصحيحة، رقم : 1196 .
” اور معبد جہنی کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کم احادیث بیان کرتے تھے، اور ان کلمات کو تو کم ہی چھوڑتے تھے (یا راوی نے کہا کہ ) جمعہ کے خطبوں میں بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں، اس کو دین میں فقاہت عطا کر دیتے ہیں۔ یہ مال میٹھا، سرسبز و شاداب (اور پرکشش ) ہے، جو اس کو اس کے حق کے ساتھ حاصل کرے گا، اس کے لیے اس میں برکت ڈال دی جائے گی اور تم لوگ ایک دوسرے کی تعریف کرنے سے بچو، کیونکہ ایسے کرنا ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ “

غصہ آ جانے پر خاموشی اختیار کرنا

حدیث 25

وعن ابن عباس مرفوعا: علموا ويسروا ولا تعسروا ، وبشروا ولا تنفروا وإذا غضب أحدكم فليسكت
الأدب المفرد للبخارى رقم : 1230، مسند أحمد : 239/1، 283، 365، الكامل ابن عدي: 227/2 ، مسند الشهاب : 66/1 ، سلسلة احاديث الصحيحة، رقم : 1375 .
”اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تعلیم دو، آسانیاں پیدا کرو، تنگیاں پیدا نہ کرو، خوشخبریاں دو اور نفرتیں نہ دلا ؤ اور جب کسی کو غصہ آ جائے تو وہ خاموش ہو جائے ۔ “

طالب علم کو کتاب لکھنے کی نصیحت

حدیث 26

وعن أنس مرفوعا قيدوا العلم بالكتاب
سلسلة احاديث الصحيحة، رقم : 2026.
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع بیان کرتے ہیں کہ: لکھ کر علم کو مقید کرو “

طالب علم قیام اللیل کا اہتمام کرے

حدیث 27

وعن ابن الأدرع ، قال: كنت أحرس النبى صلى الله عليه وسلم ذات ليلة فخرج لبعض حاجته ، قال: فرآني فأخذ بيدي ، فانطلقنا، فمررنا على رجل يصلى يجهر بالقرآن فقال النبى : عسى أن يكون مرائيا قال: قلت: يارسول الله يجهر بالقرآن، قال: فرفض يدى ، ثم قال: إنكم لن تنالوا هذا الأمر بالمغالبة :قال ثم خرج ذات ليلة وأنا أحرسه لبعض حاجته ، فأخذ بيدي ، فمررنا برجل يصلى بالقرآن، قال: فقلت: عسى أن يكون مرائيا ، فقال النبى صلی اللہ علیہ وسلم : كلا إنه أواب قال فنظرت فإذا عبد الله ذو البجادين
مسند أحمد: 337/4 ، سلسلة احاديث الصحيحة، رقم : 1709.
”اور حضرت ابن ادرع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہرہ دے رہا تھا، آپ کسی کام کے لیے نکلے، جب مجھے دیکھا تو میرا ہاتھ بھی پکڑ لیا، پس ہم چل پڑے اور ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو نماز میں بآواز بلند تلاوت کر رہا تھا۔ اسے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قریب ہے کہ یہ ریا کاری کرنے والا بن جائے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ قرآن کی بلند آواز سے تلاوت کر رہا ہے، ( بھلا اس میں کیا حرج ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور ارشاد فرمایا: تم اس دین کو غلبے کے ساتھ نہیں پاسکتے۔ وہ کہتے ہیں: پھر ایک رات کو ایسے ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ضرورت کے لیے نکلے، جبکہ میں ہی پہرہ دے رہا تھا، (اسی طرح) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا ( اور ہم چل پڑے ) اور ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے جو نماز میں بآوازِ بلند قرآن کی تلاوت کر رہا تھا۔ اب کی بار میں نے کہا: قریب ہے کہ یہ شخص ریا کاری کرنے والا بن جائے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرا رد کرتے ہوئے) ارشاد فرمایا: ہر گز نہیں، یہ تو بہت تو بہ کرنے والا ہے۔ جب میں نے دیکھا تو وہ عبداللہ ذوالبجادین تھے۔“

طالب علم کو چاہیے کہ تحقیق کے بغیر گفتگو نہ کرے

حدیث 28

وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : كفى بالمرء إثما أن يحدث بكل ما سمع
صحيح مسلم ، المقدمة 8/1، سنن أبو داود، رقم : 4992، مستدرك الحاكم 112/1، مسند الشهاب : 114/1 ، سلسلة احاديث الصحيحة، رقم : 2025.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی کے گناہگار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے، اسے آگے بیان کر دے۔ “

طالب علم کی روزی میں برکت ڈالی جاتی ہے

حدیث 29

وعن أنس، قال: كان أخوان على عهد النبى صلى الله عليه وسلم فكان أحدهما يأتى النبى (وفي رواية: يحضر حديث النبى ومجلسه) والآخر يحترف، فشكا المحترف أخاه إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: يارسول الله! إن هذا أخي لا يعينني بشي فقال : لعلك ترزق به
سنن الترمذي رقم : 2346 ، مستدرك الحاكم 93/1، 94، مسند الروياني : 241/1 ، الكامل لإبن عدى : 682/2 ، جامع بيان العلم لإبن عبد البر : 59/1 أحاديث المختارة : 512/1 ، سلسلة احاديث الصحيحة، رقم : 2769 .
” اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو بھائی تھے، ان میں سے ایک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا رہتا تھا، اور ایک روایت میں ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو سنتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتا تھا، جبکہ دوسرا بھائی کمائی کرتا تھا۔ کمائی کرنے والا بھائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور( شکایت کرتے ہوئے ) کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ میرا بھائی میری کوئی مدد نہیں کرتا ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: شاید تجھے اس کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہو۔ “

طالب علم کو چاہیے کہ قرآن وسنت کی غلط تاویل نہ کریں

حدیث 30

وعن عقبة بن عامر الجهني ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: هلاك أمتي فى الكتاب واللبن – قالوا: يارسول الله ما الكتاب واللبن؟ قال: يتعلمون القرآن فيتأولونه على غير ما أنزل الله عزوجل ويحبون اللبن فيدعون الجماعات والجمع ، ويبدون
مسند الامام أحمد : 155/4 ، سلسلة احاديث الصحيحة، رقم : 2778.
”اور حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: میری امت کی ہلاکت (اللہ کی) کتاب اور دودھ میں ہو گی۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! یہ کیا کتاب اور کیا دودھ (ہمیں بات سمجھ نہیں آئی )؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قرآن کی تعلیم حاصل کریں گے، لیکن ایسے معنی پر اس کی تاویل کریں گے، جس کے لیے اللہ تعالی نے اسے نازل نہیں کیا۔ اور دودھ کو (اس قدر ) پسند کریں گے کہ جماعتیں اور جمعے چھوڑ دیں گے اور جنگلوں (اور دیہاتوں ) کی طرف نکل جائیں گے۔“

علم حاصل کر کے اسے دنیا میں پھیلانے کی سعی کریں

قال الله تعالى: كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنهون عن المنكر وتؤمنون بالله ۗ ولو آمن أهل الكتاب لكان خيرا لهم ۚ منهم المؤمنون وأكثرهم الفاسقون ‎﴿١١٠﴾‏
(3-آل عمران:110)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
تم بہترین امت ہو جو لوگوں ( کی اصلاح) کے لیے پیدا کی گئی ہے، تم نیک کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے حق میں بہت بہتر ہوتا۔ ان میں بعض ایمان والے بھی ہیں مگر ان کے اکثر نافرمان ہیں۔“

حدیث 31

وعن أبى موسى قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن مثل ما بعثني صلى الله عليه وسلم: الله عزوجل به من الهدى والعلم كمثل غيث أصاب الأرض ، فكانت منه طائفة قبلت فأنبتت الكلا والعشب الكثير ، وكانت منها أجادب أمسكت الماء فنفع الله عزوجل بها ناسا فشربوا فرعوا وسقوا و زرعوا وأسقوا، وأصابت طائفة منها أخرى، إنما هي قيعان لا تمسك ماء ولا تنبت كلا، فذلك مثل من فقه فى دين الله عزوجل ونفعه الله عزوجل بما بعثني به ونفع به فعلم وعلم ، ومثل من لم يرفع بذلك رأسا ولم يقبل هدى الله عزوجل الذى أرسلت به
مسند أحمد : 399/4، رقم : 573۔ شیخ حمزہ زین نے اسے ”صحیح الإسناد“ قرار دیا ہے۔
”اور حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے جو ہدایت اور علم عطا کر کے بھیجا ہے، اس کی مثال اس بارش کی سی ہے، جو زمین پر نازل ہوئی، زمین کے ایک حصے نے اس کا پانی قبول کیا اور بہت زیادہ گھاس اگائی اور ایک حصہ سخت تھا، اس نے پانی کو روک لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے کئی لوگوں کو فائدہ پہنچایا، پس انھوں نے پانی پیا، مویشیوں کو پلایا، کھیتی کاشت کی اور اس کو سیراب کیا۔ پھر یہی بارش اس زمین پر بھی برسی ، جو چٹیل میدان تھی، وہ نہ پانی کو روک سکی اور نہ گھاس اگا سکی۔ پس اول الذکر اس شخص کی مثال ہے جس نے دین میں فقہ حاصل کی، (یعنی دین کو سمجھا اور اس کا علم حاصل کیا)، اور اللہ تعالیٰ نے مجھے جس چیز کے ساتھ بھیجا ہے، اس کو اس کے ذریعے نفع دیا اور پھر اس کے ذریعے لوگوں کو نفع دیا ، سو اس نے خود بھی علم حاصل کیا اور لوگوں کو بھی اس کی تعلیم دی اور مؤخر الذکر اس آدمی کی مثال ہے، جس نے (علم اور ہدایت قبول کرنے کے لیے) سرے سے سر ہی نہیں اٹھایا اور اللہ تعالیٰ کی وہ ہدایت قبول نہیں کی، جس کے ساتھ اس نے مجھے مبعوث کیا۔“

طلبہ علم کی عزت و احترام کریں

حدیث 32

وعن عبادة بن الصامت رضی اللہ عنہ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ليس من أمتي من لم يجل كبيرنا و يرحم صغيرنا و يعرف حق لعالمنا
مسند أحمد، رقم :23135۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ آدمی میری امت میں سے نہیں ہے، جو ہمارے بڑوں کی تعظیم نہیں کرتا ، چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے اہل علم کا حق نہیں پہنچانتا۔ “

اہل علم انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں

حدیث 33

وعن أبى الدرداء رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: فضل العالم على العابد كفضل القمر على سائر الكواكب، إن العلماء هم ورثة الأنبياء ، لم يرثوا دينارا ولا درهما وإنما ورثوا العلم ، فمن أخذه أخذ بحظ وافر
مسند أحمد، رقم : 22058۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: علم والے کو عبادت گزار پر اتنی فضیلت حاصل ہے، جیسے چاند کی بقیہ ستاروں پر ہے، بیشک اہل علم ہی انبیائے کرام کے وارث ہیں، انھوں نے ورثے میں درہم و دینار نہیں لیے، بلکہ علم وصول کیا، پس جس شخص نے علم حاصل کیا، اس نے (نبوی میراث سے ) بھر پور حصہ لے لیا۔ “

علم حاصل کرنا اللہ کا حکم ہے

حدیث 34

وعن عياض بن حمار المجاشعي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فى خطبة خطبها: إن الله عز وجل أمرني أن أعلمكم ما جهلتم مما علمنى يومي هذا، وأنه قال: إن كل ما نحلته عبادي فهو لهم حلال
مسند أحمد، رقم :18529۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عیاض بن حمار مجاشعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں ان امور کی تعلیم دے دوں، جن سے تم جاہل ہو، ان امور میں سے جو اس نے مجھے آج سکھائے ہیں، نیز اس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہر وہ چیز جو میں نے اپنے بندوں کو عطا کی ہے، وہ ان کے لیے حلال ہے۔“

علم کی مجالس اور متعلم کے آداب کا بیان

حدیث 35

وعن أبى واقد الليثي رضي الله عنه قال: بينما نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ مر ثلاثة نفر ، فجاء أحدهم فوجد فرجة فى الحلقة فجلس وجلس الآخر من ورائهم وانطلق الثالث ، فقال رسول الله : ألا أخبركم بخبر هؤلاء النفر؟ – قالوا: بلى يا رسول الله قال: أما الذى جاء فجلس فأوى فآواه الله ، والذي جلس من ورائكم فاستحى فاستحى الله منه، وأما الذى انطلق رجل أعرض فأعرض الله عنه
مسند أحمد، رقم :22252۔ شیخ حمزہ زین نے اسے صحیح الإسناد قرار دیا ہے۔
” اور حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، وہاں سے تین افراد کا گزر ہوا، ان میں سے ایک فرد متوجہ ہوا اور مجلس کے اندر خالی جگہ دیکھ کر وہاں بیٹھ گیا، دوسرا فرد لوگوں کے پیچھے ہی بیٹھ گیا اور تیسرا چلا گیا۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ان تین افراد کی بات بیان نہ کر دوں؟ صحابہ کرام خان نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول ! آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص آگے بڑھ کر بیٹھ گیا، اس نے جگہ لی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو جگہ دے دی، جو آدمی تمہارے پیچھے بیٹھ گیا، پس اس نے شرم محسوس کی اور اللہ تعالیٰ بھی اس سے شرما گیا اور جو فرد چلا گیا، پس اس نے اعراض کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے اعراض کیا۔“

حدیث 36

وعن جرير أن النبى صلى الله عليه وسلم قال له فى حجة الوداع استنصت الناس فقال لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
صحیح بخاری کتاب العلم، رقم : 121۔
”اور حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں انہیں فرمایا : لوگوں کو خاموش کراؤ۔ پھر ارشاد فرمایا: میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تمہارا بعض بعض کو قتل کرنے لگ جائے۔ “

اہل علم سے سوال کرنے کی ترغیب

حدیث 37

وعن ابن عباس رضي الله عنه أن رجلا أصابه جرح فى عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأمر بالاغتسال فمات ، فبلغ ذلك النبى صلى الله عليه وسلم فقال: قتلوه قتلهم الله ، ألم يكن شفاء العي السوال
مسند أحمد، رقم : 3056۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
” اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی عہد نبوی میں زخمی ہو گیا، پس اس کو (جنابت کی وجہ سے ) غسل کرنے کا حکم دیا گیا اور وہ اس غسل سے فوت ہو گیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات موصول ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں نے اُس کو قتل کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کرے، کیا جہالت کی شفا سوال میں نہیں ہے۔“

طلبا کو باعمل زندگی گزارنی چاہیے

حدیث 38

وعن شقيق عن أسامة بن زيد رضي الله عنه قال: قيل له: ألا تدخل على هذا الرجل وفي رواية : ألا تكلم عثمان قال: فقال: ألا ترون أني لا أكلمه إلا أسمعكم، والله! لقد كلمته فيما بيني وبينه مادون أن أفتح أمرا لا أحب أن أكون أنا أول من فتحه ولا أقول لرجل أن يكون على أميرا إنه خير الناس وفي رواية : ولا أقول لرجل إنك خير الناس وإن كان على أميرا بعد ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: يؤتى بالرجل يوم القيامة فيلقى فى النار ، فتندلق أقتاب بطنه فيدور بها فى النار كما يدور الحمار بالرحى ، قال: فيجتمع أهل النار إليه ، فيقولون: يا فلان أما كنت تأمرنا بالمعروف وتنهانا عن المنكر؟ قال: فيقول: بلى قد كنت آمر بالمعروف فلا آتيه وأنهى عن المنكر وآتيه
مسند أحمد ، رقم :22143۔ شیخ حمزه زین نے اسے صحیح الإسناد قرار دیا ہے۔
” اور شقیق کہتے ہیں کہ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا: کیا تم اس آدمی یعنی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر گفتگو نہیں کرتے ، انھوں نے کہا: کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ میں جب بھی ان سے گفتگو کروں تو تم کو سناؤں گا، اللہ کی قسم ہے! کسی چیز کا اعلان کیے بغیر میں نے ان سے گفتگو کی ہے، جبکہ اس مجلس میں صرف میں اور وہ تھے، میں یہ پسند نہیں کرتا کہ ایسے امور کا پہلے میں اعلان کروں، میں یہ حدیث سننے کے بعد کسی بندے کے بارے میں یہ نہیں کہوں گا کہ وہ لوگوں میں سب سے بہتر ہے، اگر چہ وہ میرا امیر بھی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک آدمی کو قیامت کے روز لایا جائے گا اور اس کو آگ میں ڈال دیا جائے گا، اس کے پیٹ کی انتڑیاں نکل آئیں گی اور وہ جہنم میں ان کے اردگرد چکر کاٹنا شروع کر دے گا، جیسے گدھا چکی کے چکر کاٹتا ہے، اس کی یہ حالت دیکھ کر جہنمی لوگ اس کے پاس جمع ہو کر کہیں گے: کیا تو تو ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتا تھا اور برائی سے منع نہیں کرتا تھا؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں ، لیکن میں تم کو نیکی کا حکم دیتا تھا اور خود اس کو نہیں کرتا تھا اور تم کو برائی سے منع کرتا تھا، لیکن خود اس کا ارتکاب کر جاتا تھا۔“

طلباء کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا ذکر

حدیث 39

وعن عبد الرحمن بن أبان بن عثمان عن أبيه أن زيد بن ثابت رضي الله عنه خرج من عند مروان نحوا من نصف النهار فقلنا: ما بعث إليه الساعة إلا لشيء سأله عنه ، فقمت إليه فسألته فقال: أجل، سألنا عن أشياء سمعتها من رسول الله الله ، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: نضر الله امرء سمع منا حديثا فحفظه حتى يبلغه غيره ، فإنه رب حامل فقه ليس بفقيه ورب حامل فقه إلى من هو أفقه منه ، ثلاث لا يغل عليهن قلب مسلم أبدا، اخلاص العمل لله ومناصحة ولاة الأمر ولزوم الجماعة ، فإن دعوتهم تحيط من وراء هم – وقال: من كان همه الآخرة، جمع الله شمله وجعل غناه فى قلبه وأتته الدنيا وهى راغمة ، ومن كانت نيته الدنيا فرق الله عليه ضيعته وجعل فقره بين عينيه ولم يأته من الدنيا إلا ما كتب له – وسألنا عن الصلوة الوسطى وهى الظهر
مسند أحمد، رقم 21923۔ شیخ حمزه زین نے اسے صحیح الإسناد قرار دیا ہے۔
”اور ابان بن عثمان کہتے ہیں: حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہا تقریباً نصف النهار کے وقت مروان کے پاس سے نکلے، ہم نے کہا: اس نے اس وقت کسی چیز کے بارے میں سوال کرنے کے لیے ان کو بلایا ہو گا ، چنانچہ میں اٹھ کر ان کے پاس گیا اور ان سے اس بارے میں پوچھا، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں، اُس نے مجھ سے ایسی چیزوں کے بارے میں پوچھا، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھیں، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: اللہ تعالیٰ اس بندے کو ترو تازہ رکھے، جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی، پھر اس کو یاد کیا، یہاں تک کہ اس کو آگے پہنچا دیا، کوئی حاملین فقہ فقیہ نہیں ہوتے اور کئی حاملین فقہ اپنے سے زیادہ فقیہ تک یہ فقہ پہنچا دیتے ہیں۔ اگر تین چیزیں ہوں تو مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا، ایک اللہ تعالیٰ کے لیے خلوص کے ساتھ عمل کرنا، دوسرا امراء کی ہمدردی کرنا اور تیسرا جماعت کو لازم پکڑنا، کیونکہ مؤمنوں کی دعا ان کو پیچھے سے گھیر کر رکھتی ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کی نظر اور غم آخرت ہو، اللہ تعالٰی اس کا شیرازہ مجتمع کر دیتا ہے اور اس کے دل میں غنی رکھ دیتا ہے اور دنیا ذلیل ہو کر اس کے پاس آتی ہے، لیکن جس کی نیت اور عزم دنیا ہی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے مشاغل بڑھا دیتا ہے اور اس کی فقیری اس کی پیشانی پر رکھ دیتا ہے اور دنیا بھی اس کو اتنی ہی ملتی ہے، جتنی اس کے مقدر میں لکھی ہوتی ہے۔ اس نے ہم سے نماز وسطی کے بارے میں سوال کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ ظہر ہے۔“

قرب قیامت علم اٹھا لیا جائے گا

حدیث 40

وعن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أشراط الساعة أن يرفع العلم ويثبت الجهل وتشرب الخمر ويظهر الزنا
مسند أحمد ، رقم : 13126۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ قیامت کی علامتوں میں سے ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت پھیل جائے گی ، شراب پی جائے گی اور زنا عام ہو جائے گا۔ “
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1