نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیے جانے کا واقعہ صحیح احادیث میں مذکور ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
سحر رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم رجل من بنی زریق یقال لہ: لبید بن الأعصم، حتّی کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یخیّل الیہ أنّہ یفعل الشّیء وما فعلہ، حتّی اذا کان ذات یوم أو ذات لیلۃ، وھو عندی، لکنّہ دعا ودعا، ثمّ قال: یا عائشۃ! أشعرت أنّ اللّٰہ أفتانی فیما استفتیتہ فیہ، أتانی رجلان فقعد أحدھما عند رأسی والآخر عند رجلیّ، فقال أحدھما لصاحبہ: ما وجع الرّجل؟ فقال: مطبوب، قال: من طبّہ؟ قال: لبید بن الأعصم، قال: فی أیّ شیء؟ قال: فی مشط ومشاطۃ وجفّ طلع نخلۃ ذکر، قال: وأین ھو؟ قال: فی بئر ذروان، فأتاھا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی ناس من أصحابہ، فجاء، فقال: یا عائشۃ! کأنّ ماء ھا نقاعۃ الحنّاء، أو کأنّ رؤوس نخلھا رؤوس الشّیاطین، قلت: یا رسول اللّٰہ! أفلا أستخرجہ؟ قال: قد عافانی اللّٰہ، فکرھت أن أثوّر علی النّاس فیہ شرّا، فأمر بھا، فدفنت۔
"بنو زریق کے لبید بن الاعصم نامی شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا، جس کی وجہ سے آپ کو ایسا محسوس ہوتا کہ آپ کچھ کر رہے ہیں، حالانکہ وہ نہیں کرتے تھے۔ ایک دن یا رات جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ کے پاس تھے، آپ نے بار بار دعا کی اور پھر فرمایا: ‘اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ نے مجھے وہ بات بتا دی ہے جو میں اس سے پوچھ رہا تھا؟ میرے پاس دو افراد آئے، ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا: اس شخص کو کیا مسئلہ ہے؟ دوسرے نے کہا: جادو کیا گیا ہے۔ پوچھا: کس نے کیا ہے؟ جواب دیا: لبید بن الاعصم نے۔ پوچھا: کس چیز میں؟ جواب دیا: کنگھی، بالوں اور نر کھجور کے شگوفے میں۔ پھر پوچھا: وہ کہاں ہے؟ جواب دیا: بئرِ ذروان میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ہمراہ وہاں تشریف لے گئے اور واپس آ کر فرمایا: ‘اے عائشہ! اس کنویں کا پانی گویا مہندی کے رنگ کی طرح تھا اور اس کی کھجوریں شیطانوں کے سر کی مانند لگ رہی تھیں۔’ سیدہ عائشہ نے پوچھا: ‘کیا آپ نے اسے نکالا؟’ آپ نے فرمایا: ‘نہیں، اللہ نے مجھے شفا دے دی ہے، میں اس کے شر کو لوگوں میں پھیلانا نہیں چاہتا تھا۔’ پھر اس کنویں کو دفن کر دیا گیا۔” (صحیح بخاری: 2/858، ح: 5766؛ صحیح مسلم: 2/221، ح: 2189)
جادو کا امکان اور نبی پر اثر
یہ حدیث، جو بخاری و مسلم میں متفق علیہ ہے، قطعی دلیل اور واضح برہان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہوا تھا۔ جادو ایک بیماری ہے اور دیگر بیماریوں کی طرح یہ بھی انبیاء کو متاثر کر سکتی ہے۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی یہ مذکور نہیں ہے کہ انبیاء پر جادو نہیں ہو سکتا۔
حدیث کی صحت اور معتزلہ کا انکار
یہ حدیث تمام محدثین کے اجماع سے "صحیح” ہے۔ البتہ معتزلہ فرقہ، جو قرآن کو مخلوق سمجھتا ہے، اس حدیث کا انکار کرتا ہے۔ یہ فرقہ نہ صرف اس حدیث کا انکار کرتا ہے بلکہ دیگر بہت سی احادیثِ صحیحہ کا بھی انکار کرتا ہے۔ امام نعیم بن حماد الخزاعی رحمہ اللہ (م 228ھ) فرماتے ہیں:
"المعتزلۃ تردّون ألفی حدیث من حدیث النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أو نحو ألفی حدیث۔”
”معتزلہ احادیث ِ نبویہ میں سے دو ہزار یا اس کے لگ بھگ احادیث کا انکار کرتے ہیں ۔”
(سنن ابی داود: تحت حدیث: 4772، وسندہ صحیح)
موجودہ دور کے معتزلہ کے اعتراضات
ہمارے دور کے بعض معتزلہ نے اس حدیث پر عقلی و نقلی اعتراضات پیش کیے ہیں۔ آئیے ان کے ان اعتراضات کا علمی و تحقیقی جائزہ لیتے ہیں:
اعتراض نمبر 1: راوی ہشام بن عروہ "مدلس” ہیں
جواب 1: ہشام بن عروہ کے ثقہ ہونے پر اجماع ہے۔ امام مالک کی جرح کا راوی ابنِ خراش خود "ضعیف” ہے، اس لیے ان کا قول مردود ہے۔ اگرچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں طبقہ اولیٰ کے "مدلسین” میں شمار کیا ہے، لیکن ان کا "مدلس” ہونا ثابت نہیں۔ اس کے برعکس جس قول (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم: ص 104-105) کی بنیاد پر انہیں "مدلس” قرار دیا گیا، وہ خود غیر ثابت ہے۔ اس واقعہ کے راوی عبداللہ بن علی بن المدینی کی "توثیق” بھی غیر ثابت ہے۔
جواب 2: ہشام بن عروہ نے صحیح بخاری (1/450، ح: 3175) اور مسند احمد (6/50) میں "حدّثنی” کہہ کر اپنے والد سے سماع کی تصریح کی ہے۔ والحمد للّٰہ علی ذلک!
جواب 3: صحیحین میں مدلسین کی روایات کو سماع پر محمول کیا جاتا ہے۔
اعتراض نمبر 2: ہشام بن عروہ کے متعلق دیگر الزامات
مشہور معتزلی حبیب الرحمن کاندھلوی حیاتی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
"یہ روایت ہشام کے علاوہ کوئی بیان نہیں کرتا اور ہشام کا 132ھ میں دماغ جواب دے گیا تھا، بلکہ حافظ عقیلی تو لکھتے ہیں: قد خرف فی آخر عمرہ۔”
جواب: یہ محض ایک بے بنیاد الزام ہے۔ حافظ عقیلی کا ایسا کوئی قول موجود نہیں ہے۔ متقدمین میں سے کسی نے ہشام بن عروہ پر اختلاط کا الزام نہیں لگایا۔ دوسری بات یہ کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں تمام مختلط راویوں کی روایات کو اختلاط سے پہلے کی مانی جاتی ہیں، جیسا کہ حافظ نووی رحمہ اللہ نے ایک مختلط راوی کے بارے میں ذکر کیا:
"وما کان فی الصّحیحین عنہ محمول علی الأخذ عنہ قبل اختلاطہ۔”
”اور جو کچھ صحیحین میں ان سے منقول ہے ، وہ ان سے اختلاط سے قبل لے لیے جانے پر محمول ہے ۔”
(تہذیب الاسماء واللغات للنووی: 1/221)
حافظ ابن القطان رحمہ اللہ (م 628ھ) نے ہشام کو "مختلط” کہا ہے (بیان الوہم والایھام: 4/508، ح: 2726)۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے رد میں لکھتے ہیں:
"ولم نر لہ فی ذلک سلفا۔”
”ہم نے اس بارے میں ان کا کوئی سلف(ان سے پہلے یہ بات کہنے والا)نہیں دیکھا۔”
(تھذیب التھذیب لابن حجر: 11/51)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
"ہشام کبھی بھی مختلط نہیں ہوئے، یہ بات قطعی ہے۔”(سیر اعلام النبلاء للذہبی: 6/26)
اعتراض نمبر 3: روایت کی اسناد میں عروہ کا ذکر نہیں
مشہور منکرِ حدیث شبیر احمد ازہر میرٹھی صاحب لکھتے ہیں:
"ہشام کی بیان کی ہوئی روایات میں سے کسی بھی روایت کی اسناد میں یہ ذکر نہیں ہے کہ عروہ نے حضرت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث سنی تھی۔” (صحیح بخاری کا مطالعہ از میرٹھی: 2/87)
جواب: جب راوی کی اپنے استاد سے ملاقات ثابت ہو اور وہ "مدلس” نہ ہو تو اس کی "عن” والی روایت متصل سمجھی جاتی ہے۔ عروہ کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات و سماع ثابت ہے۔ دیکھیں (صحیح بخاری: 3077، صحیح مسلم: 2418)۔ امام عروہ رحمہ اللہ مدلس بھی نہیں ہیں، لہٰذا سند متصل ہے۔
حدیث کا قرآن سے تعلق
بعض لوگ اس حدیث کو قرآن کریم کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارا جواب یہ ہے کہ متفقہ طور پر کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ وہ کون سی آیت ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ نبی پر جادو نہیں ہو سکتا؟ یہ تو کفار کا نظریہ تھا کہ نبی پر جادو نہیں ہو سکتا، اسی وجہ سے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کو جادو سے تعبیر کیا۔
قرآن میں جادو کا ذکر
حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جادو کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(قَالَ بَلْ اَلْقُوْا فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَعِصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی) (طٰہٰ: 66)
"ان (جادوگروں) کے جادو کی وجہ سے ان (موسیٰ علیہ السلام) کو گمان ہوا کہ وہ (رسیاں سانپ بن کر) دوڑ رہی ہیں۔ پس موسیٰ علیہ السلام نے اپنے نفس میں ڈر محسوس کیا۔”
فرعون کے جادوگروں کے جادو کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
(وَجَاءُ ْوا بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ) (الاعراف: 116)
"اور وہ بہت بڑا جادو لے کر آئے تھے۔”
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا ذکر بھی انہی قرآنی الفاظ "یُخَیَّلُ اِلَیْہِ” کے ساتھ حدیث میں آیا ہے۔ قرآن کے بارے میں جو جواب ہوگا، وہی حدیث کے متعلق بھی ہوگا۔
محدثین کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کے بارے میں موقف
اس حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے محدثین نے یہی سمجھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تھا، جس کا انکار معتزلہ کرتے ہیں۔
عالم ربانی شیخ الاسلام ثانی علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ کا موقف
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"یہ حدیث حدیث کا علم رکھنے والے علماء کے نزدیک ثابت شدہ اور قبولیت کے لائق ہے۔ اس کی صحت میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ تاہم اہل کلام اور دیگر لوگوں نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے سخت انکار کیا، اسے جھوٹ قرار دیا، اور بعض نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھیں، جن میں ہشام بن عروہ پر تنقید کی گئی۔ ان کے سب سے بڑے اعتراض کا لب لباب یہ ہے کہ ہشام بن عروہ سے غلطی ہوئی اور ان کے لیے معاملہ مشتبہ ہوگیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا ہونا ممکن نہیں کیونکہ یہ کفار کے اس قول کی تصدیق ہوگی: (اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَسْحُوْرًا) (الاسراء: 47) یعنی ‘تم تو ایک جادو زدہ شخص کی پیروی کرتے ہو’۔ یہی بات فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے بھی کہی تھی: (وَاِنِّی لَأَظُنُّکَ یَا مُوْسٰی مَسْحُوْرًا) (الاسراء: 101) اور قومِ صالح اور قومِ شعیب نے بھی اپنے انبیاء سے کہا تھا: (اِنَّمَا أَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ) (الشعراء: 153) اور (الشعراء: 185)۔
ان کا کہنا ہے کہ انبیاء پر جادو کا ہونا اللہ کی طرف سے ان کی حمایت اور شیاطین سے حفاظت کے منافی ہے۔ یہ موقف اہل علم کے نزدیک مردود ہے، کیونکہ ہشام بن عروہ اپنے وقت کے معتبر ترین اور علم رکھنے والے افراد میں سے تھے، اور کسی امام نے ان پر ایسی جرح نہیں کی جس سے ان کی حدیث کو رد کیا جا سکے۔ نیز، ہشام کے علاوہ دیگر راویوں نے بھی یہ حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کی ہے۔ امام بخاری و مسلم نے اس حدیث کی صحت پر اتفاق کیا ہے، اور محدثین میں سے کسی نے اس حدیث پر ضعف کا کلمہ نہیں کہا۔ یہ واقعہ مفسرین، محدثین، مؤرخین، اور فقہاء کے ہاں مشہور ہے، اور یہ لوگ متکلمین کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و واقعات سے زیادہ واقف ہیں۔” (بدائع الفوائد لابن القیم: 2/223)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی نقل کردہ وضاحت
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علامہ مازری سے نقل کرتے ہیں:
"بعض بدعتی افراد نے اس حدیث کا انکار کیا اور یہ گمان کیا کہ یہ حدیث مقامِ نبوت کو گھٹاتی ہے اور اس میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے۔ ان کے بقول، جو بھی چیز نبوت کے مقام میں کمی کا باعث ہو، وہ باطل ہے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اگر انبیاء پر جادو کا ہونا تسلیم کیا جائے تو اس سے ان کی بیان کردہ شریعتوں پر سے اعتماد اٹھ جائے گا، کیونکہ اس صورت میں یہ ممکن ہے کہ نبی کو جبریل کا مشاہدہ ہونے کا گمان ہو، حالانکہ وہ موجود نہ ہو، یا یہ کہ ان پر وحی نازل ہو اور وہ سمجھیں کہ کچھ بھی نازل نہیں ہوا۔
یہ تمام اعتراضات مردود ہیں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ میں صداقت اور معصومیت کی دلیل موجود ہے، اور آپ کے معجزات اس کی گواہی دیتے ہیں۔ اس لیے جو بات دلیل سے ثابت ہو، اس کے خلاف امکانات پیش کرنا باطل ہے۔ جہاں تک دنیاوی معاملات کا تعلق ہے، تو ان کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث نہیں کیا گیا اور نہ ہی رسالت کا ان سے تعلق ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی دنیاوی معاملات میں عام انسانوں کی طرح مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں، جیسے کہ بیماری۔ لہٰذا دنیاوی معاملات میں کسی بے بنیاد خیال کا آپ کو آجانا کوئی تعجب کی بات نہیں، جب کہ دینی امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل طور پر محفوظ ہیں۔
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال آتا تھا کہ انہوں نے اپنی ازواج مطہرات سے مباشرت کی ہے، حالانکہ ایسا نہ ہوتا تھا۔ یہ کیفیت اکثر انسانوں کو خواب میں پیش آتی ہے، تو یہ بعید نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیداری میں ایسا محسوس ہوا ہو۔” (فتح الباری لابن حجر: 10/226-227)
حدیث کے الفاظ سے وضاحت
اس کی وضاحت حدیث کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے:
"حتی کہ آپ یہ سمجھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے پاس آتے ہیں، حالانکہ آپ آتے نہ تھے۔” (صحیح بخاری: 2/585، ح: 5765)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شیطانوں سے محفوظ ہونا
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مہلب سے نقل کرتے ہیں:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شیطانوں سے محفوظ ہونا، ان کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بری تدبیر کے ارادے کی نفی نہیں کرتا۔ صحیح بخاری ہی میں یہ ذکر ہے کہ ایک شیطان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز خراب کرنے کی کوشش کی، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس پر قدرت دے دی۔ اسی طرح جادو کا معاملہ ہے، جس سے آپ کو ایسا کوئی نقصان نہیں پہنچا جو تبلیغ دین کے متعلق ہو۔ بلکہ آپ نے اس سے ویسی ہی تکلیف اٹھائی ہے جیسی باقی امراض سے آپ کو پہنچتی تھی، جیسے بول چال سے عاجز آنا، بعض کاموں سے رک جانا یا عارضی طور پر کوئی خیال آجانا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شیاطین کی تدبیر سے محفوظ رکھا اور ان کے شر کو زائل کر دیا۔” (فتح الباری: 10/227)
دیوبندی عالم محمد شفیع صاحب کا بیان
دیوبندیوں کے "مفتی اعظم” محمد شفیع دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
"کسی نبی یا پیغمبر پر جادو کا اثر ہوجانا ایسا ہی ممکن ہے جیسے بیماری کا اثر ہوجانا، کیونکہ انبیاء بشری خصوصیات سے علیحدہ نہیں ہوتے۔ جیسے انہیں زخم لگ سکتا ہے، بخار اور درد ہو سکتا ہے، اسی طرح جادو کا اثر بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ جادو بھی جنات وغیرہ کے اثر سے ہوتا ہے۔ حدیث سے ثابت بھی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہوگیا تھا۔ آخری آیت میں جہاں کفار نے آپ کو ‘مسحور’ کہا اور قرآن نے اس کی تردید کی، اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ ان کی مراد ‘مسحور’ کہنے سے مجنون کہنا تھا، جس کی قرآن نے تردید کی۔ اس لیے حدیث سحر اس کے خلاف اور متعارض نہیں ہے۔” (معارف القرآن: 5/490-491)
شبیر احمد عثمانی دیوبندی کا بیان
شبیر احمد عثمانی دیوبندی صاحب تفسیر عثمانی میں بیان کرتے ہیں:
"لفظ ‘مسحور’ سے جو مطلب وہ (کفار) لیتے تھے، اس کی نفی سے یہ لازم نہیں آتا کہ نبی پر کسی قسم کے جادو کا کسی درجہ میں بھی عارضی طور پر اثر نہ ہو سکے۔ یہ آیت مکی ہے جبکہ مدینہ میں یہود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا واقعہ پیش کیا جس کا ذکر صحاح میں موجود ہے۔ اس جادو کا اثر چند روز تک رہا جس کی وجہ سے کبھی کبھار دنیاوی معاملات میں بھول ہو جایا کرتی تھی۔” (تفسیر عثمانی)
دیگر علماء کے بیانات
جناب محمد حسین نیلوی مماتی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
"ایک نابکار یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو بھی کیا تھا۔” (الادلۃ المنصوصۃ از نیلوی: 94)
احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب تفسیر نور العرفان میں لکھتے ہیں:
"جادو اور اس کی تاثیر حق ہے، دوسرے یہ کہ نبی کے جسم پر جادو کا اثر ہو سکتا ہے۔” (تفسیر نور العرفان: ص 965)
علامہ عینی حنفی کی وضاحت
علامہ عینی حنفی کی تشریح اس معاملے میں بڑی وضاحت فراہم کرتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"یقیناً اس جادو نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان نہیں پہنچایا کیونکہ وحی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، نہ ہی شریعت میں کوئی خلل واقع ہوا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ تخیل اور وہم کا سامنا ہوا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس حالت پر آپ کو نہیں چھوڑا بلکہ آپ کی حفاظت کی، آپ کو جادو کی جگہ بتائی، اور اس کو نکالنے کا طریقہ بھی بتایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے جادو کا اثر ختم کر دیا، جیسے کہ بکری کے زہر کو آپ سے دور کیا تھا۔ تیسری بات یہ ہے کہ جادو آپ کے ظاہر پر ہوا تھا، دل و دماغ اور اعتقاد پر نہیں۔ جادو امراض میں سے ایک مرض ہے اور دوسری بیماریوں کی طرح یہ نبی کو لاحق ہو سکتا ہے۔ اس لیے یہ بات آپ کی نبوت میں کوئی عیب پیدا نہیں کرتی۔ دنیاوی معاملات میں آپ پر اس کا اثر ہو سکتا ہے، جیسے دیگر انسانوں کو دنیاوی معاملات میں مسائل پیش آتے ہیں۔” (عمدۃ القاری از عینی: 16/98)
علامہ عینی مزید لکھتے ہیں:
"بعض ملحدین نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر اعتراض کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیسے ہو سکتا ہے، جبکہ یہ تو کفر ہے اور شیطانی عمل ہے؟ اللہ کے نبی کو اس کا نقصان کیسے پہنچ سکتا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کی تھی؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ اعتراض باطل ہے اور قرآن کے خلاف بغض پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۂ فلق سکھائی جس میں ‘النَّفَّاثَاتِ’ کا مطلب ہے ‘گرہوں میں جادو کرنے والی عورتیں’۔ نبی پر جادو کا اثر تسلیم کرنے میں کوئی بات ایسی نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ اثر ہمیشہ رہتا تھا یا آپ کی ذات یا شریعت میں کوئی خلل آتا۔ آپ کو جادو کے اثر سے وہی تکلیف پہنچی تھی جیسی تکلیف کسی بیمار کو بخار یا برسام کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پھر یہ اثر زائل ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے جادو کا اثر ختم کر دیا۔ اس بات پر اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت (اس جادو کے اثر سے) محفوظ رہی ہے۔” (عمدۃ القاری: 16/98)
شبہ: خبر واحد عقیدہ میں حجت نہیں
بعض لوگ یہ شبہ ظاہر کرتے ہیں کہ خبر واحد عقیدہ میں حجت نہیں ہوتی، لہٰذا اس مسئلہ میں بھی خبر واحد حجت نہیں۔
جواب:
مسئلہ عقیدہ سے تعلق نہیں رکھتا: نبی پر جادو کا اثر ہونا عقیدہ سے تعلق نہیں رکھتا، البتہ جادو کی حقیقت اور تاثیر کا تعلق عقیدہ سے ہے۔
خبر واحد عقیدہ میں بھی حجت ہے: حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس تفریق کا باطل ہونا اجماع سے ثابت ہے (کہ خبر واحد عمل میں حجت ہے، عقیدہ میں نہیں)۔” (مختصر الصواعق المرسلۃ: 2/412)
قرآن سے جادو کا اثر ثابت ہونا
نبی پر جادو کا اثر ہونا قرآن سے بھی ثابت ہے، لہٰذا حدیث پر بے جا اعتراض کرنا بلا جواز ہے۔
خلاصہ
نتیجہ کے طور پر، جیسے نبی کو دیگر امراض لاحق ہو سکتے ہیں، اسی طرح دنیاوی معاملات میں جادو کا عارضی اثر بھی ممکن ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور رسالت ان اثرات سے محفوظ رہتی ہے۔