میرے بعد فتنہ واقع ہوگا لہٰذا تم علی رضی اللہ عنہ کو لازم پکڑ لینا
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

حضرت ابو لیلی غفاری کا بیان ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ عنقریب میرے بعد ایک فتنہ ہوگا۔ تو تم اس وقت علی رضی اللہ عنہ کو لازم پکڑ لینا۔ کیونکہ علی رضی اللہ عنہ سب سے پہلا وہ شخص ہے جس نے مجھے دیکھا۔ یہی سب سے پہلا شخص ہے جو قیامت کے روز مجھ سے مصافہ کرے گا۔ اور یہ علی رضی اللہ عنہ بلند آسمان میں میرے ساتھ ہوگا۔ اور یہ علی حق و باطل کے درمیان فرق پیدا کرے گا۔ [ميزان الاعتدال: 3371]
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب خلافت سنبھالی۔ اور ان لوگوں سے اعلان جنگ کیاجنہوں نے ان کی خلافت کو قبول نہ کیا تھا تو صحابہ کرام کی اکثریت نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنہ کی پیشین گوئی فرمائی تھی۔ اور یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اس میں کھڑا ہونے والا بیٹھنے والے سے بہتر ہوگا۔ اور اس قسم کی دیگر تفصیلات بیان کیں۔ جو صحیح بخاری، مسلم، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت حذیفہ بن الیمان، حضرت اسامہ بن زید، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابو موسی اشعری، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت کعب بن مالک، حضرت ابو بکر، حضرت ام سلمہ اور حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہ سے مروی ہیں۔ یہ زیر بحث روایت ایک زمانہ دراز بعد ان احادیث کے جواب کے لیے تیار کی گئی۔
اس روایت کی رو سے جہاں ان حضرات پر الزام قائم کیا گیاجنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی اور اسے جائز تصور کیا۔ مثلا ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت معاویہ، حضرت عمر و بن العاص، حضرت مغیرہ بن شعبہ، حضرت عبد اللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہم وغیرہ وغیرہ۔
اصل میں اس روایت کا واضع اسحاق بن بشر بن مقاتل الکوفی ا کاہلی ہے۔ اس کی کنیت ابو یعقو ب ہے۔ مطین کا بیان ہے کہ میں نے امام ابو بکر بن ابی شیبہ سے کسی کو کذاب کہتے نہیں سنا۔ لیکن اسحاق کو وہ کذاب کہتے۔ موسی بن ہارون اور ابو زرعہ نے بھی اسے کذاب قرار دیا ہے۔ فلاس وغیرہ کا قول ہے کہ یہ متروک ہے۔ دارقطنی کا بیان ہے کہ اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو احادیث وضع کرتے تھے۔ ذہبی کا بیان ہے کہ اس داستان کا واضح اسحاق بن بشر اکاہلی ہے۔ اللہ اس پر کبھی برکت نازل نہ فرمائے۔ [ميزان الاعتدال: 337/1۔ المغني: 70/1۔ الجرح والتعديل: 214/2۔ الضعفاء والمتروكين: 1001]
(1)اسحاق بن بشرالکاہلی نے یہ روایت حسن بصری کی جانب منسو ب کی ہے کہ انہوں نے یہ روایت ابولیلی سے نقل کی ہے۔ اگر حسن بصری و اقعتا اس داستان سے واقف ہوتے اور وہ نقل کرتے تو جب حضرت علی رضی اللہ عنہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جنگ کے لیے بصرہ پہنچے تو حسن بصری کو چاہیے تھا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کاساتھ دیتے۔ لیکن وہ فتنہ کے خوف سے بصرہ چھوڑ کر ایک گاؤں چلے گئے۔ حتی کہ جنگ کے بعد بھی انہوں نے بصرہ کا رخ نہیں کیا۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے بصرہ کے گورنر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ متعین کیے گئے۔ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے حسن بصری نے ان سے ملاقات تک نہیں کی یہ اس کی دلیل ہے کہ یہ حسن بصری کے نام سے جھوٹ بولا گیا ہے۔
(2)حسن بصری مشہور مدلس ہیں اور صحابہ سے مرسل روایات نقل کرتے ہیں۔ انہوں نے ابو لیلی صحابی کو دیکھا تک نہیں۔ الغرض یہ اس روایت کے جھوٹا ہونے کی ایک دلیل ہوئی۔
(3)حسن بصری سے یہ کہانی نقل کرنے والا عوف اعرابی ہے جو حسن بصری کا شاگرد ہے وہ
تاریخ میں عوف الصدوق کے نام سے مشہور ہے۔ لیکن امام ابن المبارک جنہیں فرید الدین عطار نے تذکرہ الاولیاء میں تبع تابعین کے زاہدوں اور اولیاء میں شمار کیا ہے۔ انہوں نے ایک روز جعفر بن سلیمان الضبعی سے فرمایا۔ تو نے ابن عون، یونس اور ایوب کو دیکھا ہے۔ جب اس نے اس کا اقرار کیا تو فرمایا تو پھر اس کی کیا وجہ کہ تو نے ان سے علم حاصل نہیں کیا۔ بلکہ ان تینوں حضرات کو چھوڑ کر عوف اعرابی کی مجلس میں شرکت کی؟
اللہ کی قسم یہ عوف اس وقت تک خوش نہیں ہوتا جب تک وہ دو باتیں اختیار نہ کر لے کیونکہ وہ قدری (تقدیر کا منکر) بھی ہے اور شیعہ بھی۔ محمد بن عبد اللہ الانصاری کا بیان ہے کہ میں نے داود بن ابی ہند کو دیکھا کہ وہ اس عوف کو مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے اے قدری
محمد بن بشار المعروف بہ بندار جب اس عوف کی روایت بیان کرتے تو فرماتے اللہ کی قسم عوف قدری ہے۔ رافضی ہے۔ شیطان ہے۔ مقدمہ مسلم۔ [ميزان الاعتدال: 305/3]
عوف اعرابی سے یہ داستان نقل کرنے والا خالد بن الحارث ہے جو مجہول ہے۔ الغرض اس روایت کی سند کے جتنے بھی راوی ہیں ان میں سے ایک بھی قابل اعتبار ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے