مکائد الشیطان سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو شیطان کھانے میں شریک ہو جاتا ہے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ ‎ ﴿١١٢﴾ ‏
(6-الأنعام: 112)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور اسی طرح ہم نے انسانوں اور جنوں میں سے شیطاطین، ہر نبی کے دشمن بنائے ، ان میں سے ہر ایک دوسرے کے کان میں چکنی چیڑی باتیں ڈالتا رہتا ہے تاکہ اسے دھوکے میں رکھے۔ اور (اے نبی!) اگر آپ کا رب چاہتا تو وہ یہ کام نہ کرتے ۔ چنانچہ آپ ان لوگوں کو، اور جو کچھ یہ جھوٹ گھڑ رہے ہیں، اس کو رہنے دیجیے۔“

حدیث 1

«عن جابر بن عبد الله أنه سمع النبى صلى الله عليه وسلم يقول: إذا دخل الرجل بيته فذكر الله عند دخوله ، وعند طعامه ، قال الشيطان: لا مبيت لكم ولا عشاء، وإذا دخل فلم يذكر الله عند دخوله قال الشيطان: أدركتم المبيت ، وإذا لم يذكر الله عند طعامه ، قال: أدركتم المبيت والعشاء»
صحيح مسلم، كتاب الأشربة ، باب آداب الطعام والشراب وأحكامهما ، رقم: 5262، سنن ابوداؤد، کتاب الأطعمة باب التسمية على الطعام، رقم: 3765.
”حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے اور داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر کرتا ہے (یعنی بسم اللہ پڑھتا ہے ) اور کھانے کے وقت بھی اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان (اپنے ساتھیوں سے ) کہتا ہے، نہ تو (یہاں) تمہارے لیے رات کا قیام ہے اور نہ ہی رات کا کھانا۔ لیکن جب انسان گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے تم نے (یہاں) رات کا قیام پالیا اور جب انسان کھانے کے وقت اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے تم نے رات کا قیام اور رات کا کھانا (دونوں کو ) پالیا۔“

شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے

قَالَ الله تَعَالَى: قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ ‎ ﴿١٢﴾
(7-الأعراف: 12)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اللہ نے کہا: تجھے کس چیز نے روکا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جبکہ میں نے تجھے حکم دیا تھا؟ وہ بولا: میں اس سے بہتر ہوں، مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور اسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔“

حدیث 2

«وعن عبد الله بن عمر، أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لا يأكل أحدكم بشماله ولا يشرب بشماله فإن الشيطان يأكل بشماله ويشرب بشماله»
سنن الترمذي رقم: 1799 ، سنن ابن ماجه رقم: 3266، سنن ابوداؤد، رقم: 4137 ، سلسلة الصحيحة، رقم: 1236 .
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی بھی اپنے بائیں ہاتھ سے مت کھائے پیے کیونکہ شیطان اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے۔ “

بعض شیاطین لوگوں کے گھروں میں رہتے ہیں

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا ‎ ﴿٥٠﴾ ‏
(18-الكهف: 50)
❀اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا: تم آدم کو سجدہ کرو، تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا، وہ جنوں میں سے تھا، چنانچہ اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی، کیا پھر (بھی ) تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اس کی اولا د کو دوست بناتے ہو جبکہ وہ تمھارے دشمن ہیں؟ وہ (شیطان) ظالموں کے لیے بطور بدل برا ہے۔“

حدیث 3

«وعن أبى سعيد الخدري قال: سمعته قال: قال رسول الله: إن بالمدينة نفرا من الجن قد أسلموا، فمن رأى شيئا من هذه العوامر فليؤذنه ثلاثا ، فإن بدا له بعد فليقتله فإنه شيطان»
صحیح مسلم، کتاب السلام باب قتل الحيات وغيرها، رقم: 5841 .
”اور حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: بلاشبہ مدینہ میں جنات کا ایک گروہ اسلام قبول کر چکا ہے۔ پس جو بھی ان گھروں میں رہنے والے جنوں میں سے کسی کو پائے تو اسے تین دن تک (گھر چھوڑ کر چلے جانے) کی اطلاع دے، اگر وہ بعد میں بھی اسے نظر آئے تو اسے قتل کر دے کیونکہ وہ شیطان ہے۔ “

دھوپ اور سائے کے درمیان شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ‎ ﴿٦٤﴾
(17-الإسراء: 64)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور ان میں سے جن پر بھی تیرا بس چل سکے انھیں اپنی آواز سے بہکا لے، اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا ، اور مال اور اولاد میں ان کا شریک بن جا، اور انھیں (جھوٹے ) وعدے دے، اور شیطان تو انھیں بس فریب ہی کا وعدہ دیتا ہے۔“

حدیث 4

«وعن رجل من أصحاب النبي: أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى أن يجلس بين الصح والظل ، وقال: مجلس الشيطان»
صحيح الترغيب ، رقم: 3081، مسند أحمد: 413/3، رقم: 15421- شیخ شعیب ۔ ارناؤوط نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
”اور ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوپ اور چھاؤں کے درمیان بیٹھنے سے منع فرمایا ہے اور ارشاد فرمایا ہے کہ یہ شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ “

شیطان انسانی جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے

حدیث 5

«وعن جابر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن إبليس يضع عرشه على الماء ، ثم يبعث سراياه، فأدناهم منه منزلة أعظمهم فتنة، يجيء احدهم فيقول: فعلت كذا وكذا فيقول: ما صنعت شيئا قال: ثم يجيء احدهم فيقول ما تركته حتى فرقت بينه وبين امرأته قال فيدنيه منه ويقول نعم أنت»
صحیح مسلم، كتاب صفة القيامة والجنة والنار، رقم: 7106.
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابلیس اپنا عرش پانی پر رکھتا ہے، پھر وہاں سے اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے (تا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کریں)، اس کے لشکر میں سے اس کے سب سے زیادہ قریب وہ ہوتا ہے جو سب سے بڑا فتنہ برپا کرتا ہے۔ چنانچہ اس کے لشکر میں ایک شیطان آکر کہتا ہے کہ میں نے فلاں فلاں برائی کروائی ہے۔ ابلیس کہتا ہے کہ نہیں ، تو نے کچھ نہیں کیا۔ پھر ایک دوسرا آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اسے اس وقت تک نہیں چھوڑا حتیٰ کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی۔ ابلیس اسے کہتا ہے، تم نے واقعی بڑا کام کیا ہے اور اسے اپنے قریب کر لیتا ہے۔“

بازار شیاطین کے میدان جنگ ہیں

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ ‎ ﴿٣٦﴾ ‏
(43-الزخرف: 36)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور جو شخص رحمن کی نصیحت سے اندھا بن جائے ہم اس کے لیے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں، پھر وہ اس کے ساتھ رہنے والا ہوتا ہے۔“

حدیث 6

«وعن سلمان قال: لا تكونن ، إن استطعت أول من يدخل السوق ولا آخر من يخرج منها ، فإنها معركة الشياطين وبها ينصب رايته»
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6315 ، مسند بزار: 392/1، کنز العمال، رقم: 9335.
”اور حضرت سلمان فرماتے ہیں کہ اگر تم ایسا کرسکو تو ضرور کرو کہ بازار میں داخل ہونے والے پہلے شخص اور بازار سے نکلنے والے آخری شخص مت بنو کیونکہ یہ (مقام) شیاطین کا میدانِ جنگ ہے اور اس میں وہ اپنا جھنڈا بلند کرتا ہے۔ “

شیاطین فضاؤں کی بلندیوں میں اُڑ سکتے ہیں

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ ‎ ﴿٢٠﴾ ‏
(34-سبأ: 20)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور بلاشبہ یقینا ابلیس نے ان پر اپنا گمان سچا کر دکھایا تو مومنوں کے ایک گروہ کے سوا وہ سب اس کے پیچھے چل پڑے۔“

حدیث 7

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه يقول: إن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا قضى الله الأمر فى السماء ضربت الملائكة بأجنحتها خضعانا لقوله كأنه سلسلة على صفوان فإذا ﴿فُرِْعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَا ذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا﴾ للذي قال: ﴿الْحَقِّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ﴾ فيسمعها مسترق السمع ، ومسترق السمع هكذا بعضه فوق بعض، ووصف سفيان بكفه فحرفها وبدد بين أصابعه ، فيسمع الكلمة فيلقيها إلى من تحته، ثم يلقيها الآخر إلى من تحته حتى يلقيها على لسان الساحر أو الكاهن فربما أدرك الشهاب قبل أن يلقيها ، وربما ألقاها قبل أن يدركه فيكذب معها مائة كذبة فيقال: أليس قد قال لنا يوم كذا وكذا ، كذا وكذا ، فيصدق بتلك الكلمة التى سمع من السماء .
صحیح بخاری ، کتاب التفسير ، باب قوله تعالى: (حتى اذا فزع عن قلوبهم )، رقم: 4800 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو سن کر جھکتے ہوئے عاجزی کرتے ہوئے اپنے بازو پھڑ پھڑاتے ہیں، اللہ کا فرمان انہیں اس طرح سنائی دیتا ہے جیسے صاف چکنے پتھر پر زنجیر چلانے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ کہتے ہیں کہ حق بات کا حکم فرمایا اور وہ بہت اونچا سب سے بڑا ہے پھر ان کی یہی گفتگو چوری چھپے سننے والے شیطان سن بھاگتے ہیں، شیطان آسمان کے نیچے یوں اوپر نیچے ہوتے ہیں (پھر راوی حدیث نے ہتھیلی کو موڑ کر انگلیاں الگ الگ کر کے شیاطین کے جمع ہونے کی کیفیت بتائی کہ اس طرح شیاطین ایک کے اوپر ایک رہتے ہیں ) پھر وہ شیاطین کوئی ایک کلمہ سن لیتے ہیں اور اپنے نیچے والے کو بتاتے ہیں۔ اس طرح وہ کلمہ ساحر یا کاہن تک پہنچتا ہے۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ یہ کلمہ اپنے نیچے والے کو بتائیں آگ کا گولا انہیں آ دبوچتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ بتا لیتے ہیں تو آگ کا انگارہ ان پر پڑتا ہے، اس کے بعد کاہن اس میں سوجھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے (جب کاہن کی ایک بات صحیح ہو جاتی ہے تو اس کے ماننے والوں کی طرف سے) کہا جاتا ہے کہ ہم سے اسی طرح فلاں روز کاہن نے کہا تھا، چنانچہ ایک کلمہ کی وجہ سے جو آسمان پر شیاطین نے سنا تھا کاہنوں اور ساحروں کی بات کو لوگ سچا جاننے لگتے ہیں۔“

شیاطین انسانوں کو تنگ کرتے ہیں

قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ‎ ﴿٢٧﴾ ‏
(7-الأعراف: 27)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے بنی آدم! کہیں شیطان تمھیں فتنے میں نہ ڈال دے جس طرح اس نے تمھارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا تھا جب اس نے ان دونوں کا لباس اتروا یا تھا، تا کہ ان کو ان کی شرم گاہیں دکھا دے۔ بے شک وہ اس کا قبیلہ تمھیں دیکھتا ہے جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھ سکتے ۔ بے شک ہم نے شیطان کو ان لوگوں کے دوست بنا دیا جو ایمان نہیں لاتے۔“

حدیث 8

«وعن أبى هريرة قال: وكلني رسول الله صلى الله عليه وسلم بحفظ زكاة رمضان فأتاني آت فجعل يحثو من الطعام فأخذته فقلت: لأرفعنك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقص الحديث فقال: إذا أويت إلى فراشك فاقرأ آية الكرسي لن يزال من الله حافظ ولا يقربك شيطان حتى تصبح وقال النبي: صدقك وهو كذوب ذاك شيطان»
صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، رقم: 5010 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ پھر ایک شخص آیا اور دونوں ہاتھوں سے (کھجوریں) سمیٹنے لگا، میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے رسول کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا ، پھر انہوں نے یہ پورا قصہ بیان کیا (جو صدقہ فطر چرانے آیا تھا) اس نے کہا کہ جب تم رات کو اپنے بستر پر سونے کے لیے جاؤ تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، پھر صبح تک اللہ تعالی کی طرف سے تمہاری حفاظت کرنے والا ایک فرشتہ مقرر ہو جائے گا اور شیطان تمہارے پاس بھی نہ آسکے گا۔ (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی تو ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس نے تمہیں یہ ٹھیک بات بتائی ہے اگر چہ وہ بڑا جھوٹا ہے ، وہ شیطان تھا۔

حدیث 9

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يعقد الشيطان على قافية رأس أحدكم إذا هو نام ثلاث عقد، يضرب على مكان كل عقدة عليك ليل طويل فارقد، فإن استيقظ فذكر الله انحلت عقدة، فإن توضأ انحلت عقدة، فإن صلى انحلت عقدة فأصبح نشيطا طيب النفس ، وإلا أصبح خبيث النفس كسلان»
صحیح بخاری، کتاب التهجد، رقم: 1142 ، صحیح مسلم، رقم: 1816 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شیطان آدمی کے سر کے پیچھے رات میں سوتے وقت تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ افسوں پھونک دیتا ہے کہ سوجا ابھی رات بہت باقی ہے پھر اگر کوئی بیدار ہو کر اللہ کی یاد کرنے لگا تو ایک گرہ کھل جاتی ہے پھر جب وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر اگر نماز (فرض یا نفل) پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اس طرح صبح کے وقت آدمی چاق و چوبند خوش مزاج رہتا ہے۔ ورنہ سست اور بد باطن رہتا ہے۔“

شیاطین رمضان میں جکڑ دیے جاتے ہیں

‏ قَالَ اللهُ تَعَالَى: إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ‎ ﴿١٧٥﴾ ‏
(3-آل عمران: 175)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”یہ تو شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، پس تم ان سے نہ ڈرو اور صرف مجھ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔“

حدیث 10

«وعن أبى هريرة صلى الله عليه وسلم يقول: قال رسول الله: إذا دخل شهر رمضان فتحت أبواب السماء ، وغلقت أبواب جهنم، وسلسلت الشياطين»
صحیح بخاری، کتاب الصيام، رقم: 1899 ، صحیح مسلم، رقم: 1079 ، سنن الدارمی، رقم: 1775 ، صحیح ابن حبان، رقم: 3434 ، صحيح ابن خزيمة، رقم: 1882۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔ “

شیاطین بالعموم شام کے وقت پھیلتے ہیں

قَالَ اللهُ تَعَالَى: إِنَّمَا النَّجْوَىٰ مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيْسَ بِضَارِّهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ‎﴿١٠﴾‏
(58-المجادلة: 10)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”یہ سرگوشی تو شیطان ہی کی طرف سے ہے، تا کہ وہ ان لوگوں کو غم میں مبتلا کرے جو ایمان لائے، حالانکہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر انھیں ہرگز کوئی نقصان پہنچانے والا نہیں اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ مومن بھروسا کریں۔“

حدیث 11

«وعن جابر بن عبد الله رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا كان جنح الليل أو أمسيتم فكفوا صبيانكم، فإن الشياطين تنتشر حينئذ ، فإذا ذهبت ساعة من الليل فخلوهم، وأغلقوا الأبواب، واذكروا اسم الله ، فإن الشيطان لا يفتح بابا مغلقا. قال: وأخبرني عمرو بن دينار سمع جابر بن عبد الله نحو ما أخبرني عطاء ولم يذكر واذكروا اسم الله»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق ، رقم: 3304 ، صحیح مسلم: 2012.
”اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب رات کا اندھیرا شروع ہو یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ ) جب شام ہو جائے تو اپنے بچوں کو اپنے پاس روک لیا کرو، کیونکہ شیاطین اسی وقت پھیلتے ہیں۔ البتہ جب ایک گھڑی رات گزر جائے تو انہیں چھوڑ دو، اور اللہ کا نام لے کر دروازے بند کر لو، کیونکہ شیطان کسی بند دروازے کو نہیں کھول سکتا۔“ ابن جریج نے بیان کیا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی کہ انہوں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بالکل اسی طرح حدیث سنی تھی جس طرح مجھے عطاء نے خبر دی تھی ، البتہ انہوں نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ اللہ کا نام لو۔“

شیاطین کو بعض جانور دیکھ لیتے ہیں

‏ قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ ‎﴿١٢١﴾‏
(6-الأنعام: 121)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور تم اس (جانور) کا گوشت مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ پڑھا گیا ہو، کیونکہ یہ (کھانا) یقینا نا فرمانی ہے، اور بے شک شیاطین اپنے دوستوں کے ذہنوں میں شبہے ڈالتے ہیں، تا کہ وہ تم سے جھگڑا کریں، اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو بلاشبہ تم بھی ضرور مشرک ہو گے۔“

حدیث 12

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إذا سمعتم صياح الديكة فاسألوا الله من فضله ، فإنها رأت ملكا وإذا سمعتم نهيق الحمار فتعوذوا بالله من الشيطان، فإنه رأى شيطانا»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، رقم: 3294 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مرغ کی بانگ سنو تو اللہ سے اس کے فضل کا سوال کیا کرو، کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے اور جب گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔ “

شیاطین بعض اللہ کے بندوں سے ڈرتے ہیں

قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ ‎﴿٥﴾‏ إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚ إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ‎﴿٦﴾‏
(35-فاطر: 5، 6)
❀ ”اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اے لوگو! یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے تو کہیں دنیا کی زندگی تمھیں دھوکے میں نہ ڈال دے اور کہیں وہ دھوکے باز تمھیں اللہ کے بارے میں دھوکا نہ دے جائے۔ بے شک شیطان تمھارا دشمن ہے تو اسے دشمن ہی سمجھو ۔ وہ تو اپنے گروہ والوں کو صرف اس لیے بلاتا ہے کہ وہ بھڑکتی آگ والوں سے ہو جائیں۔ “

حدیث 13

«وعن سعد ابن أبى وقاص، قال: استأذن عمر على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده نساء من قريش يكلمنه ويستكثرنه ، عالية أصواتهن ، فلما استأذن عمر ، قمن يبتدرن الحجاب ، فأذن له رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يضحك فقال عمر: أضحك الله سنك يا رسول الله! قال عجبت من هؤلاء اللاتي كن عندي ، فلما سمعن صوتك ابتدرن الحجاب . قال عمر: فأنت يا رسول الله كنت أحق أن يهبن ثم قال: أى عدوات أنفسهن أتهبنني ولا تهبن رسول الله قلن: نعم أنت أفظ وأغلظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والذي نفسي بيده! ما لقيك الشيطان قط سالكا فجا إلا سلك فجا غير فجك»
صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، رقم: 3294.
”اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔ اس وقت چند قریشی عورتیں (خود آپ کی بیویاں) آپ کے پاس بیٹھی آپ سے گفتگو کر رہی تھیں اور آپ سے (خرچ میں ) بڑھانے کا سوال کر رہی تھی۔ خوب آواز بلند کر کے۔ لیکن جو نہی سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی ، وہ خواتین جلدی سے پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو ہنساتا رکھے، یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا کہ مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا۔ ابھی ابھی میرے پاس تھیں، لیکن جب تمہاری آواز سنی تو پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ گئیں۔ سید نا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، لیکن آپ یا رسول اللہ! زیادہ اس کے مستحق تھے کہ آپ سے یہ ڈرتیں، پھر انہوں نے کہا، اے اپنی جانوں کی دشمنو! مجھ سے تو تم ڈرتی ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں ۔ ازواج مطہرات بولیں کہ واقعہ یہی ہے کیونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برخلاف مزاج میں بہت سخت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شیطان بھی کہیں راستے میں تم سے مل جائے ، تو جھٹ وہ یہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔“

شیاطین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت اختیار نہیں کر سکتے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ ‎﴿١٤﴾‏
(34-سبأ: 14)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”پھر جب ہم نے اس پر موت کا فیصلہ کیا تو انھیں اس کی موت کا پتا نہیں دیا مگر زمین کے کیڑے (دیمک) نے جو اس کی لاٹھی کھاتا رہا، پھر جب وہ گرا تو جنوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں نہ رہتے۔“

حدیث 14

«وعن أبى هريرة قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: من رآني فى المنام فسيراني فى اليقظة ولا يتمثل الشيطان بي»
صحیح بخاری کتاب تعبیر الرؤيا، رقم: 6993 ، صحیح مسلم، رقم: 2266 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ نے ارشاد فرمایا: جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو کسی دن مجھے بیداری میں بھی دیکھے گا اور شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا۔ “

شیاطین کو موت آتی ہے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ‎﴿١٨٥﴾
(3-آل عمران: 185)
❀اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”ہر کوئی موت کا ذائقہ چکھنے والا ہے۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ‎﴿٢٦﴾‏ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ‎﴿٢٧﴾‏
(55-الرحمن: 27، 26)
❀اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”ہر ایک جو اس (زمین) پر ہے، فنا ہونے والا ہے۔ اور تیرے رب کا چہرہ باقی رہے گا، جو بڑی شان اور عزت والا ہے۔“

حدیث 15

«وعن ابن عباس أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يقول: أعوذ بعزتك الذى لا إله إلا أنت الذى لا يموت ، والجن والإنس يموتون»
صحیح بخاری، کتاب التوحيد رقم: 7383 ، صحیح مسلم، رقم: 2717 .
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: تیری عزت کی پناہ مانگتا ہوں کہ کوئی معبود تیرے سوا نہیں، تیری ایسی ذات ہے جسے موت نہیں اور جن وانس فنا ہو جائیں گے۔ “

لوگوں کو کفر و شرک میں مبتلا کرنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ‎﴿٦٠﴾‏ وَأَنِ اعْبُدُونِي ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ‎﴿٦١﴾‏ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنكُمْ جِبِلًّا كَثِيرًا ۖ أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ ‎﴿٦٢﴾
(36-يس: 60تا62)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”کیا میں نے تمھیں تاکید نہ کی تھی اے اولاد آدم ! کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، یقیناً وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ اور یہ کہ میری عبادت کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔ اور بلاشبہ یقیناً اس نے تم میں سے بہت سی مخلوق کو گمراہ کر دیا۔ تو کیا تم نہیں سمجھتے تھے۔“

حدیث 16

«وعن عباض بن حمار المجاشعي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ذات يوم فى خطبته: ألا إن ربي أمرني أن أعلمكم ما جهلتم مما علمني ، يومي هذا ، كل مال نحلته عبدا ، حلال ، وإني خلقت عبادى حنفاء كلهم ، وإنهم أتتهم الشياطين فاجتالتهم عن دينهم، وحرمت عليهم ما أحللت لهم ، وأمرتهم أن يشركوا بى ما لم أنزل به سلطانا ، وإن الله نظر إلى أهل الارض فمقتهم، عربهم وعجمهم ، إلا بقايا من أهل الكتاب ، وقال: إنما بعثتك لابتليك وابتلي بك، وانزلت عليك كتابا لا يغسله الماء ، تقرؤه نائما ويقظان، وإن الله أمرني أن أحرق قريشا، فقلت: رب إذا يتلغوا رأسي فيدعوه خبزة، فقال: استخرجهم كما استخرجوك ، واغزهم نغزك، وأنفق فسننفق عليك ، وابعث جيشا نبعث خمسة مثله ، وقاتل بمن أطاعك من عصاك، قال: واهل الجنة ثلاثة: ذو سلطان مقسط متصدق موفق ، ورجل رحيم رقيق القلب لكل ذي قربى ومسلم، وعفيف متعفف ذو عيال، قال: واهل النار خمسة: الضعيف الذى لا زبر له ، الذين هم فيكم تبعا لا يبتغون أهلا ولا مالا، والخائن الذى لا يخفى له طمع وإن دق إلا خانه ، ورجل لا يصبح ولا يمسي إلا وهو يخادعك عن أهلك ومالك وذكر البخل أو الكذب والشنظير: الفحاس ، ولم يذكر أبو غسان فى حديثه: وأنفق فستنفق عليك»
صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة ونعيمها وأهلها، رقم: 7207.
”اور حضرت عیاض بن حمار مجاشعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے خطاب میں ارشاد فرمایا: خبردار! مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں ان باتوں کی تعلیم دوں، جن سے تم نا واقف ہو اور اللہ تعالیٰ نے آج کے دن مجھے ان کی تعلیم دی ہے، (اللہ کا فرمان ہے کہ ) جو مال میں نے اپنے کسی بندہ کو عنایت کیا ہے، وہ اس کے لیے حلال ہے، (کسی کو اپنے طور پر کسی چیز کے حرام ٹھہرانے کا حق حاصل نہیں ہے ) اور میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف (اللہ کے لیے یکسو ہونے والے) پیدا کیا ہے اور ان کے پاس شیطان آئے ، انہوں نے اللہ کے دین (ضابطہ حیات) سے پھیر دیا یا ہٹا دیا اور جو چیزیں میں نے بندوں کے لیے حلال ٹھہرائی تھیں، انہوں نے انہیں ان کے لیے حرام ٹھہرا دیں اور شیطانوں نے انہیں حکم (مشورہ) دیا کہ میرے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرائیں، جس کے بارے میں، میں نے کوئی دلیل و برہان نہیں اتاری اور اللہ تعالیٰ نے اہل زمین پر نظر دوڑائی تو ان میں سے اہل کتاب کے، چند صحیح دین پر باقی رہنے والوں کے سوا تمام عرب اور عجم کے لوگوں سے ناراض ہوا، (کیونکہ وہ عقیدہ اور عمل کے فساد و بگاڑ میں مبتلا تھے ) (اور مجھے ) فرمایا، میں نے تمہیں مبعوث کیا ہے، تا کہ تیرا (تیرے صبر وشکیب کا ) امتحان لوں اور تیرے ذریعہ لوگوں کو آزماؤں (کہ وہ تیری تصدیق کرتے ہیں یا نہیں) اور میں نے تجھ پر ایسی کتاب اتاری ہے، جسے پانی دھو نہیں سکتا، (یعنی وہ سینوں میں محفوظ ہوگی) تم اس کو نیند اور بیداری میں (یعنی ہر حالت میں ) پڑھو گے اور اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں قریش کو جلا دوں، (ان کو جنگ کی بھٹی میں جھونکوں ) تو میں نے عرض کیا، اے میرے رب ! تب تو وہ میرا سر کچل دیں گے اور اس روٹی کی طرح بنا چھوڑ دیں گے، (کوٹ کوٹ کر روٹی کی طرح پھیلا دیں گے ) اس نے فرمایا، ان کو اس طرح نکال دو، جس طرح انہوں نے تمہیں نکال دیا، (یعنی اعلان کرو کہ جزیرۃ العرب میں کوئی کافر اور مشرک نہیں رہ سکتا) ان سے جنگ لڑو، ہم تجھے اسباب و وسائل مہیا کریں گے، خرچ کرو، ہم تم پر خرچ کریں گے، لشکر بھیجو، ہم اس سے پانچ گنا لشکر بھیجیں گے (فرشتوں سے مدد کریں گے ) اور اپنے اطاعت گزاروں کو لے کر اپنے نافرمانوں سے جنگ لڑو اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اہل جنت تین قسم کے لوگ ہیں، صاحب اختیار واقتدار جو عادل، صدقہ کرنے والا اور نیکی کی توفیق دیا گیا ہو، وہ انسان جو اپنے تمام رشتہ داروں اور مسلمانوں کے لیے مہربان اور نرم دل ہو، وہ انسان جو پاک دامن ہو اور عیال دار ہونے کے باوجود سوال کرنے سے بچتا ہو، یا حرام کمانے سے پر ہیز کرتا ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، پانچ قسم کے انسان دوزخی ہیں، کم زور جس کے پاس عقل نہ ہو، (جو اسے غلط اور ناجائز امور سے رو کے ) جو تمہارے زیر دست بن کر رہیں، نہ اہل چاہتے ہیں اور نہ مال (پچھلگ ہیں، اپنی کوئی رائے اور سوچ نہیں ہے ) ، وہ خائن جس کی طرح چھپ نہ سکے، معمولی چیز میں بھی خیانت کرے، یا وہ خائن کہ اگر اس پر طمع والی چیز بھی ظاہر ہو جائے تو وہ خیانت کرے اور وہ انسان جو صبح و شام ہر دم تمہیں، تمہارے اہل اور مال کے بارے میں دھوکا دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بخل یا جھوٹ کا بھی ذکر فرمایا، (یعنی بخیل اور جھوٹے کا) اور شنطیر ، بد گو یا فحش گو کہتے ہیں۔ ابوغسان نے اپنی حدیث میں، (خرچ کرو، میں تم پر خرچ کروں گا) بیان نہیں کیا۔“

شیطان کا لوگوں کو گناہوں میں مبتلا کرنا

‏ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطَانُ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ‎﴿٦٢﴾‏
(43-الزخرف: 62)
❀اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور کہیں شیطان تمھیں روک نہ دے، بے شک وہ تمھارے لیے کھلا دشمن ہے۔“

حدیث 17

«وعن جابر ، قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: إن الشيطان قد ايس أن يعبده المصلون فى جزيرة العرب ولكن فى التحريش بينهم»
صحیح مسلم، كتاب صفة القيامة والجنة والنار، رقم: 7103 .
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: بلا شبہ شیطان اس وقت اس سے مایوس ہو چکا ہے کہ نمازی لوگ جزیرہ عرب میں اس کی پرستش کریں، لیکن وہ باہمی لڑائی کے لیے بھڑ کانے کی کوشش کرتا ہے۔ “

ہر خیر و بھلائی کے کام سے روکنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ ‎﴿٣٠﴾‏
(7-الأعراف: 30)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”ایک فریق کو اس نے ہدایت دی، اور دوسرے فریق پر گمراہی ثابت ہوگئی ہے، یقیناً انھوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنالیا ہے، اور وہ خیال کرتے ہیں کہ بے شک وہ ہدایت یافتہ ہیں۔“

حدیث 18

«وعن سبرة بن أبى فاكه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الشيطان قعد لابن آدم بأطرقه فقعد له بطريق الإسلام فقال له: أتسلم وتذر دينك ودين آبائك وآباء أبيك؟ فعصاه فأسلم ثم قعد له بطريق الهجرة فقال: اتهاجر وتذر أرضك وسمانك؟ وإنما مثل المهاجر كمثل الفرس فى الصول قال: فعصاه فهاجر قال: ثم قعد له بطريق الجهاد فقال له: هو جهد النفس والمال فتقاتل فتقتل فتنكح المرأة ويقسم المال قال: فعصاه فجاهد ، فقال رسول الله: فمن فعل ذلك منهم فمات ، كان حقا على الله أن يدخله الجنة ، أو قتل كان حقا على الله أن يدخله الجنة ، وإن غرق كان حقا على الله أن يدخله الجنة ، أو وقصته دابته كان حقا على الله أن يدخله الجنة»
مسند احمد: 483/3، سنن نسائی، کتاب الجهاد، رقم: 3136 ، صحيح الجامع الصغير، رقم: 1652.
اور حضرت سبرہ بن ابوفا کہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ شیطان ابن آدم کے لیے اللہ کے راستوں پر بیٹھ گیا ہے، مثلاً وہ اسلام کے راستے پر بیٹھ جاتا ہے اور ابن آدم سے کہتا ہے کہ تو اسلام قبول کر کے اپنے آباء واجداد کے دین اور اپنے باپ کے آباء واجداد کے دین کو چھوڑ رہا ہے؟ مگر ابن آدم اس کی نافرمانی کرتے ہوئے اسلام کو اختیار کر لیتا ہے۔ پھر اسی طرح شیطان راه ہجرت پر بیٹھ جاتا ہے اور مسلمان سے کہتا ہے کہ کیا تو ہجرت کر کے اپنی زمین اور اپنے آسمان کو چھوڑ رہا ہے؟ مہاجر کی مثال تو اس گھوڑے کی رسی ہے جس کی رسی کو دراز کر دیا گیا ہو مگر مومن شیطان کی نافرمانی کر کے ہجرت کر لیتا ہے۔ پھر وہ مومن کے لیے راہ جہاد پر بیٹھ جاتا ہے اور اس سے کہتا ہے یہ تو بس نفس اور مال کی مشقت ہے، چنانچہ تو جنگ کرے گا تو تو مارا جائے گا، تیری بیوی سے کوئی نکاح کرلے گا، تیرا مال تقسیم کر لیا جائے گا مگر مرد مومن شیطان کی نافرمانی کرتے ہوئے جہاد کرتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو مسلمان یہ کام کرتے ہوئے فوت ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کر دے، اگر غرق ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کر دے اور اگر اس کی سواری اسے گرا دے اور وہ فوت ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کر دے۔“

عبادت و ریاضت میں خلل اندازی کرنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ ‎﴿٩٦﴾‏ وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ ‎﴿٩٧﴾‏ وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحْضُرُونِ ‎﴿٩٨﴾
(23-المؤمنون: 96تا98)
❀اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”برائی کو اس طریقے سے دفع کیجیے جو احسن ہو، ہم اسے خوب جانتے ہیں جو وہ بیان کرتا ہے۔ اور آپ کہیں: اے میرے رب! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اور اے میرے رب ! میں (اس سے بھی) تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس حاضر ہوں۔“

حدیث 19

«وعن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا نودي للصلاة أدبر الشيطان وله ضراط حتى لا يسمع التأذين فإذا قضي النداء أقبل حتى إذا توب بالصلاة أدبر حتى إذا قضي التنويب أقبل حتى يخطر بين المرء ونفسه يقول: اذكر كذا ، اذكر كذا لما لم يكن يذكر – حتى يظل الرجل لا يدري كم صلى»
صحیح بخاری، کتاب الأذان، رقم: 608 .
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب نماز کے لئے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پادتا ہوا بڑی تیزی کے ساتھ پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے۔ تاکہ اذان کی آواز نہ سن سکے اور جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو پھر واپس آجاتا ہے۔ لیکن جوں ہی تکبیر شروع ہوئی وہ پھر پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے، جب تکبیر بھی ختم ہو جاتی ہے تو شیطان دوبارہ آجاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے۔ کہتا ہے فلاں بات یاد کر فلاں بات یاد کر۔ ان باتوں کی شیطان یاد دہانی کراتا ہے جن کا اسے خیال بھی نہ تھا اور اس طرح اس شخص کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔“

میرے خواب دکھانا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ‎﴿٣٤﴾‏ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ‎﴿٣٥﴾‏ وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ‎﴿٣٦﴾‏
(41-فصلت: 34تا36)
❀اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو ) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے۔ اور یہ چیز نہیں دی جاتی مگر انھی کو جو صبر کریں اور یہ نہیں دی جاتی مگر اسی کو جو بہت بڑے نصیب والا ہے۔ اور اگر کبھی شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ تجھے ابھار ہی دے تو اللہ کی پناہ طلب کر، بلاشبہ وہی سب کچھ سننے والا ، سب کچھ جاننے والا ہے۔ “

حدیث 20

«وعن أبى قتادة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الرؤيا الصالحة من الله والحلم من الشيطان فإذا حلم فليتعوذ منه وليبصق عن شماله فإنها لا تضره»
صحیح بخاری، کتاب التعبير، رقم: 6986.
اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے۔ پس اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اسے اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے اور بائیں طرف تھوکنا چاہیے یہ خواب اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔“

موت کے وقت خبطی بنانا

قَالَ الله تَعَالَى: لَّعَنَهُ اللَّهُ ۘ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا ‎﴿١١٨﴾‏ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا ‎﴿١١٩﴾‏
(4-النساء: 118، 119)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اللہ نے اس پر لعنت کی ہے، اور اس نے کہا کہ میں تیرے بندوں میں سے ایک مقرر حصہ ضرور لے کر رہوں گا۔ اور میں انھیں گمراہ کروں گا، اور انھیں امیدیں دلاؤں گا، اور میں انھیں حکم دوں گا تو وہ جانوروں کے کان چیر دیں گے، اور میں انھیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بناوٹ میں ردو بدل کر دیں گے۔ اور جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا دوست بنالے تو وہ یقیناً کھلے نقصان میں جا پڑا۔“

حدیث 21

«وعن أبى اليسر، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: اللهم إني أعوذبك من التردى، والهدم، والغرق، والحريق، واعوذبك أن يتخبطني الشيطان عند الموت ، وأعوذبك أن اموت فى سبيلك مدبرا ، وأعوذبك أن أموت لديفا»
سنن نسائی، کتاب الاستعاذة، رقم: 5531 ، صحيح الجامع الصغير، رقم: 1282.
اور حضرت ابوالیسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا مانگا کرتے تھے: اے اللہ! میں تیری پناہ پکڑتا ہوں گر کر ہلاک ہونے سے، عمارت میں دب جانے سے، ڈوبنے سے، جل جانے سے اور موت کے وقت شیطان کے خبطی بنا دینے سے، یہ کہ میں تیرے راستے میں پیٹھ پھیر کر بھاگوں یا کسی موذی جانور کے ڈسنے سے مجھے موت آئے۔“
قَالَ اللهُ تَعَالَى: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ‎﴿١﴾‏ مَلِكِ النَّاسِ ‎﴿٢﴾‏ إِلَٰهِ النَّاسِ ‎﴿٣﴾‏ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ‎﴿٤﴾‏ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ‎﴿٥﴾‏ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ‎﴿٦﴾‏
(114-الناس: 1تا6)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”آپ کہہ دیجیے میں پناہ پکڑتا ہوں لوگوں کے رب کی۔ لوگوں کے بادشاہ کی۔ لوگوں کے معبود کی۔ وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے، جو ہٹ ہٹ کر آنے والا ہے۔ وہ جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں سے ۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا ‎﴿٥٣﴾‏
(17-الإسراء: 53)
❀ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور میرے بندوں سے کہہ دیجیے کہ وہ بات کہیں جو احسن ہو، بے شک شیطان ان کے درمیان فساد ڈالتا ہے، بلاشبہ انسان کا کھلا دشمن ہے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ ‎﴿٤٧﴾‏ وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ ۖ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ ۚ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ ‎﴿٤٨﴾‏
(8-الأنفال: 47، 48)
”اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو (اپنی شان ) دکھاتے ہوئے نکلے اور وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے تھے۔ اور وہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اور (یاد کرو) جب شیطان نے ان کے اعمال ان کے لیے سجا کر پیش کیے اور وہ کہنے لگا: آج لوگوں میں سے کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا اور بے شک میں تمھارا ساتھی ہوں، پھر جب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ الٹے پاؤں پھر گیا اور کہنے لگا: بے شک میں تم سے بری ہوں۔ بے شک میں وہ (فرشتے) دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے۔ بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ “

حدیث 22

«وعن صفية زوج النبى صلى الله عليه وسلم أخبرته أنها جائت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تزوره فى اعتكافه فى المسجد فى العشر الأواخر من رمضان ، فتحدثت عنده ساعة ثم قامت تنقلب فقام النبى صلى الله عليه وسلم معها يقلبها حتى إذا بلغت باب المسجد عند باب أم سلمة ، مر رجلان من الأنصار فسلما على رسول الله ، فقال لهما النبي: على رسلكما ، إنما هي صفية بنت حيى، فقالا: سبحان الله يا رسول الله ، وكبر عليهما ، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: إن الشيطان يبلغ من الإنسان مبلغ الدم ، وإنى خشيت أن يقذف فى قلوبكما شيئا»
صحیح بخاری ، کتاب الاعتكاف، رقم: 2035 ، 2038، صحیح مسلم، رقم: 2175، سنن أبو داؤد، رقم: 2470 ، سنن ابن ماجة، رقم: 1779، مسند أحمد: .337/6
”اور حضرت صفیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ نے خبر دی کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے مسجد میں آئیں تھوڑی دیر تک باتیں کیں پھر واپس ہونے کے لئے کھڑی ہوئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پہنچانے کے لئے کھڑے ہوئے۔ جب وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے دروازے سے قریب والے مسجد کے دروازے پر پہنچیں تو دو انصاری آدمی ادھر سے گزرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ٹھہر جاؤ، یہ تو (میری بیوی) صفیہ بنت رضی اللہ عنہا ہیں۔ ان دونوں صحابیوں نے عرض کیا، سبحان اللہ ! یا رسول اللہ! ان پر آپ کا جملہ بڑا شاق گزرا۔ آپ نے فرمایا کہ شیطان خون کی طرح انسان کے بدن میں دوڑتا رہتا ہے۔ مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے۔“

حدیث 23

«وعن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن للشيطان لمة بابن آدم وللملك لمة ، فأما لمة الشيطان فإيعاد بالشر وتكذيب بالحق ، وأما لمة الملك فإيعاذ بالخير وتصديق بالحق فمن وجد ذلك فليعلم أنه من الله ، فليحمد الله ومن وجد الأخرى ، فليتعوذ بالله من الشيطان ، ثم الشيطن يعدكم الفقر ويأمركم بالفحشاء ۚ والله يعدكم مغفرة منه وفضلا»
سنن ترمذی ، کتاب التفسير ، رقم: 2988، سنن النسائي في الكبرى ، رقم: 11051، مسند احمد: 235/1۔ محدث البانی اور احمد شاکر نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شیطان آدم کے بیٹے کے دل میں خیال ڈالتا ہے اور فرشتہ بھی۔ شیطان یوں التا ہے کہ انسان کے دل میں برائی اور حق کی تکذیب پیدا کرتا ہے اور فرشتہ یوں خیال ڈالتا ہے کہ انسان کے دل میں اچھائی اور حق کی تصدیق پیدا کرتا ہے۔ لہذا جسے یہ (فرشتے والے معاملے کا) احساس ہو تو وہ جان لے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور وہ اللہ کی تعریف کرے اور جسے دوسری بات (یعنی شیطان والے معاملے کا) احساس ہو تو وہ شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: شیطان تم کو فقر کا وعدہ دیتا ہے اور تمہیں بے حیائی پر آمادہ کرتا ہے۔“

حدیث 24

«وعن عائشة رضي الله عنها قالت: سحر رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل من بني و زريق يقال له، لبيد بن الأعصم ، حتى كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخيل إليه أنه كان يفعل الشيء ، وما فعله، حتى إذا كان ذات يوم أو ذات ليلة – وهو عندي ، لكنه دعا ودعا ثم قال: يا عائشة! أشعرت أن الله أفتانى فيما استفتيته فيه؟ أتاني رجلان فقعد أحدهما عند رأسى والآخر عند رجلي، فقال أحدهما لصاحبه ما وجع الرجل؟ فقال: مطبوب ، قال: من طبه؟ قال: لبيد بن الأعصم ، قال: فى أى شيء؟ قال: فى مشط ومشاطة ، وجت طلع نخلة ذكر ، قال: وأين هو؟ قال: فى بثر ذروان، فأتاها رسول الله صلى الله عليه وسلم فى ناس من أصحابه فجاء فقال: يا عائشة كأن مانها نقاعة الحناء أو كأن رئوس نخلها رءوس الشياطين، قلت: يا رسول الله! أفلا استخرجته، قال: قد عافاني الله فكرهت أن أثور على الناس فيه شرا ، فأمر بها فدفنت»
صحیح بخاری، کتاب الطب، رقم: 5763 ، مسند احمد: 57/6، 63.
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی زریق کے ایک شخص یہودی لبید بن اعصم نے رسول اللہ پر جادو کر دیا تھا اور اس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کے متعلق خیال کرتے کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ آپ نے وہ کام نہ کیا ہوتا۔ ایک دن یا راوی نے بیان کیا کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف رکھتے تھے اور مسلسل دعا کر رہے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عائشہ تمہیں معلوم ہے اللہ سے جو بات میں پوچھ رہا تھا، اس نے اس کا جواب مجھے دے دیا۔ میرے پاس دو (فرشتے حضرت جبرئیل و حضرت میکائیل علیہ السلام ) آئے ۔ ایک میرے سر کی طرف کھڑا ہو گیا اور دوسرا میرے پاؤں کی طرف۔ ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے پوچھا ان صاحب کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ان پر جادو ہوا ہے۔ اس نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے۔ پوچھا کس چیز میں؟ جواب دیا کہ کنگھے اور سر کے بال میں جو نر کھجور کے خوشے میں رکھے ہوئے ہیں۔ سوال کیا اور یہ جادو ہے کہاں؟ جواب دیا کہ زروان کے کنوئیں میں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کنوئیں پر اپنے چند صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف لے گئے اور جب واپس آئے تو فرمایا: عائشہ ! اس کا پانی ایسا (سرخ) تھا جیسے مہندی کا نچوڑ ہوتا ہے اور اس کے کھجور کے درختوں کے سر (اوپر کا حصہ ) شیطان کے سروں کی طرح تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ نے اس جادو کو باہر کیوں نہیں کر دیا۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے عافیت دے دی اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اب میں خواہ مخواہ لوگوں میں اس برائی کو پھیلاؤں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادو کا سامان کنگھی بال خرما کا غلام ہوتے ہیں اسی میں دفن کرا دیا۔“

مسلمانوں کی جماعت کو گمراہ کرنے کے درپے رہنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا ‎﴿٢٩﴾‏
(25-الفرقان: 29)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بلاشبہ اس نے میرے پاس ذکر (قرآن ) آ جانے کے بعد مجھے (اس سے) بہکا دیا اور شیطان انسان کو (مصیبت میں) بے یارو مددگار چھوڑ دینے والا ہے۔ “

حدیث 25

«وعن أبى الدرداء قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما من ثلاثة فى قرية ولا بدو لا تقام فيهم الصلاة إلا قد استحوذ عليهم الشيطان فعليك بالجماعة فإنما يأكل الدلب القاصية»
سنن أبو داؤد، رقم: 547 ، سنن نسائی، رقم: 847، المشكاة، رقم: 1067، صحيح الجامع الصغير، رقم: 5701.
”اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس بستی یا دیہات میں تین آدمی ہوں اور وہ باجماعت نماز نہ پڑھیں تو شیطان ان پر حملہ کر دیتا ہے پس تم جماعت کو لازم پکڑو، بلاشبہ بھیڑ یا اسی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے دور نکل جاتی ہے۔ “

صبح سویرے نماز کے لیے اٹھنے نہ دینا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ ‎﴿١٩﴾
(58-المجادلة: 19)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”شیطان ان پر غالب آ گیا، سو اس نے انھیں اللہ کی یاد بھلا دی، یہ لوگ شیطان کا گروہ ہیں۔ سن لو! یقیناً شیطان کا گروہ ہی وہ لوگ ہیں جو خسارہ اٹھانے والے ہیں۔“

حدیث 26

«وعن عبد الله صلى الله عليه وسلم قال: ذكر عند النبى صلى الله عليه وسلم رجل فقيل: ما زال نائما حتى أصبح ما قام إلى الصلاة فقال: بال الشيطان فى أذنه»
صحیح بخاری، رقم: 1144 ، صحیح مسلم، رقم: 774 .
”اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا ذکر آیا کہ وہ صبح تک پڑا سوتا رہا اور فرض نماز کے لیے بھی نہیں اٹھا۔ اس پر آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: شیطان نے اس کے کان میں پیشاب کر دیا ہے۔ “

نماز کی صفوں کے درمیان داخل ہونا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ‎﴿٢٢﴾
(14-إبراهيم: 22)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور جب (جنت یا جہنم کے ) معاملے کا فیصلہ کر دیا جائے گا تو شیطان کہے گا: بے شک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا، اور میں نے تم سے جو وعدہ کیا تھا اس کی میں نے خلاف ورزی کی اور میرا تم پر کوئی زور نہ تھا مگر یہ کہ میں نے تمھیں دعوت دی تو تم نے میری بات مان لی، چنانچہ تم مجھے ملامت نہ کرو اور اپنے آپ کو ملامت کرو۔ میں تمھارا فریاد رس نہیں اور نہ تم میرے فریاد رس ہو۔ بلاشبہ میں تو اس کا انکار کرتا ہوں جو تم اس سے پہلے مجھے (اللہ کا) شریک ٹھہراتے تھے۔ بے شک ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔“

حدیث 27

«وعن أنس بن مالك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: رصوا صفوفكم، وقاربوا بينها ، وحاذوا بالأعناق، فوالذي نفسي بيده إني لأرى الشيطان يدخل من خلل الصف كأنها الحذف»
سنن أبوداؤد، رقم: 667، سنن نسائی، رقم: 815، المشكاة، رقم: 1093 ، صحيح الترغيب والترهيب: 119/1 .
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی صفوں کو سیسہ پلائی دیوار کی طرح (مضبوطی سے ) ملاؤ اور ایک دوسرے کے قریب ہو جاؤ اور گردنیں برابر کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بے شک میں شیطان کو دیکھتا ہوں کہ وہ صف کی خالی جگہوں میں اس طرح داخل ہوتا ہے جس طرح حذف (بکری کا بچہ ) ہوتا ہے۔“

تشہد کے دوران انگشت شہادت کو حرکت دینا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: قَالَ أَرَأَيْتَكَ هَٰذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا ‎﴿٦٢﴾‏
(17-الإسراء: 62)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”کہنے لگا: بھلا دیکھے تو اسے جسے تو نے مجھ پر عزت دی ہے، اگر تو مجھے یوم قیامت تک ڈھیل دے، تو تھوڑے لوگوں کے سوا میں اس کی تمام نسل کی جڑ کاٹ دوں گا۔“

حدیث 28

«وعن نافع، قال: كان عبد الله بن عمر ، إذا جلس فى الصلاة وضع يديه على ركبتيه، وأشار بأصبعه وأتبعها بصره ، ثم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لهي أشد على الشيطان من الحديد يعني السبابة»
مسند احمد: 119/2، المشكاة، رقم: 917۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور نافع پر اللہ کا بیان ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نماز میں بیٹھتے تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھتے اور اپنی انگلی کے ساتھ اشارہ کرتے اور اپنی نظر اس (انگلی) پر جمائے رکھتے ، پھر فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: یہ یعنی انگشت شہادت شیطان پر لوہے سے زیادہ سخت ہے۔“

نماز میں خلل ڈالنا

حدیث 29

«وعن عائشة ، قالت: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الالتفات فى الصلاة، فقال: هو اختلاس يختلسه الشيطان من صلاة العبد»
صحيح بخارى، كتاب الأذان ، رقم: 751 ، سنن أبوداؤد، رقم: 910، سنن ترمذی، رقم: 590 ۔
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ نے بتلایا کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں ادھر اُدھر دیکھنے کے بارے میں پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ تو ڈاکہ ہے جو شیطان بندے کی نماز پر ڈالتا ہے۔ “

اپنے مومن بھائی کی طرف کسی ہتھیار سے اشارہ کرنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ‎﴿٩٩﴾‏ إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُم بِهِ مُشْرِكُونَ ‎﴿١٠٠﴾‏
(16-النحل: 99، 100)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک ان لوگوں پر اس کا کوئی زور نہیں (چلتا ) جو ایمان لائے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ بس اس کا زور تو ان لوگوں پر چلتا ہے جو اسے دوست بناتے ہیں اور (ان پر) جو اس (اللہ ) کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔“

حدیث 30

«وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لا يشير أحدكم على أخيه بالسلاح فإنه لا يدري لعل الشيطان ينزع فى يده فيقع فى حفرة من النار»
صحیح بخاری، کتاب الفتن، رقم: 7072، مسند أحمد: 317/2.
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص اپنے کسی دینی بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، کیونکہ وہ نہیں جانتا ممکن ہے شیطان اسے اس کے ہاتھ سے چھڑوا دے اور پھر وہ کسی مسلمان کو مار کر اس کی وجہ سے جہنم کے گڑھے میں گر پڑے۔“

کبوتر بازی

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ ‎﴿١٧٥﴾‏ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ‎﴿١٧٦﴾‏
(7-الأعراف: 175، 176)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور (اے نبی!) انھیں اس شخص کی خبر پڑھ کر سنائیں جسے ہم نے اپنی آیتیں دی تھیں مگر وہ ان (کی پابندی) سے نکل بھاگا تو اسے شیطان نے پیچھے لگا لیا، پھر وہ گمراہوں میں (شامل ) ہو گیا۔ اور اگر ہم چاہتے تو ان (آیتوں) کے ذریعے سے اسے بلند درجہ دیتے لیکن وہ زمین کی طرف جھک پڑا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا، چنانچہ اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تو بھی ہانپتا ہے اور اگر تو اسے چھوڑ دے تو بھی ہانپتا ہے۔ یہی مثال ان لوگوں کی ہے جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، چنانچہ (اے نبی!) آپ (یہود سے ) یہ قصہ بیان کر دیں، شاید کہ وہ غور و فکر کریں۔“

حدیث 31

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى رجلا يتبع حمامة فقال: شيطان يتبع شيطانة»
صحيح الادب المفرد، رقم: 982 ، المشكاة، رقم: 4506، سنن ابن ماجه ، رقم: 3765، سنن ابوداؤد، رقم: 4940 ، مسند احمد: 345/2 ، صحيح الجامع الصغير، رقم: 3724.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کسی کبوتر کے تعاقب میں ہے تو آپ نے فرمایا: شیطان شیطان کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ “

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں غلو کرنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ ‎﴿١٦﴾‏
(59-الحشر: 16)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”شیطان کے حال کی طرح، جب اس نے انسان سے کہا کفر کر ، پھر جب وہ کفر کر چکا تو اس نے کہا بلاشبہ میں تجھ سے لاتعلق ہوں، بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں، جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ “

حدیث 32

«وعن أنس بن مالك: أن رجلا قال: يا محمد! يا سيدنا وابن سيدنا وخيرنا وابن خيرنا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا أيها الناس! عليكم بتقواكم، ولا يستهوينكم وفي رواية: قولوا بقولكم ، ولا يستجركم الشيطان ، أنا محمد بن عبد الله ، عبد الله ورسوله، والله! ما أحب أن ترفعوني فوق منزلتي التى أنزلني الله»
مسند احمد: 153/3 ، السلسلة الصحيحة، رقم: 1572 .
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے محمد ! اے ہمارے سید! ہمارے سید کے بیٹے ! ہم میں سے بہترین! اور ہم میں سے بہترین کے بیٹے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگو! تقوی اختیار کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمھارا دل موہ لے (ایک روایت میں ہے: اپنی درست بات پر پکے رہو، کہیں شیطان کے تابع نہ ہو جاؤ)۔ میں محمد بن عبداللہ ہوں، اللہ کا بندہ اور رسول ہوں، اللہ کی قسم! میں نہیں چاہتا کہ تم لوگ مجھے میرے اس مقام سے بلند کر دو، جو اللہ تعالی نے مجھے عطا کیا ہے۔ “

وفات کی خبر سن کر رونا اور واویلا کرنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ ‎﴿٩١﴾
(5-المائدة: 91)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک شیطان چاہتا ہے کہ تمھارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعے سے دشمنی اور بغض ڈال دے، اور تمھیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے، پھر کیا تم ان (شیطانی کاموں) سے باز آتے ہو؟“

حدیث 33

«عن عاصم بن حميد السكوني: أن معاذا: لما بعثه النبى خرج معه النبى يوصيه، ومعاذ راكب ورسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي تحت راحلته ، فلما فرغ قال: يا معاذا إنك عسى أن لا تلقاني بعد عامن هذا أولعلك أن تمر بمسجدى هذا أوقبرى . فبكى معاذ بن جبل جشعا لفراق رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال النبي: لا تبك يا معاذا للبكاء أو إن البكاء من الشيطان»
مسند احمد: 235/5 ، السلسلة الصحيحة، رقم: 2497.
”اور عاصم بن حمید سکونی سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو (یمن کی طرف) بھیجا تو وصیت کرتے ہوئے اُس کے ساتھ نکلے، حضرت معاذ سوار تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی سواری کے ساتھ چل رہے تھے۔ جب آپ فارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا: معاذ! شاید اس سال کے بعد تو مجھ سے ملاقات نہ کر سکے، لیکن ممکن ہے کہ تو میری مسجد یا میری قبر کے پاس سے گزرے۔ حضرت معاذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کی وجہ سے گھبرا گئے اور رونا شروع کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: معاذ! نہ روؤ، بے شک رونا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔“

جادو کا علاج جادو کے ذریعے کرانا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ ‎﴿٢٠﴾
(7-الأعراف: 20)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”پھر شیطان نے ان دونوں کو بہکانے کے لیے (ان کے دل میں ) وسوسہ ڈالا ، تاکہ ان کے لیے ان کی شرم گاہیں ظاہر کر دے جو ان سے چھپائی گئی تھیں۔ اور شیطان نے کہا: تمھارے رب نے تمھیں صرف اس لیے روکا ہے کہ (کہیں) تم دونوں فرشتے نہ بن جاؤ، یا (کہیں) تم دونوں ہمیشہ رہنے والوں میں سے نہ ہو جاؤ۔“

حدیث 34

«وعن جابر بن عبد الله قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن النشرة فقال: هو من عمل الشيطان»
سنن ابوداؤد ، کتاب الطب، رقم: 3868 ، مستدرك حاكم: 418/4۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔
”اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نشرہ (یعنی جادو کے ذریعے جادو کا علاج کرنے) کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ شیطانی کام ہے۔“

سورہ بقرہ کی آخری دو آیات شیطانی وار سے بچاؤ

قَالَ اللهُ تَعَالَى: قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ‎﴿١٦﴾‏ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ ‎﴿١٧﴾
(7-الأعراف: 16)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”وہ بولا: پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، تو میں ان (لوگوں کو گمراہ کرنے) کے لیے تیرے سیدھے راستے پر ضرور بیٹھوں گا۔ پھر میں ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے ان کے پاس ضرور آؤں گا، اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے بھی، اور تو ان کی اکثریت کو شکر گزار نہیں پائے گا۔“

حدیث 35

«وعن النعمان بن بشير ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن الله كتب كتابا قبل أن يخلق السموات والأرض بألفي عام، أنزل منه آيتين ختم بهما سورة البقرة، ولا يقرأ ان فى دار ثلاث ليال فيقربها شيطان»
سنن ترمذی ، کتاب فضائل القرآن، رقم: 2882 المشكاة، رقم: 2145۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب تحریر فرمائی، اس میں سے دو آیتیں نازل فرمائیں جن کے ساتھ سورہ بقرہ کو ختم کیا گیا ہے اور جس گھر میں بھی تین رات ان دونوں آیتوں کی تلاوت کی جائے گی شیطان اس کے قریب بھی نہیں آئے گا۔ “

کلمہ تہلیل

حدیث 36

«وعن أبى هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من قال لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير . فى يوم مائة مرة كانت له عدل عشر رقاب ، وكتب له مائة حسنة ، ومحيت عنه مائة سيئة ، وكانت له حرزا من الشيطان يومه ذلك حتى يمسي، ولم يأت أحد بأفضل مما جاء إلا رجل عمل أكثر منه»
صحیح بخاري، كتاب الدعوات، رقم: 6403، صحیح مسلم، رقم: 2691، سنن ترمذی، رقم: 3468.
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے یہ کلمہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ دن میں سو دفعہ پڑھا اسے دس غلاموں کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا اور اس کے لئے سو نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اس کی سو برائیاں مٹا دی جائیں گی اور اس دن وہ شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا، شام تک کے لئے اور کوئی شخص اس دن اس سے بہتر کام کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا، سوا اس کے جو اس سے زیادہ کرے۔“

استعاذه

قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ‎﴿١٦٨﴾‏
(2-البقرة: 168)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے لوگو! تم ان چیزوں میں سے کھاؤ جو زمین میں حلال اور پاکیزہ ہیں اور مت پیروی کرو شیطان کے قدموں کی، بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔“

حدیث 37

«وعن أبى هريرة مرفوعا: لا تسبوا الشيطان، وتعوذوا بالله من شره»
السلسلة الصحيحة، رقم: 2422، صحيح الجامع الصغير، ، رقم: 7318۔
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم شیطان کو برا بھلا مت کہو ، بس اس کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو۔ “

ہم بستری کے وقت استعاذہ

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا ۚ كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ‎﴿١٤٢﴾‏
(6-الأنعام: 142)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور (پید کیے) اس نے چوپایوں میں سے بوجھ اٹھانے والے اور زمین سے لگے (پست قد ) ، اللہ نے تمھیں جو رزق دیا ہے اس میں سے کھاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔ بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔“

حدیث 38

«وعن ابن عباس رضي الله عنها قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: لو أن أحدهم إذا: أراد أن يأتى أهله قال: باسم الله ، اللهم جنبنا الشيطان جنب الشيطان ما رزقتنا ، فإنه إن يقدر بينهما ولد فى ذلك لم يضره شيطان أبدا»
صحیح بخاری، کتاب الوضوء، رقم: 141 ، صحیح مسلم رقم: 1343 .
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آنے کا ارادہ کرے تو یہ دعا پڑھے: ”اللہ کے نام سے، اے اللہ ! ہمیں شیطان سے دور رکھ اور جو کچھ تو ہمیں عطا فرمائے اسے بھی شیطان سے دور رکھ ۔ تو اگر اس صحبت سے کوئی اولاد مقدر میں ہوگی تو شیطان اسے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔“

غصہ کے وقت استعاذہ

قَالَ اللهُ تَعَالَى: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ‎﴿٢١﴾‏
(24-النور: 21)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے ایمان والو! تم شیطان کے قدموں کی اتباع نہ کرو، اور جو کوئی شیطان کے قدموں کی اتباع کرتا ہے، تو بلاشبہ وہ (شیطان) تو بے حیائی اور بے کام ہی کا حکم دیتا ہے، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی ایک کبھی بھی پاک نہ ہوتا، لیکن اللہ جسے چاہے پاک کرتا ہے، اور اللہ خوب سننے والا ، بڑا جاننے والا ہے۔“

حدیث 39

«وعن سليمان بن صرد قال: استب رجلان عند النبى صلى الله عليه وسلم ونحن عنده جلوس ، وأحدهما يسب صاحبه مغضبا قد احمر وجهه فقال النبي: إني لأعلم كلمة لو قالها لذهب عنه ما يجد ، لو قال: أعوذ بالله من الشيطان الرحيم فقالوا للرجل: ألا تسمع ما يقول النبي؟ قال: إنى لست بمجنون»
صحیح بخاری کتاب الادب، رقم: 6115 ، صحیح مسلم، رقم: 261، سنن أبوداؤد، رقم: 4781.
”اور حضرت سلیمان بن صرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ دو آدمیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جھگڑا کیا، ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص دوسرے کو غصہ کی حالت میں گالی دے رہا تھا اور اس کا چہرہ سرخ تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص اسے کہہ لے تو اس کا غصہ دور ہو جائے۔ اگر یہ ”أعوذ بالله من الشيطن الرجيم“ کہہ لے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس سے کہا کہ سنتے نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟ اس نے کہا کہ کیا میں دیوانہ نہیں ہوں۔“

دوران نماز شیطانی وساوس سے استعاذہ

قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَالَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ وَمَن يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا ‎﴿٣٨﴾‏
(4-النساء: 38)
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور ایسے لوگ (بھی اللہ کو پسند نہیں ) جو لوگوں کے دکھاوے کے لیے اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ اور وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے ۔ اور جس شخص کا ساتھی شیطان ہو تو وہ بہت برا ساتھی ہے۔“

حدیث 40

«وعن سعيد عن أبى العلاء أن عثمان بن أبى العاص أتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله! إن الشيطان قد حال بيني وبين صلوتي وقرآتتي ، يلبسها على ، فقال رسول الله: ذاك شيطان يقال له خنرب ، فإذا أحسسته فتعوذ بالله منه، واتفل على يسارك ثلاثا . قال: ففعلت ذلك فاذهبه الله عنى»
صحیح مسلم، کتاب السلام، رقم: 5738 .
”اور حضرت عبد الاعلیٰ نے سعید جریری سے، انہوں نے ابو علاء سے روایت کی کہ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول ! شیطان میرے اور میری نماز اور میری قرآت کے درمیان حائل ہو گیا ہے، وہ اسے مجھ پر گڈمڈ کر دیتا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ ایک شیطان ہے جسے خنزب کہا جاتا ہے، جب تم اس کو محسوس کرو تو اس سے اللہ کی پناہ مانگو اور اپنی بائیں جانب تین بار تھتکار دو۔ کہا: میں نے یہی کیا تو نے اسے مجھ سے دور کر دیا۔ “
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے