ایک مقرر منافع کے ساتھ بنکوں میں مال رکھوانا
ایک مقر منافع پر بنکوں میں مال رکھوانا جائز نہیں کیونکہ یہ سودی معاہدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
«وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا» [البقرة : 275]
”حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا۔“
نیز فرمایا :
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ» [البقرة : 278,279]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو۔ پھر اگر تم نے یہ نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑی جنگ کا اعلان سن لو اور اگر توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔“
مال رکھوانے والا جو مقدار لیتا ہے، اس میں کوئی برکت نہیں۔ فرمان الہی ہے :
«يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ» [البقرة : 276]
’’ اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔“
سود کی یہ قسم ربا نسیئہ اور ربا الفضل دونوں پر مشتمل ہے کیونکہ مال رکھوانے والا بنک کو اس شرط پر رقم دیتا ہے کہ وہ ایک مقررہ مدت تک متعین منافع کے ساتھ رقم بنک میں رکھے گا۔
[اللجنة الدائمة : 222]