بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں مذہبی آزادی اس درجے کی ہے جو مذہبی ممالک میں بھی میسر نہیں
وہاں اقلیتوں کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاتا، اور مذہب تبدیل کروانے کے لیے جبر کا کوئی تصور موجود نہیں۔ نیز، وہاں اقلیتوں کی تعداد گھٹنے کا کوئی خدشہ نہیں، جیسا کہ پاکستان میں دیکھا جاتا ہے۔ یہ وہ خیالات ہیں جو سیکولر مفکرین نے پھیلائے ہیں، اور عام افراد کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ لوگ بھی اس پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ہم نے اپنی کتاب "مقالات تفہیم مغرب: کلامیات و علمیات” میں ان نظریات کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے، تاہم یہاں چند بنیادی نکات پیش کیے جا رہے ہیں جنہیں سیکولر طبقہ نظر انداز کر دیتا ہے۔
مذہب کا اجتماعی نظم میں کردار؟
مغرب میں کسی مذہب کے پیروکار کو یہ اجازت نہیں کہ وہ پالیسی سازی میں مذہب کی بنیاد پر کسی عمل کے جواز یا عدم جواز کا مطالبہ کرے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر مذہبی فرد کو قانونی طور پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اجتماعی نظم میں اپنے مذہب کو پیچھے رکھے، چاہے اس کا دین کچھ بھی تقاضا کرے۔ اگر یہی جبر نہیں، تو اور کیا ہے؟
مغرب میں بڑھتی ہوئی دہریت
بیسویں صدی کے آغاز میں مغربی ممالک میں دہریت تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی۔ 1900 میں دنیا کی کل آبادی میں دہریوں کی شرح محض 0.01 فیصد تھی، لیکن پچھلی چند دہائیوں میں مغرب میں دہریت میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ آج بعض یورپی ممالک میں تقریباً 50% لوگ کسی مذہب کو نہیں مانتے۔
اگر پاکستان میں اقلیتوں کی گرتی ہوئی شرح پر سوال اٹھایا جاتا ہے، تو کیا کسی نے سوچا کہ یورپ میں عیسائیت، جو کبھی غالب مذہب تھا، اقلیت میں بدلنے کے خطرے سے کیوں دوچار ہو گیا؟ اس کا سبب سیکولر ریاست کا وہ نظام ہے جس میں مذہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر دیا گیا۔
تعلیمی نظام کے ذریعے مذہب کی بے دخلی
سیکولر ریاست نے ایسا تعلیمی و سماجی نظام قائم کیا جہاں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں۔
◄ اسکولوں میں مذہب پڑھانے پر پابندی عائد کی گئی۔
◄ بچوں کے نصاب کا تعین حکومت نے کیا، اور اس میں مذہب مخالف نظریات کو "معروضیت” اور "غیر جانبداری” کے نام پر شامل کیا گیا۔
◄ سرکاری طور پر فنڈ شدہ اسکولوں، کالجوں اور جامعات کو مساجد اور کلیساؤں کے محدود وسائل کے ساتھ مقابلے میں ڈال دیا گیا۔
◄ پبلک لائف میں مذہب کو خاموش کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں نجی زندگی میں بھی مذہب کی گرفت کمزور ہو گئی۔
مغربی ممالک سے ہجرت
کتنے ہی مسلمان ایسے ہیں جو اپنے بچوں کے بالغ ہونے کے بعد مغربی ممالک چھوڑ کر اپنے آبائی وطنوں کی طرف لوٹ گئے، کیونکہ انہیں وہاں اپنی نسل کا ایمان اور آخرت محفوظ محسوس نہیں ہوئی۔ اگر یہ جبر نہیں تو اور کیا ہے کہ ریاست کہتی ہے:
"یہ ہمارا نظام ہے، اس کے مطابق زندگی گزار سکتے ہو تو ٹھیک، ورنہ یہاں سے چلے جاؤ!”
خلاصہ
جس نظام نے مذہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر دیا اور اسے محض ایک ذاتی معاملہ بنا کر رکھ دیا، اس کی غیر ضروری تعریف کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔