194- مضاربت کا ایک مسئلہ
سوال: کیا کسی شخص کو اس لیے رقم دینا جائز ہے کہ وہ اس کے ساتھ کارو بار کرے اور منافع ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا یا کسی بھی نسبت کے ساتھ ہو؟
جواب: جس معاملے کے متعلق مسائل نے سوال کیا ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو معلوم تعداد میں روپے دیتا ہے اور کہتا ہے: ان روپوں کے ساتھ کوئی کاروبار کر، جو منافع ہوگا وہ ہم دونوں میں آدھا آدھا تقسیم ہوگا یا میرا چوتھا حصہ اور تمہارے تین حصے ہوں گے یا میرے تین حصے اور تمھارا چوتھا حصہ ہوگا، جس نسبت پر وہ دونوں متفق ہو جائیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اس معاملے میں کوئی حرج نہیں، یہ جائز ہے۔ بعض علما نے اس کے جواز پر اجماع نقل کیا ہے۔ اسے مضاربت کہا جاتا ہے، جو اس فرمان خداوندی سے ماخوذ ہے:
«وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّه» [المزمل: 20]
”اور کچھ دوسرے زمین میں سفر کریں گے، اللہ کا فضل تلاش کریں گے۔“
اس میں دونوں فریقوں کا مفاد اور مصلحت ہے، مال کا مالک اپنا مال کام میں لگا کر اس کے منافع سے فائدہ اٹھاتا ہے اور عامل ان روپوں کے منافع سے فائدہ اٹھاتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ اسے یہ آدمی مہیا نہ کرتا تو شائد وہ یہ فائدہ کہیں نہ پاتا۔ لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ عقد بہر صورت قمار باری اور جوے سے خالی ہونا چاہے، یعنیی غم و غنم (چٹی اور فائندہ) سرمایہ کار اور عامل کے درمیان برابر برابر ہو، جو عامل کا مشروط اور مقرر حصہ ہو وہ معلوم اور مشترک جزو ہو، جیسے: آدھا، چوتھا حصہ، تیسرا حصہ، آٹھواں حصہ، دسواں حصہ وغیرہ۔
بنابریں اگر کوئی کہے: یہ روپے لو اور ان سے تجارت کرو، پہلے مہینے کا منافع تیرا اور دوسرے مہینے کا منافع میرا، تو یہ جائز نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے، پہلے مہینے منافع زیادہ ہو اور دوسرے مہینے کم یا اس کے عکس۔ اسی طرح اگر کہے: ان روپوں سے تجارت کر، مکہ میں ان سے حاصل ہونے والا منافع میرا اور مدینہ میں حاصل ہونے والا منافع تیرا یا اس کے عکس، تو یہ بھی جائز نہیں، یا یہ کہے:
ان روپوں سے کاروبار کر گاڑیوں کا منافع میرا، کپڑے کا تیرا، تو یہ بھی جائز نہیں، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ گاڑیوں کا منافع زیادہ ہو اور کپڑوں کا کم یا اس کے عکس۔ اسی طرح اگر کہے: ان پھلوں سے کاروبار کر، ان کے منافع سے ہزار روپیہ میرا اور باقی تیرا، یا اس کے عکس ہو تو یہ بھی جائز نہیں، کیونکہ ہو سکتا ہے۔ اسے صرف ہزار ہی منافع ہو جو ایک کو ملے اور دوسرے کے حصے کچھ بھی نہ آئے۔ اسی طرح یہ کہنا بھی جائز نہیں کہ ان روپوں سے کاروبار کر جو اس کا منافع ہو وہ آدھا تیرا اور آدھا میرا اور جو خسارہ ہو وہ بھی آدھا تجھ پر اور آدھا مجھ پر، یہ جائز نہیں کیونکہ عامل کے ذمے کسی خسارے کی شرط جائز نہیں، خسارہ تمام کا تمام سرمایہ کار کو برداشت کرنا ہوگا۔
لہٰذا ان امور کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے، جو اس معاملے کو خراب کر سکتے ہیں، اگر اس کے صحیح ہونے میں کوئی رکا وٹ حائل نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
[ابن عثيمين: نورعلي الدرب: 7/279]