اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند ر کھ دیں تو بھی میں اپنے مشن سے انحراف نہ کروں گا
عقیل بن ابی طالب سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ کفارقریش ابوطالب کے پاس آئے اور کہنے لگے اے ابو طالب آپ کا بھتیجا ہمیں ہماری مجالس میں تکلیف پہنچاتا ہے آپ اس کو منع کریں چنانچہ ابو طالب نے عقیل (اپنے بیٹے ) کو بھیجا کہ جاؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر لاؤ عقیل کہتے ہیں میں آپ کو لینے گیا آپ ایک چھوٹے سے گھر میں تھے میں نے ان کو ساتھ لیا شدید گری تھی آپ دھوپ سے بچنے کے لئے سایہ میں چل رہے تھے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو طالب کے پاس پہنچے تو ابوطالب نے آپ سے کہا یہ آپ کے چچازاد ہیں یہ میرے پاس آپ کی شکایت کر رہے ہیں کہ آپ ان کو ان کی مجلس میں اور ان کی مسجد میں تکلیف دیتے ہیں تو آپ ان کو ایذاء دینے سے باز رہیں یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نظروں کو آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر قریش کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کیا تم اس سورج کو دیکھتے ہو انہوں نے کہا ہاں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ میرے بس میں نہیں کہ میں تمہیں دعوت دینا چھوڑ دو خواہ تم اس سورج میں سے ایک شعلہ ہی لے آؤ۔ اس پر ابو طالب نے کہا میرے بھائی کے بیٹے نے غلط نہیں کہا لہذا تم جا سکتے ہو۔
[مستدرك للحاكم 577/3 رقم الحديث 4667 ]
تحقیق الحدیث :
[السيرة النبويه 160/1 ]
اس کی سند ضعیف ہے۔
اس میں طلحہ دبن یحییٰ راوی متکلم فیہ ہے۔
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے چچا اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند لا کر رکھ دیں کہ میں اس دعوت کو چھوڑ دوتو بھی میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔
تحقیق الحدیث :
یہ روایت ابن جریر میں معضل سند کے ساتھ ہے۔
شیخ البانی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [تعليقات الألباني على فقه السيرة 1105،114 سلسلة الأحاديث الضعيفة 311/2 ]