بیمار افراد کے لیے روزے کے احکام
اسلام دینِ فطرت ہے اور اس میں بندوں کے لیے آسانی رکھی گئی ہے۔ روزے کا حکم فرض ہونے کے باوجود بیمار افراد کے لیے اس میں رعایت دی گئی ہے۔ اگر روزہ رکھنے سے صحت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، تو مریض کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، اور بعد میں قضا یا فدیہ دینا ہوگا، جو کہ بیماری کی نوعیت پر منحصر ہے۔
قرآن کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى ٱلَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ”
(سورۃ البقرہ: 184)
"يُرِيدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ ٱلْعُسْرَ”
(سورۃ البقرہ: 185)
ترجمہ:
"اور جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں (روزوں کی) گنتی پوری کرے۔ اور جو لوگ (روزہ رکھنے میں) شدید مشقت میں ہوں، وہ فدیہ دیں، ایک مسکین کا کھانا۔”
"اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تم پر سختی نہیں چاہتا۔”
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بیمار شخص کو روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی ہے، اور بعد میں قضا لازم ہوگی۔ اگر بیماری دائمی ہو اور صحت یابی ممکن نہ ہو، تو فدیہ دینا کافی ہوگا۔
حدیث کی روشنی میں
(1) نبی کریم ﷺ کی طرف سے مریض کے لیے رعایت
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
"إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ أَنْ تُؤْتَىٰ رُخَصُهُ كَمَا يُحِبُّ أَنْ تُؤْتَىٰ عَزَائِمُهُ”
(مسند احمد: 5866، صحیح ابن حبان: 2742)
ترجمہ:
"بے شک، اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ اس کی دی ہوئی رخصت کو قبول کیا جائے، جیسے وہ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔”
اگر بیمار شخص کے لیے روزہ نقصان دہ ہو، تو اسے چھوڑنا اللہ کی رحمت ہے اور اس میں کوئی گناہ نہیں۔
(2) بیماری کی حالت میں روزہ رکھنا اگر نقصان دہ ہو، تو ناپسندیدہ ہے
نبی کریم ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے، جو سخت گرمی میں روزہ رکھے ہوئے تھا۔ آپﷺ نے پوچھا:
"مَا بَالُ هَذَا؟”
صحابہؓ نے کہا: "یہ روزہ رکھے ہوئے ہے۔”
تو نبی ﷺ نے فرمایا:
"إِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَأَفْطِرْ”
(صحیح بخاری: 2830، صحیح مسلم: 1115)
ترجمہ:
"بے شک، تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے، پس روزہ چھوڑ دو!”
اگر روزہ رکھنے سے بیماری بڑھنے کا اندیشہ ہو، تو روزہ رکھنا درست نہیں بلکہ نقصان دہ ہے۔
آثارِ صحابہ و سلف صالحین
(1) ابن عباسؓ کا فتویٰ
عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
"إِذَا كَانَ الْمَرِيضُ لَا يُطِيقُ الصِّيَامَ، أَفْطَرَ وَقَضَىٰ، فَإِنْ كَانَ لَا يَسْتَطِيعُ أَبَدًا، فَأَطْعَمَ عَنْ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينًا”
(تفسیر ابن کثیر، سورۃ البقرہ 184)
ترجمہ:
"اگر کوئی بیمار ہو اور روزہ اس پر بھاری ہو، تو وہ روزہ چھوڑ دے اور بعد میں قضا کرے۔ اور اگر بیماری دائمی ہو، تو ہر روز کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔”
(2) امام حسن بصریؒ کا قول
"إِنْ كَانَ يَشُقُّ عَلَيْهِ الصِّيَامُ، فَلْيُفْطِرْ، وَإِنْ كَانَ لَا يَسْتَطِيعُ الْقَضَاءَ فَلْيُطْعِمْ”
(مصنف عبدالرزاق: 7554)
ترجمہ:
"جسے روزہ رکھنے میں سخت مشقت ہو، وہ بعد میں قضا کرے۔ اور اگر وہ قضا پر بھی قادر نہ ہو، تو فدیہ دے۔”
4. بیماری کی اقسام اور روزے کا حکم
عارضی بیماری (Temporary Illness)
اگر بیماری وقتی ہو (مثلاً بخار، سردرد، فلو وغیرہ) اور روزہ رکھنے سے حالت بگڑنے کا خطرہ ہو، تو روزہ چھوڑنا جائز ہے، مگر بعد میں قضا رکھنا ضروری ہوگا۔
دائمی بیماری (Chronic Illness)
اگر بیماری ایسی ہو کہ صحت یابی کی امید نہ ہو (مثلاً شوگر، گردے کی بیماری، کینسر وغیرہ)، اور روزہ رکھنے سے شدید نقصان ہو، تو فدیہ دینا کافی ہے، یعنی ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا۔
شدید کمزوری یا بڑھاپا
جو لوگ بہت زیادہ ضعیف ہو چکے ہوں اور روزہ رکھنا ان کے لیے ناممکن ہو، وہ فدیہ دے سکتے ہیں۔
5. خلاصہ و نتیجہ
عارضی بیماری کی صورت میں بعد میں قضا رکھنا واجب ہے۔
اگر بیماری دائمی ہو اور صحت یابی ممکن نہ ہو، تو ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا کافی ہے۔
صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور جمہور فقہاء کا یہی فیصلہ ہے کہ اسلام میں آسانی ہے اور مریض پر سختی نہیں کی جائے گی۔