مرضی کے بغیر نکاح اور طلاق کا شرعی جواز
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

میرے بڑے بھائی نے میری مرضی کے بغیر میرا نکا ح کر دیا اس کے باوجود میں چھ سال تک اپنے خاوند کے ساتھ رہی ہماری کوئی اولاد بھی نہیں، میں اب بھی اس کے پاس ہوں۔ اسے چاہتی نہیں ہوں بلکہ میں تو اس سے طلاق حاصل کرنا چاہتی ہوں، لیکن میں نے ایک حدیث سن رکھی ہے کہ جو عورت بلاوجہ خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے جنت میں داخل نہ ہو گی۔ اس کا حل کیا ہے ؟

جواب :

جب آپ کوئی اعتراض کے بغیر خاوند کے ساتھ چلی گئیں اور ایک عرصے تک اس کے ساتھ رہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے اپنے بھائی کے تصرف کو سند جواز عطاء کی۔ لہٰذا یہ نکاح صحیح ہے۔ کیونکہ نکاح سند جواز کی وجہ سے درست قرار پاتا ہے، مگر جب ایک خاوند کے ساتھ آپ ناخوش اور غیر مطمئن ہیں اور کراہت و تنگی محسوس کرتی ہیں اور اس کے بارے میں تقصیر حقوق کا خوف بھی لاحق رہتا ہے اور اس سے اولاد بھی نہیں تو یہ تمام اسباب و وجوہات اس سے مطالبہ طلاق کو جائز ٹھہرانے کے لئے کافی ہیں۔

(شیخ ابن جبرین حفظ اللہ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے