مخلوق کی محبت و تعظیم میں غلو: شرک کا ایک چور دروازہ
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کی کتاب شرک کے چور دروازے سے ماخوذ ہے۔

غلو (تجاوز في التعظيم)

شرک کا ایک چور دروازہ تجاوز فی التعظیم ” غلو‘‘ ہے جس کی ابتداء محبت سے ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں نہایت پر زور اور رعب دار الفاظ کے ذریعے ’’غلو‘‘ سے منع کیا گیا ہے، بلکہ ’’غلو‘‘ کی تحقیر کی گئی ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے۔
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ
’’اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو ، اور اللہ کی شان میں حق بات کے علاوہ کچھ نہ کہو مسیح عیسی بن مریم صرف اللہ کے رسول تھے۔“
(النساء:۱۷۱)

اس لیے کہ ہر دور میں یہ برائی ان کے اندر دوسروں کی بہ نسبت زیادہ پائی گئی۔ انہوں نے دین میں رہبانیت اور عورتوں سے کنارہ کشی کو ایجاد کیا ، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ
’’اور جو رہبانیت کی بدعت انہوں نے پیدا کی ، اُسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر انہوں نے اللہ کی رضا کی چاہت میں ایسا کیا تھا۔‘‘
(الحديد : ۲۷)

اور اپنے علماء اور راہبوں کو اپنا معبود بنالیا اور بلکہ عیسیؑ کو اللہ کا مقام دے دیا۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ
’’ان لوگوں نے اپنے عالموں اور اپنے عابدوں کو اللہ کی بجائے معبود بنالیا اور مسیح ابن مریم کو بھی۔“
(التوبة : ٣١)

نبی آخر الزماں سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے جب دیکھا کہ عیسائیوں کی کل گمراہی کی بنیاد یہ ہے کہ انہوں نے مسیحؑ کو الہ قرار دے دیا ہے تو آپ ﷺ نے اس پر اکتفا نہیں کیا کہ اپنے آپ کو ’’محمد رسول اللہ ﷺ‘‘ کہلائیں، بلکہ یہ بھی حکم دیا کہ لوگ ان کے بندہ ہونے کی شہادت بھی دیں۔ چنانچہ ، سیدنا عمر بن خطابؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تُطَرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ.
’’تم میری تعریف میں حد سے تجاوز نہ کرو، جیسا کہ نصاری نے ابن مریم کے سلسلہ میں غلو سے کام لیا، میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس لیے مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو ۔“
صحيح بخاري، كتاب الحدود، رقم : ٦٨٣٠- شرح | باب تواضعه صلى الله عليه وسلم ، رقم: ٣٦٨١- مسند أحمد: ٢٣/١، رقم: ١٥٤

حالی نے انہی الفاظ کو اپنے انداز سے کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
تم اوروں کی مانند دھوکا نہ کھانا
کسی کو خدا کا بیٹا نہ بنانا
میری حد سے رتبہ نہ میرا بڑھانا
پڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا
سب انساں ہیں واں جس طرح سر فگندہ
اس طرح ہوں میں بھی ایک اس کا بندہ
بنانا نہ خربت کو میری صنم تم
نہ کرنا میری قبر پر سر خم تم

آپ بالیقین سید ولد آدم ہیں، سید الانبیاء والمرسلین ہیں، مگر آپ نے اپنے آپ کو سید تک کہنے کی بھی اجازت نہیں دی۔ سیدنا عبداللہ بن شیخرؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں بنو عامر کے وفد میں جب دربار رسالت ﷺ میں حاضر ہوا تو ہم لوگوں نے عرض کیا، کہ آپ سے عام ہمارے سید (آقا) ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سید‘‘ تو اللہ ہے ، پھر ہم نے کہا: آپ ﷺ ہم سے افضل ہیں، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:
قُولُوا بِقَوْلِكُمْ وَلَا يَسْتَجِيرَ نَّكُمُ الشَّيْطَانُ.
’’اچھا یہ کہہ لو لیکن شیطان تم کو اپنا وکیل نہ بنا لے۔“
سنن ابو داؤد، كتاب الأدب، رقم الحديث: ٤٨٠٦- مسند أحمد: ٢٤٩/٣- صحيح أبو داؤد للألباني : ۱۸۰/۳

شریعت محمدیہ میں توحید الہی کو اتنا اعلیٰ و ارفع مقام حاصل ہے اور شرک کے رشتوں کو اس سختی سے بند کیا گیا ہے کہ اسم پاک کے ساتھ متصل کسی انسان کے نام کے ذکر کی اجازت نہیں، حتی کہ آپ ﷺ نے اپنی ذات اور اپنے نام کے ذکر کی بھی اجازت نہیں دی۔ ایک دن ایک شخص نے سلسلہ کلام آپ ﷺ سے کہہ دیا:
مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِتَ.
’’جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں۔‘‘

آپ سے ﷺ نے فورا اس سے منع فرمایا اور کہا:
أَجَعَلْتَى لِلَّهِ نِدًّا ، بَل قُلْ مَا شَاءَ اللهُ وَحْدَهُ.
’’تو نے مجھے اللہ کا ہم سر اور مقابل ٹھہرا دیا، بس یوں کہو جو صرف اللہ تنہا چاہے۔“
مسند أحمد: ٢١٤/١، رقم: ۱۸۳۹ – سلسلة الأحاديث الصحيحة، رقم: ١٣٦-١٠٩٣،١٣٩

سیدنا قیس بن سعدؓ فرماتے ہیں کہ میں کوفہ کے نزدیک حیرہ شہر گیا تو دیکھا کہ وہاں کے لوگ اپنے مرزبان (بادشاہ) کو سجدہ کرتے ہیں تو میں نے واپس آکر رسول اللہ ﷺ سے کہا: آپ تو زیادہ حق دار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں ؟ جواباً رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
أَرَأَيْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِى أَكُنتَ تَسْجُدُ لَهُ؟ قُلْتُ: لَا ، قَالَ : فَلَا تَفْعَلُوا، لَوْ كُنتُ آمِرًا أَحَدًا أَن يَسْجُدَ لِأحَدٍ لأمَرْتُ النِّسَاءَ أَن يَسْجُدَنَ لِأَزْوَاجِهِنَّ لِمَا جَعَلَ اللهُ لَهُمُ عَلَيْهِنَّ مِنَ الْحَقِّ.
’’اگر تو میری قبر کے پاس سے گزرتا تو کیا تو اسے سجدہ کرتا؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اب بھی ایسا نہ کرو، اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ (اللہ کے علاوہ) کسی کو سجدہ کرے ، تو میں عورتوں کو کہتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں، اس حق کی وجہ سے کہ جو ان پر ان کے خاوندوں کا ہے۔“
سنن أبو داود، كتاب النکاح باب في حق الزوج على المرأة، رقم : ٢١٤٠١

شریعت نے بادشاہوں اور سرداروں کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونے سے منع فرمایا ہے۔ بلکہ مطلق (قیام) کھڑا ہونے سے روک دیا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اسے غلو اور شرک کے قریب قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:
فَإِنَّ الْعَجَمَ كَانَ مِنْ أَمْرِهِم أَن تَقُومَ الْحَدَمُ بَيْنَ يَدَى سَادَتِهِمْ وَالرَّعِيَّةُ بَيْنَ أَيْدِى مُلُوكِهِمْ وَهُوَ مِنْ أَفَرَاطِهِمُ فِي التَّعْظِيمِ حَتَّى كَادَيْنَا حُمُ الشَّرُكَ فَنُهُوَ عَنْهُ.
’’عجم کا معمول تھا کہ خدام اپنے سرداروں کے سامنے اور رعیت اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے ہوتے تھے، اور یہ تعظیم میں افراط ہے ، یہاں تک کہ شرک کے قریب ہے، لہذا اس سے روک دیا گیا۔“
حجة الله البالغة : ٥٤٩/٢

سجدہ تو سجدہ اور قیام تو قیام ! شریعت اسلامیہ نے بندے کو بندے کے آگے برائے نام جھکنے کی بھی اجازت نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ ’’فقہاء عظام نے جھکنے سے نہ صرف منع فرمایا ہے بلکہ اسے فعل مجوس قرار دیا ہے۔‘‘
فتاوی عالمگیری جلد : ٤، كتاب الكراهية ، باب : ٢٨

سجدہ، قیام اور انحناء کی طرح کسی کی تعظیم کے لیے اس کے سامنے بیٹھ کر زمین کو چومنا بھی شریعت میں حرام ہے۔ کیونکہ یہ بھی سجدہ کے مشابہ ہے، چنانچہ در مختار ’’کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء“ میں ہے:
وَكَذَا مَا يَفْعَلُونَهُ مِنْ تَقْبِيلِ الْأَرْضِ بَيْنَ يَدَيِ الْعُلَمَاءِ وَالْعُظَمَاءِ فَحَرَامٌ وَالْفَاعِلُ وَالرَاضِي بِهِ أَيْمَانِ لِأَنَّهُ يَشْبَهُ عِبَادَةَ الْوَثْنِ.
’’اور اسی طرح علماء وعظماء کے سامنے زمین بوسی حرام ہے، ایسا کرنے والا اور اس فعل پر راضی رہنے والا دونوں گنہگار ہیں، کیونکہ یہ عمل بت پرستی کے مشابہ ہے۔‘‘

حد ہوگئی کہ آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالی کے ساتھ ضمیر میں اپنی شرکت کو گوارا نہ فرمایا۔ بروایت عدی بن حاتمؓ، ایک خطیب نے نبی ﷺ کے سامنے خطبہ دیا، اور (دوران خطبہ) کہا :
مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشَدَ وَمَنْ يَعْصِهِمَا.
’’یعنی جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اس نے راہ راست پالیا، اور جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی ۔“

اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
بِئْسَ الْخَطِيبُ أَنتَ ، قُلُ : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ .
’’تو بُرا خطیب ہے، تم یوں کہو: جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔“
صحیح مسلم، كتاب الجمعة، رقم: ٢٠١٠

خطیب نے اطاعت کے سلسلے میں تو اللہ اور رسول ﷺ کا علیحدہ علیحدہ ذکر کیا، لیکن معصیت کے سلسلے میں دونوں کو ایک ہی ضمیر سے ذکر کر دیا، یعنی وَمَنْ يُعَصِهِمَا کہا، رسول اللہ ﷺ نے اس کے ساتھ اپنی اس ضمیر کی شرکت کو برداشت نہیں کیا، اور انتہائی جوش و جلال میں آکر فرمایا : ” تو برا اخطیب ہے۔‘‘

ہو جس پر عبادت کا دھوکا مخلوق کی وہ تعظیم نہ کر
جو خاص الہ کا حصہ ہے ، بندوں میں اسے تقسیم نہ کر

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!