مبنی برحقیقت خوش طبعی میں کوئی حرج نہیں
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

خوش طبعی کا کیا حکم ہے ؟ کیا یہ لہو الحدیث کے ضمن میں آتی ہے ؟ یہ صراحت ضروری ہے کہ ہمارا سوال ایسی خوش طبعی کے بارے میں ہے جس میں دین کا استہزاء نہیں ہوتا۔

جواب :

اگر خوش طبعی مبنی برحقیقت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ خاص طور پر اگر اس میں بہتات بھی نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوش طبعی فرمایا کرتے تھے اور خلاف واقعہ کوئی بات نہ کرتے، رہی ایسی خوش طبعی جو جھوٹ سے عبارت ہو تو وہ جائز نہیں ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
«ويل للذى يحدث فيكذب ليضحك به القوم، ويل له ثم ويل له» [سنن أبى داؤد، سنن ترمذي وسنن نسائي]
”اس آدمی کے لئے بربادی ہے ! جو لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے۔ اس کے لئے بربادی ہے۔ پھر اس کے لئے بربادی ہے۔“
(شیخ ابن باز)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے