سوال :
کیا باپ اپنی بیٹی کو کسی ایسے شخص سے شادی کرنے پر مجبور کر سکتا ہے جسے وہ ناپسند کرتی ہو ؟
جواب :
باپ ہو یا کوئی اور شخص اپنے زیر کفالت بچی کو اس کے غیر پسندیدہ شخص سے شادی کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا، بلکہ اس بارے میں لڑکی سے اجازت لینا ضروری ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشار ہے :
لا تنكح الأيم حتى تستأمر، ولا تنكح البكر حتى تستأذن، قالوا : يا رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف إذنها ؟ قال : أن تسكت – وفى لفظ آخر – قال : إذنها صماتها – وفى اللفظ الثالث – والبكر يستأذنها أبوها وإذنها سكوتها [ رواه مسلم فى كتاب النكاح باب 9 والدارمي فى كتاب النكاح باب 13 و احمد جلد 2 ص 234 ]
”جب تک بیوہ عورت سے مشورہ نہ کر لیا جائے اس کا نکاح نہ کیا جائے، اور جب تک کنواری لڑکی سے اجازت نہ لی جائے اس کا نکاح نہ کیا جائے۔ اس پر لوگوں نے سوال کیا، یا رسول اللہ ! اس کے اذن کی کیا صورت ہو گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اس کی خاموشی۔ “ دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ : ”اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے۔ “ تیسری روایت کے الفاظ یوں ہیں : ” کنواری لڑکی سے اس کا باپ اجازت لے اور اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے۔ “
اگر لڑکی کی عمر نو برس یا اس سے زیادہ ہو تو باپ کے لئے اس سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اسی طرح اس کے دوسرے سرپرست بھی اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح نہیں کر سکتے۔ سب لوگوں پر ایسا کرنا واجب ہے، اور اگر کسی نے اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کر دیا تو وہ نکاح صحیح نہیں ہو گا، کیونکہ نکاح کے لئے میاں بیوی دونوں کی رضامندی شرط ہے۔
اگر انہوں نے اس کی مرضی کے بغیر، زبردستی مار پیٹ کر یا سنگین نتائج کی دھمکی دے کر اس کا نکاح کر دیا تو بھی ایسا نکاح صحیح نہیں ہو گا، ہاں اگر لڑکی کی عمر نو سال سے کم ہو اور اس کا باپ اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح کر دے تو صحیح مذہب کی رو سے اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کی اجازت کے بغیر شادی کی، جبکہ اس وقت ان کی عمر نو سال سے کم تھی۔ اور اگر لڑکی کی عمر نو سال یا اس سے زائد ہو تو باپ سمیت کوئی بھی شخص اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح نہیں کر سکتا۔ شادی کا پیغام دینے والے شخص کو اگر لڑکی کی ناپسندیدگی کا علم ہو جائے تو اسے ایسے قدم سے باز رہنا چاہیئے اگرچہ لڑکی کا باپ بھی اس معاملے میں لچک رکھتا ہو۔ باپ پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور بیٹی کی مرضی کے برعکس کوئی قدم نہ اٹھائے۔ اگر باپ کو یہ دعوی ہو کہ اس نے لڑکی پر زبردستی نہیں کی پھر بھی شرعی محرمات کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی سے اجازت لینے کا حکم دیا ہے۔
ہم لڑکی کو بھی نصیحت کریں گے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔ اس کا باپ اگر اس کی شادی کرنا چاہتا ہو اور منگنی کا پیغام دینے والا شخص دینی اور اخلاقی طور پر پسندیدہ اوصاف کا حامل ہو تو اسے چاہیئے کہ اس پر موافقت کا اظہار کر دے۔ اگر باپ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص بھی اس کی شادی کرنا چاہے تو بھی اسے ایسا ہی کرنا چاہیئے کیونکہ نکاح میں بڑی برکات اور مصلحتیں پنہاں ہوتی ہیں، جبکہ مجرد زندگی بسر کرنے میں بے شمار خطرات پوشیدہ ہوتے ہیں۔
ہم تمام نوجوان لڑکیوں کو نصیحت کریں گے کہ وہ مناسب رشتے آنے پر اپنی موافقت کا اظہار کر دیں اور درس و تدریس وغیرہ کو بہانہ نہ بنائیں۔ والله ولي التوفيق