سوال :
قسم کا کفارہ کیا ہے ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں قسم کا کفارہ بیان فرمایا ہے :
سورۃ المائدہ میں ارشاد ربانی ہے :
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [5-المائدة:89 ]
”اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو (غیرارادی) قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا، لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مستحکم کر دو۔ اس کا کفار دس محتاجوں کو کھانا دینا ہے اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے پھر جس کو یہ میسر نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں۔ “
لغو اور بیہودہ قسمیں وہ ہیں جو بلاعزم و ارادہ دوران گفتگو عموماً زبان پر آ جاتی ہیں، مثلا کی کا لا والله – بلى والله نہیں ! اللہ کی قسم۔ ہاں ! اللہ کی قسم، جیسے الفاظ کہنا ایسی قسم پر کفارہ واجب نہیں ہوتا۔ کفارہ صرف ان قسموں پر واجب ہوتا ہے جو دل کے عزم و ارادہ سے اٹھائی جائیں۔ اگر ایسی
قسمیں پوری نہ ہوں تو آدمی کو اختیار ہے کہ وہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے یا گردن آزاد کرے ‘ کھانا کھلانے کی صورت میں صبح یا شام ایک وقت کے لئے گھر میں پکنے والا درمیانی قسم کا کھانا کھلانا ہو گا یا انہیں بقدر کفایت دینا ہو گا، یا دس مساکین کو کم از کم اتنا کپڑا دینا ہو گا جس میں نماز ادا ہو سکتی ہو، اگر ان تینوں صورتوں پر عمل نہ کر سکتا ہو تو مسلسل تین روزے رکھنے ہوں گے۔
( شیخ ابن جبرین حفظ اللہ)