قرآن مجید کی تعلیم کو مہر کے طور پر مقرر کرنا جائز ہے، جیسا کہ متعدد احادیث میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ وہ خود کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وقف کر رہی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں شادی کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک صحابی نے عرض کیا: "میری شادی اس سے کروا دیں۔” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "کوئی لباس بطور حق مہر دے دو۔” صحابی نے کہا کہ ان کے پاس لباس نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "کچھ دو، چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔” جب وہ اس پر بھی معذرت کرنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا، "تمہیں قرآن کا کچھ حصہ یاد ہے؟” انہوں نے جواب دیا کہ کچھ سورتیں یاد ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "میں نے ان سے تمہارا نکاح اس شرط پر کیا کہ تم انہیں قرآن کی یہ سورتیں سکھاؤ۔” (صحیح البخاري : ٥٠٢٩، صحیح مسلم : ١٤٢٥)
صحیح مسلم میں اس روایت کے کچھ اضافی الفاظ ہیں:
"اِنْطَلِقْ، فَقَدْ زَوَّجْتُکَھَا، فَعَلِّمْھَا مِنَ الْقُرْآنِ.” "جاؤ! میں نے ان سے تمہارا نکاح کردیا، بس قرآنی سورتوں کی تعلیم دے دینا۔” (صحیح مسلم: ١٤٢٥/٧٧)
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت
ایک اور روایت میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں کے درمیان بیٹھے تھے کہ ایک عورت آئی اور کہنے لگی، "یا رسول اللہ! میں نے اپنے آپ کو آپ کے لیے وقف کر دیا ہے، آپ کا کیا ارادہ ہے؟” اس پر ایک صحابی نے عرض کیا، "میری شادی اس سے کروا دیں۔” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تین بار کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا، "کیا مہر کے لیے تمہارے پاس کچھ ہے؟” اس نے کہا، "نہیں۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "جاؤ، کچھ تلاش کر کے لاؤ۔” جب اس نے واپس آ کر کہا کہ اسے کچھ نہیں ملا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "کچھ قرآن یاد ہے؟” اس نے کہا، "جی ہاں، فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "میں نے ان سے تمہارا نکاح اس شرط پر کیا کہ تم انہیں قرآن کی یہ سورتیں سکھاؤ۔” (مسند الإمام أحمد: ٥/٣٣٠، وسندہ، صحیحٌ)
امام شافعی رحمہ اللہ کا قول
امام ترمذی نے ذکر کیا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ اس حدیث کی بنیاد پر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مہر کے طور پر کوئی چیز دینے کی استطاعت نہیں رکھتا اور نکاح کے عوض قرآن کی چند سورتیں سکھانے کا معاہدہ ہو جائے، تو ایسا نکاح جائز اور درست ہے۔ اس شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی بیوی کو قرآن کی کوئی سورت سکھا دے۔ (سنن الترمذي تحت حدیث: ١١١٤)
امام مالک بن انس رحمہ اللہ کا قول
امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے اس حدیث کی بنیاد پر کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص کو قرآن کی تعلیم کے عوض نکاح کی اجازت دی، یہ دراصل اس کی قرآن کی تعلیم دینے کی اجرت تھی۔ (الاستذکار لابن عبد البر: ٥/٤١٥، التمہید لما في الموطأ من المعانی والآثار: ٢١/١٢٠، سند صحیح)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کی تشریح
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨-٥٩٧ھ) فرماتے ہیں کہ:
"بِمَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْآن” اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کی تعلیم کو حق مہر قرار دیا جا سکتا ہے۔ (کشف المشکل من حدیث الصحیحین: ٢/٢٧٠)
حافظ خطابی رحمہ اللہ کی رائے
حافظ خطابی رحمہ اللہ (٣١٩-٣٨٨ھ) اس حدیث سے قرآن کی تعلیم پر اجرت لینے کا جواز ثابت کرتے ہیں۔ "بِمَا مَعَکَ” میں "باء” عوض کے معنی میں ہے، جیسے کہ بعتک ھذا الثوب بدینار میں ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر باء کا معنی وہ ہوتا جو بعض اہل علم نے کہا ہے کہ نکاح قرآن یاد ہونے کے سبب کیا گیا تو یہ خاص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتا اور سوال "کیا آپ کو قرآن یاد ہے؟” کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ اس کا واضح معنی یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم ہی مہر قرار دیا گیا تھا۔ (معالم السنن: ٣/٢١١)
علامہ قرطبی رحمہ اللہ کا بیان
علامہ قرطبی رحمہ اللہ (٦٠٠-٦٧١ھ) نے اس روایت کے ضمن میں کہا کہ فقہاء کے نزدیک اس حدیث سے نکاح کے انعقاد اور مہر کی مؤخر ادائیگی کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان "بِمَا مَعَکَ مِنَ الْقُرْآن” میں "باء” عوض کے لیے ہے، جیسا کہ خذ ھذا بھذا کہا جاتا ہے۔ دوسری روایت میں (فَعَلِّمْہَا) کے الفاظ واضح کرتے ہیں کہ یہ نکاح کی وجہ سے تعلیم دینے کا حکم ہے۔ (تفسیر القرطبی: ٥/١٣٤)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی وضاحت
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠٠-٧٧٤ھ) بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث کے کئی طرق سے نکلنے کا مقصد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو حکم دیا کہ وہ قرآن کی تعلیم اس عورت کو دے اور یہ نکاح کا مہر ہوگا۔ اس پر اہل علم میں اختلاف ہے کہ کیا قرآن کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے؟ یا یہ صرف اسی شخص کے لیے تھا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ اکراماً نکاح کیا گیا، جبکہ صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی تعلیم عوض میں تھی۔ (تفسیر ابن کثیر: ١/٦٨)
علامہ ابن قیم جوزیہ رحمہ اللہ کا بیان
شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن قیم جوزیہ رحمہ اللہ (٦٩١-٧٥١ھ) فرماتے ہیں کہ:
"یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر عورت اپنے خاوند کے علم و حفظ قرآن کو مہر کے طور پر قبول کرے تو یہ جائز ہے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا قبول اسلام اور اسے مہر بنانا انہیں مالی فائدے سے زیادہ محبوب تھا۔ اس طرح کے مہر سے عقد خالی نہیں ہوتا۔ مہر درہموں کی مقدار میں تعین کا حکم کہیں نہیں آیا بلکہ یہی قرآن اور سنت سے ثابت ہے۔ اس حدیث میں دوسرے لوگ جو مال کو مہر قرار دینے کے قائل ہیں ان کے برخلاف یہ نص اور قیاس دونوں سے ثابت ہے۔”
امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے اپنی بیٹی کا نکاح دو درہم مہر پر کیا، جسے ان کے مناقب میں شمار کیا گیا اور کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ (زاد المعاد في ھدي خیر العباد: ٥/١٦٢، ١٦٣)
فائدہ نمبر ➊: ابو نعمان ازدی رحمہ اللہ کی روایت
ابو نعمان ازدی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سورت کو مہر بنا کر شادی کروائی اور فرمایا کہ آپ کے علاوہ کسی اور کے لیے یہ مہر بنانا جائز نہیں۔”
(التحقیق في مسائل الخلاف لابن الجوزي: ٢/٢٨٣، ح: ١٦٧٧، سنن سعید بن منصور: ٦٤٢)
تبصرہ
یہ روایت جھوٹی ہے۔ ابو عرفجہ اور ابو نعمان دونوں راوی مجہول ہیں، اور ممکنہ طور پر اس روایت کی تخلیق میں ان دونوں میں سے کسی کا عمل دخل ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔
حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ (٧٠٥-٧٤٤ھ) نے اس روایت کو غیر ثابت اور مرسل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ: "ابو عرفجہ اور ابو نعمان دونوں مجہول ہیں۔
(تنقیح التحقیق في أحادیث التعلیق: ٤/٣٨١)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا: "یہ حدیث ثابت نہیں ہے۔”(مختصر التحقیق في أحادیث التعلیق: ٢/١٩٧)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”یہ روایت مرسل ہونے کے ساتھ ساتھ مجہول راویوں سے بھی مروی ہے۔”(فتح الباري شرح صحیح البخاري: ٩/٢١٢)
بعض افراد نے غلطی سے اس روایت کو بخاری کی طرف منسوب کر کے ایک فحش غلطی کی ہے۔
فائدہ نمبر ➋: مکحول شامی رحمہ اللہ کا قول
مکحول شامی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چلے جانے کے بعد یہ کسی کے لیے روا نہیں۔”(سنن أبي داؤد: ٢١١٣)
تبصرہ
حافظ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ نے اسے غیر ثابت اور مرسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ:”مکحول رحمہ اللہ کا قول حجت نہیں ہے۔”(تنقیح التحقیق: ٤/٣٨١)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:”یہ منقطع ہے۔”(مختصرالتحقیق في أحادیث التعلیق: ٢/١٩٧)
فائدہ نمبر ➌: ایک اور روایت
ایک روایت ہے کہ:
"میں ان سے آپ کا نکاح اس شرط پر کیے دیتا ہوں کہ آپ انہیں پڑھائیں گے اور تعلیم دیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ آپ کو مال و دولت سے نوازیں، تو مہر بھی ادا کریں گے۔ آدمی نے شرط قبول کر کے شادی کر لی۔”(سنن الدارقطني: ٣/٢٤٩، ٢٥٠، السنن الکبریٰ للبیہقي: ٧/٢٤٣)
تبصرہ
یہ بھی ایک جھوٹی روایت ہے۔ اس کا راوی عتبہ بن سکن "متروک” ہے۔
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ روایت عتبہ کا تفرد ہے اور وہ متروک ہے۔”
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "عتبہ بن سکن وضاع راوی ہے، اور یہ روایت باطل اور بے اصل ہے۔” اس روایت میں مزید خرابی بھی موجود ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے "غیر ثابت” کہا ہے۔ (فتح الباري: ٩/٢١٣)
خلاصہ
قرآن مجید کی تعلیم کو مہر مقرر کرنا جائز اور درست ہے۔