وَعَنْ أبى هُريْرة عَبْدِ الرَّحْمن بْنِ صخْرٍ رضي الله عَنْهُ قَالَ: قالَ رَسُولُ اللهِ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم: "إِنَّ الله لا يَنْظُرُ إِلى أَجْسامِكْم، وَلا إِلى صُوَرِكُمْ، وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ "رواه مسلم.
حضرت ابو ہریرہ عبدالرحمن بن صحر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔“ [مسلم]
توثيق الحديث :
[ أخرجه مسلم 2564 ، 33]
صحیح مسلم کی اگلی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَنظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَ أَعْمَالِكُمْ
”اللہ تعالی تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔“
امام نوویؒ کو چاہیے تھا کہ وہ یہ دوسری روایت بیان کرتے تا کہ پہلی روایت جس میں ” تمہارے اعمال “ کا ذکر نہیں، اس سے وہ لوگ
دھوکے میں مبتلا نہ ہوں جو ایمان کو صرف دل تک محدود و محصور سمجھتے ہیں۔
غريب الحديث :
لا ينظر إلى اجسامِكُم ولا إلى صوركم : ” وہ تمہارے جسموں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا ۔“
یعنی وہ تمہارے جسموں اور صورتوں کے مطابق جزا نہیں دیتا کیونکہ جزا و سزا کا دارو مدار انسان کی ذات پر بلکہ اس ذات سے متعلقہ افعال پر ہے۔ اسی طرح انسانی صفات جو انسان کے اختیار سے باہر ہیں جیسے گورا یا کالا ہونا اور لمبا یا چھوٹا ہونا وغیرہ، جزا و سزا کا دارو مدار ان پر نہیں ہے۔
فقه الحديث :
➊ وہ اعمال باعث ثواب ہیں جو اخلاص اور حسن نیت سے کیسے جائیں ۔
➋ سب سے پہلے دل کی اصلاح ضروری ہے کیونکہ باقی اعضاء امر و نهي میں دل کے تابع ہوتے ہیں۔ جب دل درست ہو جاتا ہے تو تمام اعضاء درست ہو جاتے ہیں اور جب دل خراب ہو جاتا ہے تو باقی اعضاء بھی خراب ہو جاتے ہیں۔
➌ انسان اپنی نیت اور اعمال کے بارے میں جواب دہ ہے۔ لہذا ان دونوں کو درست رکھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اور ان کی درستی کے لیے اللہ تعالی کی ہدایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح سنت سے راہنمائی ضروری ہے۔