قبر پر علامت (نشانی) رکھنے کا حکم
تحریر: علامہ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین حفظ اللہ

سوال: قبر پر لوہا یا لکڑی بطور علامت رکھنے کا حکم کیا ہے؟ تاکہ اس علامت کے ذریعے صاحب قبر کو پہچانا جا سکے ۔
جواب: اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ، اس لیے کہ امام ابو داؤد نے حدیث [3206] میں مطلب بن عبد اللہ بن منطب سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت عثمان بن مغظون کو وفات کے بعد دفن کیا گیا تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ ایک پتھر لے کر آئے ، جب وہ پتھر لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پتھر کو عثمان بن مغظون کے سر کے پاس بطور علامت کے رکھ دیا اور فرمایا:
اتعلم بها قبر اخي وادفن إليه من مات من أهلي [سنن ابي داؤد ، كتاب الجنائز ، باب فى جمع الموتى فى قبر والقبر يعلم ، ح 3206]
”میں اس علامت کے ذریعے اپنے بھائی کی قبر کو پہچان سکوں گا اور میرے اہل و عیال میں سے جو بھی انتقال کر جائے میں اسے عثمان بن مغظون کے پاس ہی دفن کروں گا ۔“
اس حدیث مذکور سے ابو داؤد رحمہ اللہ نے سکوت اختیار کیا ہے اور یہ حدیث ان کے نزدیک صالح ہے ، یعنی یہ حدیث ابو داؤد کے نزدیک قابل حجت و استدلال ہے ۔ یہ علامت اس غرض سے رکھی جاتی ہے تاکہ زیارت کے وقت میت کو پہچانا جا سکے ، اور اس لیے بھی تاکہ قبر کی زیارت کرنے والا شخص دعا کر سکے اور اس کے پڑوس میں دوسرے اقارب واعزہ کو دفن کر سکے تاکہ ان سب کی زیارت آسان ہو جائے ۔ اور یہ علامت پتھر ، اینٹ ، لکڑی وغیرہ سے رکھی جا سکتی ہے ، نیز یہ (علامت) صاحب قبر کے سر کے پاس یا اس کے کسی پہلو میں رکھی جائے گی ۔
البتہ قبروں پر عمارت تعمیر کرنا منع ہے ۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن یقعد على القبر وان يجصص وان يبنى عليه وفي رواية وان يزاد عليه وأن يكتب عليه
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر بیٹھنے ، اس کو پلستر کرنے اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے ۔“
اور ایک دوسری روایت ہے کہ: ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر اضافی مٹی ڈالنے اور کچھ تحریر کرنے سے بھی منع فرمایا ہے ۔“
امور مندرجہ بالا سے روکنے کا معنی ہے کہ یہ حرام ہیں اور اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ چیزیں فتنے کی بنیاد بنتی ہیں ، اس لیے کہ جب عوام الناس دیکھیں گے کہ اس قبر کو دوسری قبروں کے مقابلے میں اونچا بنایا گیا ہے ، یا اسے چونے سے لیپ دیا گیا ہے ، یا اس قبر پر کوئی ایسی چیز تحریر ہے جو میت کی مدح دستائش یا بےجا تعریف پر مبنی ہے ، تو پھر ایسی قبر کو اس بات سے محفوظ رکھنا مشکل ہے کہ عام لوگ اس کے پاس نہ جائیں اور پھر وہاں محفل نہ سجائیں اور صاحب قبر کے بارے میں ولایت اور فضل کا اعتقاد نہ رکھیں ۔ اور یہ ساری باتیں میت کی تعظیم و تقدیس ، تکریم و توقیر صاحب قبر سے دعا مانگنے ، قبر کی خاک سے برکت حاصل کرنے اور قبر کے پاس اعتکاف کرنے کی دعوت دیتی ہیں ۔ اور اس طرح کے خرافات ان ملکوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں جہاں جہالت زیادہ ہوتی ہے ، اور ان ملکوں میں شرک عام ہو چکا ہے ۔ وہاں مردوں کی عبادت کی جاتی ہے ، ان سے دعائیں مانگی جاتی ہیں ، مردوں کے نام پر جانور ذبح کیے جاتے ہیں اور چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں ۔ اور یہ تمام شرکیہ افعال کی بنیاد مُردوں کا بلاوجہ درجہ بلند کرنے ان کی قبروں کو اونچا کرنے ، یا پھر شیطان کے پٹی پڑھانے کی وجہ سے ہے ۔ اور شیطان عوام الناس کو یہ پٹی پڑھاتا ہے کہ شاید اس قبر میں کوئی ولی یا شہید ہے ۔ اور یہی حرکتیں عام لوگوں کے لیے فتنہ ودھوکہ کا سبب بنتی ہیں واللہ اعلم !

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: