فقہ علامہ وحید الزمان اور علماء اہل حدیث
یہ تحریرمولانا ابو صحیب داؤد ارشد حفظہ اللہ کی کتاب تحفہ حنفیہ سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب دیوبندی عالم دین ابو بلال جھنگوی کیجانب سے لکھی گئی کتاب تحفہ اہلحدیث کا مدلل جواب ہے۔

فقہ علامہ وحید الزمان اور علماء اہل حدیث

بلاشبہ علامہ وحید الزمان ایک فاضل شخص تھے ۔ قرآن کریم اور صحاح خمسہ کا ترجمہ کر کے انہوں نے بہترین خدمت سر انجام دی ہے۔ لیکن ان کے ذاتی اجتہادات اور کتب فقہ مرتب کرنے کو علماء اہل حدیث نے ابتداء سے ہی اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔
چنانچہ ان کا خود بیان ہے کہ
’’مجھ کو میرے ایک دوست نے لکھا کہ جب سے تم نے کتاب ہدیۃ المھدی تالیف کی ہے تو اہل حدیث کا ایک بڑا گر وہ جیسے مولوی شمس الحق مرحوم ، عظیم آبادی اور مولوی محمد حسین صاحب لاہوری اور مولوی عبداللہ صاحب غازی پوری اور مولوی فقیر اللہ صاحب پنجابی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری و غیر ھم تم سے بددل ہو گئے ہیں اور عام اہل حدیث کا اعتقاد تم سے جاتا رہا ہے‘‘۔
( لغات الحدیث ص 50 ج 2 کتاب ‘ ش ‘مادہ شر )
مزید تفصیل دیکھنی ہو تو‘ حیات وحید الزمان ص 100 مؤلف محمد عبد الحلیم چشتی طبع نور محمد اصح المطابع کراچی 1957ء کی مراجعت کریں۔
الغرض علامہ وحید الزمان عمر کے آخری حصہ میں بعض اعتقادی اور جزوی مسائل میں جمہور محدثین کرام کے مسلک سے الگ تھلگ ہو گئے تھے چنانچہ آخری تصانیف میں سے ‘ھدیۃ المھدی میں ایسے ایسے عقائد انہوں نے بیان کیے ہیں جو محد ثین کا مسلک قطعاً نہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ
(وحكى عن ابن تيمية انه ينزل كما انا انزل من المنبر )
یعنی امام ابن تیمیہ سے حکایت بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کا نزول عرش سے ایسے ہی ہوتا ہے جیسے میں منبر سے اترا ہوں۔
(ھدیۃ المھدی ص 11)
حالانکہ عرش سے نزول کی تمثیلی کیفیت کا کوئی بھی اہل حدیث قائل نہیں۔اور امام ابن تیمیہ پر تو یہ سراسر افتراء ہے۔ جس کی تفصیل حیات شیخ السلام ابن تیمیہ ص 793 تا 898 میں مولانا عطاء اللہ حنیف رحمۃ اللہ علیہ نے اور ہمارے شیخ مولانا محمد یحییٰ گوندلوی نے عقیدہ اہل حدیث ص 217 میں کردی ہے۔ خود امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ جو کہتا ہے کہ اللہ کا نزول میرے نزول کی طرح ہے وہ خبیث گمراہ‘ اللہ کی صفات کو باطل کرتا ہے۔
( الماتریدیہ ص 516 ج 3)
الغرض علامہ وحید الزمان بقول مولانا عبیداللہ عفیف حفظہ اللہ تعالیٰ علم کا کباڑ خانہ تھے۔ ان کے تراجم تو مستند ہیں مگر فقہ میں وہ صحیح وضعیف‘ درست اور باطل کا فرق کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے۔
مذکورہ صرف ایک ہی مثال کافی ہے۔
ہمارے بھائی ابو بلال صاحب کا پیرو مرشد اور فن مغالطہ کا امام مولوی محمد امین صفدر اوکاڑوی لکھتا ہے کہ
’’نواب وحید الزمان نے ہدیۃ المھدی‘ نزل الابرار اور کنز الحقائق وغیرہ کتابیں لکھیں مگر ان کتابوں کا جو حشر ہو اوہ خدا کسی دشمن کی کتاب کا بھی نہ کرے۔ نہ ہی غیر مقلد مدارس نے ان کو قبول کیا کہ ان میں سے کسی کتاب کو داخل نصاب کر لیتے نہ ہی غیر مقلد مفتیوں نے ان کو قبول کیا کہ اپنے فتاویٰ میں ان کو لیتے اور نہ ہی غیر مقلد عوام نے ان کو قبول کیا۔ وہ مرزا قادیانی اور سوامی دیانند کی کتابوں سے اتنا نہیں جلتے جتنا ان کتابوں سے جلتے ہیں‘‘۔
( ملخصاً تجلیات صفدر ص 621 ج1)
ماسٹر امین کی یہ بات سو فیصد صحیح ہے۔ واقعی یہ کتب ہماری مسلمہ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی اہل حدیث ناشر نے وحید الزمان کی اشاعت کے بعد ان کو شائع نہیں کیا۔ ان کو دیو بندی شائع کرتے ہیں یا بریلوی حضرات۔ اگر ہم ان پر مطمئن ہوتے تو ان کی کثرت سے اشاعت کرتے مگر ایسا ہر گز نہیں ہوا۔ مگر ہمارے جھنگوی صاحب ایسے فضول انسان ہیں کہ غیر مسلمہ کتب سے عبارات نقل کر کے اعتراض کرتے ہیں حالانکہ دیانت کا تقاضہ یہ ہے کہ جو بات کسی کی مسلمہ ہی نہیں اس کو بنیاد بنا کر کسی کو طعن کرنا ہی فضول اور بے کار ہے۔ مگر جھنگوی صاحب کا مقصود اہل حدیث کو دعوت فکر دینا نہیں بلکہ ان کا منشور اہل حدیث کے خلاف نفرت پھیلانا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ہر جائز ونا جائز حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ پھر ان غیر مسلمہ کتب کی طرف جو انہوں نے مسائل منسوب کیے ہیں وہ تمام کے تمام کذب و افتراء اور مفہوم کو یہودانہ حد تک بگاڑ آ گیا ہے۔
جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

پہلا افتراء

یا علی یار سول اللہ کہہ سکتے ہیں ۔ (ھدیتۃ المھدی ص 24) اور یہی عقیدہ شیعہ کا ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 75)
الجواب :-
اولا:-
ھدیۃ المھدی میں کوئی ایسی عبارت نہیں جس کا یہ معنی ہو کہ یا علی اور یار سول اللہ استعانت کے لیے پکارنا جائز ہے۔ بلکہ علامہ وحید الزمان تو فرماتے ہیں کہ
(فان قالوا بانه حاضر في كل مكان وانه يسمع نداء كل من ناداه في السمٰوٰت والارض فهم مشركون خارجون عن دائرة الاسلام بلاشك )
اگر یہ کہے کہ علی اور محمد مصطفیٰ ﷺ ہر جگہ حاضر ہیں اور وہ پکار کو سنتے ہیں۔ خواہ پکارنے والا زمین میں ہو یا آسمانوں میں تو ایسے لوگ بلاشک وشبہ مشرک اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
( ہديتہ المھدی ص 24)
دیکھیے وحید الزمان کیا کہہ رہے ہیں اور ہمارے جھنگوی صاحب کیا بتارہے ہیں۔۔
اس پر انہیں شرم ہے نہ حیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
ثانیا:-
آیئے ہم آپ کو بتاتے ہیں شیعہ سے عقیدہ کن کا ملتا ہے ؟
آپ کے شیخ الاسلام شبیر احمد صاحب عثمانی فرماتے ہیں کہ ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت الہیٰ اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے۔
( تفسیر عثمانی ص2)
جملہ مبتدعین خواہ شیعہ ہیں یا بریلوی ان سے پوچھ لیجیے وہ مزارات پر دعا ئیں اور ان کو پکارتے اور استعانت غیر مستقل سمجھ کر ہی کرتے ہیں۔ نہ شیعہ حضرت علی کو رب کہتے ہیں نہ ہی بریلوی علی ہجویری کو خدا کہتے ہیں۔

دوسرا افترا

فرماتے ہیں کہ تفضیل شیخین پر اجماع نہیں ، (ہدیۃ المھدی ص 94) اور یہی عقیدہ شیعہ کا ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 76)
الجواب:-
اولا :-
وحید الزمان تو فرماتے ہیں کہ اس پر اجماع قطعی نہیں بلکہ ظنی ہے۔
ھدیتہ المھدی ص 94
مگر جھنگوی صاحب کلی نفی نقل کرتے ہیں جو صریحاً جھوٹ ہے۔
جہاں تک وحید الزمان کے اپنے عقیدے کا تعلق ہے فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ ان صحابہؓ سے افضل ہیں جن کی وفات آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے بعد ہوئی ۔ اور جو صحابہ آنحضرت ﷺ کے سامنے گزر گئے جیسے حضرت حمزہؓ ‘سعید بن معاذ و غیرہ ان سے بھی ابو بکر افضل ہیں یا نہیں۔ اس میں اختلاف ہے۔
(لغات الحدیث ص 96 ج 1 کتاب الف)
کیا شیعہ کا یہی موقف ہے ؟
ثانیاً:-
متعدد اکابر اہل سنت تفضیل شیخین کے قائل نہ تھے۔ امام نسائی جن کی السنن صحاح ستہ میں شامل ہے انہوں نے تو اس پر مستقل ایک کتاب بھی تحریر کی ہے جو طبع ہو چکی ہے۔

تیسرا افترا

فرماتے ہیں خطبہ میں خلفاء راشدین کا ذکر بدعت ہے۔
(ھدیتہ المھدی ص90) اور یہی شیعہ کا عقیدہ ہے۔ ( تحفہ اہل حدیث ص 76)
الجواب:-
یہ سب جھوٹ ہے۔ ’’ھدیۃ المھدی ‘‘ کے مذکورہ صلح میں ایسی کوئی عبارت نہیں۔

چوتھا افترا

متاخرین علماء صحابہ سے افضل ہو سکتے ہیں ۔ (ھدیۃ المھمدی ص 118) اور یہی شیعہ کا موقف ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 76)
الجواب :-
اولا:-
مذکورہ صفحہ پر ایسی کوئی عبارت نہیں۔ ہاں البتہ ھدیۃ المھدی کے صفحہ 90 پر وحید الزمان فرماتے ہیں کہ
علم و معرفت میں امام صحابہ کرام سے متاثرین علماء کا علم و معرفت بڑھ سکتا ہے۔ آخر میں فرماتے ہیں کہ
(والمحقق ان الصحابي له من فضيلة الصحبة مالا يحصل للولى)
(ھديتہ المھدى ص 90)
یعنی تحقیقی قول یہ ہے کہ صحابی کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی صحبت کی فضیلت حاصل ہے جو کسی ولی کو حاصل نہیں۔ (انتہی)
الغرض وحید الزمان نے صحابی کی عظمت سے بڑھ کر ہونے کی سرے سے بات ہی نہیں کی بلکہ وہ تو یہ کہ رہے ہیں کہ امام صحابہ سے متاخرین علماء کا علم و معرفت بڑھ سکتا ہے۔ یہی حنفیہ کا موقف ہے۔ ایمان سے کہنا کہ آپ کے نزدیک فقہ واجتہاد میں ’’امام ابو حنیفہ بڑھ کر ہیں یا امام صحابہ کرام ؟ یقیناً یہی جواب دیں گے کہ ابو حنیفہ فقہ واجتہاد میں عام صحابہ کرام سے بڑھ کر تھے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اصول فقہ کی کتابوں میں موجود ہے کہ ابو ہریرہ اور حضرت جابر بن سمرہ غیر فقیہ تھے اور جبکہ احناف کے نزدیک ابو حنیفہ افقہ الناس ہیں۔
بلکہ خود امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو ہریرہؓ حضرت انسؓ اور حضرت جابرؓ کے آثار کے مقابلہ میں اپنی رائے کو نہیں چھوڑ سکتا۔
(المیزان الکبریٰ ص 54 ج 1 و ما تمس الیہ الحاجتہ ص8)
ظاہر ہے کہ امام ابو حنیفہ ان صحابہ کرام کے بالمقابل اپنے آپ کو افقہ واعلم جانتے تھے۔ ورنہ ان کے آثار کے بالمقابل اپنے فتویٰ پر ضد کے چہ معنی؟
ثانیاً:-
نارنگ منڈی کے ’’دار العلوم عربیہ خفیہ‘‘ کے سابقہ مہتم قاری محمد حنیف حنفی دیوبندی کا موقف ہے کہ یہ بات جو اہل سنت میں مشہور ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے بعد ابو بکر الفضل ہیں۔ میں اس بات کا قائل نہیں بلکہ مقام کے لحاظ سے آج بھی کوئی شخص ان سے افضل ہو سکتا ہے۔
(بحوالہ فتویٰ مولوی محمد عیسیٰ مفتی نصرۃ العلوم ، مصدقہ مولانا سر فراز خان صفدر مورخہ 21 اگست 1988ء صفحہ 2)
اصل فتویٰ ہمارے پاس محفوظ ہے اگر جھنگوی صاحب دیکھنا چاہیں تو ہم خندہ پیشانی سے دکھا دیں گے۔ (ان شاء اللہ ) قاری صاحب آج کل جلو موڑ ( لاہور) میں رہتے ہیں ۔

پانچواں افترا

فرماتے ہیں کہ آپ کے ہاں بیوی سے لواطت جائز ہے (ھدیتہ والمھدی ص 118) شیعہ کا عقیدہ بھی یہی ہے۔ ( تحفہ اہل حدیث ص 76)
الجواب :-
اولاً :-
ھدیۃ المھدی میں کوئی ایسی عبارت نہیں جس کا یہ معنی ہو کہ بیوی سے لواطت جائز ہے۔
لعنت اللہ علی الکازبین
ثانیاً:-
علامہ وحید الزمان فرماتے ہیں کہ
(قالت الحنابلة في الدبر مثله وعندنا لايكون حكم الوطى في الدبر كحكم الوطى في الحيض لان حرمة الاخير قطعية بخلاف حرمة الاول فانها ظنية) ( نزل الابرار ص 67 ج2)
یعنی حنابلہ کے نزدیک دبر میں جماع کرنا حیض میں وطی کرنے کی طرح ہے اور ہمارے نزدیک ایسا نہیں۔ کیونکہ اول میں جماع نہ کرنے کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے۔ جبکہ دوم میں وطی کرنے کی حرمت حدیث سے ثابت ہے۔ (انتھی)
ترجمہ بخاری کتاب التفسیر باب نساء کم حرث لکم کے تحت فرماتے ہیں دخول فرج میں ہونا چاہیے نہ دبر میں۔ اکثر علماء نے اس آیت کے یہی معنی رکھے ہیں۔ بعض نے کہا‘ انی‘ این‘ کے معنوں میں ہے۔ یعنی جہاں چاہو، قبل یاد بر میں اور وطی فی الدبر کو انہوں نے جائز رکھا ہے لیکن یہ قول مرجوح ہے۔
(تیسیر الباری ص 380 ج 4 مطبوعہ امجد اکیڈمی لاہور 1977ء)

چھٹا افتراء

فرماتے ہیں کہ آپ بھی متعہ کے قائل ہیں۔ (ھدیۃ المھدی ص 118) اور یہی شیعہ کا عقیدہ ہے۔ ( تحفہ اہل حدیث ص 76)
الجواب :-
اولاً :-
ھدیتہ المھدی میں کوئی ایسی عبارت نہیں جس کا یہ معنی ہو کہ متعہ جائز ہے۔ یہ جھنگوی صاحب کا کھلا افتراء ہے۔
ثانیا:-
علامہ وحید الزمان ترجمہ سنن ابن ماجه ‘کتاب النکاح باب النھی عن انكاح المتعہ کے تحت فرماتے ہیں کہ
متعہ کا نکاح یہ ہے کہ ایک معیاد معین تک نکاح کرے جیسے ایک دن دو دن ایک ہفتہ ایک ماہ ایک سال تین سال کے لیے یہ نکاح اوائل اسلام میں حلال تھا پھر حرام ہوا‘ پھر حلال ہوا‘ پھر حرام ہوا پھر قیامت تک حرام ہو گیا۔
( ترجمہ سنن ابن ماجه ص 76 ج 2 طبع اسلامی اکادمی 1990ء)
مزید فرماتے ہیں کہ اب رہا نکاح متعہ تو وہ جنگ خیبر سے پہلے حلال تھا‘ پھر جنگ خیبر کے بعد حرام ہو گیا، پھر فتح مکہ یعنی یوم او طاس میں حلال ہوا پھر تین دن بعد ہمیشہ کے لیے حرام ہو گیا۔ اس میں صرف روافض کا اختلاف ہے۔
(لغات الحدیث ص 9 ج 4 کتاب ’م‘ ماده متعہ)
یہی بات انہوں نے سنن ابی داود ص 132 ج 2 کے ترجمہ میں فائدہ کے تحت لکھی ہے۔

ساتواں افترا

اس سے بھی بڑھ کر سنیے! غیر مقلد عالم وحید الزمان نے لکھا ہے ہم شیعان علی ہیں۔ ھديتہ المھدی ص 100 اب بتاؤ شیعہ اور ہم ایک ہیں یا شیعہ اور آپ ایک ہیں۔ ٹھنڈے دل سے انصاف کیجیے۔ اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگیے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 76)
الجواب :-
اولا:-
ہم نے ٹھنڈے دل سے غور بھی کر لیا اور اللہ سے ہدایت کے بھی ہم طلب گار ہیں۔
ثانیاً:-
بلاشبہ علامہ وحید الزمان نے یہ لکھا ہے کہ
(أهل الحديث هم شيعة على يحبون أهل بيت رسول الله ﷺ ) (ھديتہ المھدي ص 100)
یعنی اہل حدیث حضرت علیؓ کا گروہ ہے جو اہل بیت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے محبت کرتے ہیں۔
(انتہی)
مگر یہاں انہوں نے رافضیوں کی بات نہیں کی بلکہ خارجیوں کے بالمقابل شیعان علی کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ اور یہ رافضیت قطعاً نہیں کیونکہ ہم جنگوں میں سیدنا علی مرتضی کو حق بجانب اور گروہ حضرت معاویہؓ کو مخطی تصور کرتے ہیں اور خارجیوں کو کا فرومر تدیقین کرتے ہیں اور ان کے بالمقابل سید نا علیؓ مرتضیٰ کے گروہ میں اپنے آپ کو شامل کرتے ہیں اگر یہ رافضیت ہے تو تمام اہل سنت رافضی ہیں ؟ کیونکہ سید نا علیؓ مرتضیٰ سے محبت ایمان کا جزو ہے۔ کیونکہ سیدنا علیؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے عہد کیا تھا کہ
(ان لا يحبني الامومن ولا يبغضني الامنافق ) ( صحیح مسلم ص 60 ج 1)
یعنی مجھ سے محبت نہیں کرے گا مگر مومن اور مجھ سے بغض نہیں رکھے گا مگر منافق۔
(انتہی)
ثالثاً:۔
اس حقیقت کے برعکس جھنگوی صاحب یہ باور کرار ہے کہ وحید الزمان نے اہل سنت کے بالمقابل شیعہ کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ کہ اہل حدیث کا گروہ رافضیوں کاٹولہ ہے۔ حالانکہ اسی ھدیتۃ المھدی کے اسی صفحہ 100 پر انہوں نے لکھا ہے کہ ہم ازواج النبی ﷺ سے محبت کرتے ہیں وہ تمام کی تمام مومنوں کی مائیں ہیں۔ اور اس پر ہمارا ایمان ہے جیسے وہ دنیا میں نبی صلى الله عليه وسلم کی بیویاں تھیں ایسے ہی آخرت میں وہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی بیویاں ہونگی اور حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہؓ باقی ازواج سے عظمت و بزرگی میں بڑھ کر تھیں۔
(انتہی)
اب جھنگوی صاحب بتائیں کیا شیعہ ایسے ہی ہوتے ہیں۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ نے علامہ وحید الزمان پر افتراء کذب بیانی کر کے ان کی طرف مذکورہ تمام مسائل منسوب کیے ہیں۔ ان کا دامن ان خرافات سے پاک ہے آئیے میرے ساتھ تحریری گفتگو کر لیجیے اور میں اپنی طرف سے حضرت استاذی المکرم مولانا محمد یحییٰ صاحب گوندلوی حفظہ اللہ کو منصف تسلیم کرتا ہوں۔
آپ اپنی طرف سے جس کو چاہیں مصنف مقرر کریں، تیسراسر پنچ مسلمہ فریقین ہوگا اور منصفوں کے درمیان اختلاف کی صورت میں اس کا فیصلہ حرف آخر ہو گا اگر منصف فیصلہ آپ کے حق میں دے دیں تو خاکسار اپنی طرف سے فی مسئلہ ایک صد رو پیہ نقد انعام دے گا ورنہ اللہ کا خوف کیجیے اور لعنتہ اللہ علی الکاذبین کی وعید شدید سے ڈر جائیے۔ مگر قارئین کرام یا درکھنا کہ جھنگوی مرنا تو قبول کرے گا مگر مرد میدان بن کر کبھی بھی گفتگو پر راضی نہ ہو گا۔ کیونکہ اس کا دل اس کے جھوٹوں پر گواہ ہے۔

آٹھواں افترا

فرماتے ہیں کہ نواب نور الحسن خاں غیر مقلد لکھتے ہیں صحابی کا قول حجت نہیں۔
( عرف الجادی ص 207 ج 1 ) اور یہی شیعہ کا عقیدہ ہے۔ ( تحفہ اہل حدیث ص 75)
الجواب:-
جھنگوی صاحب نے اس قول کو علی الاطلاق ان کی طرف منسوب کر کے یہ باور کرایا ہے کہ جیسے کلی طور پر شیعہ کے نزدیک اقوال صحابہ حجت نہیں ہیں۔ اسی طرح اہل حدیث کے نزدیک بھی صحابی کا قول حجت نہیں ۔ حالانکہ یہ صریحاً جھوٹ ہے ۔ نواب صاحب نے یہ بات قطعاً نہیں کہی۔ یہ ان کا کھلا افترا اور ان کے کلام کی یہودانہ روش پر تحریف کی گئی ہے۔ سنیے اہل حدیث کا موقف یہ ہر گز ہر گز نہیں ہے۔
ثانیاً:-
نواب صاحب نے لوطی کی حد بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سنن اربعہ اور مسند احمد میں حضرت ابن عباسؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے بیان فرمایا کہ فاعل و مفعول دونوں کو قتل کر دیا جائے۔ پھر وہ فقہاء کا اختلاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بعض نے اس کی مختلف سزائیں بیان کی ہیں جن پر کوئی حدیث دلیل نہیں اور صحابی کا اجتہاد حجت نہیں۔ (عرف الجادی ص 207 ج 1 ) ان کے قول کا مقصد تو یہ ہے کہ حدیث مرفوع کے بالمقابل صحابی کا قول حجت نہیں۔ مگر جھنگوی صاحب نے سیاق و سباق سے قطع نظر ان کی عبارت کے مفہوم کو ہی بگاڑ دیا ہے۔ حالانکہ حنفیہ کا موقف بھی یہی ہے۔
علامہ ابن ھمام فرماتے ہیں کہ
(ان قول الصحابي حجة مالم ينفه شيئ من السنة )
(فتح القدير ص 37 ج 2)
یعنی صحابی کا قول حجت ہے جب تک سنت میں سے کوئی چیز نفی نہ کرے (انتہی)
یہی بات مولانا عبدالحی لکھنوی نے (امام الکلام ص 222) میں، و ظفر الامانی ص 180)‘ مولانا اشرف علی تھانوی نے (احیاء السنن ص39) میں مولوی ظفر احمد تھانوی نے ( اعلام السنن ص 116 ‘134 ‘ 509 ‘ ج 1) میں ‘ملا علی القاری نے (مرقاۃ ص 234 ج 2 طبع قدیم میں اور جھنگوی صاحب کے استاذ المکرم مولانا سر فراز خان صفدر نے (حکم الذکر بالجہر ص 105) میں کمی ہے۔ الغرض اگر یہ شیعہ کا عقیدہ ہے تو خیر سے اس کے آپ کے اکابر کے علاوہ مولانا صفدر کا بھی یہی عقیدہ ہے ان اکابر کی بدیت کے لیے کوئی بہانہ تلاش کیجئے۔

نانواں افتران

فرماتے ہیں کہ آپ بھی اجماع کے منکر ہیں۔ شیعہ بھی اجماع کے منکر ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 66)
الجواب :-
اولا:-
ہمارے معاصر نے اس کے ثبوت میں کوئی حوالہ پیش نہیں کیا جس کی طرف ہم مراجعت کرتے۔
ثانیاً:-
جہاں تک اہل حدیث کے موقف کی بات ہے وہ صاف و شفاف ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف نہ اجماع ہو سکتا ہے نہ ہی قیاس۔ ہمارے نزدیک اجتماع کا تیسرا درجہ ہے اس کے ہم قائل ہیں بشر طیکہ اجتماع ثابت ہو زبانی جمع خرچ نہ ہو ۔ اور چند فقہاء کے اقوال کو اجماع باور نہ کرایا گیا ہو اس کے بر عکس آپ دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اجماع کے قائل ہیں مگر دنیا میں آپ سے بڑھ کر کوئی بھی اجتماع کا منکر نہیں عدم تقلید پر صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے۔( تفصیل معیار الحق ص 157) میں دیکھیے۔
کوئی صحابی بھی تقلید کا قائل نہ تھا۔ اس پر آپ ایک مثال بھی بسند صحیح ثابت نہیں کر سکتے۔ مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ آپ اس اجماع کے خلاف وجوب تقلید کے قائل ہیں۔ بلکہ اپنے مذہب کی بنیاد ہی اس اجتماع کے خلاف رکھی ہے۔ الغرض ہم اجماع کے تو قائل ہیں ہاں البتہ ہمارا اور حنفیہ کا شرائط اجماع میں اختلاف ضرور ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!