فضائل ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿لَٰكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎.أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ.﴾
[التوبة: 88، 89]
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”لیکن رسول نے اور ان لوگوں نے جو اس کے ہمراہ ایمان لائے، اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا، اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے سب بھلائیاں ہیں، اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾
[الحشر: 10]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اور (ان کے لیے ) جو ان کے بعد آئے ، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے ، اے ہمارے رب ! یقیناً تو بے حد شفقت کرنے والا ، نہایت رحم والا ہے۔ “
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴾
[البقرة: 137]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”پھر اگر وہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو، تو یقیناً وہ ہدایت پاگئے ، اور اگر پھر جائیں تو وہ محض ایک مخالفت میں (پڑے ہوئے ) ہیں، پس عنقریب اللہ تجھے ان سے کافی ہو جائے گا اور وہی سب کچھ سننے والا ، سب کچھ جاننے والا ہے۔“
وَقَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا﴾
[الفتح: 29]
اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں کافروں پر بہت سخت ہیں، آپس میں نہایت رحم دل ہیں، تو انھیں اس حال میں دیکھے گا کہ رکوع کرنے والے ہیں، سجدے کرنے والے ہیں، اپنے رب کا فضل اور (اس کی) رضا ڈھونڈتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں میں (موجود) ہے، سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کی طرح ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی ، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی، کاشت کرنے والوں کو خوش کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے ذریعے کافروں کو غصہ دلائے، اللہ نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے بڑی بخشش اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔ “

حدیث 1:

«عن ابن عمر ، أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه خطب الناس بالجابية ، فقال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم مقامي فيكم، فقال: استوصوا بأصحابى خيرا ، ثم الذين يلونهم ، ثم الذين يلونهم ، ثم يفشو الكذب حتى إن الرجل ليبتده بالشهادة قبل أن يسألها ، فمن أراد منكم بحبحة الجنة فليلزم الجماعة ، فإن الشيطان مع الواحد ، وهو من الاثنين أبعد ، لا يخلون أحدكم بامرأة، فإن الشيطان ثالتهما ، ومن سرته حسنته وساء ته سيئته ، فهو مؤمن»
مسند احمد: 18/1، رقم: 114 ، مستدرك حاكم: 113/1- حاکم نے اسے کی شرط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جابیہ کے مقام پر خطبہ دیتے ہوئے کہا: ایک دفعہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان اسی طرح کھڑے ہوئے ، جیسے میں تمہارے درمیان کھڑا ہوں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں اپنے صحابہ کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں، اور ان لوگوں کے بارے میں بھی جو ان کے بعد ہوں گے اور ان لوگوں کے بارے میں بھی جو (تابعین) کے بعد ہوں گے، (ان سے حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں )، اس کے بعد جھوٹ اس قدر عام ہو جائے گا کہ ایک آدمی گواہی طلب کیے جانے سے پہلے گواہی دینے لگے گا، پس تم میں سے جو آدمی جنت میں داخل ہونا چاہتا ہے وہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنے کا التزام کرے، کیونکہ شیطان ہر اس آدمی کے ساتھ رہتا ہے جو اکیلا ہو، اور وہ شیطان دو آدمیوں سے ذرا دور ہو جاتا ہے، تم میں سے کوئی آدمی کسی غیر محرم عورت کے ساتھ علیحدگی اختیار نہ کرے، کیونکہ ایسے دو افراد کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے اور جس آدمی کو نیکی کر کے خوشی اور گناہ کر کے پریشانی ہو وہ مومن ہے۔ “

حدیث 2:

«وعن كعب رضي الله عنه قال: إنى أجد فى التوراة مكتوبا محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، لافظ، ولا غليظ، ولا سخاب فى الاسواق، ولا يجزي السيئة بالسيئة، ولكن يعفو ، ويصفح أمته، الحمادون يحمدون الله فى كل منزلة ، ويكبرونه على كل نجد، يأتزرون إلى أنصافهم، ويوضئون أطرافهم ، صفهم فى الصلاة وصفهم فى القتال سواء ، مناديهم ينادى فى جو السماء لهم فى جوف الليل دوي كدوي النحل، مولده بمكة ، ومهاجره بطابة، وملكه بالشام»
سنن دارمي، رقم: 5 شرح السنة، رقم الحديث: 3628۔ محقق نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے تورات میں لکھا ہوا پایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہوں گے، نہ تیز مزاج نہ ترش رو، بازاروں میں شور وشغب کرنے والے نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے بلکہ معاف کرنے والے اور درگزر کرنے والے ہوں گے۔ اُن کی امت بہت زیادہ حمد و ثنا کرنے والی ہوگی۔ ہر جگہ وہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کریں گے۔ ہر اونچی جگہ پر (چڑھتے ہوئے) اللہ اکبر کہیں گے۔ اُن کے تہ بند پنڈلیوں تک ہوں گے، اپنے اعضاء کا وضو کریں گے، نماز اور قتال کے لیے ایک ہی طرح صف بنائیں گے۔ اُن کا منادی (یعنی مؤذن) کھلی فضا میں اذان دے گا۔ آدھی رات کے وقت اُن کے اذکار کی آواز شہد کی مکھیوں کی طرح آہستہ ہوگی۔ اس رسول کی جائے پیدائش مکہ ہوگی، جائے ہجرت طابہ (یعنی مدینہ منورہ) اور اُس کی حکومت کی سرحدیں شام تک پہنچیں گی۔ “

حدیث 3:

«وعن أنس قال: كان بين خالد بن الوليد وبين عبد الرحمن بن عوف كلام ، فقال خالد لعبد الرحمن: تستطيلون علينا بأيام سبقتمونا بها ، فبلغنا أن ذلك ذكر للنبي صلى الله عليه وسلم ، فقال: دعوا لي أصحابي ، فوالذي نفسي بيده، لو أنفقتم مثل أحد أو مثل الجبال – ذهبا ما بلغتم أعمالهم»
مسند احمد: 366/3، رقم: 13812، الأحاديث المختارة، رقم: 2046 – شخ شعیب نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے مابین کچھ تلخ کلامی سی ہوگئی، سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے کہا: تم ہمارے اوپر محض اس لیے زبان درازی کرتے ہو کہ تم ہم سے کچھ دن پہلے اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ جب اس بات کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میرے لیے ہی میرے صحابہ کو کچھ نہ کہا کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم احد پہاڑ یا کئی پہاڑوں کے برابر سونا بھی خرچ کر دو تم ان کے اعمال یعنی درجوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ “

حدیث 4:

«وعن أبى موسى قال: صلينا المغرب مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قلنا: لو انتظرنا حتى نصلى معه العشاء، قال: فانتظرنا فخرج إلينا، فقال: ما زلتم هاهنا ، قلنا: نعم، يا رسول الله قلنا: نصلى معك العشاء، قال: أحسنتم أو أصبتم . ثم رفع رأسه إلى السماء قال: وكان كثيرا ما يرفع رأسه إلى السماء ، فقال: النجوم أمنة للسماء ، فإذا ذهبت النجوم أتى السماء ما توعد، وأنا أمنة لأصحابي ، فإذا ذهبت أتى أصحابي ما يوعدون ، وأصحابى أمنة لأمتي ، فإذا ذهبت أصحابي أتى أمتي ما يوعدون»
مسند احمد: 398/4، رقم: 19066 – صحيح ابن حبان، رقم: 7249 – ابن حبان اور شیخ شعیب رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں مغرب کی نماز ادا کی، پھر ہم نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ ہم کچھ انتظار کر لیں اور آپ کی معیت میں عشاء کی نماز ادا کر کے جائیں۔ چنانچہ ہم انتظار کرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: کیا تم یہیں ٹھہرے رہے؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں اے اللہ کے رسول ! بس ہم نے سوچا کہ ہم عشاء کی نماز بھی آپ کی معیت میں ادا کر لیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم نے اچھا کیا۔ پھر آپ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر آسمان کی طرف سر اٹھایا کرتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ ستارے آسمان کے امین (نگران و محافظ ) ہیں، جب یہ تارے ختم ہو جائیں گے تو آسمان پر وہ کیفیت طاری ہو جائے گی، جس کا اس کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے، یعنی آسمان پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ میں بھی اپنے صحابہ کے لیے اسی طرح امین ہوں، جب میں دنیا سے چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ پر وہ فتنے اور آزمائشیں آجائیں گے جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے اور میرے صحابہ بھی میری امت کے لیے امین اور محافظ ہیں، جب میرے صحابہ اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے تو میری امت پر ان فتنوں کا دور شروع ہو جائے گا، جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ “

حدیث 5:

«وعن عبد الله بن بسر رضي الله عنه صاحب النبى صلى الله عليه وسلم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: طوبى لمن رآني، وطوبى لمن رأى من رأني ، ولمن رأى من رأى من راني وآمن بي»
سلسلة الاحاديث الصحيحة، رقم الحديث: 1254
”اور حضرت عبد الله بن بسر رضی اللہ عنہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مبارک ہو جس نے مجھے دیکھا (یعنی صحابی) اور مجھ پر ایمان لایا، اور مبارک ہو اُسے جس نے اس شخص کو دیکھا جس نے مجھے دیکھا ہے (یعنی تابعی) اور ایمان لایا، اور مبارک ہو اُسے جس نے صحابی کو دیکھنے والے (یعنی تبع تابعین ) کو دیکھا اور ایمان لایا۔ “

حدیث 6:

«وعن أبى سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تسبوا أصحابي ، فإن أحدكم لو أنفق مثل أحد ذهبا ما بلغ مد أحدهم ولا نصيفه»
صحیح مسلم، رقم: 221/254 ، مسند احمد: 11/3، رقم: 11079
”اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میرے صحابہ کو سب وشتم نہ کرنا، کیونکہ ان کا مقام تو یہ ہے کہ اگر تم میں سے کوئی آدمی جبل احد کے برابر سونا خرچ کرے، تو وہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک مد یا نصف مد تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ “

حدیث 7:

«وعن طارق بن أشيم أنه سمع النبى صلى الله عليه وسلم يقول: بحسب أصحابي القتل»
مسند احمد 472/3، رقم: 15876 ، مصنف ابن ابي شيبة: 92/15 – شیخ شعيب نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور سیدنا طارق بن اشیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میرے صحابہ کا شہید ہو جانا ہی کافی ہے۔ “

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اللہ عز وجل

حدیث 8:

«وعن أبى بكر الصديق حدثه قال: نظرت إلى أقدام المشركين على روسنا ونحن فى الغار، فقلت: يا رسول الله! لو أن أحدهم نظر إلى قدميه أبصرنا تحت قدميه ، فقال: يا آبا بكر ما ظنك باثنين الله ثالتهما»
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6169
”اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا، کہا: جس وقت ہم غار میں تھے، میں نے اپنے سروں کی جانب (غار کے اوپر) مشرکین کے قدم دیکھے، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کسی نے اپنے پیروں کی طرف نظر کی تو وہ نیچے ہمیں دیکھ لے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابوبکر ! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے؟ (انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا)۔“

ابو بکر رضی اللہ عنہ فرماتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان

حدیث 9:

«وعن أبى سعيد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جلس على المنبر فقال: عبد خيره الله بين أن يؤتيه زهرة الدنيا وبين ما عنده ، فاختار ما عنده فبكى أبو بكر، وبكى فقال: فديناك بآبائنا وأمهاتنا، قال: فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم هو المخير ، وكان أبو بكر اعلمنا به وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن آمن الناس على فى ماله وصحبته أبو بكر ، ولو كنت متخذا خليلا لاتخذت ابابكر خليلا ، ولكن أخوة الإسلام لا تبقين فى المسجد خوخة إلا خوخة أبى بكر»
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6170
”اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر رونق افروز ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ دنیا کی نعمتیں لے لے یا وہ جو اس کے پاس ہے تو اس نے وہ پسند کیا جو اس (اللہ ) کے پاس ہے۔ اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خوب روئے اور کہا: ہمارے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں ! (ہمیں ان کے رونے کی وجہ سمجھ نہ آئی) انہوں (ابوسعید رضی اللہ عنہ) نے کہا: جس کو اختیار دیا گیا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ہم سب سے زیادہ اس بات کو جاننے والے ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مال (کے تعاون ) اور (میرا) ساتھ دینے کے معاملے میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ابوبکر ہیں اور اگر میں کسی کو خلیل (ہم راز یا دلی دوست) بناتا تو ابو بکر کو خلیل بناتا، لیکن (ہم دونوں کے درمیان ) اسلام کی اخوت ہے۔ مسجد کی طرف (کھلنے والی) کسی کھڑکی کو باقی نہ رہنے دینا، سوائے ابوبکر (کے گھر) کی کھڑکی کے (اسے بند نہ کیا جائے)۔ “

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھائی کہا

حدیث 10:

«وعن عبد الله بن أبى الهذيل يحدث عن أبى الأحوص قال: سمعت عبد الله بن مسعود يحدث عن النبى صلى الله عليه وسلم أنه قال لو كنت متخذا خليلا لا تخذت أبا بكر خليلا ولكنه أخي وصاحبي ، وقد اتخذ الله عز وجل صاحبكم خليلا»
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6172
”اور عبداللہ بن ابی ہذیل نے ابو احوص سے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا، انہوں نے کہا: میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم حدیث بیان کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر میں کسی شخص کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن وہ میرے (دینی) بھائی اور ساتھی ہیں اور تمہارے ساتھی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اللہ عزوجل نے اپنا خلیل بنایا ہے۔ “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے محبوب

حدیث 11:

«وعن أبى عثمان أخبرني عمرو بن العاص ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثه على جيش ذات السلاسل ، فأتيته فقلت: أى الناس أحب إليك؟ قال: عائشة ، قلت: من الرجال؟ قال: أبوها ، قلت: ثم من؟ قال: عمر فعد رجالا»
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6177
”اور ابو عثمان سے روایت ہے، کہا: حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ذات السلاسل کے لشکر کا سالار بنا کر بھیجا۔ میں (ہدایات لینے کے لیے ) آپ کے پاس حاضر ہوا اور (اس موقع پر ) میں نے (یہ بھی) پوچھا: آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ۔ میں نے کہا: مردوں میں سے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ان کے والد ۔ میں نے کہا: پھر کون؟ آپ نے ارشاد فرمایا: عمر ۔ پھر آپ نے کئی لوگوں کے نام لیے۔ “

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بلافصل

حدیث 12:

«وعن ابن أبى مليكة: سمعت عائشة ، وسئلت: من كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مستخلفا لو استخلفه؟ قالت أبو بكر ، فقيل لها ثم من بعد أبى بكر؟ قالت: عمر، ثم قيل لها: من بعد عمر؟ قالت: أبو عبيدة بن الجراح ثم انتهت إلى هذا»
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6178
”اور ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، ان سے سوال کیا گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی کو خلیفہ بناتے تو کس کو خلیفہ بناتے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو۔ ان سے پوچھا گیا: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد کس کو؟ انہوں نے کہا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو۔ کہا گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد کس کو؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو، یہاں آکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ گئیں۔ (مزید جواب نہ دیا)“

حدیث 13:

«وعن جبير بن مطعم، عن أبيه أن امرأة سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا ، فأمرها أن ترجع إليه ، فقالت: يا رسول الله أرأيت إن جئت فلم أجدك؟ قال آبى كأنها تعنى الموت. قال فإن لم تجديني فأتى آبا بكر»
صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6179
”اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ دوبارہ آپ کے پاس آئے۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول ! یہ بتائیں کہ اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں؟ میرے والد نے کہا: جیسے وہ آپ کی وفات کی بات کر رہی ہو، تو آپ نے ارشاد فرمایا: اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر کے پاس آنا۔ “

حدیث 14:

«وعن عائشة قالت: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فى مرضه ادعى لى أبا بكر آباك ، وأخاك ، حتى أكتب كتابا ، فإني أخاف أن يتمنى متمن ويقول قائل: أنا أولى ، ويأبى الله والمؤمنون إلا أبا بكر»
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6181
”اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے (آخری) مرض کے دوران میں مجھ سے فرمایا: اپنے والد ابوبکر اور اپنے بھائی کو میرے پاس بلاؤ تاکہ میں ایک تحریر لکھ دوں، مجھے یہ خوف ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے گا اور کہنے والا کہے گا: میں زیادہ حق دار ہوں جب کہ اللہ بھی ابوبکر کے سوا (کسی اور کی جانشینی) سے انکار فرماتا ہے اور مومن بھی ۔ “

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انتہائی رقیق القلب تھے

حدیث 15:

«وعن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم قالت: لم أعقل أبوى إلا وهما يدينان الدين، ولم يمر علينا يوم إلا يأتينا فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم طرفي النهار بكرة وعشية ، ثم بدا لأبي بكر فابتنى مسجدا بفناء داره ، فكان يصلى فيه ويقرأ القرآن فيقف عليه نساء المشركين وأبناؤهم يعجبون منه وينظرون إليه ، وكان أبو بكر رجلا بكاء لا يملك عينيه إذا قرأ القرآن، فأفزع ذلك أشراف قريش من المشركين»
صحيح البخاري، كتاب الصلاة، باب المسجد يكون فى الطريق……، رقم: 476
”اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے جب سے ہوش سنبھالا ، اسی وقت سے میں نے یہ دیکھا کہ میرے والدین اسلام قبول کر چکے تھے اور ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس میں ہمارے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن کے دونوں حصوں میں، یعنی صبح و شام تشریف نہ لاتے ہوں۔ پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دل میں ایک بات آئی اور انھوں نے اپنے گھر کے سامنے ایک کھلی جگہ میں مسجد بنالی جس میں وہ نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ مشرکین کے بچے اور عورتیں آتے جاتے ان کے پاس کھڑے ہو جاتے ۔ وہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی حالت پر تعجب کرتے اور انھیں غور سے دیکھتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے رقیق القلب اور گریہ زاری کرنے والے انسان تھے جب قرآن کی تلاوت کرتے تو انھیں اپنی آنکھوں پر قابو نہیں رہتا تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس طرز عمل نے مشرکین کے اشراف کو بڑی گھبراہٹ میں ڈال دیا تھا۔ “

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شروع میں اسلام لائے

حدیث 16:

«وعن عبسة السلمي رضي الله عنه ، كنت وانا فى الجاهلية اظن ان الناس على ضلالة، وانهم ليسوا على شيء وهم يعبدون الاوثان، فسمعت برجل بمكة يخبر اخبارا، فقعدت على راحلتي فقدمت عليه، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم مستخفيا جرآء عليه قومه، فتلطفت حتى دخلت عليه بمكة، فقلت له: ما انت، قال: ” انا نبي "، فقلت: وما نبي؟ قال: ” ارسلني الله "، فقلت: وباي شيء ارسلك؟ قال: ” ارسلني بصلة الارحام، وكسر الاوثان، وان يوحد الله لا يشرك به شيء "، قلت له: فمن معك على هذا؟ قال: ” حر وعبد "، قال: ” ومعه يومئذ ابو بكر، وبلال ممن آمن به "، فقلت: إني متبعك، قال: ” إنك لا تستطيع ذلك يومك هذا، الا ترى حالي وحال الناس، ولكن ارجع إلى اهلك، فإذا سمعت بي قد ظهرت، فاتني "، قال: فذهبت إلى اهلي، وقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وكنت فى اهلي، فجعلت اتخبر الاخبار، واسال الناس حين قدم المدينة حتى قدم على نفر من اهل يثرب من اهل المدينة، فقلت: ما فعل هذا الرجل الذى قدم المدينة؟ فقالوا: الناس إليه سراع، وقد اراد قومه قتله فلم يستطيعوا ذلك، فقدمت المدينة فدخلت عليه، فقلت: يا رسول الله اتعرفني؟ قال: ” نعم انت الذى لقيتني بمكة "، قال: فقلت: بلى، فقلت: يا نبي الله اخبرني عما علمك الله واجهله، اخبرني، عن الصلاة، قال: ” صل صلاة الصبح ثم اقصر، عن الصلاة حتى تطلع الشمس، حتى ترتفع فإنها تطلع حين تطلع بين قرني شيطان، وحينئذ يسجد لها الكفار، ثم صل فإن الصلاة مشهودة محضورة، حتى يستقل الظل بالرمح، ثم اقصر، عن الصلاة فإن حينئذ تسجر جهنم، فإذا اقبل الفيء فصل فإن الصلاة مشهودة محضورة، حتى تصلي العصر، ثم اقصر، عن الصلاة حتى تغرب الشمس، فإنها تغرب بين قرني شيطان، وحينئذ يسجد لها الكفار، قال: فقلت: يا نبي الله فالوضوء حدثني عنه، قال: ” ما منكم رجل يقرب وضوءه، فيتمضمض ويستنشق فينتثر إلا خرت خطايا وجهه وفيه وخياشيمه، ثم إذا غسل وجهه كما امره الله إلا خرت خطايا وجهه من اطراف لحيته مع الماء، ثم يغسل يديه إلى المرفقين إلا خرت خطايا يديه من انامله مع الماء، ثم يمسح راسه إلا خرت خطايا راسه من اطراف شعره مع الماء، ثم يغسل قدميه إلى الكعبين إلا خرت خطايا رجليه من انامله مع الماء، فإن هو قام فصلى فحمد الله واثنى عليه ومجده بالذي هو له اهل، وفرغ قلبه لله إلا انصرف من خطيئته كهيئته يوم ولدته امه ". فحدث عمرو بن عبسة بهذا الحديث، ابا امامة صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له ابو امامة: يا عمرو بن عبسة انظر ما تقول فى مقام واحد يعطى هذا الرجل، فقال عمرو: يا ابا امامة لقد كبرت سني ورق عظمي واقترب اجلي، وما بي حاجة ان اكذب على الله ولا على رسول الله، لو لم اسمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا مرة او مرتين او ثلاثا حتى عد سبع مرات ما حدثت به ابدا، ولكني سمعته اكثر من ذلك»
صحیح مسلم، کتاب فضائل القرآن، رقم: 1930
”اور سیدنا عمرو بن عبسہ سلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں جب اپنے دورِ جاہلیت میں تھا تو (یہ بات) سمجھتا تھا کہ سب لوگ گمراہ ہیں اور جب وہ بتوں کی عبادت کرتے ہیں تو کسی (سچی) چیز (دین) پر نہیں، پھر میں نے مکہ کے ایک آدمی کے بارے میں سنا کہ وہ بہت سی باتوں کی خبر دیتا ہے۔ میں اپنی سواری پر بیٹھا اور ان کے پاس آ گیا، اس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھپے ہوئے تھے، آپ کی قوم (كے لوگ) آپ کے خلاف دلیر اور جری تھے۔ میں ایک لطیف تدبیر اختیار کر کے مکہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے پوچھا: آپ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں نبی ہوں۔ میں نے پوچھا: نبی کیا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: مجھے اللہ نے بھیجا ہے۔ میں نے کہا: آپ کو کیا (پیغام) دے کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے صلہ رحمی، بتوں کو توڑنے ، اللہ تعالیٰ کو ایک قرار دینے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانے (کا پیغام ) دے کر بھیجا ہے۔ میں نے آپ سے پوچھا: آپ کے ساتھ اس (دین) پر اور کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ایک آزاد اور ایک غلام ۔ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ کے ساتھ اس وقت ایمان لانے والوں میں سے ابوبکر اور بلال رضی اللہ عنہما تھے۔ میں نے کہا: میں بھی آپ کا متبع ہوں۔ آپ نے فرمایا: تم اپنے آج کل کے حالات میں ایسا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ کیا تم میرا اور لوگوں کا حال نہیں دیکھتے؟ لیکن (ان حالات میں) تم اپنے گھر کی طرف لوٹ جاؤ اور جب میرے بارے میں سنو کہ میں غالب آ گیا ہوں تو میرے پاس آجانا۔ عمر و رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ گیا۔ اور (بعد ازاں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے ۔ میں اپنے گھر ہی میں تھا، جب آپ مدینہ تشریف لائے تو میں بھی خبریں لینے اور لوگوں سے آپ کے حالات پوچھنے میں لگ گیا۔ حتی کہ میرے پاس اہل یثرب (مدینہ والوں ) میں سے کچھ لوگ آئے تو میں نے پوچھا: یہ شخص جو مدینہ میں آیا ہے اس نے کیا کچھ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: لوگ تیزی سے ان (کے دین) کی طرف بڑھ رہے ہیں، ان کی قوم نے ان کو قتل کرنا چاہا تھا لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔ اس پر میں مدینہ آیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں تم وہی ہوناں جو مجھ سے مکہ میں ملے تھے؟ میں نے عرض کی: جی ہاں، اور پھر پوچھا: اے اللہ کے نبی! مجھے وہ (سب) بتائیے جو اللہ نے آپ کو سکھایا ہے اور میں اس سے ناواقف ہوں، مجھے نماز کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: صبح کی نماز پڑھو اور پھر نماز سے رک جاؤ حتی کہ سورج نکل کر بلند ہو جائے کیونکہ جب وہ طلوع ہوتا ہے تو شیطان (اپنے سینگوں کو آگے کر کے یوں دکھاتا ہے جیسے وہ اُس) کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کافر اس (سورج) کو سجدہ کرتے ہیں، اس کے بعد نماز پڑھو کیونکہ نماز کا مشاہدہ ہوتا ہے اور اس میں (فرشتے) حاضر ہوتے ہیں، یہاں تک کہ جب نیزے کا سایہ اس کے ساتھ لگ جائے (سورج بالکل سر پر آجائے ) تو پھر نماز سے رک جاؤ کیونکہ اس وقت جہنم کو ایندھن سے بھر کر بھڑکایا جاتا ہے، پھر جب سایہ آگے آجائے (سورج ڈھل جائے ) تو نماز پڑھو کیونکہ نماز کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور اس میں حاضری دی جاتی ہے حتی کہ تم عصر سے فارغ ہو جاؤ، پھر نماز سے رک جاؤ یہاں تک کہ سورج (پوری طرح) غروب ہو جائے کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں میں غروب ہوتا ہے اور اس وقت کافر اس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ پھر میں نے پوچھا: اے اللہ کے نبی! تو وضو؟ مجھے اس کے بارے میں بھی بتائیے۔ آپ نے فرمایا: تم میں سے جو شخص بھی وضو کے لیے پانی اپنے قریب کرتا ہے، پھر کلی کرتا ہے اور ناک میں پانی کھینچ کر اسے جھاڑتا ہے تو اس سے اس کے چہرے، منہ اور ناک کے نتھنوں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں، پھر جب وہ اللہ کے حکم کے مطابق اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو لازماً اس کے چہرے کے گناہ بھی پانی کے ساتھ اس کی داڑھی کے کناروں سے گر جاتے ہیں، پھر وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں (کے اوپر ) تک دھوتا ہے تو لازماً اس کے ہاتھوں کے گناہ پانی کے ساتھ اس کے پوروں سے گر جاتے ہیں، پھر اگر وہ کھڑا ہوا، نماز پڑھی اور اللہ کے شایانِ شان اس کی حمد و ثنا اور بزرگی بیان کی اور اپنا دل اللہ کے لیے (ہر قسم کے دوسرے خیالات وتصورات سے ) خالی کر لیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکلتا ہے جس طرح اس وقت تھا جس دن اس کی ماں نے اسے (ہر قسم کے گناہوں سے پاک) جنا تھا۔ سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (ایک اور) صحابی سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو سنائی تو ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اے عمرو بن عبسہ ! دیکھ لو تم کیا کہہ رہے ہو، ایک ہی جگہ اس آدمی کو اتنا کچھ عطا کر دیا جاتا ہے! اس پر عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابو امامہ! میری عمر بڑھ گئی ہے، میری ہڈیاں نرم ہوگئی ہیں اور میری موت کا وقت بھی قریب آچکا ہے اور مجھے کوئی ضرورت نہیں کہ اللہ پر جھوٹ بولوں اور اس کے رسول پر جھوٹ بولوں ، اگر میں نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک، دو، تین۔ حتی کہ انھوں نے سات بار شمار کیا۔ بار نہ سنا ہوتا تو میں اس حدیث کو کبھی بیان نہ کرتا بلکہ میں نے تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سے بھی زیادہ بار سنا ہے۔ “

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ صرف اللہ عزوجل کی امان پر خوش

حدیث 17:

«وعن عائشة رضي الله عنها زوج النبى صلى الله عليه وسلم، قالت: لم اعقل ابوي قط إلا وهما يدينان الدين , ولم يمر علينا يوم إلا ياتينا فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم طرفي النهار بكرة وعشية , فلما ابتلي المسلمون خرج ابو بكر مهاجرا نحو ارض الحبشة حتى بلغ برك الغماد لقيه ابن الدغنة وهو سيد القارة، فقال: اين تريد يا ابا بكر؟ فقال ابو بكر: اخرجني قومي فاريد ان اسيح فى الارض واعبد ربي، قال ابن الدغنة: فإن مثلك يا ابا بكر لا يخرج ولا يخرج , إنك تكسب المعدوم وتصل الرحم , وتحمل الكل وتقري الضيف , وتعين على نوائب الحق , فانا لك جار ارجع واعبد ربك ببلدك , فرجع وارتحل معه ابن الدغنة , فطاف ابن الدغنة عشية فى اشراف قريش، فقال لهم: إن ابا بكر لا يخرج مثله ولا يخرج , اتخرجون رجلا يكسب المعدوم ويصل الرحم , ويحمل الكل ويقري الضيف , ويعين على نوائب الحق , فلم تكذب قريش بجوار ابن الدغنة، وقالوا لابن الدغنة: مر ابا بكر فليعبد ربه فى داره فليصل فيها , وليقرا ما شاء ولا يؤذينا بذلك , ولا يستعلن به , فإنا نخشى ان يفتن نساءنا وابناءنا، فقال ذلك ابن الدغنة لابي بكر , فلبث ابو بكر بذلك يعبد ربه فى داره , ولا يستعلن بصلاته ولا يقرا فى غير داره , ثم بدا لابي بكر فابتنى مسجدا بفناء داره , وكان يصلي فيه ويقرا القرآن , فينقذف عليه نساء المشركين وابناؤهم وهم يعجبون منه وينظرون إليه , وكان ابو بكر رجلا بكاء لا يملك عينيه إذا قرا القرآن، وافزع ذلك اشراف قريش من المشركين , فارسلوا إلى ابن الدغنة فقدم عليهم، فقالوا: إنا كنا اجرنا ابا بكر بجوارك على ان يعبد ربه فى داره , فقد جاوز ذلك فابتنى مسجدا بفناء داره , فاعلن بالصلاة والقراءة فيه , وإنا قد خشينا ان يفتن نساءنا وابناءنا , فانهه فإن احب ان يقتصر على ان يعبد ربه فى داره فعل , وإن ابى إلا ان يعلن بذلك فسله ان يرد إليك ذمتك فإنا قد كرهنا ان نخفرك ولسنا مقرين لابي بكر الاستعلان، قالت عائشة: فاتى ابن الدغنة إلى ابي بكر، فقال: قد علمت الذى عاقدت لك عليه , فإما ان تقتصر على ذلك , وإما ان ترجع إلى ذمتي فإني لا احب ان تسمع العرب اني اخفرت فى رجل عقدت له، فقال ابو بكر: فإني ارد إليك جوارك وارضى بجوار الله عزوجل»
صحيح البخاري، كتاب مناقب الأنصار ، رقم: 3905
”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے والدین کو دین حق کی پیروی کرتے ہوئے ہی دیکھا ہے اور ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ صبح و شام دونوں وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس نہ آتے ہوں۔ پھر جب مسلمانوں کو سخت اذیت دی جانے لگی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کی نیت سے (مکہ سے) نکلے۔ جب وہ برک الغماد کے مقام پر پہنچے تو انھیں ابن دغنہ ملا جو قبیلہ قارہ کا سردار تھا۔ اس نے پوچھا: اے ابوبکر ! کہاں جا رہے ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ زمین کی سیر و سیاحت کروں اور اپنے رب کی یکسوئی سے عبادت کروں ۔ ابن دغنہ کہنے لگا: تمھارے جیسا شخص نہ تو نکلنے پر مجبور ہوسکتا ہے اور نہ اسے کوئی نکال ہی سکتا ہے کیونکہ ضرورت مند محتاج لوگوں کے پاس جو چیز نہیں ہوتی تم انھیں مہیا کرتے ہو، رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہو، ناداروں کی کفالت اور مہمانوں کی ضیافت کرتے ہو اور راہ حق میں اگر کسی کو مصیبت آئے تو تم اس کی مدد کرتے ہو، لہذا میں تمھیں پناہ دیتا ہوں تم (مکہ) لوٹ چلو اور اپنے شہر میں رہ کر اپنے رب کی عبادت کرو ۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ابن دغنہ کے ساتھ مکہ واپس آگئے۔ اس کے بعد ابن دغنہ رات کے وقت قریش کے سرداروں سے ملا اور ان سے کہا: ابوبکر (رضی اللہ عنہ ) جیسا شخص نہ تو نکلنے پر مجبور ہو سکتا ہے اور نہ اسے کوئی نکال ہی سکتا ہے، کیا تم ایسے شخص کو نکالتے ہو جو لوگوں کو وہ چیزیں مہیا کرتا ہے جو ان کے پاس نہیں ہوتیں، وہ رشتہ داروں سے اچھا سلوک اور بے کسوں کی کفالت کرتا ہے، مہمان نوازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے اور جب کبھی کسی کو راہ حق میں تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی مدد کرتا ہے۔ الغرض قریش نے ابن دغنہ کی پناہ کو مسترد نہ کیا۔ البتہ اس سے کہا کہ تم ابوبکر (رضی اللہ عنہ ) سے کہہ دو کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کریں اور وہیں نماز یا جو چاہیں ادا کریں۔ علانیہ یہ کام کر کے ہمارے لیے اذیت کا باعث نہ بنیں کیونکہ یہ کام علانیہ کرنے سے ہمیں اپنی عورتوں اور بچوں کے بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ ابن دغنہ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام پہنچا دیا تو انھوں نے اس شرط کے مطابق مکہ میں دوبارہ رہائش رکھ لی، چنانچہ وہ اپنے گھر میں اپنے پروردگار کی عبادت کرتے۔ نہ تو نماز علانیہ ادا کرتے اور نہ اپنے گھر کے علاوہ کسی دوسری جگہ تلاوت ہی کرتے۔ پھر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا تو انھوں نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنائی، وہاں نماز ادا کرتے اور قرآن پاک کی تلاوت کرتے۔ پھر ایسا ہوا کہ مشرکین کی عورتیں اور بچے بکثرت ان کے پاس جمع ہو جاتے ، سب کے سب تعجب کرتے اور ان کی طرف متوجہ رہتے ۔ چونکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ بڑی گریہ و زاری کرنے والے شخص تھے، جب قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو انھیں اپنی آنکھوں پر قابو نہیں رہتا تھا۔ یہ حال دیکھ کر سردارانِ قریش گھبرا گئے۔ بالآخر انھوں نے ابن دغنہ کو بلا بھیجا۔ اس کے آنے پر انھوں نے شکایت کی کہ ہم نے ابوبکر (رضی اللہ عنہ ) کو تمھاری وجہ سے اس شرط پر امان دی تھی کہ وہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کریں مگر انھوں نے اس سے تجاوز کرتے ہوئے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنالی ہے جس میں علانیہ نماز ادا کرتے اور قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، ہمیں اندیشہ ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے بگڑ جائیں گے، لہذا تم انھیں منع کرو اور اگر وہ اسے منظور کر لیں کہ اپنے گھر میں اپنے رب کی عبادت کریں تو امان برقرار ہے، اگر نہ مانیں اور اس پر ضد کریں کہ علانیہ عبادت کریں گے تو تم اپنی پناہ ان سے واپس مانگ لو کیونکہ ہم لوگ تمھاری پناہ توڑنا پسند نہیں کرتے لیکن ہم ابوبکر (رضی اللہ عنہ ) کی علانیہ عبادت کسی صورت بھی برقرار نہیں رکھ سکتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد ابن دغنہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: تمھیں معلوم ہے کہ میں نے تم سے کس بات پر معاہدہ کیا تھا، لہذا تم اس پر قائم رہو یا پھر میری امان مجھے واپس کرو کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ عرب کے لوگ یہ خبر سنیں کہ جس کو میں نے امان دی تھی اسے پامال کر دیا گیا ہے۔ اس پر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تیری امان واپس کرتا ہوں اور میں صرف اللہ عزوجل کی امان پر خوش ہوں۔ “

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ

حدیث 18:

وحدثني عروة بن الزبير قال: قلت لعبد الله بن عمرو بن العاص أخبرني بأشد ما صنع المشركون برسول الله صلى الله عليه وسلم قال: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بفناء الكعبة إذ أقبل عقبة بن أبى معيط فأخذ بمنكب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولوى ثوبه فى عنقه فخنقه به خنقا شديدا، فأقبل أبو بكر ، فأخذ بمنكبه ، ودفع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: ﴿أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ﴾
صحيح البخاري كتاب التفسير ، رقم: 4815
”جلیل القدر تابعی عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ سخت معاملہ مشرکین نے کیا کیا تھا؟ انھوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور اس نے آپ کا شانہ مبارک پکڑ کر آپ کی گردن میں اپنا کپڑا لپیٹ دیا پھر اس کپڑے سے بڑی سختی کے ساتھ آپ کا گلا گھونٹنے لگا۔ اتنے میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی آگئے۔ انھوں نے اس (بدبخت) کا کندھا پکڑ کر (اسے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور کیا اور کہا: ﴿أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ﴾ [المومن: 28] کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے جبکہ وہ تمھارے رب کے پاس سے (اپنی سچائی کے لیے ) روشن دلائل لے کر آیا ہے۔“

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سید نا ابوذر رضی اللہ عنہ کو کھانا کھلانا

حدیث 19:

«وعن أبى ذر: خرجنا من قومنا غفار، وكانوا يحلون الشهر الحرام، فخرجت انا واخي انيس وامنا فنزلنا على خال لنا، فاكرمنا خالنا، واحسن إلينا فحسدنا قومه، فقالوا: إنك إذا عن اهلك خالف إليهم انيس، فجاء خالنا فنثا علينا الذى قيل له، فقلت: اما ما مضى من معروفك فقد كدرته، ولا جماع لك فيما بعد، فقربنا صرمتنا فاحتملنا عليها وتغطى خالنا ثوبه، فجعل يبكي فانطلقنا حتى نزلنا بحضرة مكة، فنافر انيس عن صرمتنا، وعن مثلها فاتيا الكاهن، فخير انيسا فاتانا انيس بصرمتنا، ومثلها معها، قال: وقد صليت يا ابن اخي قبل ان القى رسول الله صلى الله عليه وسلم بثلاث سنين، قلت: لمن؟ قال: لله، قلت: فاين توجه؟ قال: اتوجه حيث يوجهني ربي، اصلي عشاء حتى إذا كان من آخر الليل القيت كاني خفاء، حتى تعلوني الشمس، فقال انيس: إن لي حاجة بمكة فاكفني، فانطلق انيس حتى اتى مكة، فراث علي، ثم جاء، فقلت: ما صنعت؟ قال: لقيت رجلا بمكة على دينك، يزعم ان الله ارسله، قلت: فما يقول الناس؟ قال: يقولون: شاعر كاهن، ساحر، وكان انيس احد الشعراء، قال انيس: لقد سمعت قول الكهنة فما هو بقولهم، ولقد وضعت قوله على اقراء الشعر فما يلتئم على لسان احد بعدي، انه شعر، والله إنه لصادق وإنهم لكاذبون، قال: قلت: فاكفني حتى اذهب فانظر، قال: فاتيت مكة، فتضعفت رجلا منهم، فقلت: اين هذا الذى تدعونه الصابئ؟ فاشار إلي، فقال الصابئ: فمال على اهل الوادي بكل مدرة وعظم حتى خررت مغشيا علي، قال: فارتفعت حين ارتفعت، كاني نصب احمر، قال: فاتيت زمزم، فغسلت عني الدماء، وشربت من مائها، ولقد لبثت يا ابن اخي ثلاثين بين ليلة، ويوم ما كان لي طعام إلا ماء زمزم، فسمنت حتى تكسرت عكن بطني، وما وجدت على كبدي سخفة جوع، قال: فبينا اهل مكة فى ليلة قمراء إضحيان، إذ ضرب على اسمختهم، فما يطوف بالبيت احد، وامراتين منهم تدعوان إسافا ونائلة، قال: فاتتا على فى طوافهما، فقلت: انكحا احدهما الاخرى، قال: فما تناهتا عن قولهما، قال: فاتتا علي، فقلت: هن مثل الخشبة غير اني لا اكني، فانطلقتا تولولان، وتقولان: لو كان هاهنا احد من انفارنا، قال: فاستقبلهما رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر وهما هابطان، قال: ما لكما؟ قالتا: الصابئ بين الكعبة واستارها، قال: ما قال لكما؟ قالتا إنه قال لنا: كلمة تملا الفم، وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى استلم الحجر، وطاف بالبيت هو وصاحبه، ثم صلى، فلما قضى صلاته، قال ابو ذر: فكنت انا اول من حياه بتحية الإسلام، قال: فقلت: السلام عليك يا رسول الله، فقال: وعليك ورحمة الله، ثم قال: من انت؟ قال: قلت: من غفار، قال: فاهوى بيده فوضع اصابعه على جبهته، فقلت: فى نفسي كره ان انتميت إلى غفار، فذهبت آخذ بيده، فقدعني صاحبه، وكان اعلم به مني، ثم رفع راسه، ثم قال: متى كنت هاهنا؟ قال: قلت: قد كنت هاهنا منذ ثلاثين بين ليلة ويوم، قال: فمن كان يطعمك؟ قال: قلت: ما كان لي طعام إلا ماء زمزم، فسمنت حتى تكسرت عكن بطني، وما اجد على كبدي سخفة جوع، قال: إنها مباركة، إنها طعام طعم، فقال ابو بكر: يا رسول الله، ائذن لي فى طعامه الليلة، فانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابو بكر، وانطلقت معهما، ففتح ابو بكر بابا، فجعل يقبض لنا من زبيب الطائف، وكان ذلك اول طعام اكلته بها، ثم غبرت ما غبرت، ثم اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إنه قد وجهت لي ارض ذات نخل لا اراها إلا يثرب، فهل انت مبلغ عني قومك عسى الله ان ينفعهم بك وياجرك فيهم، فاتيت انيسا، فقال: ما صنعت؟ قلت: صنعت اني قد اسلمت وصدقت، قال: ما بي رغبة عن دينك، فإني قد اسلمت وصدقت فاتينا امنا، فقالت: ما بي رغبة عن دينكما، فإني قد اسلمت وصدقت، فاحتملنا حتى اتينا قومنا غفارا، فاسلم نصفهم، وكان يؤمهم ايماء بن رحضة الغفاري وكان سيدهم، وقال: نصفهم إذا قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة اسلمنا، فقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة فاسلم نصفهم الباقي، وجاءت اسلم، فقالوا: يا رسول الله، إخوتنا نسلم على الذى اسلموا عليه فاسلموا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” غفار غفر الله لها، واسلم سالمها الله»
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابة، رقم: 6359
”اور سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اپنی قوم غفار کے ساتھ تھے، وہ لوگ حرمت والے مہینوں کو بھی حلال سمجھتے تھے۔ میں، میرا بھائی انیسں اور میری ماں تینوں نکلے اور اپنے ماموں کے پاس ٹھہرے، انھوں نے ہماری بہت عزت اور خاطر مدارات کی ، ان کی قوم ہم سے حسد کرنے لگی ، انھوں نے ماموں سے کہا: جب تم اپنی بیوی کو چھوڑ کر جاتے ہو تو انیسں اس سے بدکاری کرتا ہے پھر ہمارا ماموں آیا اور اس سے جو کچھ کہا گیا تھا، اس نے وہ الزام ہم پر لگایا۔ میں نے ان سے کہا: تم نے یہ الزام لگا کر اپنے کیے ہوئے احسانات کو بھی مکدر کر دیا، اس کے بعد ہم تمھارے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ ہم اپنے اونٹوں کے پاس آئے اور ان پر اپنا سامان لاد لیا، ہمارے ماموں نے کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کر دیا ، ہم وہاں سے روانہ ہوئے اور مکہ مکرمہ کے سامنے اترے، انیسں نے ہمارے اونٹوں اور اتنے ہی اور اونٹوں پر یہ شرط لگائی کہ کس کے اونٹ اچھے ہیں؟ پھر انیس اور وہ شخص کاہن کے پاس گئے، اس نے انیس کے اونٹوں کو اچھا قرار دیا، انیسں ہمارے اونٹ اور اتنے اور اونٹ جیت کر لے گیا۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ نے (عبد اللہ بن صامت سے ) کہا: اے میرے بھتیجے ! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملاقات سے تین سال پہلے بھی نماز پڑھتا تھا۔ عبد اللہ بن صامت نے پوچھا: کس کے لیے؟ انھوں نے کہا ، اللہ کے لیے۔ میں (عبد اللہ ) نے پوچھا: کس طرف منہ کرتے تھے؟ انھوں نے کہا: اللہ تعالیٰ جس طرف میرا منہ کر دیتا تھا میں عشاء کی نماز پڑھ لیتا تھا، حتی کہ جب رات کا آخری حصہ ہوتا تو میں اپنے آپ کو چادر کی طرح ڈال دیتا حتی کہ مجھ پر دھوپ آجاتی۔ بہر حال انیسں نے کہا: مجھے مکہ میں کام ہے، تم یہاں رہو، میں جاتا ہوں۔ انیسں مکہ چلے گئے اور واپس آنے میں دیر کر دی۔ جب وہ آئے تو میں نے پوچھا: تم کیا کرتے رہے ہو؟ اس نے کہا: میری مکہ میں ایک شخص سے ملاقات ہوئی جو تمھارے دین پر ہے، وہ کہتا ہے کہ اللہ نے مجھے رسول بنایا ہے۔ میں نے پوچھا: اور لوگ کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا: لوگ اس کو شاعر کاہن اور ساحر کہتے ہیں۔ انیسں خود بھی ایک شاعر تھا۔ انیس نے کہا: میں نے کاہنوں کا کلام سنا ہے، اس کا کلام کاہنوں کی طرح نہیں ہے، میں نے اس کے کلام کا شاعروں کے کلام سے بھی موازنہ کیا لیکن کسی شخص کی زبان پر ایسے شعر نہیں آ سکتے، واللہ! وہ سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں۔ میں نے کہا: تم یہیں رہو ، میں جا کر دیکھتا ہوں۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مکہ گیا اور اہل مکہ میں سے ایک کمزور شخص کو منتخب کیا، میں نے پوچھا، وہ شخص کہاں ہے جس کے متعلق تم یہ کہتے ہو کہ اس نے اپنا دین بدل لیا ہے؟ اس نے میری طرف اشارہ کر کے کہا: یہ صابی (دین بدلنے والا ہے )۔ پھر تمام اہل وادی ہڈیوں اور ڈھیلوں کے ساتھ مجھ پر پل پڑے، حتی کہ میں بے ہوش ہو کر گر پڑا ، پھر جب مجھے ہوش آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں (بکثرت خون بہنے کی وجہ سے ) سرخ رنگ کا بت ہوں، میں نے زم زم کے پاس آکر خون دھویا اور پانی پیا۔ میں وہاں تیسں دن رات تک رہا، اس وقت زم زم کے پانی کے سوا میری کوئی اور خوراک نہیں تھی ، میں اس قدر موٹا ہو گیا کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں ختم ہو گئیں، اور میں نے اپنے جگر میں بھوک کی شدت محسوس نہیں کی۔ ایک چاندنی رات کو جب اہل مکہ سو گئے ، اس وقت بیت اللہ کا کوئی طواف نہیں کر رہا تھا، صرف دو عورتیں اساف اور نائلہ (بت) کو پکار رہی تھیں، وہ طواف کرتے کرتے میرے پاس آئیں۔ میں نے کہا: (اساف اور نائلہ میں سے ) ایک کا دوسرے کے ساتھ نکاح کر دو۔ یہ سن کر بھی وہ اپنے پکارنے سے باز نہیں آئیں۔ جب وہ پھر میرے پاس آئیں تو میں نے کہا: فرج میں لکڑی کیونکہ میں اشارہ کنایہ سے بات نہیں کرتا تھا (اس لیے اساف اور نائلہ کو سیدھی گالی دی)۔ یہ سن کر وہ دونوں عورتیں چلاتی ہوئی اور یہ کہتی ہوئی گئیں کہ کاش! ہمارے لوگوں میں سے اس وقت کوئی ہوتا۔ راستہ میں ان دونوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ ملے۔ وہ پہاڑی سے اتر رہے تھے ، آپ نے فرمایا: تمھیں کیا ہوا؟ وہ کہنے لگیں: ایک صابی آیا ہے جو کعبہ کے پردوں میں چھپا ہوا ہے۔ آپ نے پوچھا: اس نے تم سے کیا کہا؟ انھوں نے کہا: وہ ایسی بات کہتا ہے جس سے منہ بھر جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ، آپ نے حجر اسود کو بوسہ دیا، اور آپ نے اور آپ کے صاحب (ابوبکر) نے بیت اللہ کا طواف کیا پھر نماز پڑھی، جب آپ نے نماز پوری کر لی تو میں پہلا شخص تھا جس نے اسلام کے طریقہ سے سلام کیا، میں نے کہا: السلام علیک یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا: وعلیک السلام ورحمۃ اللہ ۔ پھر فرمایا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: غفار سے ہوں، آپ نے اپنا ہاتھ اٹھا کر انگلیاں اپنی پیشانی پر رکھیں ۔ میں نے دل میں سوچا کہ شاید آپ کو میرا غفار سے ہونا نا پسند ہوا ہو۔ میں آپ کا ہاتھ پکڑنے کے لیے بڑھا لیکن آپ کے صاحب (ابوبکر) نے مجھے روک دیا جو مجھ سے زیادہ آپ کا حال جانتا تھا۔ پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: تم کب سے یہاں ہو۔ میں نے کہا: مجھے یہاں تیسں دن رات ہو گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: تمھیں کھانا کون کھلاتا ہے؟ میں نے کہا: زم زم کے پانی کے سوا میرا اور کوئی طعام نہیں ہے، میں اس قدر موٹا ہو گیا ہوں کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں ختم ہو گئی ہیں اور میرے جگر میں بھوک کی کمزوری نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: زم زم کا پانی برکت والا ہے، یہ پیٹ بھرنے والا کھانا ہے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجیے کہ اس کو آج رات میں کھانا کھلاؤں ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ چل پڑے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھولا، اور اس میں سے ہمارے لیے طائف کی کشمش نکالی، یہ مکہ میں پہلا طعام تھا جسے میں نے کھایا، پھر میں نے بچا دیا جو بچا دیا پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: مجھے کھجوروں والی ایک زمین دکھائی گئی ہے، میرا خیال ہے کہ وہ یثرب (مدینہ ) ہی ہے، کیا تم اپنی قوم کو میری طرف سے (دین اسلام کا) پیغام پہنچاؤ گے؟ شاید اللہ تعالیٰ تمھاری وجہ سے ان کو نفع دے اور تمھیں اجر و ثواب عطا فرمائے۔ پھر میں انیسں کے پاس پہنچا، اس نے پوچھا: تم کیا کرتے رہے؟ میں نے کہا: میں نے اسلام قبول کر لیا ہے، اور اس (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تصدیق کر دی ہے۔ اس نے کہا: مجھے بھی تمھارے دین سے نفرت نہیں ہے، میں بھی مسلمان ہو چکا ہوں، اور تصدیق کر چکا ہوں۔ پھر ہم اپنی والدہ کے پاس آئے۔ اس نے کہا: مجھے بھی تمھارے دین سے نفرت نہیں ہے، میں بھی اسلام لاتی ہوں اور تصدیق کرتی ہوں۔ ہم نے اونٹوں پر اپنا سامان لادا اور اپنی قوم بنو غفار کے پاس پہنچے۔ ان میں سے آدھے لوگ مسلمان ہو گئے۔ ان لوگوں کے سردار اور امام ایماء بن رحضہ الغفاری تھے۔ باقی آدھے لوگوں نے یہ کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائیں گے، تو ہم مسلمان ہو جائیں گے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو باقی آدھے بھی مسلمان ہو گئے ، پھر قبیلہ اسلم کے لوگ آئے اور انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ! ہم بھی اپنے بھائیوں کی طرح اسلام قبول کرتے ہیں۔ پھر وہ بھی مسلمان ہو گئے ۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غفار کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور اسلم کو سلامت رکھے۔ “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سفر ہجرت

حدیث 20:

«وعن عائشة رضي الله عنها زوج النبى صلى الله عليه وسلم، قالت: لم اعقل ابوي قط إلا وهما يدينان الدين , ولم يمر علينا يوم إلا ياتينا فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم طرفي النهار بكرة وعشية , فلما ابتلي المسلمون خرج ابو بكر مهاجرا نحو ارض الحبشة حتى بلغ برك الغماد لقيه ابن الدغنة وهو سيد القارة، فقال: اين تريد يا ابا بكر؟ فقال ابو بكر: اخرجني قومي فاريد ان اسيح فى الارض واعبد ربي، قال ابن الدغنة: فإن مثلك يا ابا بكر لا يخرج ولا يخرج , إنك تكسب المعدوم وتصل الرحم , وتحمل الكل وتقري الضيف , وتعين على نوائب الحق , فانا لك جار ارجع واعبد ربك ببلدك , فرجع وارتحل معه ابن الدغنة , فطاف ابن الدغنة عشية فى اشراف قريش، فقال لهم: إن ابا بكر لا يخرج مثله ولا يخرج , اتخرجون رجلا يكسب المعدوم ويصل الرحم , ويحمل الكل ويقري الضيف , ويعين على نوائب الحق , فلم تكذب قريش بجوار ابن الدغنة، وقالوا لابن الدغنة: مر ابا بكر فليعبد ربه فى داره فليصل فيها , وليقرا ما شاء ولا يؤذينا بذلك , ولا يستعلن به , فإنا نخشى ان يفتن نساءنا وابناءنا، فقال ذلك ابن الدغنة لابي بكر , فلبث ابو بكر بذلك يعبد ربه فى داره , ولا يستعلن بصلاته ولا يقرا فى غير داره , ثم بدا لابي بكر فابتنى مسجدا بفناء داره , وكان يصلي فيه ويقرا القرآن , فينقذف عليه نساء المشركين وابناؤهم وهم يعجبون منه وينظرون إليه , وكان ابو بكر رجلا بكاء لا يملك عينيه إذا قرا القرآن، وافزع ذلك اشراف قريش من المشركين , فارسلوا إلى ابن الدغنة فقدم عليهم، فقالوا: إنا كنا اجرنا ابا بكر بجوارك على ان يعبد ربه فى داره , فقد جاوز ذلك فابتنى مسجدا بفناء داره , فاعلن بالصلاة والقراءة فيه , وإنا قد خشينا ان يفتن نساءنا وابناءنا , فانهه فإن احب ان يقتصر على ان يعبد ربه فى داره فعل , وإن ابى إلا ان يعلن بذلك فسله ان يرد إليك ذمتك فإنا قد كرهنا ان نخفرك ولسنا مقرين لابي بكر الاستعلان، قالت عائشة: فاتى ابن الدغنة إلى ابي بكر، فقال: قد علمت الذى عاقدت لك عليه , فإما ان تقتصر على ذلك , وإما ان ترجع إلى ذمتي فإني لا احب ان تسمع العرب اني اخفرت فى رجل عقدت له، فقال ابو بكر: فإني ارد إليك جوارك وارضى بجوار الله عز وجل , والنبي صلى الله عليه وسلم يومئذ بمكة، فقال النبى صلى الله عليه وسلم للمسلمين: ” إني اريت دار هجرتكم ذات نخل بين لابتين وهما الحرتان” , فهاجر من هاجر قبل المدينة ورجع عامة من كان هاجر بارض الحبشة إلى المدينة وتجهز ابو بكر قبل المدينة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” على رسلك فإني ارجو ان يؤذن لي”، فقال ابو بكر: وهل ترجو ذلك بابي انت، قال: ” نعم” , فحبس ابو بكر نفسه على رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصحبه وعلف راحلتين كانتا عنده ورق السمر وهو الخبط اربعة اشهر”. قال ابن شهاب: قال عروة: قالت عائشة: فبينما نحن يوما جلوس فى بيت ابي بكر فى نحر الظهيرة، قال قائل لابي بكر: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم متقنعا فى ساعة لم يكن ياتينا فيها، فقال ابو بكر: فداء له ابي وامي والله ما جاء به فى هذه الساعة إلا امر، قالت: فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستاذن , فاذن له فدخل، فقال النبى صلى الله عليه وسلم لابي بكر: اخرج من عندك، فقال ابو بكر: إنما هم اهلك بابي انت يا رسول الله، قال: ” فإني قد اذن لي فى الخروج”، فقال ابو بكر: الصحابة بابي انت يا رسول الله، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” نعم”، قالابو بكر: فخذ بابي انت يا رسول الله إحدى راحلتي هاتين، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” بالثمن”، قالت عائشة: فجهزناهما احث الجهاز وصنعنا لهما سفرة فى جراب , فقطعت اسماء بنت ابي بكر قطعة من نطاقها فربطت به على فم الجراب , فبذلك سميت ذات النطاقين، قالت: ثم لحق رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر بغار فى جبل ثور فكمنا فيه ثلاث ليال يبيت عندهما عبد الله بن ابي بكر وهو غلام شاب ثقف لقن , فيدلج من عندهما بسحر فيصبح مع قريش بمكة كبائت , فلا يسمع امرا يكتادان به إلا وعاه حتى ياتيهما بخبر ذلك حين يختلط الظلام , ويرعى عليهما عامر بن فهيرة مولى ابي بكر منحة من غنم فيريحها عليهما حين تذهب ساعة من العشاء , فيبيتان فى رسل وهو لبن منحتهما ورضيفهما حتى ينعق بها عامر بن فهيرة بغلس يفعل ذلك فى كل ليلة من تلك الليالي الثلاث , واستاجر رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر رجلا من بني الديل وهو من بني عبد بن عدي هاديا خريتا , والخريت الماهر بالهداية قد غمس حلفا فى آل العاص بن وائل السهمي وهو على دين كفار قريش , فامناه فدفعا إليه راحلتيهما وواعداه غار ثور بعد ثلاث ليال براحلتيهما صبح ثلاث , وانطلق معهما عامر بن فهيرة والدليل فاخذ بهم طريق السواحل»
صحيح البخاري، كتاب مناقب الأنصار، رقم: 3905
”اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو میں نے اپنے ماں باپ کو دین اسلام پر ہی پایا اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں ، پھر جب (مکہ میں ) مسلمانوں کو ستایا جانے لگا تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ حبشہ کی ہجرت کا ارادہ کر کے نکلے ۔ جب آپ مقام برک الغماد پر پہنچے تو آپ رضی اللہ عنہ کی ملاقات ابن الدغنہ سے ہوئی جو قبیلہ قارہ کا سردار تھا۔ اس نے پوچھا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے اب میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ ملک ملک کی سیاحت کروں (اور آزادی کے ساتھ ) اپنے رب کی عبادت کروں۔ ابن الدغنہ نے کہا لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ ! تم جیسے انسان کو اپنے وطن سے نہ خود نکلنا چاہیے اور نہ اسے نکالا جانا چاہیے۔ تم محتاجوں کی مدد کرتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو۔ بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہو، مہمان نوازی کرتے ہو اور حق پر قائم رہنے کی وجہ سے کسی پر آنے والی مصیبتوں میں اس کی مدد کرتے ہو، میں تمہیں پناہ دیتا ہوں واپس چلو اور اپنے شہر ہی میں اپنے رب کی عبادت کرو ۔ چنانچہ وہ واپس آگئے اور ابن الدغنہ بھی آپ کے ساتھ واپس آیا۔ اس کے بعد ابن الدغنہ قریش کے تمام سرداروں کے یہاں شام کے وقت گیا اور سب سے اس نے کہا ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے شخص کو نہ خود نکلنا چاہیے اور نہ اسے نکالا جانا چاہیے کیا تم ایسے شخص کو نکال دو گے جو محتاجوں کی امداد کرتا ہے ، صلہ رحمی کرتا ہے ، بے کسوں کا بوجھ اٹھاتا ہے ، مہمان نوازی کرتا ہے اور حق کی وجہ سے کسی پر آنے والی مصیبتوں میں اس کی مدد کرتا ہے؟ قریش نے ابن الدغنہ کی پناہ سے انکار نہیں کیا صرف اتنا کہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہہ دو، کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر کے اندر ہی کیا کریں ، وہیں نماز پڑھیں اور جو جی چاہے وہیں پڑھیں ، اپنی عبادات سے ہمیں تکلیف نہ پہنچائیں ، اس کا اظہار نہ کریں کیونکہ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہماری عورتیں اور بچے اس فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ یہ باتیں ابن الدغنہ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بھی آکر دیں کچھ دنوں تک تو آپ اس پر قائم رہے اور اپنے گھر کے اندر ہی اپنے رب کی عبادت کرتے رہے، نہ نماز بر سر عام پڑھتے اور نہ اپنے گھر کے سوا کسی اور جگہ تلاوت قرآن کرتے تھے لیکن پھر انہوں نے کچھ سوچا اور اپنے گھر کے سامنے نماز پڑھنے کے لیے ایک جگہ بنائی جہاں آپ نے نماز پڑھنی شروع کی اور تلاوت قرآن بھی وہیں کرنے لگے، نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں مشرکین کی عورتوں اور بچوں کا مجمع ہونے لگا۔ وہ سب حیرت اور پسندیدگی کے ساتھ دیکھتے رہا کرتے تھے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ بڑے نرم دل انسان تھے۔ جب قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو آنسوؤں کو روک نہ سکتے تھے۔ اس صورت حال سے مشرکین قریش کے سردار گھبرا گئے اور انہوں نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا ، جب ابن الدغنہ آ گیا تو انہوں نے اس سے کہا کہ ہم نے ابوبکر کے لیے تمہاری پناہ اس شرط کے ساتھ تسلیم کی تھی کہ اپنے رب کی عبادت وہ اپنے گھر کے اندر کیا کریں لیکن انہوں نے شرط کی خلاف ورزی کی ہے اور اپنے گھر کے سامنے نماز پڑھنے کے لیے ایک جگہ بنا کر برسر عام نماز پڑھنے اور تلاوت قرآن کرنے لگے ہیں۔ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہماری عورتیں اور بچے اس فتنے میں نہ مبتلا ہو جائیں اس لیے تم انہیں روک دو، اگر انہیں یہ شرط منظور ہو کہ اپنے رب کی عبادت صرف اپنے گھر کے اندر ہی کیا کریں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں لیکن اگر وہ اظہار ہی کریں تو ان سے کہو کہ تمہاری پناہ واپس دے دیں ، کیونکہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری دی ہوئی پناہ میں ہم دخل اندازی کریں لیکن ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اس اظہار کو بھی ہم برداشت نہیں کر سکتے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ابن الدغنہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے یہاں آیا اور کہا کہ جس شرط کے ساتھ میں نے آپ کے ساتھ عہد کیا تھا وہ آپ کو معلوم ہے ، اب یا آپ اس شرط پر قائم رہیے یا پھر میرے عہد کو واپس کیجئے کیونکہ یہ مجھے گوارا نہیں کہ عرب کے کانوں تک یہ بات پہنچے کہ میں نے ایک شخص کو پناہ دی تھی ۔ لیکن اس میں (قریش کی طرف سے ) دخل اندازی کی گئی ۔ اس پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہاری پناہ واپس کرتا ہوں اور اپنے رب عزوجل کی پناہ پر راضی ہوں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مکہ میں تشریف رکھتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تمہاری ہجرت کی جگہ مجھے خواب میں دکھائی گئی ہے وہاں کھجور کے باغات ہیں اور دو پتھریلے میدانوں کے درمیان واقع ہے، چنانچہ جنہیں ہجرت کرنا تھا انہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور جو لوگ سر زمین حبشہ کی ہجرت کر کے چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ چلے آئے ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی مدینہ ہجرت کی تیاری شروع کر دی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کچھ دنوں کے لیے توقف کرو مجھے توقع ہے کہ ہجرت کی اجازت مجھے بھی مل جائے گی ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیا واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی توقع ہے ، میرے باپ آپ پر فدا ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت سفر کے خیال سے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور وہ اونٹنیوں کو جو ان کے پاس تھیں کیکر کے پتے کھلا کر تیار کرنے لگے چار مہینے تک ۔ ابن شہاب نے بیان کیا ، ان سے عروہ نے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ، ایک دن ہم ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر بیٹھے ہوئے تھے بھری دوپہر تھی کہ کسی نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا رسول اللہ پر رومال ڈالے تشریف لا رہے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول ہمارے یہاں اس وقت آنے کا نہیں تھا۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ بولے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں ۔ ایسے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص وجہ سے ہی تشریف لائے ہوں گے، انہوں نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اندر آنے کی اجازت چاہی ، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر داخل ہوئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اس وقت یہاں سے تھوڑی دیر کے لیے سب کو اٹھا دو ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یہاں اس وقت تو سب گھر کے ہی آدمی ہیں ، میرے باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد فرمایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی میرے باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ ! کیا مجھے رفاقت سفر کا شرف حاصل ہو سکے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ان دونوں میں سے ایک اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے لیجئے ! نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: لیکن قیمت سے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ہم نے جلدی جلدی ان کے لیے تیاریاں شروع کر دیں اور کچھ توشہ ایک تھیلے میں رکھ دیا ۔ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے اپنے پٹکے کے ٹکڑے کر کے تھیلے کا منہ اس سے باندھ دیا اور اسی وجہ سے ان کا نام «ذات النطاقين» (پٹکے والی ) پڑ گیا عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جبل ثور کے غار میں پڑاؤ کیا اور تین راتیں وہیں گزاریں عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما رات وہیں جا کر گزارا کرتے تھے، یہ نوجوان بہت سمجھدار تھے اور ذہین بے حد تھے۔ سحر کے وقت وہاں سے نکل آتے اور صبح سویرے ہی مکہ پہنچ جاتے جیسے وہیں رات گزری ہو۔ پھر جو کچھ یہاں سنتے اور جس کے ذریعہ ان حضرات کے خلاف کاروائی کے لیے کوئی تدبیر کی جاتی تو اسے محفوظ رکھتے اور جب اندھیرا چھا جاتا تو تمام اطلاعات یہاں آکر پہنچاتے ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ آپ ہر دو کے لیے قریب ہی دودھ دینے والی بکریاں چرایا کرتے تھے اور جب کچھ رات گزر جاتی تو اسے غار میں لاتے تھے۔ آپ اسی پر رات گزارتے اس دودھ کو گرم لوہے کے ذریعہ گرم کر لیا جاتا تھا۔ صبح منہ اندھیرے ہی عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ غار سے نکل آتے تھے ان تین راتوں میں روزانہ کا ان کا یہی دستور تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بنی الدیل جو بنی عبد بن عدی کی شاخ تھی، کے ایک شخص کو راستہ بتانے کے لیے اجرت پر اپنے ساتھ رکھا تھا۔ یہ شخص راستوں کا بڑا ماہر تھا۔ آل عاص بن وائل سہمی کا یہ حلیف بھی تھا اور کفار قریش کے دین پر قائم تھا۔ ان بزرگوں نے اس پر اعتماد کیا اور اپنے دونوں اونٹ اس کے حوالے کر دیئے ۔ قرار یہ پایا تھا کہ تین راتیں گزار کر یہ شخص غار ثور میں ان سے ملاقات کرے ۔ چنانچہ تیسری رات کی صبح کو وہ دونوں اونٹ لے کر (آ گیا ) اب عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ اور یہ راستہ بتانے والا ان حضرات کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے ساحل کے راستے سے ہوتے ہوئے ۔ “

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم

حدیث 21:

«وعن البراء يحدث قال: ابتاع أبو بكر من عازب رحلا فحملته معه قال فسأله عازب عن مسير رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أخذ علينا بالرصد فخرجنا ليلا فأحثتنا ليلتنا ويومنا حتى قام قائم الظهيرة، ثم رفعت لنا صخرة فأتيناها ولها شيء من ظل، قال: ففرشت لرسول الله صلى الله عليه وسلم ، فروة معي ثم اضطجع عليها النبى صلى الله عليه وسلم ، فانطلقت أنفض ما حوله فإذا أنا براع قد أقبل فى غنيمة يريد من الصخرة مثل الذى أردنا فسألته: لمن أنت يا غلام فقال: أنا لفلان فقلت له: هل فى غنمك من لبن؟ قال: نعم ، قلت له: هل أنت حالب؟ قال: نعم ، فأخذ شاة من غنمه ، فقلت له: انفض الضرع ، قال: فحلب كثبة من لبن ومعي إداوة من ماء عليها خرقة قد رواتها لرسول الله صلى الله عليه وسلم فصببت على اللبن حتى برد أسفله ثم أتيت به النبى صلى الله عليه وسلم فقلت: اشرب يا رسول الله، فشرب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى رضيت ، ثم ارتحلنا والطلب فى إثرنا»
صحيح البخاري، كتاب مناقب الأنصار ، رقم: 3917
”سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عازب رضی اللہ عنہ سے ایک پالان خریدا اور میں ان کے ساتھ اٹھا کر پہنچانے لایا تھا۔ انھوں نے بیان کیا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ سے عازب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر ہجرت کا حال پوچھا تو انھوں نے بیان کیا کہ چونکہ ہماری نگرانی ہو رہی تھی (یعنی کفار ہماری تاک میں تھے ) اس لیے ہم (غار سے ) رات کے وقت باہر آئے، اور پوری رات اور دن بھر بہت تیزی کے ساتھ چلتے رہے، جب دو پہر ہوئی تو ہمیں ایک چٹان دکھائی دی، ہم اس کے قریب پہنچے تو اس کی آڑ میں تھوڑا سا سایہ بھی موجود تھا، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک چمڑا بچھا دیا، جو میرے پاس تھا۔ آپ اس پر لیٹ گئے ، اور میں قرب و جوار کی گرد جھاڑنے لگا۔ اتفاق سے ایک چرواہا نظر پڑا جو اپنی بکریوں کے تھوڑے سے ریوڑ کے ساتھ اسی چٹان کی طرف آ رہا تھا، اس کا مقصد اس چٹان سے وہی تھا جس کے لیے ہم یہاں آئے تھے (یعنی سایہ حاصل کرنا)۔ میں نے اس سے پوچھا: لڑکے! تو کس کا غلام ہے؟ اس نے بتایا کہ فلاں کا ہوں۔ میں نے اس سے پوچھا: کیا تم اپنی بکریوں سے کچھ دودھ نکال سکتے ہو؟ اس نے کہا: ہاں۔ پھر وہ اپنے ریوڑ سے ایک بکری لایا تو میں نے اس سے کہا کہ پہلے اس کا تھن جھاڑ لو۔ پھر اس نے کچھ دودھ دوہا۔ میرے پاس پانی کا ایک چھاگل تھا، اس کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا۔ یہ پانی میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ساتھ لے رکھا تھا۔ وہ پانی میں نے اس دودھ پر اتنا ڈالا کہ وہ نیچے تک ٹھنڈا ہو گیا تو میں اسے آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! دودھ نوش فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا جس سے مجھے بہت خوشی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد ہم نے پھر کوچ شروع کیا اور ڈھونڈنے والے لوگ ہماری تلاش میں تھے۔ “

حدیث 22:

«وعن سراقة بن جعشم، يقول: جاءنا رسل كفار قريش يجعلون فى رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر دية كل واحد منهما من قتله او اسره , فبينما انا جالس فى مجلس من مجالس قومي بني مدلج اقبل رجل منهم حتى قام علينا ونحن جلوس، فقال: يا سراقة , إني قد رايت آنفا اسودة بالساحل اراها محمدا واصحابه، قال سراقة: فعرفت انهم هم، فقلت له: إنهم ليسوا بهم ولكنك رايت فلانا وفلانا انطلقوا باعيننا , ثم لبثت فى المجلس ساعة , ثم قمت فدخلت فامرت جاريتي ان تخرج بفرسي وهى من وراء اكمة فتحبسها على , واخذت رمحي فخرجت به من ظهر البيت فحططت بزجه الارض وخفضت عاليه حتى اتيت فرسي , فركبتها فرفعتها تقرب بي حتى دنوت منهم , فعثرت بي فرسي فخررت عنها فقمت , فاهويت يدي إلى كنانتي , فاستخرجت منها الازلام فاستقسمت بها اضرهم ام لا فخرج الذى اكره , فركبت فرسي وعصيت الازلام تقرب بي حتى إذا سمعت قراءة رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو لا يلتفت وابو بكر يكثر الالتفات , ساخت يدا فرسي فى الارض حتى بلغتا الركبتين فخررت عنها , ثم زجرتها فنهضت فلم تكد تخرج يديها , فلما استوت قائمة إذا لاثر يديها عثان ساطع فى السماء مثل الدخان , فاستقسمت بالازلام فخرج الذى اكره فناديتهم بالامان , فوقفوا فركبت فرسي حتى جئتهم ووقع فى نفسي حين لقيت ما لقيت من الحبس عنهم ان سيظهر امر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت له: إن قومك قد جعلوا فيك الدية , واخبرتهم اخبار ما يريد الناس بهم , وعرضت عليهم الزاد والمتاع فلم يرزآني ولم يسالاني إلا ان، قال: ” اخف عنا” , فسالته ان يكتب لي كتاب امن فامر عامر بن فهيرةفكتب فى رقعة من اديم , ثم مضى رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال ابن شهاب: فاخبرني عروة بن الزبير، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لقي الزبير فى ركب من المسلمين كانوا تجارا قافلين من الشام فكسا الزبير رسول الله صلى الله عليه وسلم وابا بكر ثياب بياض , وسمع المسلمون بالمدينة مخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من مكة فكانوا يغدون كل غداة إلى الحرة , فينتظرونه حتى يردهم حر الظهيرة , فانقلبوا يوما بعد ما اطالوا انتظارهم , فلما اووا إلى بيوتهم اوفى رجل من يهود على اطم من آطامهم لامر ينظر إليه , فبصر برسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه مبيضين يزول بهم السراب , فلم يملك اليهودي ان قال باعلى صوته: يا معاشر العرب هذا جدكم الذى تنتظرون , فثار المسلمون إلى السلاح فتلقوا رسول الله صلى الله عليه وسلم بظهر الحرة , فعدل بهم ذات اليمين حتى نزل بهم فى بني عمرو بن عوف وذلك يوم الاثنين من شهر ربيع الاول , فقام ابو بكر للناس وجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم صامتا , فطفق من جاء من الانصار ممن لم ير رسول الله صلى الله عليه وسلم يحيي ابا بكر حتى اصابت الشمس رسول الله صلى الله عليه وسلم , فاقبل ابو بكر حتى ظلل عليه بردائه , فعرف الناس رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك , فلبث رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بني عمرو بن عوف بضع عشرة ليلة , واسس المسجد الذى اسس على التقوى , وصلى فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم ركب راحلته فسار يمشي معه الناس حتى بركت عند مسجد الرسول صلى الله عليه وسلم بالمدينة وهو يصلي فيه يومئذ رجال من المسلمين , وكان مربدا للتمر لسهيل وسهل غلامين يتيمين فى حجر اسعد بن زرارة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بركت به راحلته: ” هذا إن شاء الله المنزل” , ثم دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم الغلامين فساومهما بالمربد ليتخذه مسجدا، فقالا: لا بل نهبه لك يا رسول الله , ثم بناه مسجدا وطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم ينقل معهم اللبن فى بنيانه، ويقول: وهو ينقل اللبن هذا الحمال لا حمال خيبر هذا ابر ربنا واطهر ويقول: اللهم إن الاجر اجر الآخره فارحم الانصار والمهاجره , فتمثل بشعر رجل من المسلمين لم يسم لي، قال ابن شهاب: ولم يبلغنا فى الاحاديث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم تمثل ببيت شعر تام غير هذا البيت»
صحيح البخاري، كتاب مناقب الأنصار، رقم: 3906
”اور سید نا سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہمارے پاس کفار قریش کے قاصد آئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس امر کا اعلان کر رہے تھے کہ جو شخص انھیں قتل کر دے یا زندہ گرفتار کر کے لائے تو ہر ایک کے بدلے ایک سو اونٹ اسے بطور انعام دیے جائیں گے، چنانچہ میں ایک وقت اپنی قوم بنو مدلج کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان میں سے ایک آدمی آیا اور ہمارے پاس کھڑا ہو گیا جبکہ ہم بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے کہا: اے سراقہ! میں نے ابھی ابھی ساحل پر چند لوگ دیکھے ہیں۔ میں انھیں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھی خیال کرتا ہوں۔ سراقہ کہتے ہیں: میں سمجھ گیا کہ یہ وہی ہیں مگر میں نے ایسے ہی اس سے کہہ دیا کہ وہ نہیں ہوں گے بلکہ تو نے فلاں فلاں کو دیکھا ہو گا، جو ابھی ہمارے سامنے سے گئے ہیں، جو اپنا گم شدہ کوئی جانور تلاش کر رہے تھے۔ اس کے بعد میں تھوڑی دیر تک اس مجلس میں ٹھہرا رہا، پھر کھڑا ہوا اور اپنے گھر جا کر خادمہ سے کہا کہ وہ میرا گھوڑا لے کر باہر جائے، اور اسے ٹیلے کے پیچھے لے کر کھڑی رہے۔ پھر میں نے اپنا نیزہ سنبھالا اور مکان کی پچھلی جانب سے نکلا۔ نیزے کی نوک سے زمین پر خط لگا رہا تھا اور اس کا اوپر والا حصہ نیچے کیے ہوئے تھا۔ اس طرح میں اپنے گھوڑے کے پاس آیا اور اس پر سوار ہو گیا۔ پھر اسے ہوا کی طرح سرپٹ دوڑایا تاکہ مجھے جلدی پہنچائے۔ لیکن جب میں ان کے قریب ہو گیا تو گھوڑے نے ایسی ٹھوکر کھائی کہ میں گھوڑے سے گر گیا۔ پھر میں کھڑا ہوا اور ترکش کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اس میں سے تیر نکال کر فال لی کہ میں ان لوگوں کو نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں؟ تو وہ بات سامنے آئی جو مجھے نا گوار تھی ، مگر میں پھر بھی اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور تیروں کی فال کو تسلیم نہ کیا۔ میرا گھوڑا مجھے لے کر پھر اتنا قریب پہنچ گیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت سنی ۔ آپ کسی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے جبکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ادھر ادھر بہت دیکھ رہے تھے۔ اتنے میں میرے گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور خود بھی اس کے اوپر سے گر پڑا۔ پھر میں نے گھوڑے کو ڈانٹا تو بڑی مشکل سے اس کے پاؤں نکلے، مگر جب وہ سیدھا ہوا تو اس کے اگلے دونوں پاؤں سے دھویں کی طرح غبار نمودار ہوا جو آسمان تک پھیل گیا۔ میں نے پھر تیروں سے فال لی تو وہی نکلا جسے میں برا جانتا تھا۔ آخر میں نے انھیں امان کے ساتھ آواز دی تو وہ ٹھہر گئے۔ پھر میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس آیا اور جب مجھے ان تک پہنچنے میں رکاوٹیں پیش آئیں تو میرے دل میں خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ضرور بول بالا ہوگا، چنانچہ میں نے آپ کو بتایا کہ آپ کی قوم نے آپ کے متعلق سو اونٹ مقرر کر رکھے ہیں۔ پھر میں نے وہ باتیں بیان کیں جو وہ لوگ آپ کے ساتھ کرنا چاہتے تھے۔ بعد ازاں میں نے انھیں زاد راہ اور کچھ سامان پیش کیا، لیکن انھوں نے نہ تو میرے مال میں کمی کی اور نہ کچھ مانگا ہی، البتہ یہ ضرور کہا: ہمارا حال لوگوں سے پوشیدہ رکھو۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ میرے لیے ایک تحریر امن لکھ دیں۔ آپ نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا جس نے مجھے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر سند امان لکھ دی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے روانہ ہو گئے ۔ “

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوئے

حدیث 23:

«وعن أنس قال: لما هاجر رسول الله صلى الله عليه وسلم ، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يركب وأبو بكر رديفه، وكان أبو بكر يعرف فى الطريق لاختلافه إلى الشام ، وكان يمر بالقوم فيقولون: من هذا بين يديك يا أبا بكر؟ فيقول: هاد يهدينى . فلما دنوا من المدينة ، بعثا إلى القوم الذين أسلموا من الأنصار، إلى أبى أمامة واصحابه ، فخرجوا إليهما ، فقالوا: أدخلا آمنين مطاعين . فدخلا ، قال أنس: فما رأيت يوما قط انور ولا احسن من يوم دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم وابوبكر المدينة، وشهدت وفاته، فما رأيت يوما قط أظلم ولا أقبح من اليوم الذى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه»
مسند أحمد: 122/3- شیخ شعیب نے اسے صحیح علی شرط مسلم قرار دیا ہے۔
”اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تو آپ سوار تھے اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ آپ کے ردیف تھے، راستے میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پہچان لیا جاتا تھا کیونکہ وہ ملک شام آتے جاتے وقت اس راستہ کے لوگوں کے پاس سے گزرتے رہتے تھے، اس لیے لوگوں نے پوچھا: ابوبکر ! یہ آپ کے آگے والا آدمی کون ہے؟ وہ فرماتے: یہ میری رہنمائی کرنے والا رہبر ہے، جب وہ مدینہ کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری قبیلے کے مسلمان ہونے والے لوگوں کو اور ابو امامہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو پیغام بھیجا، وہ سب آگئے اور انھوں نے کہا: آپ دونوں امن واطمینان کے ساتھ داخل ہوں، سو وہ دونوں داخل ہو گئے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے کوئی دن نہیں دیکھا جو زیادہ منور اور حسن والا ہو اس دن کی بہ نسبت جس دن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مدینہ میں داخل ہوئے تھے۔ “

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیمار ہونے کا بیان

حدیث 24:

«وعن عائشة رضي الله عنها أنها قالت: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وعك أبو بكر وبلال ، قالت: فدخلت عليهما فقلت: يا أبت كيف تجدك؟ ويا بلال كيف تجدك؟ قالت: فكان أبو بكر إذا أخذته الحمى يقول: كل امرء مصبح فى أهله ،والموت أدنى من شراك نعله ، وكان بلال إذا أقلع عنه الحمى يرفع عقيرته ويقول: ألا ليت شعرى هل أبيتن ليلة،بواد وحولى إذخر وجليل،وهل أردن يوما مياه مجنة، وهل يبدون لي شامة وطفيل قالت عائشة: فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرته فقال: اللهم حبب إلينا المدينة كحبنا مكة أو أشد، وصححها وبارك لنا فى صاعها ومدها وانقل حماها فاجعلها بالجحفة»
صحيح البخاري، كتاب مناقب الأنصار ، رقم: 3926، السيرة النبوية لابن هشام، ص: 325 واللفظ له
”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ایسی حالت میں تشریف لائے کہ مدینہ اللہ تعالیٰ کی سرزمین میں سب سے زیادہ وبائی بخار میں مبتلا علاقہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی اس وبائی بخار کی بلا اور وبا میں مبتلا ہو گئے۔ لیکن اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے محفوظ رکھا۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور ان کے آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ اور بلال رضی اللہ عنہما بھی سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک گھر میں مبتلائے بخار ہوئے۔ میں ان کی عیادت کے لیے ان کے پاس گئی اور یہ واقعہ پردہ کے حکم سے پہلے کا ہے۔ تو میں نے دیکھا کہ ان لوگوں کی شدت تکلیف سے ایسی حالت تھی جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نزدیک ہوئی اور کہا: ابو جی! آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ تو انھوں نے کہا: ہر شخص اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے، حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے کہا: واللہ ! میرے ابا جان کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ پھر میں عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک ہوئی اور پوچھا: عامر تمھارا کیا حال ہے؟ تو انھوں نے کہا: بے شک میں نے موت کا مزا چکھنے سے پہلے ہی اسے پا لیا۔ بے شک بزدل کی موت اس کے اوپر سے ہوا کرتی ہے۔ ہر شخص اپنی قوت کے مطابق کوشش کرتا ہے جس طرح بیل اپنے چمڑے کو اپنے ہی سینگوں سے گرم کرتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے کہا: اللہ کی قسم! عامر کو پتا نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اور بلال رضی اللہ عنہ کی حالت یہ تھی کہ جب ان کا بخار اتر جاتا تو گھر کے صحن میں لیٹ جاتے۔ پھر اپنی دردناک آواز بلند کرتے اور کہتے: کاش! مجھے پتا چل جائے کیا میں اس وادی میں رات گزاروں گا جبکہ میرے اردگرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہوگی۔ کیا میں کسی دن مجنہ کے پانیوں تک پہنچوں گا؟ کیا میرے سامنے شامہ اور طفیل نامی پہاڑیاں ظاہر ہوں گی؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ان لوگوں کی جو باتیں سنی تھیں وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر دیں، اور میں نے کہا کہ یہ لوگ بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں اور بخار کی شدت سے جو کچھ کہتے ہیں اسے سمجھتے بھی نہیں، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ ! ہمارے لیے مدینہ بھی ویسا محبوب بنا دے جیسا تو نے مکہ کو ہمارے لیے محبوب بنایا تھا یا اس سے بھی زیادہ۔ اور ہمارے لیے اس کے مد اور صاع میں برکت عطا فرما۔ اور اس کی وبا کو مہیعہ یعنی حجفہ کی جانب منتقل کر دے۔ “

جنگ حنین میں ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ

حدیث 25:

«وعن جابر بن عبد الله قال: لما استقبلنا وادي حنين، قال: انحدرنا فى واد من اودية تهامة أجوف حطوط إنما ننحدر فيه انحدارا ، قال: وفي عماية الصبح ، وقد كان القوم كمنوا لنا فى شعابه وفي أحنائه ومضايقه ، قد اجمعوا وتهيروا واعدوا، قال: فوالله ما راعنا ونحن منحطون إلا الكتائب قد شدت علينا شدة رجل واحد ، وانهزم الناس راجعين، فاستمروا لا يلوى أحد منهم على أحد. وانحاز رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات اليمين، ثم قال: إلى أيها الناس ، هلموا إلى ، أنا رسول الله، أنا محمد بن عبد الله قال: فلا شيء، احتملت الإبل بعضها بعضا، فانطلق الناس ، إلا أن مع سول الله صلى الله عليه وسلم رهطا من المهاجرين والأنصار واهل بيته غير كثير ، ثبت معه صلى الله عليه وسلم أبو بكر وعمر ، ومن أهل بيته على طالب، والعباس بن عبد المطلب ، وابنه الفضل بن عباس، وابوسفيان بن الحارث، وربيعة بن الحارث، وايمن بن عبيد ، وهو ابن أم أيمن ، وأسامة بن زيد. قال: ورجل من هوازن على جمل له أحمر ، فى يده رأية له سوداء فى رأس رمح طويل له أمام الناس ، وهوازن خلفه، فإذا أدرك طعن برمحه ، وإذا فاته الناس رفع لمن وراءه فاتبعوه»
مسند أحمد: 376/3 ، السيرة النبوية لابن هشام، ص: 698- شیخ شعیب نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب ہم وادی حنین کے سامنے پہنچے تو ہمارا گزر تہامہ کی ایک ایسی وادی سے ہوا، جو کافی وسیع اور چوڑی تھی اور بلندی سے پستی کی طرف مائل تھی ، ہم اس میں اوپر سے نیچے کی طرف اترے جا رہے تھے، صبح کے جھٹ پٹے کا وقت تھا، دشمن ہمارے مقابلہ کے لیے وادی کے پہاڑوں کی گھاٹیوں میں مختلف مقامات اور تنگ جگہوں میں چھپے ہوئے تھے، وہ ہمارے مقابلہ کے لیے جمع تھے، اور پوری طرح تیار تھے۔ اللہ کی قسم ! ہم وادی میں نیچے کو اترتے جا رہے تھے کہ ان کے دستوں نے ہم پر یک بارگی حملہ کر دیا، ہمارے لوگ اس اچانک حملے سے بدحواس ہو کر بھاگ اٹھے، کوئی کسی کی طرف دیکھتا نہیں تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی راستے سے داہنی طرف ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! میری طرف آجاؤ ، میرے پاس آجاؤ، میں اللہ کا رسول ہوں، میں محمد بن عبد اللہ ہوں ۔ وقتی طور پر کسی نے جواب نہ دیا، اونٹ ایک دوسرے پر گرتے پڑتے بھاگ رہے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کچھ مہاجرین وانصار اور اہل بیت کے کچھ افراد رہ گئے۔ آپ کے ساتھ رہ جانے والوں میں سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما اور اہل بیت میں سے سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنا عباس بن عبد المطلب، ان کے فرزند سیدنا فضل بن عباس، سیدنا ابوسفیان بن حارث، سیدنا ربیعہ بن حارث، سیدہ ام ایمن کے بیٹے سیدنا ایمن بن عبید اور سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کے نام ہیں۔ بنو ہوازن کا ایک فرد جو سرخ اونٹ پر سوار تھا، اور اس کے ہاتھ میں طویل نیزے کے سرے پر سیاہ علم لہرا رہا تھا، وہ اپنے قبیلے کے آگے آگے تھا اور باقی سارا بنو ہوازن اس کی اقتدا میں چلا جا رہا تھا، جب راستے میں کوئی مسلمان ملتا وہ اس پر نیزے کا وار کر دیتا اور جب لوگ گزر جاتے تو اپنے جھنڈے کو اپنے پیچھے والوں کی رہنمائی کے لیے بلند کر دیتا اور لوگ اس کے پیچھے پیچھے چلتے۔ “

غزوہ تبوک میں ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ

حدیث 26:

«وعن عبد الله بن عباس: أنه قيل لعمر بن الخطاب: حدثنا من شأن ساعة العسرة . فقال عمر: خرجنا إلى تبوك فى قيظ شديد ، فنزلنا منزلا أصابنا فيه عطش حتى ظننا أن رقابنا ستنقطع حتى أن كان الرجل ليذهب يلتمس الماء فلا يرجع حتى يظن أن رقبته ستنقطع ، حتى أن الرجل ينحر بعيره . فيعصر فرته فيشربه ويجعل ما بقي على كبده . فقال أبو بكر الصديق: يا رسول الله ، إن الله قد عودك فى الدعاء خيرا ، فادع لنا . فقال: أتحب ذلك؟ قال: نعم . فرفع يديه فلم يرجعهما حتى قالت السماء ، فأظلمت ثم سكبت . فمدوا ما معهم . ثم ذهبنا ننظر فلم نجدها جازت العسكر . قال أبو بكر: فلو كان ماء الفرث إذا عصر نجسا ، لم يجز للمرء أن يجعله على كبده فينجس بعض بدنه ، وهو غير واجد لماء طاهر يغسل موضع النجس منه ، فأما شرب الماء النجس عند خوف التلف إن لم يشرب ذلك الماء فجائز إحياء النفس بشرب ماء نجس ، إذ الله عز وجل قد أباح عند الاضطرار إحياء النفس بأكل الميتة والدم ولحم الخنزير إذا خيف التلف إن لم يأكل ذلك . والميتة والدم ولحم الخنزير نجس محرم على المستغنى عنه ، مباح للمضطر إليه لإحياء النفس بأكله . فكذلك جائز للمضطر إلى الماء النجس أن يحيى نفسه بشرب ماء نجس إذا خاف التلف على نفسه بترك شربه فأما أن يجعل ماء نجسا على بعض بدنه والعلم محيط أنه إن لم يجعل ذلك الماء النجس على بدنه لم يخفف التلف على نفسه بترك شربه . فأما أن يجعل ماء نجسا على بعض بدنه والعلم محيط به أنه إن لم يجعل ذلك الماء النجس على بدنه لم يخف التلف على نفسه ولا كان فى إمساس ذلك الماء النجس بعض بدنه إحياء نفسه بذلك ولا عنده ماء طاهرا يغسل ما نجس من بدنه بذلك الماء فهذا غير جائر ولا واسع لأحد فعله»
صحيح ابن خزيمة، كتاب الوضوء ، رقم: 101 – ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب سے عرض کی گئی: ہمیں تنگی کے وقت کے متعلق بیان کریں، تو انہوں نے فرمایا: ہم شدید گرمی میں تبوک کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم نے ایک جگہ پر پڑاؤ ڈالا تو ہمیں پیاس لگی (جبکہ پانی موجود نہ تھا) یہاں تک کہ ہم خیال کرنے لگے کہ عنقریب ہماری گردنیں کٹ جائیں گی (یعنی پیاس سے موت آ جائے گی ) حتی کہ ایک شخص پانی کی تلاش میں جاتا، وہ (جلدی ) واپس نہ آتا خیال کیا جاتا کہ اس کی گردن کٹ گئی ہے۔ (پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ ) ایک شخص اپنے اونٹ کو ذبح کرتا، اس کی لید نچوڑتا اور (پانی ) پی لیتا اور جو باقی بچتا اسے اپنے پیٹ پر ڈال لیتا۔ (یہ حالات دیکھ کر ) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ کو خیر و بھلائی کی دعا کا عادی بنایا ہے (یعنی آپ بکثرت بھلائی کی دعا فرماتے ہیں ) تو ہمارے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس تنگی سے نجات عطا فرمائے ۔ آپ نے پوچھا: کیا تم اسے پسند کرتے ہو؟ (کہ میں تہمارے لیے دعا کروں ) انہوں نے عرض کی: جی ہاں۔ تو آپ صلى الله عليه وسلم نے (دعا کے لیے ) ہاتھ بلند کیے۔ ابھی آپ نے (دعا ختم کر کے ) ہاتھ لوٹائے نہیں تھے کہ آسمان پر بادل امڈ آئے ، اندھیرا چھا گیا اور موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ صحابہ کرام نے تمام برتن بھر لیے، پھر ہم نے (پڑاؤ والی جگہ سے) نکل کر دیکھا تو معسکر کے باہر بارش نہیں برسی تھی ۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر لید کا نچوڑا ہوا پانی ناپاک ہوتا تو کسی آدمی کے لیے جائز نہیں تھا کہ وہ اسے پیٹ پر ڈالتا، کیونکہ اس طرح تو اس کے بدن کا کچھ حصہ ناپاک ہو جاتا۔ اور اس کے پاس پاک پانی بھی نہیں ہے کہ اس سے نا پاک حصہ دھو لے۔ البتہ نجس پانی نہ پینے کی صورت میں جان تلفی کا خطرہ ہو تو زندہ رہنے کے لیے ناپاک پانی پینا جائز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ، مردار (کا گوشت ) خون اور خنزیر کا گوشت کھائے بغیر جان تلفی کا خطرہ ہو تو ان چیزوں کو مجبوری کی حالت میں جان بچانے کے لیے کھانا جائز رکھا ہے۔ حالانکہ مردار، خون اور خنزیر کا گوشت ناپاک ہے اور ان سے مستغنی شخص کے لیے حرام ہیں۔ مضطر شخص کے لیے جان بچانے کے لیے انہیں کھانا جائز ہے۔ اسی طرح موت کے خطرے کے وقت مضطر (مجبور ) شخص کے لیے ناپاک پانی پینا بھی جائز ہے۔ تاکہ اسے پی کر اپنی جان بچا سکے لیکن ناپاک پانی اپنے جسم کے کسی حصے پر لگانا جبکہ اسے یقینی علم ہو کہ اگر وہ اسے اپنے بدن پر نہ ڈالے تو اس کی جان کو کوئی خطرہ نہیں اور نہ اس پانی کو جسم کے کسی حصے پر لگانے سے اس کی زندگی کی بقا کا تعلق ہے، اور نہ اس کے پاس پاک پانی ہو کہ وہ اس سے بدن کے ناپاک ہونے والے حصے کو دھولے ، تو اس حالت میں ایسے پانی کا استعمال ناجائز ہے اور نہ یہ کام کرنے کی کسی شخص کے لیے کوئی گنجائش ہے ۔ “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کا لقب دیا

حدیث 27:

«وعن انس بن مالك رضي الله عنه قال: صعد النبى صلى الله عليه وسلم الي احد ومعه أبو بكر ، وعمر ، وعثمان ، فرجف بهم فضربه برجله ، قال: اثبت أحد ، فما عليك إلا نبي ، أو صديق، أو شهيدان»

”اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پر چڑھے۔ آپ کے ہمراہ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ پہاڑ لرزنے لگا اور کانپنے لگا، تو آپ نے اپنا پاؤں مار کر اسے فرمایا: اے احد ! ٹھہر جا، کیونکہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ “

ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دعوت کھائی

حدیث 28:

«وعن محمود انه سمع عتبان بن مالك الانصاري رضي الله عنه، وكان ممن شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: كنت اصلي لقومي ببني سالم وكان يحول بيني وبينهم واد، إذا جاءت الامطار فيشق على اجتيازه قبل مسجدهم، فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت له: إني انكرت بصري وإن الوادي الذى بيني وبين قومي يسيل، إذا جاءت الامطار فيشق على اجتيازه فوددت انك تاتي فتصلي من بيتي مكانا اتخذه مصلى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سافعل، فغدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر رضى الله عنه بعد ما اشتد النهار فاستاذن رسول الله صلى الله عليه وسلم فاذنت له، فلم يجلس حتى قال: اين تحب ان اصلي من بيتك؟ فاشرت له إلى المكان الذى احب ان اصلي فيه، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبر وصففنا وراءه، فصلى ركعتين ثم سلم وسلمنا حين سلم، فحبسته على خزير يصنع له، فسمع اهل الدار رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بيتي، فثاب رجال منهم حتى كثر الرجال فى البيت، فقال رجل منهم: ما فعل مالك لا اراه؟ فقال رجل منهم: ذاك منافق لا يحب الله ورسوله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تقل ذاك الا تراه قال لا إله إلا الله يبتغي بذلك وجه الله، فقال: الله ورسوله اعلم، اما نحن فوالله لا نرى وده ولا حديثه إلا إلى المنافقين، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فإن الله قد حرم على النار من قال لا إله إلا الله يبتغي بذلك وجه الله، قال محمود: فحدثتها قوما فيهم ابو ايوب صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم فى غزوته التى توفي فيها، ويزيد بن معاوية عليهم بارض الروم فانكرها على ابو ايوب , قال: والله ما اظن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ما قلت قط، فكبر ذلك على فجعلت لله على إن سلمني حتى اقفل من غزوتي ان اسال عنها عتبان بن مالك رضى الله عنه إن وجدته حيا فى مسجد قومه، فقفلت فاهللت بحجة او بعمرة ثم سرت حتى قدمت المدينة فاتيت بني سالم، فإذا عتبان شيخ اعمى يصلي لقومه، فلما سلم من الصلاة سلمت عليه واخبرته من انا ثم سالته عن ذلك الحديث، فحدثنيه كما حدثنيه اول مرة»
صحيح البخاري، كتاب التطوع، رقم: 1186
”اور سیدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے سیدنا عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا، اور وہ ان لوگوں میں سے تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں قبیلہ بنو سالم میں اپنی قوم کو نماز پڑھایا کرتا تھا۔ میرے اور اس قبیلے کے درمیان ایک وادی حائل تھی۔ جب بارشیں ہوتیں تو اسے عبور کر کے ان کی مسجد تک پہنچنا میرے لیے دشوار ہو جاتا ، اس لیے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری نظر کمزور ہو چکی ہے اور یہ وادی جو میرے اور میری قوم کے درمیان بہتی ہے، جب بارشیں ہوں تو اسے عبور کرنا میرے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ تشریف لائیں اور میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھیں تاکہ میں اسے (ہمیشہ کے لیے) جائے نماز بنا لوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں عنقریب آؤں گا۔ چنانچہ ایک دن جب سورج چڑھ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میرے پاس تشریف لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت طلب فرمائی۔ میں نے آپ کو اجازت دی تو آپ نے بیٹھنے سے پہلے فرمایا: تم اپنے گھر کے کس حصے میں ہمارا نماز پڑھنا پسند کرتے ہو؟ میں نے آپ کے لیے ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا جہاں میں پسند کرتا تھا کہ وہاں نماز ادا کی جائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر «الله اكبر» کہا۔ ہم نے بھی آپ کے پیچھے صفیں درست کر لیں۔ آپ نے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ ہم نے بھی آپ کے سلام پھیرنے پر سلام پھیر دیا۔ پھر میں نے موٹے آٹے اور گوشت سے تیار کردہ کھانا پیش کیا جو آپ ہی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ جب اہل محلہ کو پتا چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرما ہیں تو وہ پے در پے اکٹھے ہونا شروع ہو گئے حتی کہ بہت سے لوگ میرے گھر میں جمع ہو گئے۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا: مالک (ابن ذخشن ) کو کیا ہوا؟ وہ ہمیں یہاں نظر نہیں آ رہا۔ ان میں سے ایک دوسرے شخص نے کہا: وہ منافق ہے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں رکھتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا مت کہو ۔ کیا تم اسے نہیں دیکھتے ہو کہ وہ «لا إله إلا الله» کہتا ہے اور اس کا کلمہ پڑھنے کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی ہے۔ اس شخص نے کہا: (ویسے تو ) اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں، لیکن اللہ کی قسم! ہم تو اس کی دوستی اور کلام و سلام منافقین کے ساتھ ہی دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ نے اس شخص کو جہنم پر حرام کر دیا ہے جو اللہ کی رضا کے لیے کلمہ طیبہ پڑھتا ہے۔ “

ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسلام کی خاطر بہت مشکل وقت گزارا

حدیث 29:

«وعن أبى هريرة قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم أو ليلة فإذا هو بأبي بكر وعمر فقال: ما أخرجكما من بيوتكما هذه الساعة. قالا: الجوع يا رسول الله! قال: وأنا والذي نفسى بيده لاخرجني الذى اخرجكما قوموا . فقاموا معه فأتى رجلا من الأنصار فإذا هو ليس فى بيته فلما رأته المرأة قالت: مرحبا وأهلا فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: أين فلان قالت: ذهب يستعذب لنا من الماء إذ جاء الأنصاري فنظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وصاحبيه ثم قال: الحمد لله ما احد اليوم أكرم أضيافا مني قال: فانطلق فجآتهم بعدق فيه بسر وتمر ورطب فقال: كلوا من هذه واخذ المدية فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: إياك والحلوب فذبح لهم فأكلوا من الشاة ومن ذلك العذق وشربوا فلما ان شبعوا ورووا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لابي بكر وعمر والذى نفسي بيده لتسألن عن هذا النعيم يوم القيامة اخرجكم من بيوتكم الجوع ثم لم ترجعوا حتى أصابكم هذا النعيم»
صحیح مسلم، کتاب الأشربة، رقم: 5313
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ دن یا رات کا وقت تھا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) باہر تشریف لے گئے ، دیکھا کہ سیدنا ابوبکر و عم رضی اللہ عنہما بھی وہاں موجود ہیں۔ آپ نے پوچھا: تمھیں تمھارے گھروں سے اس وقت کس چیز نے نکالا؟ انھوں نے جواب دیا، اے اللہ کے رسول ! بھوک نے۔ آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے بھی وہی چیز (گھر سے) باہر لے آئی ہے، جس نے تمھیں نکالا ہے، (میرے ساتھ ) چلو ۔ وہ دونوں آپ کے ساتھ چل پڑے۔ آپ ایک انصاری صحابی کے گھر آئے لیکن وہ صحابی گھر میں موجود نہ تھا، اس کی بیوی نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہا ، «مرحبا ، وأهلا» رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اس عورت سے پوچھا: فلاں شخص (یعنی تمھارا خاوند ) کہاں ہے؟ اس نے کہا: وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گئے ہیں۔ اتنے میں وہ انصاری صحابی بھی آ گیا۔ اس نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں کو دیکھا تو کہا: «الحمد لله» ، آج کسی کے پاس اتنے عزت والے مہمان نہیں ہیں، جتنے میرے پاس ہیں، پھر وہ گیا اور کھجوروں کا ایک خوشہ لے کر آیا، جس میں نیم پختہ، سوکھی اور تازہ کھجوریں تھیں اور کہنے لگا: اس میں سے کھائیے۔ پھر اس نے چھری پکڑی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: دودھ والی بکری ذبح نہ کرنا ۔ الغرض اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے لیے ایک بکری ذبح کی (اور اسے پکایا) تو سب نے اس کا گوشت کھایا، کھجوریں کھا ئیں اور (میٹھا) پانی پیا۔ جب سب نے سیر ہو کر کھانا کھا لیا اور پانی پی لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ضرور بالضرور تم سے قیامت والے دن ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا، تم بھوک کی وجہ سے اپنے گھروں سے نکلے تھے تو تمھارے واپس لوٹنے سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ نے تمھیں یہ نعمتیں عطا کیں۔ “

ابوبکر رضی اللہ عنہ نیکیوں میں دوسروں پر سبقت لے جاتے

حدیث 30:

«وعن ابن مسعود ، ابن مسعود، قال: دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم المسجد ، وهو بين أبى بكر وعمر ، وإذا ابن مسعود يصلى ، وإذا هو يقرأ النساء، فانتهى إلى رأس المئة، فجعل ابن مسعود يدعو ، وهو قائم يصلي ، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: إسأل تعطه ، إسأل تعطه، ثم قال: من سره أن يقرأ القرآن عضا كما أنزل، فليقرأه بقراءة ابن أم عبد ، فلما أصبح غدا إليه أبو بكر رضي الله عنه ليبشره، وقال له: ما سألت الله البارحة؟ قال: قلت: اللهم إني استلك إيمانا لا يرتد، ونعيما لا ينفد ، ومرافقة محمد فى أعلى جنة الخلد ثم جاء عمر رضي الله عنه ، فقيل له: إن أبا بكر قد سبقك ، قال: يرحم الله آبابكر ، ما سابقته إلى خير قط ، إلا سبقني إليه»
مسند أحمد: 454/1۔ شیخ شعیب نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے ، اس حال میں کہ آپ سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان میں تھے، دیکھا کہ (وہ) ابن مسعود رضی اللہ عنہ نماز پڑھ رہے ہیں اور سورۃ النساء کی قراءت کر رہے ہیں۔ آخر سو آیات کے بعد انھوں نے قراءت ختم کی۔ پھر ابن مسعود حالت نماز میں کھڑے کھڑے دعا کرنے لگے، تو نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تم (اللہ سے) مانگو، تمھیں دیا جائے گا، مانگو، تمھیں دیا جائے گا۔ پھر فرمایا: جو شخص قرآن مجید کو اس طرح عمدگی سے پڑھنا چاہتا ہے جس طرح وہ نازل ہوا تھا تو اسے چاہیے کہ ام عبد کے بیٹے (عبد اللہ بن مسعود ) کی قراءت کے مطابق پڑھے۔ پھر جب ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے صبح کی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ صبح سویرے ان کے پاس آئے تاکہ انھیں خوش خبری دیں۔ اور انھوں نے ان (ابن مسعود) سے کہا: آپ نے گزشتہ رات اللہ تعالیٰ سے کیا مانگا ہے؟ سیدنا ابن مسعود فرماتے ہیں: میں نے کہا (کہ میں نے یہ دعا مانگی تھی ): اے اللہ! میں تجھ سے ایسا ایمان مانگتا ہوں جو (مجھ سے ) واپس نہ جائے ، ایسی نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو کبھی زائل نہ ہوں اور میں تجھ سے ہمیشہ والی جنت کے اعلیٰ مقام میں تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چاہتا ہوں ۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بشارت دینے کے لیے آئے ، تو انھیں کہا گیا: بے شک ابوبکر آپ سے سبقت لے جا چکے ہیں۔ انھوں نے کہا: اللہ ابو بکر پر رحم کرے، میں نے جس نیک کام میں بھی ان کا مقابلہ کیا تو وہ مجھ سے سبقت لے گئے۔ “

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مودّب

حدیث 31:

«وعن سهل بن سعد الساعدي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ذهب إلى بني عمرو بن عوف ليصلح بينهم، فحانت الصلاة فجاء المؤذن إلى ابي بكر، فقال: اتصلي للناس فاقيم، قال: نعم، فصلى ابو بكر فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس فى الصلاة فتخلص حتى وقف فى الصف، فصفق الناس، وكان ابو بكر لا يلتفت فى صلاته، فلما اكثر الناس التصفيق التفت فراى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ان امكث مكانك، فرفع ابو بكر رضى الله عنه يديه فحمد الله على ما امره به رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك، ثم استاخر ابو بكر حتى استوى فى الصف، وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى، فلما انصرف، قال: يا ابا بكر، ما منعك ان تثبت إذ امرتك، فقال ابو بكر: ما كان لابن ابي قحافة ان يصلي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لي رايتكم اكثرتم التصفيق من رابه شيء فى صلاته فليسبح، فإنه إذا سبح التفت إليه، وإنما التصفيق للنساء»
صحيح البخاري، كتاب الأذان، رقم: 684
”اور سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرو بن عوف قبیلے میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے ۔ جب نماز کا وقت ہوا تو مؤذن نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہا: اگر آپ نماز پڑھائیں تو میں اقامت کہہ دوں؟ انھوں نے فرمایا: ہاں۔ اس کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے جبکہ لوگ نماز میں مصروف تھے۔ آپ صفوں میں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچے۔ اس پر لوگوں نے تالیاں پیٹنا شروع کر دیں، لیکن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے عادی نہ تھے۔ جب لوگوں نے مسلسل تالیاں بجائیں تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ متوجہ ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی نظر پڑی (وہ پیچھے ہٹنے لگے ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ تم اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔ اس پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں امامت کا اعزاز بخشا ہے، تاہم وہ پیچھے ہٹ کر لوگوں کی صف میں شامل ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ فراغت کے بعد آپ نے فرمایا: اے ابوبکر! جب میں نے تمھیں حکم دیا تھا تو تم کھڑے کیوں نہ رہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے نماز پڑھائے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: کیا وجہ ہے کہ میں نے تمھیں بکثرت تالیاں بجاتے ہوئے دیکھا؟ (دیکھو!) جب کسی کو دوران نماز میں کوئی بات پیش آجائے تو سبحان اللہ کہنا چاہیے کیونکہ جب وہ سبحان اللہ کہے گا تو اس کی طرف توجہ دی جائے گی اور تالی بجانا تو صرف عورتوں کے لیے ہے۔ “

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز میں رفع الیدین کرتے

حدیث 32:

«وقال البيهقى اخبرنا أبو عبد الله الحافظ ثنا أبو عبد الله الصفار املاء من اصل كتابه قال: قال: ابو إسماعيل محمد بن إسماعيل السلمى: صليت خلف أبى النعمان محمد بن الفضل فرفع يديه حين افتتح الصلوة ، وحين ركع ، وحين رفع رأسه من الركوع ، فسألته عن ذلك فقال: صليت خلف أيوب السختياني فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ، وإذا ركع ، وإذا رفع رأسه من الركوع ، فسألته فقال: رأيت عطاء بن أبى رباح يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ، وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع ، فسألته فقال: صليت خلف عبد الله بن الزبير فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ، وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع فسألته فقال: صليت خلف أبى بكر الصديق رضى الله عنه فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ، وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع ، وقال أبو بكر صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رأسه من الركوع»
السنن الكبرى للبيهقي 73/2 ، التلخيص الحبير: 219/1، المهذب في اختصار السنن الكبير للذهبي: 49/2۔ امام بیہقی نے اس کے راویوں کو ثقہ قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی اور ابن حجر نے ان کی موافقت فرمائی ہے۔
”اور امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام حافظ ابوعبداللہ الحاکم نے ہمیں حدیث سنائی، کہا کہ ہمیں ابو عبد اللہ محمد بن الصفار الزاہد نے اپنی کتاب میں سے حدیث بیان کی کہ ابو اسماعیل محمد بن اسماعیل سلمی کہتے ہیں ، کہ میں نے ابوالنعمان محمد بن فضل کے پیچھے نماز پڑھی، تو انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے ، اور رکوع سے اٹھتے وقت ، اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے ، پھر ان سے اس بارے میں پوچھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حماد بن زید کے پیچھے نماز پڑھی، انھوں نے نماز پڑھی تو نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، رکوع سے سر اُٹھاتے وقت، اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھایا ، میں نے اس بارے میں ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا، میں نے عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ (استاد ابو حنیفہ رحمہ اللہ ) تابعی کو دیکھا کہ انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھایا۔ میں نے پوچھا، تو انہوں نے کہا میں سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ بھی نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اُٹھاتے تھے۔ میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا، میں نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ بھی نماز شروع کرتے وقت اور رکوع کرتے وقت رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھایا کرتے تھے، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی برحق ، رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت ، اور رکوع کرتے وقت ، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر اُٹھاتے تھے ۔“

رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نصیحت

حدیث 33:

«وعن أبى هريرة: أن رجلا شتم ابا بكر والنبي صلى الله عليه وسلم جالس ، فجعل النبى صلى الله عليه وسلم يعجب ويتبسم، فلما أكثر رد عليه بعض قوله ، فغضب النبى صلى الله عليه وسلم وقام ، فلحقه أبو بكر ، فقال: يا رسول الله ، كان يشتمني وأنت جالس ، فلما رددت عليه بعض قوله غضبت وقمت قال: إنه كان معك ملك يرد عنك ، فلما رددت عليه بعض قوله، وقع الشيطان ، فلم أكن لا قعد مع الشيطان . ثم قال: يا أبا بكر ، ثلاث كلهن حق ما من عبد ظلم بمظلمة فيغضى عنها الله عزوجل ، إلا اعز الله بها نصرة ، وما فتح رجل باب عطية يريد بها صلة ، إلا زاده الله بها كثرة، وما فتح رجل باب مسألة يريد بها كثرة ، إلا زاده الله عزوجل بها قلة»
مسند أحمد: 436/2، مسند الشهاب، رقم: 820۔ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو گالی دی، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، آپ تعجب کر رہے تھے اور مسکرا رہے تھے۔ جب اس نے زیادہ بدتمیزی کی تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس کی کسی بات کا جواب دے دیا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اٹھ کر آپ کے پاس گئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول ! وہ مجھے گالیاں دے رہا تھا جبکہ آپ بھی تشریف فرما تھے لیکن جب میں نے اس کی کسی بات کا جواب دیا تو آپ ناراض ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: بے شک تیرے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو اسے (تیری طرف سے ) جواب دے رہا تھا لیکن جب تو نے اسے جواب دیا تو شیطان آ گیا۔ سو میں ایسا نہیں ہوں کہ شیطان کے ساتھ بیٹھوں ۔ اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ابوبکر! یہ چیزیں برحق ہیں، انھیں سیکھ لو: جس شخص پر زیادتی کی جائے پھر وہ اس سے چشم پوشی کرے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اسے قوت ونصرت سے نوازتا ہے، اور جو شخص تصدیق اور صلہ رحمی کرتے ہوئے عطیہ کا دروازہ کھول دے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اسے زیادہ عطا فرماتا ہے، اور جو شخص کثرت (مال) کی خاطر دست سوال دراز کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے مزید قلت فرما دیتا ہے۔ “

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خاندان کی برکت

حدیث 34:

«عن عائشة رضي الله عنها , انها قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بعض اسفاره حتى إذا كنا بالبيداء او بذات الجيش انقطع عقد لي فاقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على التماسه، واقام الناس معه وليسوا على ماء وليس معهم ماء فاتى الناس ابا بكر، فقالوا: الا ترى ما صنعت عائشة اقامت برسول الله صلى الله عليه وسلم وبالناس معه , وليسوا على ماء وليس معهم ماء , فجاء ابو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم واضع راسه على فخذي قد نام، فقال: حبست رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس وليسوا على ماء وليس معهم ماء، قالت: فعاتبني، وقال: ما شاء الله ان يقول: وجعل يطعنني بيده فى خاصرتي فلا يمنعني من التحرك إلا مكان رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي , فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى اصبح على غير ماء , فانزل الله آية التيمم , فتيمموا، فقال: اسيد بن الحضير ما هي باول بركتكم يا آل ابي بكر، فقالت عائشة: فبعثنا البعير الذى كنت عليه فوجدنا العقد تحته»
صحيح البخاري، كتاب فضائل أصحاب النبي ، رقم: 3672
”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے ۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ہار گم ہو گیا۔ اس کی تلاش کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ٹھہرے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ رک گئے جبکہ وہاں کوئی پانی (کا چشمہ) نہیں تھا اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس ہی پانی تھا۔ لوگ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہنے لگے: آپ نہیں دیکھتے کہ عائشہ رضی اللہ عنہما نے کیا کام کر دکھایا ہے؟ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیگر لوگوں سمیت ٹھہرا رکھا ہے۔ یہاں نہ پانی کا چشمہ ہے اور نہ خود ان کے پاس پانی ہے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر اپنا سر مبارک رکھے نیند فرما رہے تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آتے ہی فرمایا: تم نے خواہ مخواہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے لوگوں کو روک رکھا ہے جبکہ نہ تو وہ کسی چشمے پر ہیں اور نہ خود ان کے پاس پانی ہے؟ انھوں نے مجھے خوب ڈانٹا اور جو کچھ اللہ نے چاہا انھوں نے مجھے سرزنش کرتے ہوئے کہا، پھر اپنے ہاتھ سے میری کمر میں کچوکا لگایا اور میں حرکت نہ کر سکتی تھی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر سر رکھ کر محو استراحت تھے۔ بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک سوئے رہے ۔ اٹھے تو پانی نہیں تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمائی۔ پھر سب لوگوں نے تیبم کر کے نماز پڑھی۔ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے خاندان ابوبکر! یہ تمھاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جس اونٹ پر میں سوار تھی، جب ہم نے اسے اٹھایا تو اس کے نیچے سے ہار مل گیا۔ “

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جنگ اُحد میں شریک ہوئے

حدیث 35:

«وعن عائشة رضي الله عنها ﴿الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ﴾ قالت لعروة يا ابن أختي، كان أبواك منهم: الزبير وأبو بكر لما أصاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أصاب يوم أحد وانصرف عنه المشركون خاف أن يرجعوا، قال: من يذهب فى إثرهم؟ فانتدب منهم سبعون رجلا قال كان فيهم أبو بكر والزبير»
صحيح البخاري، كتاب المغازي، رقم: 4077
”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس آیت ﴿الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ﴾ [آل عمران: 172] کے متعلق (اپنے بھانجے ) عروہ سے فرمایا: میرے بھانجے ! تمھارے والد زبیر رضی اللہ عنہ اور نانا ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی انھی لوگوں میں سے تھے، جنہوں نے زخمی ہونے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہا تھا۔ ہوا یہ کہ احد کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچی اور مشرکین واپس لوٹ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خدشہ ہوا کہ کہیں وہ دوبارہ واپس نہ آجائیں، اس لیے آپ نے فرمایا: ان کا پیچھا کون کرے گا؟ تو آپ کی اس بات پر ستر صحابہ نے لبیک کہا ، ان میں ابوبکر اور زبیر رضی اللہ عنہما بھی تھے ۔ “

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے امام بنے

حدیث 36:

«عن عائشة، قالت: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء بلال يوذنه بالصلاة، فقال: مروا ابا بكر ان يصلي بالناس، فقلت: يا رسول الله، إن ابا بكر رجل اسيف وإنه متى ما يقم مقامك لا يسمع الناس فلو امرت عمر، فقال: مروا ابا بكر يصلي بالناس، فقلت لحفصة: قولي له إن ابا بكر رجل اسيف وإنه متى يقم مقامك لا يسمع الناس فلو امرت عمر، قال: إنكن لانتن صواحب يوسف مروا ابا بكر ان يصلي بالناس، فلما دخل فى الصلاة وجد رسول الله صلى الله عليه وسلم فى نفسه خفة، فقام يهادى بين رجلين ورجلاه يخطان فى الارض حتى دخل المسجد، فلما سمع ابو بكر حسه ذهب ابو بكر يتاخر فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى جلس عن يسار ابي بكر، فكان ابو بكر يصلي قائما وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قاعدا يقتدي ابو بكر بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس مقتدون بصلاة ابي بكر رضي الله عنه»
صحيح البخاري، كتاب الأذان، رقم: 713
”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیمار ہو گئے تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی خبر دینے آئے ۔ آپ نے فرمایا: ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول ! سیدنا ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں، اور جب وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے لوگوں کو (شدت گریہ کی وجہ سے ) آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر آپ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہتے تو بہتر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ پھر میں نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم کہو کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی ہیں اور اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہیں تو بہتر ہو گا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ صواحب یوسف (یوسف علیہ السلام والیوں) سے کم نہیں ہو، ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھانی شروع کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور دو آدمیوں کے سہارے چل پڑے۔ آپ کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹتے جاتے تھے تا آنکہ آپ مسجد میں داخل ہوئے۔ جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی آہٹ پائی تو پیچھے ہٹنے لگے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے روکا ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بائیں طرف بیٹھ گئے تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر رہے تھے ۔ “

حدیث 37:

«وعن أنس بن مالك رضى الله عنه أن المسلمين بينا هم فى صلاة الفجر من يوم الاثنين، وأبو بكر يصلى لهم ، لم يفجأهم إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم قد كشف ستر حجرة عائشة ، فنظر إليهم وهم فى صفوف الصلاة ، ثم تبسم يضحك ، فنكص أبو بكر على عقبيه ليصل الصف ، وظن أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد أن يخرج إلى الصلاة، فقال أنس: وهم المسلمون أن يفتتنوا فى صلاتهم فرحا برسول الله صلى الله عليه وسلم ، فأشار إليهم بيده رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أتموا صلاتكم ثم دخل الحجرة وأرخى الستر»
صحيح البخاري، كتاب المغازي، رقم: 4448
”اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: پیر کے دن مسلمان فجر کی نماز پڑھ رہے تھے، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ انھیں نماز پڑھا رہے تھے کہ اچانک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نظر آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کا پردہ اٹھا کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھ رہے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نماز میں صف باندھے کھڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے ہوئے ہنس پڑے تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹنا شروع کیا تاکہ صف میں شامل ہو جائیں۔ انھوں نے سمجھا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قریب تھا کہ مسلمان اس خوشی کی وجہ سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر انھیں ہوئی تھی، اپنی نماز توڑ ہی لیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ نماز پوری کرلو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ لٹکا لیا۔“

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیا

حدیث 38:

«وعن عائشة: أن أبا بكر دخل على النبى صلى الله عليه وسلم بعد وفاته ، فوضع فمه بين عينيه وضع يديه على صدغيه، وقال: وانبياه ، واخليلاه واصفياه»
مسند أحمد: 31/6 – شیخ شعیب نے اسے حسن کہا ہے۔
”اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے ۔ انھوں نے اپنا منہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں کے درمیان رکھا اور اپنے ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کنپٹیوں پر رکھے اور کہنے لگے: ہائے میرے نبی ! ہائے میرے خلیل ! میرے دوست !“

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان

حدیث 39:

«وعن محمد بن جبير بن مطعم عن أبيه قال: أتت النبى صلى الله عليه وسلم امرأة فكلمته فى شيء، فأمرها أن ترجع إليه ، قالت: يا رسول الله أرأيت إن جئت . ولم أجدك كأنها تريد الموت قال: إن لم تجديني فأتى أبا بكر»
صحيح البخاري، كتاب الأحكام، رقم: 7220
”اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (اب کی دفعہ لوٹ جانے اور ) پھر کبھی دوبارہ آنے کا حکم دیا۔ اس نے کہا: اگر میں آؤں اور آپ نہ ملیں تو؟ گویا وہ کہنا چاہتی تھی کہ اگر آپ وفات پا جائیں تو (کس سے ملوں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں نہ مل سکوں تو ابو بکر (رضی اللہ عنہ ) کے پاس چلی جانا۔ “

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اتباع

حدیث 40:

«وعن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقتدوا بالذين من بعدي أبى بكر وعمر»
سنن ترمذی ، کتاب المناقب، رقم: 3662، سنن ابن ماجہ، رقم: 97 – محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میرے بعد ابوبکر اور عمر کی اتباع کرنا ۔“
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے