فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

نماز کے بعد اجتماعی دعا
فرض نمازوں کے بعد امام اور مقتدیوں کی اجتماعی دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے قطعی طور پر ثابت نہیں یہی وجہ ہے کہ بعض آئمہ نے اسے بدعت بھی قرار دیا ہے۔
(ابن تیمیہؒ ) اس میں دو چیزیں ہیں:
➊ نمازی کا دعا کرنا جیسا کہ نمازی دعائے استخارہ وغیرہ کرتا ہے خواہ وہ امام ہو یا مقتدی۔
➋ امام اور مقتدیوں کا مل کر دعا کرنا۔
یہ دوسری چیز بلا شبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نمازوں کے بعد نہیں اختیار کی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اذکار کیا کرتے تھے اور جو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ اگر اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجتماعی دعا کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور نقل فرماتے ، پھر تابعین ، پھر دیگر علماء ، (اسے ضرور نقل کرتے ) جیسا کہ انہوں نے اس سے کم درجہ کی اشیاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہیں ۔
[الفتاوى الكبرى: 158/1]
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے واضح طور پر اس عمل کو بدعت بھی کہا ہے۔
[مجموع الفتاوى: 519/22]
(ابن قیمؒ) (فرض نمازوں کے بعد ) اجتماعی دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قطعا طریقہ نہیں تھا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحیح یا حسن سند کے ساتھ منقول ہے ۔
[زاد المعاد: 257/1]
(مالکؒ) امام ابن بطالؒ نے امام مالکؒ سے نقل کیا ہے کہ یہ عمل بدعت ہے ۔
[فتح البارى: 326/2]
(شاطبیؒ) (نماز کے بعد ) دائمی طور پر اجتماعی دعا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل نہیں ۔
[الاعتصام: 352/1]
(سعودی مجلس افتاء) ہمیں کسی ایسی دلیل کا علم نہیں جو اس عمل کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہو۔
[الفتاوى الإسلامية: 290/1]
(انور شاہ کشمیریؒ) دعا کی اجتماعی صورت جس کا آج کل رواج ہے (شریعت سے ) ثابت نہیں ۔
[العرف الشذى: ص/86]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے