سوال: عورت کے لیے مانع حمل گولیاں استعمال کرنا کب جائز اور کب ناجائز ہے؟ اور کیا تحدید نسل کے جواز پر کوئی صریح نص یا فقہی رائے موجود ہے اور کیا کسی مسلمان کے لیے مجامعت کے دوران بلا ضرورت عزل کرنا جائز ہے؟
جواب: مسلمانوں کے لیے لائق یہ ہے کہ وہ جتنی طاقت رکھتے ہیں افزائش نسل اور تکثیر امت کریں، کیونکہ افزائش نسل وہ عمل ہے جس کے کرنے کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں توجہ دلائی ہے:
«تزوجوا لودود الولود فإني مكاثر بكم» [صحيح سنن أبى داود 158/3]
خوب محبت کرنے والی اور کثرت سے بچے جننے والی عورتوں سے شادی کرو، میں تمھاری کثرت سے (قیامت کے دن دیگر امتوں پر) اپنی کشت و غلبہ کا اظہار کروں گا۔“
اور نیز اس لیے کہ افزائش نسل تکثیر امت ہے اور امت کی کثرت اس کی عزت و عظمت کا سبب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر تکثیر امت کا احسان جتلاتے ہوئے فرمایا:
«وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا» [17-الإسراء: 6]
”اور تمہیں تعداد میں زیادہ کر دیا۔“
اور شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
«وَاذْكُرُوا إِذْ كُنْتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ» [7-الأعراف: 86]
”اور یاد کرو جب تم بہت کم تھے تو اس نے تمہیں زیادہ کر دیا۔“
بلاشبہ امت کی کثرت اس کی عزت و عظمت اور قوت و مضبوطی کا سبب ہے، اس حقیقیت کا انکار کوئی بھی نہیں کر سکتا، سوائے ان بدگمانی کرنے والوں کے جن کا تصور اس کے برعکس ہے۔ وہ یہ بدگمانی کرتے ہیں کہ امت کی کثرت اس کے فقر و فاقہ کا سبب بنے گی حالانکہ بلاشبہ جب امت تعداد میں زیادہ ہو گی، اللہ عزوجل پر اعتماد و تو کل کرے گی اور اس کے اس وعدے پر یقین کرے گی:
«وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا» [11-هود: 6]
اور زمین میں کوئی چلنے والا (جاندار) نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی پر ہے۔“
تو اللہ تعالیٰ اس کے معاملے میں آسانی پیدا کر دے گا اور اس کو اپنے فضل سے غنی و بے پرواہ کر دے گا، سو اس بنا پر مذکورہ سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے۔
لہٰذا عورت کے لیے دو شرطوں کے ساتھ مانع حمل گولیوں کا استعمال جائز ہے:
ا۔ پہلی شرط: یہ کہ عورت کو واقعتا اس کی ضرورت ہو، مثلاًً وہ ایسی مریضہ ہو کہ ہر سال حمل کو برداشت کرنے کی متحمل نہ ہو، یا اس کا جسم انتہائی کمزور اور لاغر ہو اور اس قسم کے دیگر موانع ہوں جو اس کے لیے ہر سال حاملہ ہونے میں ضرر رساں ہوں۔
۲۔ دوسری شرط: یہ کہ خاوند اس کو مانع حمل گولیوں کے استعمال کی اجازت دے کیونکہ خاوند کو اولاد کے حصول اور عدم حصول کا حق حاصل ہے۔
اسی طرح ان گولیوں کے استعمال میں ڈاکٹر سے مشاورت کرنا بھی ضروری ہے کہ کیا ان گولیوں کا استعمال نقصان دہ ہے یا نقصان دہ نہیں ہے؟ پس جب مذکورہ دونوں شرطیں پوری ہو جائیں تو ان گولیوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن ان گولیوں کو مسلسل استعمال نہ کیا جائے یعنی گولیوں کو اس انداز میں استعمال نہ کیا جائے کہ وہ مستقل طور پر حمل کو روک دیں کیونکہ ایسا کرنا نسل کشی کا باعث بنے گا۔
رہا سوال کا دوسرا حصہ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ تہدید بد نسل ایک ایسا امر ہے جو فی الواقع ممکن نہیں ہے، کیونکہ حمل ٹھہرنا یا نہ ٹھہرنا ہر د ل اللہ عز وجل کے ہاتھ میں ہیں۔ پھر بلاشبہ جب انسان اپنی اولاد کو ایک معین تعداد کے ساتھ محدود کرے گا تو عین ممکن ہے کہ وہ معین تعداد کسی آفت کے سبب ایک ہی سال میں ہلاک ہو جائے اور وہ بے اولاد اور بے نسل باقی رہ جائے۔ نیز تحدید نسل کا شریعت اسلامیہ میں کوئی تصور نہیں ہے، لیکن ضرورت کے تحت منع حمل کو محدود پیمانے پر اختیار کیا جا سکتا ہے جیسا کہ پہلے سوال کے جواب میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ لیکن ضرورت کے تحت منع حمل کو محدود کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ ابھی سوال کے پہلے حصے کے جواب میں گزرا ہے۔
رہا سوال کا تیسرا حصہ یعنی دوران جماع بلا سبب عزل کرنا تو اہل علم کے اقوال میں سے صحیح قول یہ ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ کی مندرجہ ذیل حدیث کی وجہ سے عزل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے: «كنا نعزل و القرآن ينزله» [صحيح البخاري، رقم الحديث 4911 صحيح مسلم، رقم الحديث 1440]
”ہم عزل کرتے تھے اور قرآن اترتا تھا۔“
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہم عزل کرتے تھے اور اگر ایسا کرنا حرام ہوتا تو اللہ تعالیٰ (قرآن نازل کر کے) اس سے منع کر دیتے۔
لیکن اہل علم کا کہنا ہے کہ مرد آزاد عورت کی اجازت کے بغیر عزل نہیں کر سکتا، یعنی خاوند اپنی آزاد بیوی کی اجازت کے بغیر اس سے عزل نہ کرے، کیونکہ حصول اولاد میں اس کا بھی حق ہے۔ پھر بلاشبہ بیوی کی اجازت کے بغیر اس سے عزل کرنے سے اس سے لطف اندوز ہونے میں کمی واقع ہو گی، پس عورت سے مکمل لطف اندوزی (اس کی شرمگاہ کے اندر) انزال کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے، سو اس بنا پر عورت کی اجازت کے بغیر عزل کرنے سے نہ اس سے مکمل لطف اندوزی ہی حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی اولاد، اسی لیے ہم نے عزل کرنے میں عورت کی اجازت کی شرط لگائی ہے۔ (محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ)