عورت کے لیے عورتوں کی امامت کروانا
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا عورت دیگر خواتین کی امامت کروا سکتی ہے ؟
جواب : ایک عورت دوسری عورتوں کی جماعت کروا سکتی ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ باقی عورتوں کے وسط میں کھڑی ہو، اس کی شرح میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
ثبت من هٰذا الحديث أن امامة النساء وجماعتهن صحيحة ثابتة من أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد امت النساء عائشة رضي الله عنها وأم سلمة رضي الله عنها فى الفرض والتراويح [عون المعبود 211/2]
”اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کا امامت اور جماعت کروانا صحیح ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ثابت ہے۔ سیدہ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما عورتوں کی فرض اور تراویح میں امامت کرواتی تھیں۔ “
ایک اور روایت میں مذکور ہے :
عن عائشة رضي الله عنها انها كانت امت النساء فتقوم منهن فى الصف [ابن أبى شيبة 89/2، حاكم 203/1]
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کرواتی تھیں اور ان کے ساتھ ہی صف میں کھڑی ہوتی تھیں۔ “
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
انها امت النساء فقامت وسطهن [ابن أبى شيبة 88/2]
”انھوں نے عورتوں کی امامت کروائی اور ان کے وسط میں کھڑی ہوئیں“۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت عورتوں کے درمیان میں کھڑے ہو کر امامت کروا سکتی ہے۔
نیز میرے ناقص علم کے مطابق سلف سے کہیں بھی اس بات کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی عورت نے جمعہ یا عیدین کی نماز پڑھائی ہو۔ لہذٰا ان کے بارے میں سوچنا یا گنجائش نکالنا درست نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: