عورت کا نشی خاوند کے ساتھ رہنا
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ خاوند نشے کا عادی ہے۔ اس جرم کی پاداش میں وہ پہلے قید بھی رہا ہے۔ وہ رائمی شرابی ہے۔ اس نے مجھے اور میرے بچوں کو عذاب سے دو چار کئے رکھا۔ اب اس نے مجھے طلاق دے دی ہے اور میں اپنے بچوں سمیت والدین کے ہاں مقیم ہوں۔ وہ ہم پر کچھ بھی خرچ نہیں کرتا اور مجھے اس کے پاس دوبارہ جانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ وہ مجھ سے بچے چھین لینے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے، جبکہ میں ایک ماں ہونے کے حوالے سے اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس بارے میں میری راہنمائی فرمائیں۔

جواب :

یہ قضیہ شرعی عدالتوں سے تعلق رکھتا ہے۔ عادی شراب نوش کے ساتھ رہنا ناروا ہے۔ ایسا شخص بیوی بچوں کے لئے ضرر رساں ہے اس سے دور ہی رہنا چاہئے۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت نصیب فرما دے اور وہ اپنی اصلاح کرے تو دوسری بات ہے۔ اگر عدالت میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دے تو غالباً وہ بچوں کو ماں کے حوالے کرے گی اس لئے کہ ماں اس کی اہل ہے اور شرابی باپ نااہل۔ جب تک اس میں شراب نوشی کی عادت موجود ہے وہ بچوں کو اپنی تحویل میں لینے کا اہل نہیں کیونکہ اس طرح وہ ان کے ضیاع اور بربادی کا باعث بنے گا۔ دریں حالات عورت آدمی سے بڑھ کر بچوں کی حقدار ہے چاہے وہ بچیاں ہی کیوں نہ ہوں ؟ بظاہر عدالتوں کا فیصلہ یہی ہونا چاہئے اور واجب بھی یہی کچھ ہے کہ بچے ماں کے پاس رہیں کیونکہ وہ باپ سے بہتر ہے۔ جبکہ ان کا باپ فاسق ہے اگر عورت خاوند سے رجوع نہ کرنا چاہے تو یہ امر مستحسن ہے کیونکہ وہ خطرات سے دوچار رہے گی۔ یہ تو اس صورت میں ہے کہ وہ جملہ کو تاہیوں کے باوجود نماز پڑھتا ہو لیکن اگر وہ نماز نہیں پڑھتا تو اس صورت میں عدم رجوع واجب ہے۔ کیونکہ تارک صلوۃ کافر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
«العهد الذى بيننا وبينهم الصلاة، فمن تركها فقد كفر» [ترمذي]
ہمارے اور ان (کفار) کے درمیان نماز حد فاصل ہے جس نے نماز کو چھوڑ دیا اس نے یقیناًً کفر کیا۔ لہٰذا تارک نماز سے الگ رہنا واجب ہے۔
ارشاد قرآنی ہے :
«لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ» [60-الممتحنة:10]
”وہ (مومن عورتیں) کافروں کے لئے حلال نہیں اور نہ وہ کافر ان مومن عورتوں کے لئے حلال ہیں۔“
اللہ تعالیٰ اگر اسے ہدایت نصیب فرما دے اور وہ تائب ہو جائے تو دوسری بات ہے اس سے قبل عورت اپنے میکے جا سکتی ہے یا خاوند سے الگ اپنے بچوں کے پاس رہ سکتی ہے۔
اگر وہ نماز پڑھتا ہے اور شراب بھی پیتا ہے تو یہ ایک عظیم گناہ اور سنگین جرم ہے، لیکن وہ کافر نہیں بلکہ فاسق ہے اس بناء پر بیوی کو خاوند سے انکار کرنے اور گھر سے نکل جانے کی اجازت ہے وہ معذور سمجھی جائے گی اور اگر وہ صبر کر سکے تو ساتھ رہنے میں کوئی حرج نہیں۔
(شیخ ابن باز)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے