عمل کے قبول ہونے کی کیا شرائط ہیں ؟
كِتَابِي السَّيَرَ سُوى ما تقدم
وَعَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الرَّجُلِ يُقَاتِلُ شُجَاعَةٌ وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةٌ، وَيُقَاتِلُ رِيَاءٌ، أَيُّ ذَلِكَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم : ( (مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ))
سابقہ کے علاوہ دیگر اچھی عادات کا بیان
ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو بہادری جتلانے کی خاطر لڑتا ہے جو غیرت کی خاطر لڑتا ہے جو ریاکاری کی خاطر لڑتا ہے ان میں سے کون اللہ کی راہ میں لڑتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اس غرض سے لڑتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو وہی اللہ کی راہ میں ہے۔“
تحقیق و تخریج:
[بخاري: 2810، مسلم: 1904]
فوائد:
➊ بہادری کے جوہر دکھانے کے لیے لڑنا جہاد نہیں ہے۔
➋ ریا کاری کا جہاد نا قابل قبول ہوتا ہے ایسے ہی قومی حمیت کی بنا پر لڑنا ہے۔
➌ بہترین وہ آدمی ہے جو صرف اللہ تعالٰی کے راستے میں اس لیے لڑتا ہے تا کہ اللہ تعالی کا نام بلند ر ہے۔ یعنی مجاہد میں خلوص نہیں نیت صاف نہیں رضا کا حصول نہیں تو پھر اس کا میدان جنگ میں جانا کوئی بڑی نیکی نہیں ہے۔
➍ جہاد کے علاوہ دیگر اعمال میں نیت کا خالص ہونا بھی ضروری ہے۔
➎ معلوم ہوا ہر عمل کے قبول ہونے کی دو شرطیں ہیں ۔ نیت خالص اور حصول رضائے الہی ۔

[یہ مواد شیخ تقی الدین ابی الفتح کی کتاب ضیاء الاسلام فی شرح الالمام باحادیث الاحکام سے لیا گیا ہے جس کا ترجمہ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے کیا ہے]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے