علم قراءت کا مفہوم
علم قراءت ایسا علم ہے جس میں قرآنِ کریم کے الفاظ کو ادا کرنے کے مختلف طریقے اور ان کے تلفظ کے اختلافات کو ان کے راویوں کی نسبت سے سمجھا جاتا ہے۔
(البدور الزاہرۃ: ۷)
علم قراءت کا موضوع قرآن کریم کے کلمات ہیں، کیونکہ اس علم میں انہی کلمات کے تلفظ اور ادائیگی کے حالات پر بحث کی جاتی ہے۔
(عنایات رحمانی: ۱؍۱۳)
قرآن کریم میں قراءت کی سہولت
اللہ تعالیٰ نے امتِ محمدیہؐ کے لیے قرآن کی تلاوت آسان بنانے کی خاطر ایک بڑی سہولت دی کہ اس کے الفاظ کو مختلف طریقوں سے پڑھنے کی اجازت دی۔ شروع میں لوگوں کو قرآن کریم کے اسلوب سے مکمل واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے مختلف لہجات اور بلاغت کے متعدد اسالیب (مثلاً اسماء، افعال، الفاظ کی کمی، تقدیم و تاخیر وغیرہ) کے ساتھ قراءتوں کی اجازت دی گئی۔
عرصۂ اخیرہ میں قراءتوں کی تدوین
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآنِ کریم کا دور فرمایا کرتے تھے۔ وفات سے قبل آخری سال آپؐ نے یہ دور دو مرتبہ فرمایا، جسے "عرصۂ اخیرہ” کہا جاتا ہے۔ اس موقع پر بہت سی قراءتیں منسوخ کر دی گئیں اور وہ قراءتیں باقی رہیں جو تواتر کے ساتھ آج تک محفوظ چلی آ رہی ہیں۔
(السنن الکبری للنسائی، حدیث نمبر ۲۷۹۴)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عظیم کارنامہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں قرآن کریم کے مختلف لہجوں اور قراءتوں میں اختلاف کو ختم کرنے کے لیے سات نسخے تیار کیے گئے۔ ان نسخوں میں تمام قراءتوں کو اس طرح جمع کیا گیا کہ آیات پر نقطے اور زیر زبر پیش شامل نہیں کیے گئے، تاکہ ہر قاری اپنی قراءت کے مطابق قرآن پڑھ سکے۔
مزید یہ کہ ان نسخوں کو مختلف علاقوں میں بھجواتے وقت قاری حضرات کو بھی ساتھ بھیجا گیا تاکہ وہ لوگوں کو قرآن کی درست تلاوت سکھائیں۔ ان اقدامات کی بدولت علم قراءت ایک مستقل علم کی حیثیت اختیار کر گیا، اور کئی علماء، قرا اور حفاظ نے اپنی زندگیاں اس علم کی حفاظت کے لیے وقف کر دیں۔
علم قراءت کے اہم شخصیات
صحابہ کرام میں مشہور قراء:
مہاجرین میں سے:
- سیدنا عثمان بن عفان
- علی بن ابی طالب
- عبد اللہ بن مسعود
- سالم مولیٰ ابی حذیفہ
- حذیفہ بن یمان
- عبد اللہ بن عباس
- عبد اللہ بن عمر
- زبیر بن عوام
- معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم
انصار میں سے:
- سیدنا ابی بن کعب
- معاذ بن جبل
- زید بن ثابت
- ابو الدرداء
- ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم
تابعین میں مشہور قراء:
- مدینہ منورہ سے: سعید بن مسیب، مسلم بن جندب، ابن شہاب الزہری
- مکہ مکرمہ سے: عطا بن رباح، طاؤس بن کیسان
- بصرہ سے: ابو العالیہ ریاحی، حسن بصری، محمد بن سیرین
- کوفہ سے: علقمہ بن اسود، مسروق بن اجدع، ربیع بن خیثم
- شام سے: مغیرہ بن شہاب، یحییٰ بن حارث رحمہم اللہ
علم قراءت کے اصول و ضوابط
علم قراءت کے قبول ہونے کے لیے درج ذیل تین شرائط لازم تھیں:
- مصاحفِ عثمانی کے رسم الخط کے مطابق ہونا
- عربی زبان کے قواعد کے مطابق ہونا
- صحیح سند کے ساتھ نبی کریمﷺ سے ثابت ہونا
جس قراءت میں یہ تین شرائط نہ ہوں، وہ قرآن کا حصہ نہیں سمجھی جا سکتی۔
متواتر قراءتیں اور ان کے امام
سات مشہور قراء:
- عبداللہ بن کثیر الداری (مکہ مکرمہ)
- نافع بن عبدالرحمن (مدینہ طیبہ)
- عبداللہ الحصبی المعروف ابن عامر (شام)
- ابوعمرو بن العلاء (بصرہ)
- حمزہ بن حبیب الزیات (کوفہ)
- عاصم بن ابی النجود الاسدی (کوفہ)
- ابوالحسن علی بن حمزہ الکسائی (کوفہ)
تین مزید قراء (قراءتِ عشرہ میں اضافہ):
- یعقوب بن اسحق حضرمی (بصرہ)
- خلف بن ہشام (کوفہ)
- ابو جعفر یزید بن قعقاع (مدینہ منورہ)
قراءت کی تدوین اور کتب
علامہ ابن مجاہد رحمہ اللہ (متوفی: 324ھ) نے سب سے پہلے سات قراء کی قراءتوں کو جمع کیا۔ بعد میں علماء نے دس قراءتوں اور بعض نے چودہ قراءتوں کو جمع کیا۔ چودہ قراء میں چار مزید شخصیات شامل تھیں:
- حسن بصری
- محمد بن عبدالرحمن بن محیض
- یحییٰ بن مبارک یزیدی
- ابوالفرج شنبوذی
قراءت کی اقسام:
- متواتر قراءتیں: وہ قراءتیں جو تین شرائط پر پوری اترتی ہیں۔
- شاذ قراءتیں: وہ قراءتیں جو ان شرائط پر پوری نہیں اترتیں۔
خلاصہ
علم قراءت قرآنِ کریم کی حفاظت کا ایک عظیم ذریعہ ہے، جو نبی کریم ﷺ سے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے ذریعے نسل در نسل منتقل ہوا۔ امت کے علماء اور قراء نے اپنی زندگیاں اس علم کی حفاظت کے لیے وقف کیں، اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔