مطلق طور پر علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ یہ عقیدہ قرآن، حدیث، اجماعِ امت اور ائمہ سلف کی تصریحات سے ثابت ہے۔ اس کے باوجود سلف صالحین کی مخالفت میں بعض لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عالم الغیب کہتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ما كان وما يكون (جو کچھ ہو گیا اور جو کچھ ہونے والا ہے ) کا علم ہے۔ وہ قرآن وحدیث کی واضح نصوص کی تاویلیں کرتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (۶۶۱۔ ۷۲۸ھ ) فرماتے ہیں :
وأما أهل البدع فهم أهل أهواء وشبهات يتبعون أهواء هم فيما يحبونه ويبغضونه ويحكمون بالظن والشبه، فهم يتبعون الظن وما تهوى الأنفس، ولقد جاء هم من ربهم الهدى، فكل فريق منهم قد أصل لنفسه أصل دين وضعه، إما برأيه وقياسه الذى يسميه عقليات، وإما بذوقه وهواه الذى يسميه ذوقيات، وإمّا بما يتأوّله من القرآن ويحرّف فيه الكلم عن مواضعه ويقول : إنه إنما يتبع القرآن كالخوارج، وإمّا بما يدّعيه من الحديث والسنة، ويكون كذبا وضعيفا كما يدعيه الروافض من النص والآيات، و كثير ممن يكون قد وضع دينه برأيه أو ذوقه يحتج من القرآن بما يتأوّله على غير تأوله، ويجعل ذلك حجة لا عمدة، و عمدته فى الباطن على رأيه كالجهمية والمعتزلة فى الصفات والأفعال بخلاف مسائل الوعد والوعيد، فإنهم قد يقصدون متابعة النص، فالبدع نوعان نوع كان قصد أهلها متابعة النص والرسول، لكن غلطوا فى فهم المنصوص وكذبوا بما يخلف ظنهم من الحديث ومعانى الآيات كالخوارج، و كذلك الشيعة المسلمين بخلاف من كان منافقا زنديقا يظهر التشيع وهو فى الباطن
لا يعتقد الاسلام، وكذلكف المرجئة…
’’اہل بدعت نفس پرست اور شبہات کی پیروی کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ پسند اور ناپسند میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور ظن اور شبہات کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ ظن اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آ چکی ہے۔ اہل بدعت کے ہر گروہ نے اپنے لیے اس دین کو دلیل بنایا ہوا ہے جسے اس نے خود گھڑا ہے۔ بعض نے اپنی رائے اور قیاس کو دین بنایا ہے اور اسے عقلیات کا نام دیتا ہے، بعض نے اپنے ذوق اور خواہش کو دین بنایا ہے اور اسے ذوقیات کا نام دیتا ہے، بعض نے قرآن کریم کی تفسیر میں تحریف معنوی سے کام لیا ہے اور کہا ہے کہ وہ قرآنِ کریم کی پیروی خوارج کی طرح کرتے ہیں اور بعض نے حدیث اور سنت کی پیروی کا دعویٰ کیا ہے لیکن ان کے دلائل وہ روایات ہیں جو جھوٹی اور ناقابل اعتبار ہیں جیسا کہ رافضی لوگ نص اور آیات کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اکثر اہل بدعت نے اپنی رائے اور ذوق کے مطابق اپنا دین بنایا ہوا ہے اور وہ قرآنِ کریم کی غلط تفسیر کر کے اپنے دلائل تراشتے ہیں۔ یہ لوگ قرآنِ کریم کو اپنی دلیل بناتے ہیں، لیکن اس پر اعتماد نہیں کرتے، ان کا اعتماد درحقیقت اپنی رائے پر ہوتا ہے جیسا کہ جہمیہ اور معتزلہ لوگوں کا صفات و افعالِ باری تعالیٰ کے بارے میں حال ہے۔ وعد وعید کے مسائل میں ان کی صورت حال اس کے برعکس ہوتی ہے، کیونکہ بسا اوقات یہ لوگ نصوص کی پیروی کا ارادہ کرتے ہیں۔ چنانچہ بدعت کی دو قسمیں ہیں : ایک قسم وہ ہے کہ اس کے مرتکب لوگوں کی نیت قرآن و سنت کی پیروی ہوتی ہے لیکن وہ نصوص کو سمجھنے میں غلطی کھا جاتے ہیں اور اپنی عقل کے خلاف آنے والی احادیث اور تفسیر کو جھٹلا دیتے ہیں جیسا کہ خوارج اور مسلمان شیعہ لوگوں کا حال ہے۔ جو لوگ منافق اور زندیق ہیں اور ظاہر میں شیعہ کہلاتے ہیں جبکہ باطن میں وہ اسلام کو مانتے ہی نہیں، ان کا معاملہ اس کے برعکس ہے (یعنی ایسے بدعتی قرآن و سنت کی پیروی کا ارادہ ہی نہیں رکھتے )۔۔۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۰۱۔ ۷۷۴ھ ) فرماتے ہیں :
ولهذا قال تعالى : ﴿فأما الذين فى قلوبهم زيغ﴾ ، أى ضلال وخروج عن الحق إلى الباطل ﴿فيتبعون ما تشابه منه﴾ ، أى إنما يأخذون منه بالمتشابه الذى يمكنهم أن يحرفوه إلى مقاصدهم الفاسدة، وينزلوه عليها، لاحتمال لفظه لما يصرفونه، فأما المحكم فلا نصيب لهم فيه، لأنه دامغ لهم وحجة عليهم، ولهذا قال : ﴿ابتغاء الفتنة﴾ ، أى الإضلال لأتباعهم، إيهاما لهم أنهم يحتجون على بدعتهم بالقرآن، وهذا حجة عليهم لا لهم، كما لو احتج النصارى بأن القرآن قد نطق بأن عيسى هو روح الله وكلمته القاها إلى مريم، و تركوا الاحتجاج بقوله تعالي : ﴿إن هو إلا عبد أنعمنا عليه﴾ (الزخرف : 59) وبقوله : ﴿إن مثل عيسى عند الله كمثل آدم خلقه من تراب ثم قال له كن فيكون﴾ (آل عمران: 59)، وغير ذلك من الآيات المحكمة المصرّحة بأنه خلق من مخلوقات الله وعبد ورسول من رسل الله . . .
’’اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ گمراہ اور حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف جانے والے لوگ قرآنِ کریم کے ان متشابہ مقامات سے دلیل لیتے ہیں جن میں اپنے فاسد مقاصد کے لیے تحریف کرنا ان کے لیے ممکن ہوتا ہے اور اس کے لفظوں میں ان کے مقاصدکا احتمال ہوتا ہے۔ محکم آیات میں ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ محکم آیات ان کا سخت ردّ کرتی ہیں اور ان کے خلاف دلیل بنتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرنے کے لیے اور ان کو یہ دھوکا دینے کے لیے کہ وہ اپنی بدعت پر قرآنی دلائل رکھتے ہیں، متشابہ آیات سے دلیل لیتے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے نصاریٰ یہ دلیل دینے لگیں کہ قرآنِ کریم نے عیسیٰ علیہ السلام کو روح اللہ اور کلمہ اللہ کہا ہے لیکن وہ اس آیت کو چھوڑ دیں جس میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام تو محض اللہ کے ایک بندے ہیں جس پر ہم نے انعام کیا ہے۔ نیز فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اللہ کے ہاں آدم علیہ السلام جیسی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مٹی سے پیدا کیا، پھر ان سے کہا: ہو جا، تو وہ ہو گئے۔۔۔ اس طرح اور بھی بہت سی محکم اور صریح آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی مخلوق، اس کے بندے اور اس کے رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔۔۔“ (تفسیر ابن کثیر:7/2)
قرآنی دلائل کا جائزہ
بعض لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کو قرآنی دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ کیا ان کی پیش کردہ قرآنی آیات سے ان کامدعا ثابت ہوتا ہے :
پہلی دلیل:
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا﴾ (72-الجن: 27-26)
’’ (وہی ) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے۔“
اس آیت ِ کریمہ کا صحیح مطلب کیا ہے اور کیا اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم الغیب ہونا ثابت ہوتا ہے ؟ ہم اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتے، بلکہ اس بارے میں ائمہ دین اور سلف صالحین کی تصریحات پیش کرنے پر اکتفا کریں گے۔ البتہ قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اتنی زحمت ضرور کریں کہ مذکورہ آیت کریمہ کے متصل پہلے والی آیت پڑھ لیں۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
قُلْ إِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ مَا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا (72-الجن:25)
”کہہ دیجیے : میں نہیں جانتا کہ جس (عذاب ) کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا اس کے لیے میرے رب نے کوئی لمبی مدت رکھی ہے۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب کہنے اور اس پر دلائل تراشنے والوں کو یہ آیت کریمہ کیوں نظر نہ آئی۔ کیا اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کی صاف نفی نہیں ہو رہی ؟ نیز ان لوگوں کو یہ آیت کریمہ کیوں نظرنہ آئی :
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَـذَا (11-هود:49)
” (اے نبی ! ) یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں، ہم انہیں آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ انہیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔“
ان کی نظر اس آیت کریمہ پر کیوں نہ پڑ گئی :
وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (7-الأعراف:188)
’’کہہ دیجیے : میں اپنی جان کے لیے نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں تو ڈرانے والا اور خوشخبری سنانے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان لاتے ہیں۔“
یہ آیت انہوں نے کیوں قابل التفات نہیں سمجھی کہ :
فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّـهِ (10-يونس:20)
’’ (اے نبی ! ) کہہ دیجیے کہ غیب تو صرف اللہ کے پاس ہے۔“
اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ان کی نظر سے کیوں نہیں گزرا کہ :
قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ (27-النمل:65)
’’کہہ دیجیے : آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب (کی بات) نہیں جانتا۔“
کیا یہ سب آیات واضح طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کی نفی نہیں کر رہیں ؟ ان سے نظر کیوں چرائی جاتی ہے ؟
آئیے اب ان لوگوں کی پیش کی گئی قرآنی آیت کی طرف آتے ہیں کہ اس کا صحیح مطلب کیا ہے :
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۰۱۔ ۷۷۴ھ ) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
وقوله : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ﴾ (72-الجن:26) ھذه كقوله تعالى : ﴿وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ﴾ (2-البقرة:255) وهكذا قال هاهنا : إنه يعلم الغيب والشهادة، وإنه لا يطلع أحد من خلقه على شىء من علمه إلا ممّا أطلعه تعالى عليه، ولهذا قال : ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾ ، وهذا يعم الرسول الملكي و البشري.
اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان :
﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ ﴾ (72-الجن:26) ” (وہی) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے۔“ اس آیت کی طرح ہے : ﴿وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ﴾ (2-البقرة:255) ”اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کو اپنے احاطے میں نہیں لا سکتے، سوائے اس بات کے جو وہ چاہے۔“ اسی طرح یہاں فرمان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب اور ظاہر چیزوں کو جاننے والا ہے۔ اس کی مخلوق میں سے کوئی بھی اس کے علم میں سے کسی بھی چیز پر اطلاع نہیں پا سکتا، سوائے اس چیز کے جس پر اللہ تعالیٰ خود کسی کو مطلع کر دے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ : ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾”وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے۔“ اور یہ بات فرشتے رسول اور بشر رسول دونوں کو شامل ہے۔“ (تفسير ابن كثير : 249/3)
نیز فرماتے ہیں :
أمره الله تعالى أن يفوّض الأمور إليه، وأن يخبر عن نفسه أنه لا يعلم الغيب المستقبل، ولا اطلاع له على شىء من ذلك إلا بما أطلعه الله عليه، كما قال تعالى:﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے کہ آپ تمام امور اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں اور اپنے بارے میں خبر دے دیں کہ وہ مستقبل کے غیب کو نہیں جانتے، نہ آپ کو اس میں سے کسی چیز کی اطلاع ہے، سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دے دی ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ ” (وہی ) عالم : الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔“ (تفسير ابن كثير : 249/3)
مزید فرماتے ہیں :
ثم قال : ﴿وَمَا کان اللَّهُ لِيُطلعَکُمْ عَلَی الغیب﴾ أى أنتم لا تعلمون غيب الله فى خلقه حتى يميز لكم المؤمن من المنافق، لو لا ما يعقده من الأسباب الكاشفة عن ذلك، ثم قال : ﴿ولكن الله يَجْتبى من رسله من يشاء﴾ كقوله : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ …..
’’پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ : ﴿وَمَا کان اللَّهُ لِيُطلعَکُمْ عَلَی الغیب﴾ ”اور اللہ تعالیٰ تمہیں غیب پر مطلع نہیں کرنے والا“ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں موجود اس کا غیب نہیں جان سکتے کہ تمہیں مؤمن اور منافق کی تمیز ہو جائے۔ ہاں اگر وہ اسباب موجود ہوں جو اس غیب سے پردہ اٹھا سکتے ہیں، پھر فرمایا : ﴿ولكن الله يَجْتبى من رسله من يشاء﴾ ”لیکن اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں جسے چاہتا ہے، (اس غیب سے پردہ اٹھانے کے لیے ) اس کا انتخاب کر لیتا ہے۔“ یہ فرمان اس آیت کی طرح ہی ہے کہ : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ ”(وہی ) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔“ (تفسیر ابن کثیر: 155/2، تحت آل عمران: 179)
یعنی اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی اپنے رسول کو غیب کی بات پر مطلع کر دیتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے یہ وضاحت کی ہے کہ پہلی قوموں کے حالات رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی ہی بتائے گئے تھے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
﴿تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَـذَا . . . ﴾ (11-هود:49)
” (اے نبی ! ) یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں، ہم انہیں آپ کی طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ انہیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔“
مستقبل کی خبر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی دی گئی جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے :
﴿لَقَدْ صَدَقَ اللَّـهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللَّـهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِنْ دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا﴾ (48-الفتح:27)
’’البتہ تحقیق اللہ نے اپنے رسول کو خواب میں حق کے ساتھ سچی خبر دی کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم اپنے سر منڈاتے اور بال کترواتے ہوئے مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گے، تم (کسی سے )نہ ڈرتے ہو گے، چنانچہ اللہ وہ بات جانتا تھا جو تم نہیں جانتے تھے، لہٰذا اس نے اس سے پہلے ایک فتح جلد ہی عطا کر دی۔“
دراصل اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا اور انبیائے کرام کے خواب وحی ہوتے ہیں۔
نیز فرمایا :
﴿الم * غُلِبَتِ الرُّومُ * فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ * فِي بِضْعِ سِنِينَ﴾ (30-الروم:4 – 1)
”رومی مغلوب ہو گئے قریب ترین سرزمین (شام و فلسطین ) میں، اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد جلد غالب ہوں گے، چند برسوں میں۔“
ان تمام آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماضی اور مستقبل کی کوئی خبر بذریعہ وحی دے دیتا تھا۔
اس کی تائید کے لیے ایک حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں :
عن محمود بن لبيد عن رجال من بني عبد الاشهل قالوا : فقال زيد بن اللصيت وهو فى رحل عمارة، وعمارة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم : أليس محمد يزعم أنه نبي و يخبر كم عن خبر السماء، و هو لايدرى أين ناقته ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمارة عنده أن رجلا قال : هذا محمّد يخبر كم أنه نبي ويزعم أنه يخبر كم بأمرالشماء و هو لايدري أين ناقته ؟ واني و الله ما أعلم ما علمني الله و قد دلنى الله عليها، و هي فى الوادي فى الشعب كذا و كذا، قد حبسها شجرة بز مامها، فانطلقوا حتي تأتوني بها، فذهبوا، فجاؤا بھا .
’’محمود بن لبید بنو عبدالاشہل کے لوگوں سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں : زید بن اللصیت نے کہا کہ وہ عمارہ کی رہائش گاہ پر تھا اور عمارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ اس نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہیں اور تمہیں آسمان کی خبریں بتاتے ہیں، حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جبکہ عمارہ آپ کے پاس تھے کہ ایک شخص نے کہا ہے : یہ محمد تمہیں خبر دیتا ہے کہ وہ نبی ہے اور کہتا ہے کہ وہ تمہیں آسمان کی خبر دیتا ہے، حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کی اونٹنی کہاں ہے ؟ اللہ کی قسم ! میرے پاس وہی علم ہے جو اللہ نے مجھے سکھایا ہے اور اس اونٹنی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے آگاہی دے دی ہے کہ وہ فلاں وادی کی فلاں گھاٹی میں ہے۔ اس کی لگام درخت کے ساتھ اٹکی ہوئی ہے۔ جاؤ، اسے میرے پاس لے آؤ ! وہ اسے لے کر آ گئے۔“ (المغازي لابن اسحاق كما في السيرة لابن هشام:523/2، وسنده حسن، وابن اسحاق وثقه الجمھور)
یہ حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس علم غیب نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ما كان وما يكون کو نہیں جانتے تھے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو کسی معاملے کی خبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتا تھا۔
شارحِ صحیح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (۷۷۳۔ ۸۵۲ھ ) اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
فأعلم النبى صلى الله عليه وسلم أنه لا يعلم الغيب إلا ما علمه الله، وهو مطابق لقوله تعالى: ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾ ……
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے کہ وہ غیب نہیں جانتے، ہاں وہ بات جو اللہ تعالیٰ انہیں سکھا دے (اسے جان لیتے ہیں )۔ یہ حدیث اس فرمانِ باری تعالیٰ کی طرح ہے : ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾ ” (وہی ) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسندکرے۔“ (فتح الباري لابن حجر : 364/13)
علامہ احمد قسطلانی (۸۵۱۔ ۹۲۳ھ ) کہتے ہیں :
عالم الغيب فلا يطلع على غيبه أحدا من خلقه إلا من ارتضي من رسول لاطلاعه على بعض الغيب، يكون إخباره عن الغيب معجزة له .
’’اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ وہ اپنی مخلوق میں کسی کو اپنے غیب کی اطلاع نہیں دیتا، مگر جس رسول کو چاہے کسی غیب کی بات پر مطلع کر دیتا ہے اور یہ اطلاع نبی کے لیے معجزہ ہوتی ہے۔“(ارشاد الساري لشرح صحيح بخاري : 363/10)
السنہ جہلم شمارہ ۳۷، ص۳۹۔۳۰