علمائے دیوبند کا حدیث کے بعض حصوں پر عمل اور بعض کو چھپا لینا
یہ تحریرمولانا ابو صحیب داؤد ارشد حفظہ اللہ کی کتاب تحفہ حنفیہ سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب دیوبندی عالم دین ابو بلال جھنگوی کیجانب سے لکھی گئی کتاب تحفہ اہلحدیث کا مدلل جواب ہے۔

کتے کا جوٹھا بر تن

حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ :
((اذا ولغ الكلب في اناء احدكم فليرقه ثم ليغسله سبع مرار ))
جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں منہ ڈالدے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے بہا کر سات مرتبہ ( بر تن کو ) دھولے۔
(مسلم ص 137 ج 1)
اس حدیث کو نقل کر کے مولوی انوار خورشید دیوبندی نے پانی قلیل کی نجاست پر استدلال کیا ہے۔
( حدیث اور اہل حدیث 139)
مگر اسی حدیث میں کتے کے جھوٹے برتن کو سات بار دھونے کا حکم نبوی موجود ہے۔ مگر حنفی نبی صلى الله عليه وسلم کے اس فرمان کی حکم عدولی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تین بار ہی دھونا لازمی و ضروری اور کافی ہے۔ ھدایہ میں ہے:
((وسور الكلب نجس ويغسل الاناء من ولوغه ثلاث ))

یعنی کتے کا جھوٹا پلید ہے اور اس کے منہ ڈالنے سے بر تن کو تین بار دھویا جائے۔ (ھدا یہ مع فتح القدير ص 94 ج 1)

حرام اشیاء سے علاج

حضرت طارق بن سوید الجھنی رضی اللہ عنہ نے
((سال النبي عن الحمر فنهاه وكره ان يضعها للدواء فقال انه ليس بداوء ولكنه داء ))
نبی صلى الله عليه وسلم سے شراب کے متعلق سوال کیا آپ علیہ السلام نے انہیں روک دیا اور دوا کے لیے شراب بنانے کو نا پسند کیا اور فرمایا کہ یہ دوا نہیں ہے یہ تو بیماری ہے۔ (مسلم ص 163 ج2 )

اس حدیث سے مؤلف ’’ حدیث اور اہل حدیث‘‘ نے صفحہ 154 پر شراب کے نجس ہونے پر استدلال کیا ہے مگر اسی حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ حرام چیز کو شفا کی غرض سے استعمال کرنا جائز نہیں کیونکہ ان میں شفا نہیں بلکہ یہ خود بیماری ہیں لیکن فقہ حنفی  میں صاف لکھا ہے کہ :
((لو أن مريضا أشار اليه الطبيب بشرب الخمر روى عن جماعة من ائمة بلخ انه ينظر ان كان يعلم يقينا أنه يصح حل له التناول ))
اگر مریض کو معالج شراب پینے کا مشورہ دے تو اس بارے میں آئمہ بلخ سے روایت ہے کہ اگر یہ علاج یقینی ہو تو شراب پی لینا حلال ہے۔ ( فتاوی عالم گیری ص 255 ج5)

اس کے بعد صراحت ہے کہ اگر مسلمان طبیب خون پیشاب اور مردار کھانے پینے کا مشورہ دے اور ان کا کوئی متبادل بھی نہ ہو تو ان کو استعمال کرنا جائز ہے۔ ایضاً اس سے بھی بڑھ کر پڑھئے کہ:
((فقد ثبت ذلك في المشاهير من غير انكار والذي رعف فلا يرقا دمه فاراد ان يكتب بدمه على جبهة شيئا من القرآن قال ابو بكر الا سكاف يجوز))

یعنی یہ مسئلہ مشاھیر سے بغیر کسی انکار کے ثابت ہے کہ اگر کسی کی نکسیر بند نہ ہوتی ہو تو اس نے اپنے ماتھے پر خون کے ساتھ قرآن میں سے کچھ لکھنا چاہا تو ابو بکر اسکاف نے کہا یہ جائز ہے۔ (فتاوی عالم گیری ص 356 ج 5)
فتاوی قاضی خاں میں اس سے آگے مزید بھی لکھا ہے کہ:
(( قيل لو كتب بالبول قال لو كان فيه شفاء لا باس به ))
کہا گیا ہے کہ اگر پیشاب کے ساتھ لکھے تو اس نے کہا ہے کہ اگر اس میں شفاء ہو تو کوئی حرج نہیں۔
(3قاضی خاں علی حامش عالم گیری ص 404 ج )

ابن انجیم نے تو اپنی فقاہت کو عروج پر پہنچاتے ہوئے ماشاء اللہ اس کی دلیل بھی درج کی ہے کہ
:وكذا اختار صاحب الهدايه في التجنيس فقال اذا صال الدم من انف انسان يكتب فاتحة الكتاب بالدم على جبهته وانفه يجوز ذلك لاستشفاء والمعالجة ولو كتب بالبول ان علم ان فيه شفاء لا بأس بذلك لكن لم ينقل و هذا لان الحرمة ساقطة عند الاستشفاء الا ترى أن العطشان يجوز له شرب الخمر والجائع يحل له أكل الميته
صاحب ھدایہ نے تجنیس میں اس کو اختیار کیا ہے کہ ناپاک چیز سے علاج کرنا جائز ہے۔ انہوں نے کہا اگر کسی انسان کے ناک سے نکسیر پھوٹ گئی اور اس نے خون کے ساتھ اپنی پیشانی اور ناک پر سورہ فاتحہ کو لکھ دیا‘ تو طلب شفاء کے لیے جائز ہے اور اگر یہ یقین ہو کہ پیشاب کے ساتھ لکھنے سے شفاء ہو گی تو پیشاب کے ساتھ لکھنا بھی جائز ہے، لیکن یہ منقول نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طلب شفاء کی وجہ سے حرمت ساقط ہو جاتی ہے جیسے بھوکے پیاسے کے لیے مردار اور شراب پینا حرام نہیں ہے۔
(البحر الرئق ص 116 ج 1 و فتاوی شامی ص 210 ج 1)
یہ فتویٰ فتاویٰ سراجیہ ص 75 وغیرہ میں بھی منقول ہے۔ الغرض حنفی حضرات مذکورہ احادیث سے شراب کی نجاست تو ثابت کرتے ہیں مگر حرام چیز سے علاج کے قائل ہیں حالانکہ حدیث کا بنیادی نقطہ ہی یہ ہے کہ حرام چیز میں شفاء نہیں بلکہ وہ خود بیماری ہے‘ مگر فقاہت کے ان ٹھیکے داروں نے جہاں اس حدیث کو پس پشت ڈالا ہے وہیں پر عظمت قرآن کو بھی لگے ہاتھوں سے ساقط کر دیا ہے۔اناللہ وانا الیہ راجعون
پھر اس پر جو دلیل عنایت کی ہے وہ بھی عجیب تر ہے‘ کجاھلت و حرمت کا مسئلہ کہ مضطر پر مردار کا مباح ہونا نص قطعی سے ثابت ہے‘ مگر قرآن کی عظمت کے ساقط ہونے پر کوئی دلیل ہی نہیں ؟

کھٹے ڈکار کا مسئلہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے ایک ضعیف (تفصیل دین الحق ص 110 ج1 میں دیکھئے ) روایت مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ:
((من اصابه في او رعاف او فلس او مزى فلينصرف فليتوضاء )) الحديث
جسے دوران نماز قے آ جائے یا نکسیر پھوٹ پڑے یا کھٹاڈ کار آجائے تو وہ نماز سے علیحدہ ہو کر دوبارہ وضو کرے۔ (ابن ماجہ 87)
اس روایت سے مبتدعین دیابنہ نے خون کے نکلنے سے وضو کے ٹوٹ جانے پر استدلال کیا ہے کہ نکسیر خون ہی ہے اور بہتی ہے۔ ( حدیث اور اہل حدیث 189)

مگر اسی حدیث میں لفظ فلس ہے جس کا خیر سے مبتدعین دیابنہ کے انوار خورشید نے معنی‘ منہ بھر کے قے ہو جائے‘ کیا ہے۔ ( حدیث اور ہل حدیث ص 187)

حالانکہ حدیث میں قے کے لیے لفظ قنیی علیحدہ آیا ہے۔ جس کا معنی انہوں نے الٹی ہو جائے کیا ہے ‘اور آگے فلس کا معنی مذکورہ کر دیا ہے۔ اس بے ایمانی کی وجہ یہ ہے کہ احناف کے نزدیک قے منہ بھر کر آئے تو اس سے وضو ٹوتا ہے ورنہ نہیں۔ اس اعتراض سے جان چھڑانے کے لیے انہوں نے حدیث کے مفہوم کو ہی بگاڑ دیا ہے۔ آئیے ہم آپ کو اس کا معنی آئمہ لغت سے دکھاتے جائیں۔
علامہ فیومی فرماتے ہیں کہ :
((فلس خرج من بطنه طعام او شراب الى الفم و سواء القاء أو أعاد إلى بطنه اذا كان مل الفم أو دونه فاذا غلب فهو قي ))
یعنی فلس کہتے ہیں پیٹ سے‘ منہ کی طرف کھانا پاپانی آنے کو خواہ قے ہو یا نہ ہو اور دوبارہ پیٹ میں لوٹ جائے خواہ منہ بھر کر آئے یا نہ آئے اور جب اس چیز کا غلبہ ہو یعنی کھانا منہ سے باہر آجائے تو اسے قے کہتے ہیں۔
(المصباح المنير ص 513)
الغرض پیٹ سے پانی یا کھانا نکل کر حلق میں آکر دوبارہ پیٹ میں لوٹ جائے تو اسے عربی زبان میں فلس کہتے ہیں۔ علامہ ابن منظور لکھتے ہیں کہ

((الفلس ان يبلغ الطعام إلى الحلق من الحلق أودونه ثم يرجع إلى الجوف))
یعنی فلس کا معنی ہے کہ پیٹ سے کھانا نکل کر حلق میں آجائے خواہ حلق اس سے بھر جائے یانہ بھرے‘ پھر دوبارہ پیٹ میں لوٹ جائے۔ (لسان العرب ص 179 ج 6)
فلس کا یہی معنی ( مجمع بحار الانوار ص 318 ج 4 و تاج العروس ص 221 ج 4 ‘‘وغیرہ معتبر کتب لغت میں لکھا ہے۔ جن کے مصنفین میں سے حنفی المذھب کے حامل بھی ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ حنفی اس حدیث سے خون نکلنے سے وضو کے ٹوٹ جانے کے تو قائل ہیں مگر فلس کھٹاڈ کار آنے پر وضو کے ٹوٹنے کے قائل نہیں۔ حالانکہ دونوں ایک ہی حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔

قے سے روزہ ٹوٹنے کا مسئلہ

مؤلف حدیث اور اہل حدیث ص 191 پر سنن ترمذی سے نقل کرتے ہیں کہ :
((عن ابي الدرداء ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قاء فتوضاء ))
یعنی حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے قے کی اور وضو کیا‘ اس حدیث سے مبتدعین دیانہ کا استدلال یہ ہے کہ قے کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ مگر اس روایت میں
فاء فتوضاءکے الفاظ صرف ترمذی نے نقل کیے ہیں‘ باقی آئمہ حدیث نے فاء فافطر کے الفاظ نقل کیے ہیں ۔ مسند احمد ص 195 ج 1 و ابو داؤد ص 324 ج 1 و داری ص 14 ج 2 و دار قطنی ص 158 ج 1 وطحاوی ‘‘ص 404 ج 1 و ابن حبان و مستدرک حاکم ص 426 ج 1 و بھیقی ص 220 ج 1) وغیرہ بلکہ خود امام ترمذی نے کتاب الصیام میں فاء فافطر کے الفاظ بیان کیے ہیں۔(ترمذی مع تحفہ ص 44 ج 2)

ان الفاظ کا مفاد یہ ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے قے کی اور روزہ افطار کیا مگر کتنے ستم کی بات ہے کہ حنفی حضرات اس روایت کے الفاظ فاء فتوضاء سے وضو کے حدیث کو تو مانتے ہیں مگر اسی حدیث کے الفاظ فاء فافطر کے الفاظ سے قے کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جانے کو تسلیم نہیں کرتے۔

امام طحاوی فرماتے ہیں کہ :
(وليس في هذين الحديثين دليل على ان القى كان مفطرا له انما فيه انه قاء فاقطر بعد ذلك)
یعنی اس میں قے کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جانے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ اس میں تو اس امر کا بیان ہے کہ قے کی اور اس کے بعد روزہ افطار کیا۔ (شرح معانی الاثار ص 405 ج 1 )

مگر اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ قے کی اور اس کے بعد وضو کیا اس بے انصافی کی کوئی حد ہے کہ اپنے اور بیگانے کے لیے ان کے ہاں پیمانے ہی جدا جدا ہیں۔

استنجا میں ڈھیلے کا مسنون عدد

مؤلف حدیث اور اہل حدیث نے ص 209 میں سنن دار قطنی ص 54 ج1 سے حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت سے فرمان نبوی نقل کیا ہے کہ
((امرنا صلى الله عليه وسلم ان لا تستقبل ولا نستدبرها )) الحديث
نبیﷺ نے حکم دیا کہ ہم قبلہ کی طرف نہ رح کریں نہ پشت۔

اس حدیث سے مبتدعین دیابنہ کا یہ استدلال ہے کہ پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی جانب منہ اور پشت نہ کرنی چاہئے۔ لیکن مولف ” حدیث اور اہل حدیث ” نے اپنے مخالف حصہ کو نقل ہی نہیں کیا‘ پھر مزید بد دیانتی یہ کی کہ حدیث ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ کے علاوہ صحیح مسلم میں بھی موجود تھی ان کو چھوڑ کر سنن دار قطنی کا حوالہ دے دیا تا کہ اگر کوئی اردو دان اس کی مراجعت کرنا چاہے تو حقیقت حال کو معلوم نہ کر سکے۔ اب آئیے اس مخالف حصہ کو ملاحظہ کریں:
حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہمیں پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی جانب منہ اور پشت کرنے اور دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
((او ان نستنجى باقل من ثلثة احجار او ان تستنحى برجيع او بعظم ))

یا تین پتھروں سے کم استنجا کرنے سے یا گو بر اور ہڈی سے استنجا کرنے سے منع فرمایا۔

(صحیح مسلم ص 130 ج 1 و ترمذی مع تحفہ ص 27 ج 1 و نسائی ص 9 ج 1 و ابن ماجہ (316))

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ استنجا میں تین پتھروں سے کم لینا جائز نہیں اور یه کہ کم از کم تین مسنون ہیں‘ بلکہ مسند احمد کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ

((ولا نکتفی بدون ثلاثة احجار ))(5مسند احمد 437ج)

یعنی تین پتھروں سے کم پتھر استنجا میں کفایت ہی نہیں کرتے۔

یہی نہیں بلکہ جس روایت کو مؤلف ’’حدیث اور اہل حدیث‘‘ نے نقل کیا ہے اس میں بھی یہ الفاظ ہیں کہ((ولا نستكفى بدون ثلاثة احجار ))یعنی تین پتھروں سے کم پتھر استنجا میں کفایت نہیں کرتے۔
( سنن دار قطنی ص 54 ج 1)

مگر مبتدعین حنفیہ اس حصہ سے بغاوت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ مسنون نہیں۔ ھدایہ میں ہے ((و ليس فيه عدد . عدد مسنون )) یعنی استنجا میں ڈھیلے کا عدد مسنون نہیں۔ ( ھدایہ مع فتح القدیر ص 187 ج 1)
دیکھا آپ نے ایک ہی حدیث کو مخالف پر حجت قائم کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں مگر اسی حدیث کے باقی حصہ پر ایمان لانے سے انکار کرتے ہیں بلکہ قوم موسیٰ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مختلف الفاظ کو ہضم کر جاتے ہیں۔

انا للہ وانا الیہ راجعون

جوتے سمیت نماز پڑھنے کا مسئلہ

مؤلف ’’ حدیث اور اہل حدیث ‘‘نے ص 233 پر‘ سنن ابو داود ص 95 ج 1 سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام صحابہ کرام کو نماز پڑھارہے تھے کہ اچانک آپ نے جوتیاں اتار کر بائیں طرف رکھ دیں، صحابہ کرام نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی جو تیاں اتار کر بائیں طرف رکھ دیں۔ حضور علیہ السلام نے نماز سے فارغ ہو کر پوچھا کہ تمہیں جو تیاں اتارنے پر کس چیز نے ابھارا ؟ صحابہ نے عرض کیا ہم نے آپ کو جوتیاں اتارتے دیکھا تو ہم نے بھی اتار دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے جبریل امین نے آکر خبر دی تھی کہ جو تیوں میں ناپاکی (لگی ہوئی) ہے۔ اس سے مبتدعین دیابنہ کا استدلال ہے کہ کپڑے وغیرہ کا نماز میں پاک ہونا شرط ہے۔ ( حدیث اور اہل حدیث 234)
مگر قارئین کرام حیران ہونگے کہ مبتدعین کے سورمے نے اپنے مخالف ٹکڑے کو نقل ہی نہیں کیا۔ حدیث کے اگلے الفاظ ہیں:
(اذا جاء احدكم الى المسجد فلينظر فان راى في نعليه قذرا او اذى فليمسه وليصل فيهما )
جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو اپنے جوتوں کو دیکھے اگر ان میں کوئی پلیدی ہو تو زمین پر رگڑے پھر ان میں نماز پڑھ لے ۔ (ابو داود ص 95 ج 1 و بیھقی ص 431 ج 2 و داری ص 370 ج 1 و مسند احمد ص 20,92,411 ج 3 طیالسی رقم الحدیث (2154) و متدرک حاکم ص 260 ج 1)
حدیث نبوی کے یہ الفاظ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ جوتے میں نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے مگر مبتدعین دیابنہ کا موقف ہے کہ جوتے سمیت نماز پڑھنا ادب کے منافی ہے۔
مولانا تقی عثمانی فرماتے ہیں کہ ادب کا تقاضا یہی ہے کہ جوتے اتار کر نماز پڑھی جائے‘ چنانچہ ہمارے فقہاء نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ (درس ترمذی ص 165 ج 2)

اس تحریر کا مطلب صاف ہے کہ جوتے سمیت نماز پڑھنا ادب کے منافی ہے مگر یہ غور نہیں فرمایا کہ اس کا ار شاد تو رسول اللہﷺ فرمار ہے ہیں کیا آپ حضرات ان کو ادب کا درس دے رہے ہیں۔ ثم اقول‘ غور کیجئے کہ اس حدیث سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی غلطی کی وجہ سے نمازی کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس کے کپڑے وغیرہ نجس تھے تو اسے نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ان جوتوں میں پڑھی ہوئی نماز لوٹائی نہیں‘ امگر ہمارے مہربان اس اعتراض سے جان چھڑاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ نجاست تھوڑی ہو گی جو معاف ہے۔ ( حد یث اور اہل حدیث 234)

مگر یہاں ( ہو سکتی) سے بات نہیں بنے گی صریحاً دلیل پیش کیجئے۔ علاوہ ازیں جب آپ نے تسلیم کر لیا کہ نجاست تھوڑی تھی جو صحت نماز کے منافی نہ تھی تو خصم پر حجت کس طرح قائم کر رہے ہو‘ کیوں کہ آپ نے جوتے اتارنے کو دلیل بنایا ہے مگر اس جگہ اعتراف کر لیا ہے کہ اگر نہ بھی اُتارتے تو تب بھی صحت نماز کے منافی نہ تھے۔ یہ ہیں بلا شرکت غیر فقہ کی ٹھیکے داری کا دعوی کرنے والے کہ مخالف پر وہ دلیل قائم کر رہے ہیں جس پر ان کا اپنا ایمان نہیں اور یہ ہیں علوم نبوی کے وارث ہونے کا دعویٰ کرنے والے جو متن حدیث میں مطلب بر آری کے لیے تحریف کرتے ہیں۔

مساجد میں قضاء کا مسئلہ

مؤلف ( حدیث اور اہل حدیث نے صفحہ237) پر(صحیح مسلم ص 138 ج 1 ) سے ایک حدیث نقل کی ہے جس سے یہ بات ثابت کی ہے کہ صحت صلاۃ کے لیے جگہ کا پاک ہونا شرط ہے مگر اسی حدیث میں الفاظ نبوی ہیں:
((انما هي لذكر الله والصلوة وقرأة القرآن))
یعنی مساجد صرف اور صرف اللہ کا ذکر نماز اور تلاوت قرآن کے لیے ہیں۔

اس سے ثابت ہوا کہ ان کے علاوہ مساجد میں کوئی اور کام کرنا جائز نہیں۔ مگر حنفی اس فرمان نبوی پر ایمان لانے کو تیار نہیں بلکہ منکر ہیں‘ کیونکہ احناف کے نزدیک مساجد میں فیصلے کرنے جائز ہیں۔ فصل دوم کے نمبر 7 کے تحت ہم عرض کر چکے ہیں کہ صاحب ھدایہ نے اپنے مؤقف کی تائید میں والحکم کے لفظ کا اضافہ کیا ہے۔
پھر غور کیجئے کس اہل حدیث نے یہ فتوی دیا ہے کہ مساجد میں پیشاب کرنا جائز ہے که مؤلف‘ حدیث اور اہل حدیث اعرابی والی حدیث کو ہمارے خلاف نقل کر کے ہمیں مطعون کر رہا ہے۔

مولوی انوار خورشید تو فوت ہو چکا ہے اس کا معاملہ بھی اللہ کے سپرد ہو گیا ہے۔  مجھے یقین ہے کہ اگر اس سے اس غلط بیانی کے متعلق سوال ہوا تو لا جواب ہو جائے گا۔ انشاءاللہ

اعتراف بھی انکار بھی

دیابنہ کے محقق نے (حدیث اور اہل حدیث ۲۴۰) میں ( صحیح بخاری ۲۲۸) سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرتﷺ نے مزدلفہ میں دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھا اور‘‘صلى الفجر قبل میقاتھا ’’ اور نماز فجر کو وقت سے پہلے پڑھا۔

اس حدیث کےالفاظ‘‘قبل وقتها’’ کا معنی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ نے ایک دفعہ حج کے موقعہ پر مزدلفہ میں فلس (اند میرے) میں نماز پڑھی۔ (حدیث اور اہل حدیث246)

دیکھیے مبتدعین دیابنہ کا سور ما اس حدیث کو مخالف پر حجت قائم کرتے ہوئے نقل کرتا ہے مگر ‘‘قبل وقتھا’’کا معنی فلس اور غلس بمعنی اندھیرا کہتا ہے۔ اب ان علم و فضل کے دعوے کرنے والوں سے پوچھئے کہ لغت کی کس کتاب میں ” قبل وقتھا“ کا معنی غلس اور غلس کا معنی اند ھیر الکھا ہے۔
یقین جانئے کہ اگر پوری دنیا کے مبتدعین دیابنہ اکٹھے ہو جائیں تب بھی یہ معنی ثابت نہیں کر سکتے۔ سنئے"قبل وقتها” کا معنی ہے کہ وقت سے پہلے جب کہ غلس کا معنی ہوتا ہے طلوع فجر کے وقت ایسا اند ھیرا جس میں صبح کی روشنی مل جل گئی ہو‘ اس پر آئمہ لغت اور شار حسین احادیث کی عبارات کے لیے (دین الحق ۱/۱۴۷) کی مراجعت کریں۔ اختصار کی بنا پر یہاں ایک مزید حوالہ نقل کیا جاتا ہے، علامہ الفتنی حنفی مرحوم فرماتے ہیں:
(( غلس هو الظلمة آخر الليل اختلطت بضوء الصباح ))یعنی غلس کا معنی ہے رات کے آخری حصہ کا اندھیرا جس میں صبح کی روشنی مل گئی ہو۔ ( مجمع بحار الانوار ۲/۵۶)
اور یہ وقت ہاتفاق فریقین نماز صبح کا وقت ہے‘ لہذا یہ ’’قبل و فتھا‘‘ نہیں ہے۔ اس پر مزید تفصیل دین الحق میں دیکھیے۔ الغرض حنفی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے مخالف پر دلیل قائم کرتے ہیں مگر خود یہ حضرات اس پر ایمان لانے کی بجائے تاویل کرتے ہیں۔

مکروہ اوقات میں مردہ کو دفن کرنا

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین اوقات میں نماز پڑھنے اور مردے کو دفن کرنے سے منع فرمایا۔ ( صحیح مسلم ص 276 ج 1)

اس حدیث کو مؤلف ( حدیث اور اہل حدیث ۲۵۰) میں نقل کر کے طلوع آفتاب زوال آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت ثابت کرتا ہے مگر اسی حدیث میں یہ الفاظ نبوی بھی موجود ہیں کہ ((ان تقبر فيهن موتانا )) یعنی ان تین اوقات میں مردوں کو دفنانے سے ہمیں منع فرمایا۔ مگر کتنے ہی ستم کی بات ہے کہ مبتدعین دیابنہ فرمان نبوی کے اس حصہ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
مولانا تقی عثمانی فرماتے ہیں کہ جہاں تک دفن کا تعلق ہے وہ ہمارے نزدیک اوقات مکروہ میں بھی درست ہے۔ اور حدیث باب میں ’’او نقبر فيهن موتانا‘‘ سے نماز جنازہ مراد ہے۔
(کمافی المبسوط للسرخسی ص 68 ج 2 باب غسل المیت درس ترمذی ص 306 ج 3)

حالانکہ ’’ نقبر ‘‘ قبر سے مشتق ہے ۔ علامہ الفتنی اس کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
((او نقبر فیهن ای ندفن من قبره )) ( مجمع بحار الانوار ص 197 ج 4)
یعنی اس کا معنی دفن کرتا ہے، علامہ نووی نے ( شرح صحیح مسلم ص 276 ج 1) میں اس کے معنی نماز جنازہ کو ضعیف کہا ہے مزید تفصیل کے لیے (تحفۃ الاحوذی ص 144 ج2) کی مراجعت کریں۔ خیر ہمیں اس پر گواہوں کی ضرورت نہیں کیونکہ خود مولوی انوار خورشید نے اس کا معنی ’’ دفنا نے‘‘ کیا ہے۔ (حدیث اور اہل حدیث 250)
اسی طرح مولوی عابد الرحمٰن صدیقی کاندھلوی حنفی دیوبندی نے‘ اور مردوں کو دفن کرنے سے روکتے تھے، کیا ہے۔ ( مترجم صحیح مسلم ص 689 ج 1 طبع مطبع سعیدی کراچی)

خلاصہ کلام یہ کہ اس حدیث سے اوقات مکروھہ میں نماز پڑھنے کی ممانعت پر دیابنہ کا استدلال ہے مگر اسی حدیث کے دوسرے حصے مردوں کو دفن نہ کرنے کا انکار کرتے ہیں۔
یہ ہیں اہل سنت جو سنت کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں مگر در حقیقت انہیں سنت سے بغض ہے۔

دوهری تکبیر

مبتد عین دیابنہ کے شیر بہادر نے (حدیث اور اہل حدیث 262) میں حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو سنن اربعہ اور دارمی سے نقل کر کے دوسری تکبیر ثابت کی ہے۔ مگر اسی حدیث میں دوھری اذان بھی ثابت ہے، مگر کتنے ستم کی بات ہے کہ حدیث کے نصف حصے کو تو مطلب بر آری کے لیے تسلیم کر لیا مگر باقی نصف کو تقلیدی آری سے ذبح کر دیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
اس مسئلہ پر مفصل بحث کے لیے دین الحق کی مراجعت کریں۔

مسئلہ رفع الیدین

مبتدعین کے محقق زماں نے (حدیث اور اہل حدیث ص273) میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ( صحیح مسلم ص 173 ج 1 ) سے اور حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث کو (مسلم ص 168 ج 1) سے نقل کر کے محل رفع الیدین میں پیش کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کانوں تک اٹھایا جائے‘ مگر ان دونوں احادیث میں رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنے کا بیان ہے۔ جسے مولوی انوار خورشید تقلید ی ہاتھ کی صفائی سے ہضم کر گیا ہے۔ الغرض ان دونوں احادیث سے جملہ مبتدعین حنفیہ محل رفع میں استدلال کرتے ہیں مگر اس کے اگلے حصے کا محض تقلید سے انکار کرتے ہیں۔

ثناء کا بلند پڑھنا

آنحضرت ﷺ تکبیر تحریمہ کے بعد خاموشی (اخفاء) سے ((اللهم باعد بینی وبین خطایای)) پڑھا کرتے تھے ۔
( بخاری ص 103 ج 1 و مسلم ص 219 ج 1 )

اس اسوہ حبیب کبریا ﷺ کے بر عکس حنفیہ کا موقف ہے کہ ( سبحانك اللهم وبحمدك ) پڑھنا افضل و اعلی اور بہتر ہے۔ اس سلسلہ میں جتنی مرفوع روایات بیان کی جاتی ہیں وہ ضعیف و معلول ہیں۔ ہاں البتہ ان الفاظ کا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پڑھنا، ثابت ہے۔ ہمارے مخاطب مولوی انوار خورشید نے بھی اس روایت سے ’’اللهم باعد بینی‘‘ کی بجائے ’’سبحانك اللهم وبحمدك‘‘ كا پڑھنا ثابت کیا ہے۔ (حدیث اور اہل حدیث٢٨٨)
مگر کتنے ہی افسوس کی بات ہے کہ اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں (( كان يجهر بهولاء الكلمات))  یعنی سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان کلمات کو بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے۔ (مسلم ص 172 ج 1)
لیکن کتنے ہی ستم کی بات ہے کہ مبتدعین دیا نہ اس روایت کے پہلے حصہ کو تو قبول کرتے ہیں مگر ’’کان یجھر‘‘ پر تقلیدی آری چلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرفوع کے بالمقابل موقوف حجت نہیں‘ مگر علم و فضل کے ان مدعیان سے پوچھ کر کون ان کی شان میں گستاخی کرے کہ حضرت جی اگر بلند پڑھنا مر فوع حدیث کے مخالف ہے تو کیا ’’ سبحانك‘‘ پڑھنا مرفوع کے موافق ہے ؟ اگر یہ دونوں ہی مخالف ہیں تو ایک کو مطلب بر آری کے لیے قبول کر لینا اور دوسرے کو تقلید کی وجہ سے ترک کرنا اور بہانہ مرفوع کے مخالف ہونے کا کرنا عیاری نہیں تو اور کیا ہے۔ الغرض اس روایت کے نصف حصے کو دیابنہ نے ایوان کے مذہب کے موافق ہے کو قبول کیا ہے اور باقی نصف حصہ جو انکے مذہب کے خلاف ہے اس کو قبول ہی نہیں کرتے جبکہ اس سے مخالف پر حجت بھی قائم کرتے ہیں۔

نماز میں پیدل چلنا

نماز میں سورہ فاتحہ کا مسئلہ ایک معرکۃ الارا مسئلہ ہے جس میں ہزاروں مناظرے ہوئے اور بیسیوں کتب فریقین کی طرف سے شائع کی گئی ہیں۔ مبتد عین دیا بنہ ترک قراة خلف الامام کے سلسلہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی روایت بھی پیش کرتے ہیں کہ :

جب وہ مسجد میں پہنچے تو آنحضرت ﷺ رکوع میں جاچکے تھے چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ صف میں ملنے سے پہلے ہی رکوع میں چلے گئے پھر حالت رکوع میں ہی چلتے ہوئے صف میں مل گئے ۔ اس پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ ((زادك الله حرصا ولا تعد )) یعنی الله تجھے نیکی کرنے پر اور حریص کرے پھر ایسانہ کرنا۔ ( بخاری ص 108 ج 1)

اس روایت سے دیابنہ کا استدلال ہے کہ اگر کوئی شخص امام کو رکوع میں پالے تواس کی رکعت ہو جائے گی ( حدیث اور اہل حدیث 346)
حالانکہ اس حدیث میں سرے سے اس کا بیان ہی نہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس رکعت کو بھی شمار کیا تھا‘ علاوہ ازیں آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے فعل کو پسند بھی نہیں کیا ہی وجہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے آئندہ ایسا کرنے سے منع فرمایا‘ خیر ہم نے جو بات بیان کرنی ہے وہ فاتحہ خلف الامام کی بجائے نماز میں چلنا ہے کیونکہ اسی روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو رکوع کی حالت میں چلتے ہوئے صف میں شامل ہوئے۔
(طبرانی و طحاوی بحوالہ فتح الباری ص 213 ج 2)
مگر حنفیہ کہتے ہیں کہ یہ مکروہ ہے۔ اگر تین چار قدم یا اس سے زیادہ چلے تو نماز باطل ہو جائے گی۔
(فتاوی عالم گیری ص 103 ج 1)
احناف کا یہ فتوی اس حدیث کے صریحاً مخالف و معارض ہے مگر کتنے ستم کی بات ہے کہ حنفیہ اسی حدیث سے رکوع میں ملنے سے رکعت کا ثبوت پیش کرتے ہیں مگر اس روایت کے دوسرے حصے سے انکار کرتے ہیں۔

نماز کی آخری دور کعتوں میں قرات

حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا :
(( وان لم تزد على ام القرآن اجزات وان زدت فهو خير )) ( صحیح بخاری ص 106 ج 1)

یعنی نمازی اگر سورت فاتحہ سے زیادہ قرآت نہ کرے تو وہ کافی ہو گی اگر زیادہ کرلے تو بہتر ہو گی۔
حافظ ابن حجر نے( فتح الباری ص 200 ج 2 ) میں اور علامہ عینی حنفی نے (عمدۃ القاری ص 33 ج 6) میں تصریح کی ہے کہ یہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہی نہیں بلکہ حکماً مرفوع ہے۔ اس حدیث کی بنا پر بعض علماء اہل حدیث کا یہ موقف ہے کہ اگر آخری دور کعت میں بھی سورہ فاتحہ سے زیادہ پڑھ لیا جائے تو بہتر ہے۔ اس موقف پر نقد کرتے ہوئے مبتدعین دیابنہ کا محقق شہیر ( صحیح بخاری ص 107 ج 1 ) سے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو نقل کرتا ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نماز ظہر کی پہلی دور کعتوں میں سورہ فاتحہ اور دوسری دو سورتیں پڑھتے تھے۔ اور دوسری دو ر کعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔ ( حدیث اور اہل حدیث 361)
آگے چل کر اس روایت سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان احادیث و آثار کے خلاف غیر مقلدین کا کہنا ہے کہ چار رکعت والی نماز میں آخری دور کعتوں کے اندر سورہ فاتحہ کے علاوہ دوسری سورت پڑھنا بھی جائز ہے۔ (صفحہ 366)
مگر ہم عرض کرتے ہیں کہ اس حدیث سے مبتدعین کا سلفی علماء کو مطعون کر نا ان حضرات کے مؤقف اور مذہب کے خلاف ہے کیونکہ اگر اسی روایت سے زیادت علی الفاتحہ کی ممانعت ثابت ہوتی ہے تو اسی روایت سے ہی آخری دور کعتوں میں قرآت فاتحہ بھی ثابت ہوتی ہے۔ مگر مبتد عین دیا بنہ اس بات کو تو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ ان کے نزدیک آخری دور کعت میں صرف قیام فرض ہے۔ خود مولوی انوار خورشید لکھتا ہے:
’’اگر کوئی فرض نماز کی دوسری دو یا ایک رکعت میں خاموش کھڑارہا تو بھی اس کی نماز ہو جائے گی۔
(ملخصا‘ حدیث اور اہل حدیث ص 366)
مگر اس مؤقف کی مذکورہ حدیث سے نفی ہوتی ہے لیکن کتنے ہی ظلم و ستم کی بات ہے کہ جس حصے سے مخالف پر حجت قائم کرتے ہیں اسی حصے کو اپنے حق میں غیر موثر کہتے ہیں گو یا خود تو اس پر عمل نہیں کرتے مگر مخالف پر دلیل قائم کرتے ہیں۔ انا للہ واہ الیہ راجعون

امام کی تسمیع و تحمید کہنے کی مثال

مبتدعین دیابنہ ( سنن ابی داود ص 107 ج 1 ) سے حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کرتے ہیں جو صحیح حدیث کے مخالف ہونے کے علاوہ سند ابھی ضعیف
ہے۔ کیونکہ اس کی سند میں عیسیٰ بن عبد اللہ العمری راوی ہے جسے امام علی بن مدینی نے مجہول کہا ہے۔ (تہذیب ص 217 ج 8)
کسی محدث سے ان کی توثیق منقول نہیں۔ حافظ ابن حجر نے (تقریب ا۲۷) میں اسے مقبول کہا ہے یعنی متابعت کی صورت میں ورنہ لین الحدیث ہے جیسا کہ حافظ صاحب نے مقدمہ تقریب میں صراحت کی ہے‘
مگر یہاں اس کا کوئی متابع موجود نہیں‘ علامہ البانی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے (ضعیف سنن ابی داود – ص 70)
لیکن مبتدعین نے اس کو دلیل اور حجت بناتے ہوئے جلسہ استراحت کے عدم پر پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذ کورہ احادیث و آثار سے ثابت ہو رہا ہے کہ پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے سے فارغ ہو کر بغیر بیٹھے سیدھے کھڑے ہو جانا مسنون ہے۔ (حدیث اور اہل حدیث ص 436,447)
مگر آپ حیران ہونگے کہ اسی روایت میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ :
((ثم رفع راسه يعنى من الركوع فقال سمع الله لمن حمده اللهم ربنا لك الحمد ورفع يديه ))
یعنی رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے ’’ سمع اللہ لمن حمده اللهم ربنا لك الحمد‘‘ کیا اور رفع الیدین کیا۔
(سنن ابی داود ص 107 ج 1)
ان الفاظ کو مؤلف ( حدیث اور اہل حدیث ) نے اپنے مخالف جان کر بددیانتی کرتے ہوئے حذف کر دیا ہے کیونکہ اس میں رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنے کا ذکر تھا اور امام کا ’’اللهم ربنا لك الحمد‘‘ کہنے کا بیان تھا۔ اور حنفیہ کا موقف یہ ہے کہ امام صرف تسمیع کہے۔ (درس ترمذی ص 49 ج 2)
قارئین کرام آپ دیابنہ کی ہیرا پھیریاں ملاحظہ کریں کہ اول تو حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث جس میں جلسہ استراحت کا ذکر تھا (ابو داود ص 106 ج 1 ) کو چھوڑ کر ضعیف روایت کا انتخاب کیا‘ دوسری چالا کی یہ کی کہ اپنے مخالف حصے کو حذف کر دیا۔ خلاصہ کلام یہ کہ مبتدعین دیلبنہ اس حدیث کے ایک حصہ کو مطلب بر آری کے لیے تسلیم کرتے ہیں جب کہ اس حدیث کے دوسرے حصہ کو ترک کرتے ہیں۔اور دعویٰ اہل سنت ہونے کا کرتے ہیں۔

تعدیل ارکان کی مثال

(صحیح بخاری ص 109 ج ١)
میں حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ایک اعرابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے دونوں سجدوں کے درمیان اطمینان سے بیٹھنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا کہ:
((ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا ثم ارفع حتى تطمئن جالسا ثم اسجد حتى تطمئن ساعدا )) الحديث
یعنی پھر سجدہ کر‘ یہاں تک کہ تو سجدہ میں قرار پکڑ‘ پھر سجدہ سے سر اٹھا اور بیٹھ جایہاں تک کہ تو بیٹھنے میں اطمینان پکڑ‘ پھر سجدہ کر یہاں تک کہ تو سجدہ میں مطمئن ہو جائے۔
(الحدیث باب امر النبيﷺ الذى لا يتم رکو نہ بلا عادة رقم الحديث 793)
مسند احمد ص 340 ج 4 و ابن حبان رقم الحدیث 1784 وغیرہ میں یہ حدیث رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے محمد بن عمرو کی سند سے مروی ہے جس میں مذکورہ مقام پر بیٹھنے کی کیفیت کا بھی ذکر ہے کہ ’’فاذا رفعت راسك فاجلس على فخذك اليسرى“ یعنی جب دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھے تو اپنی بائیں ران پر بیٹھ ۔ الغرض یہاں دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی کیفیت کا بیان ہے۔ تفصیل کے لیے فتح الباری ص 221 ج ٢ کی مراجعت کریں۔
مگر مبتدعین کا باوا آدم ہی نرالہ ہے کہ ان الفاظ کو تشہد پر محمول کرتے ہوئے مؤلف ( حدیث اور اہل حدیث) لکھتا ہے کہ جب تشہد میں بیٹھے تو اپنے بائیں پاؤں پر بیٹھ ۔
( حدیث اور اہل حدیث 456)
آگے چل کر اپنی اس کاروائی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدم تورک کی دلیل ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حالانکہ کسی محدث نے اس جگہ تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت کی صراحت نہیں کی’ تمام یہی کہتے ہیں کہ یہ کیفیت دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی ہے۔
خیر ہم نے اس سے بھی پر لطف بات عرض کرنی ہے وہ یہ کہ اسی حدیث میں تعدیل ارکان کا حکم بھی زبان نبوی ﷺ سے صادر ہوا ہے اور نہ کرنے والے کو آنحضرت ﷺ نے تین بار ار شاد فرمایا کہ :
((ارجع فصل فانك لم تصل)) ( بخارى ص 109 ج ١‘ و مسلم ص 170 ج 1 عن ابی ھريرة‘ أو مسند احمد ص 340 ج ٤‘ وابن حبان ص 139 ج 4 (1484) عن رفاعہ بن رافع )
لوٹ جا اور دوبارہ نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔
مگر مبتد عین دیا بنہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی جان بوجھ کر بھی تعدیل ارکان نہ کرے تو فریضہ نماز بہر حال اس سے ساقط ہو جائے گا۔ (درس ترمذی ص 48 ج 2) اور اس کی نماز باطل نہ ہو گی۔ (اشعتہ اللمعات ص 380 ج 1)
امام اکمل الدین البابرقی متوفی ھدایہ کی شرح میں فرماتے ہیں کہ :
(( الاختلاف تظهر في حق جواز الصلاة بدونه ))
یعنی اس اختلاف سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تعدیل ارکان کے بغیر بھی نماز جائز ہے۔
(عنايتہ شرح ھدایہ علی حامش فتح القدير ص 261 ج1)
خلاصہ کلام یہ کہ اس حدیث کو دلیل و حجت بنانے والے خود اس کے باقی ایک حصے کے عملاً منکر ہیں۔

عداوت اہل حدیث میں حدیث رسولﷺ کا انکار

مبتد عین دیابنہ کی اہل حدیث کے رد میں لکھی ہوئی معروف کتاب (حدیث اور اہل حدیث کے صفحہ 538 میں صحیح بخاری ص 160 ج 1 اور مسلم ص 204 ج ١) ( واللفظ للمسلم) کے حوالے سے یہ حدیث لکھی ہوئی ہے کہ
(( عن زيد بن ارقم قال كنا تتكلم في الصلوة يكلم الرجل صاحبه و هو الى جنبه في الصلوة حتى نزلت و قوم و الله قنتين فامرنا بالسكوت و نهينا عن الكلام))
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نماز میں باتیں کر لیا کرتے تھے ایک شخص دوسرے شخص سے جو اس کے پہلو میں ہو تا نماز میں باتیں کر لیا کرتا تھا حتی کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ کھڑے رہو اللہ تعالی کے حضور میں عاجزی کے ساتھ‘ تو ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور بات سے منع کر دیا گیا۔ اس حدیث سے مبتد عین دیابنہ کا نماز میں گفتگو کرنے کی ممانعت پر استدلال ہے‘ جو بلا شبہ درست اور صحیح ہے کہ نماز میں گفتگو اور کلام نہ کرنا چاہیے کہ اس سے نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ مگر قارئین کرام آپ حیران ہو نگے کہ اس بات کو مبتد عین دیابیہ صرف اور صرف رد اہل حدیث میں ہی قبول کرتے ہیں ورنہ یہ لوگ اس حدیث کو اپنی زندگی سے باہر نکال چکے ہیں تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل واضح اور حجت قاطع ہے کہ نماز کی اصلی حالت سکوت ہے۔ اور نماز میں جہر صرف اور صرف وہاں ہی کیا جائے گا جہاں نص سے جہر ثابت ہو گا مگر آج کی پوری دیوبندی جماعت اس حدیث کو نظر انداز کر کے بغض اہل حدیث اور عداوت سنت میں یہ عام اعتراض کرتے ہیں کہ: قرآن وسنت سے ثناء تعوذ کا آہستہ پڑھنا‘ مقتدی کا تکبیرات آہستہ کہنا‘ سلام رکوع و
سجود کی تسبیحات وغیرہ آہستہ پڑھنا ثابت نہیں ہیں۔ (دیکھئے‘ تحفہ اہل حدیث 91)
دیکھا آپ نے کہ مبتدعیں دیا بنہ نھمینا من الکلام کو تو مانتے ہیں مگر بغض سنت اور عداوت اہل حدیث میں’’ فامرنا بالسکوت‘‘ کی نفی کر کے جماعتی سطح پر صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی آخرت خراب کر رہے ہیں۔

نماز وتر کی تعداد رکعات

علمائے دیوبند کا موقف ہے کہ وتر واجب ہیں‘ اس کی دلیل دیتے ہوئے مولوی انوار خورشید لکھتا ہے کہ
(( عن أبي أيوب الانصارى قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الوتر حق واجب على كل مسلم)) (مسند احمد صحيح ابن حبان بحواله الدرايه منحة المعبود في ترتيب مسند الطيالسي ص 119 ج 1 و دار قطنی ص 22 ج 2)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا وترحق ہیں‘ واجب ہیں‘ ہر مسلمان پر ۔ ( حدیث اور اہل حدیث 548)
اس روایت سے مبتدعین دیابنہ کا نماز وتر کے واجب ہونے کا استدلال ہے۔
تبصرہ: اولاً یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ مسند احمد ابن حبان اور مسند طیالسی میں قطعاً نہیں بلا شبہ درایہ میں واجب کے لفظ کو حافظ ابن حجر نے مذکورہ کتب کی طرف منسوب کیا ہے مگر یہ تصحیف ہے کیونکہ (ا لتلخیص الحبیر ص 13 ج2) میں صرف دار قطنی کی طرف منسوب کیا ہے اور یہی صحیح ہے۔
ثانیاً: واجب کا لفظ کہنے میں راوی ابن حسان سے غلطی ہوئی ہے جیسا کہ اسی روایت کے آگے امام دار قطنی نے صراحت کی ہے۔ (سنن دار قطنی ص 22 ج 2)
ثانیاً: پوری حدیث اس طرح ہے کہ
((الوتر حق على كل مسلم من احب ان يوتر بخمس فليفعل ومن احب ان يوتر بثلاث فليفعل ومن احب ان يوتر بواحد فليفعل ))
یعنی ہر مسلمان پر و تر لازم و ثابت ہیں ، جو شخص پانچ پڑھنے پسند کرے وہ ایساہی کرے۔ اور جو شخص تین پڑھنا پسند کرے وہ ایسا ہی کرے اور جو شخص و تر ایک ہی پڑھنا پسند کرے وہ ایساہی کرے۔
(ابو داود ص 201 ج 1 و نسائی ص 202 ج 1 و ابن ماجه 84 وطحاوی 200 ‘و دار قطنی ص 23 ج 2 ‘و مستد رک حاکم ص 303 ج 1 ‘و مسند احمد ص 418 ج ٥‘ ومسند فردوس ص 142ج5)
قارئین کرام ! آپ مبتدعین دیا بنہ کے مقتدا اعظم کی ہیرا پھیری کو بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ متن روایت کو پورا نقل کیوں نہیں کیا اس لئے کہ اس حدیث سے پانچ اور ایک عدد وتر ثابت ہوتا ہے اور یہ بات دیابنہ کے بدعی مسلک کے خلاف تھی اس کے لیے انوار خورشید نے یہ مخلص تلاش کیا کہ متن حدیث کو ہی آدھا نقل کیا پھر غیر مترجم کتب کا حوالہ نقل کر دیا کہ اگر کوئی اردو خواں اس کی تحقیق کرنا چاہے تو حقیقت حال کو بھانپ نہ سکے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
قارئین کرام! آپ نے دیکھا کہ اس روایت کے ایک حصے کو مبتدعین دیا بنہ قبول کرتے ہوئے اس سے وتر کے واجب ہونے پر استدلال کرتے ہیں مگر اسی روایت کے دوسرے حصے کو تقلیدی ہاتھ کی صفائی سے چھپا جاتے ہیں بلکہ ماننے کو تیار نہیں اس کے با وجود د عویٰ اہل سنت اور علوم نبوی کے وارث ہونے کا ہے۔

نماز وتر میں مسنون قراة

نماز وتر میں مسنون قرآۃ یہ ہے کہ نماز پڑھنے والا پہلی رکعت میں’’ سبح اسم ربك الأعلى‘‘ اور دوسری رکعت میں’’ قل یا یھا الكفرون‘‘ اور تیسری رکعت میں’’ قل هو الله احد‘‘ تلاوت کرے۔ اس پر متعدد احادیث موجود ہیں جن کو مبتدعین دیابنہ کے محقق العصر مولوی انوار خورشید نے درج کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وتر کی تین رکعتیں ہیں۔
( حدیث اور اہل حدیث 556)
ان کا یہ استدلال محل نظر ہونے کے باوجود یہ احادیث ان کے مذہب کے خلاف ہیں وہ ایسے کہ اگر کوئی شخص ان احادیث پر عمل کرتے ہوئے مسنون قرآت کرے تو حنفیہ کہتے ہیں کہ یہ مکروہ ہے کیونکہ قرآن کی بعض سورتوں کو نماز میں قرآت کے لیے خاص کرنا جائز نہیں ہے۔
(ھدا یہ مع فتح القدیر ص 293 1 والبحر الرائق ص 43 ج 2 و فتاوی شامی ص 544 ج1)
پھر اس پر انہوں نے جو دلائل نقل کیے ہیں انہیں پڑھ کر ان کی حالت زار پر ترس بھی آتا ہے اور بے ساختہ ہنسی بھی آجاتی ہے کہ یہ حضرات فقہاء ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ حنفی ان احادیث کو صحیح و درست جان کر استدلال بھی کرتے ہیں مگر انہیں روایات سے جو دوسرا مسئلہ ثابت ہوتا ہے جو ان احادیث کی بنیادی روح ہے اس کا محض شخصیت پرستی کی وجہ سے انکار کرتے ہیں اور دعویٰ اہل سنت کا کرتے ہیں۔ فانا اللہ۔۔۔۔

فجر کی سنتیں پڑھ کر کلام کرنا

حضرت عائشہ رضی اللہ عنھار او یہ ہیں کہ :
(ان النبي ﷺ كان اذا صلى سنة الفجر فان كنت مستيقظة حدثنى والا اضطحع حتى يؤذن بالصلوة )
یعنی نبیﷺ جب صبح کی سنتیں پڑھ لیتے اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے باتیں کرتے ور نہ لیٹ جاتے حتی کہ آپ کو نماز کی اطلاع کی جاتی۔
( صحیح بخاری ص 155 ج 1 و مسلم ص 255 ج1)
یہ روایت علمائے دیوبند پیش کر کے یہ مسئلہ ثابت کرتے ہیں کہ سنت فجر پڑھ کر اضطحع (دائیں پہلو پر لیٹنا ) کرنا سنت نہیں ہے۔ (حدیث اور اہل حدیث ۲۱۰)
مگر اس حدیث سے جو یہ ثابت ہوتا ہے کہ سنت فجر کے بعد اور فرائض پڑھنے سے قبل گفتگو بلا کراھت جائز ہے اس کے مبتدعین دیابنہ منکر ہیں۔ احناف کے بعض فقہاء کا قول ہے کہ سنت فجر کے بعد بات چیت کرنے سے سنت فجر باطل ہو جاتی ہیں۔ اور جمہور فقہاء احناف کا یہ موقف ہے کہ سنت فجر باطل تو نہیں ہو تیں البتہ ثواب میں فرق آجاتا ہے۔ ( درس ترمذی ص 182 ج 2)
صاحب در مختار لکھتا ہے کہ :
((ولو تكلم بين السنة والفرض لا يسقطها ولكن ينقص ثوابها ))

یعنی اگر سنت فجر اور فرض کے درمیان گفتگو کی تو سنتیں باطل تو نہ ہو نگی البتہ ان کے ثواب میں کمی واقع ہو جائے گی۔(در مختار مع شامی ص 19 ج ٢)

یہی موقف علامہ ابن نجیم حنفی نے کنز الد‎قائق کی شرح البحر الرائق ۲/۴۹ میں حنفیہ کا بیان کیا ہے۔
الغرض اس حدیث کے نصف حصے کو تو حنفی مانتے ہیں مگر کلام کرنے کے حصے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں، حتی کہ اگر کسی نے کلام کر لیا تو اس کے ثواب میں کمی واقع ہو جائے گی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
فرض کیجئے کہ کوئی شخص صبح کی سنتیں گھر میں ادا کرتا ہے اور اس کی بیوی جاگ رہی تھی اور اس شخص نے اسوۂ رسول علیہ التحیۃ والسلام پر عمل کرتے ہوئے اپنی رفیقہ حیات سے دکھ سکھ یا کسی سلسلہ میں بات کر لی تو حنفی کہتے ہیں کہ اس کے ثواب میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسوہ حبیب ﷺ پر عمل کرنے سے بھی کسی کار خیر کے ثواب میں کمی واقع ہوتی ہے۔

قضاء نماز پڑھنے کا وقت

آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے صبح کی نماز کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ یہ حدیث متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے مثلا:
(۱) حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ ۔ ( بخاری ص 82 ج 1 و مسلم ص 275 ج 1 )
(۲) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ۔ ( بخاری ص 82 ج 1 ء مسلم ص 275 ج 1 )
(۳) حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ۔ ( بخاری ص 82 ج 1‘ و مسلم ص 275 ج 1 )
مبتدعین دیابنہ کا ان احادیث سے یہ استدلال ہے کہ اگر سنت فجر رہ جائیں تو سورج طلوع ہونے سے پہلے ان کی قضاء نہیں پڑھ سکتا ۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ مذکورہ احادیث و آثار سے ثابت ہو رہا ہے کہ فجر کی نماز کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک کوئی نماز جائز نہیں۔ ( حدیث اور اہل حدیث 621)
مگر آپ حیران ہو نگے کہ سنت فجر کو تو طلوع آفتاب سے قبل یہ کہہ کر منع کر رہے ہیں کہ کوئی نماز جائز نہیں لیکن دیگر قضاء نمازوں کے سلسلہ میں اپنی اس ساری فقاہت کو بھول جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ :
((ولا باس بان يصلى في هذين الوقتين الفوائت ))
یعنی ان دونوں مکروہ اوقات میں قضاء نمازوں کو پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(ھدايه مع فتح القدير ص 207 ج 1)
الغرض اگر زید کی صبح کی سنتیں رہ جائیں تو اسے اس حدیث کی بنا پر طلوع آفتاب سے قبل پڑھنے سے منع کرتے ہیں لیکن اگر زید عشاء کی قضاء نماز کو طلوع آفتاب سے پہلے یا غروب شمس سے پہلے ادا کرے تو اسے اجازت عنایت کرتے ہیں۔ گویا حدیث کو مطلب بر آری کے لیے قبول بھی کرتے ہیں اور مقصد کے مخالف ہونے کی صورت میں رد بھی کرتے ہیں اس پر مزید وھو کا یہ کہ ہم خالص اہل سنت ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

سنتوں کی قضاء

متعد د احادیث صحیحہ سے سنت کی قضاء رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے ثابت ہے تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے‘ آئیے ہم آپ کو ایک ایسی حدیث کی نشان دہی کریں جس سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے۔ اور مبتد عیں دیابنہ اس حدیث کو دلیل و حجت بنانے کے باوجود اس مسئلہ کو تسلیم نہیں کرتے‘ چنانچہ مبتدعین دیابنہ کا محقق مولوی انوار خورشید نماز مغرب سے قبل عدد رکعت نفل کے عدم پر دلیل دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ

((عن جابر قال سالنا نساء رسول الله صلى الله عليه وسلم هل رأتين رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلى الركعتين قبل المغرب فقلن لا غير ان ام سلمة قالت صلاهما عندى مرة فسالته ما هذه الصلوة فقال نسيت الركعتين قبل العصر فصليتهما الان)) ( رواه الطبرانی فی کتاب مسند الشامسين بحوالہ نصب الرایہ ص 141 ج 2)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطہرات سے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو مغرب کی نماز سے پہلے دور کعت نفل پڑھتے دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں سوائے اس کے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ ایک مرتبہ آپ نے دور کعتیں میرے پاس پڑھیں تو میں نے آپ سے سوال کیا کہ یہ کون کی نماز ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں عصر سے پہلے دور کعتیں پڑھنا بھول گیا تھاوہ میں نے اب پڑھی ہیں۔ ( حدیث اور اہل حدیث 626)
گو یہ روایت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں یحییٰ بن ابی الحجاج الا ھتمی راوی لین الحدیث ہے۔ تقریب 374 اور اس کا شیخ عیسیٰ بن سنان الحضی بھی لین الحدیث ہے۔ تقریب 271۔ مگر مبتدعین دیابنہ اس سے استدلال کرتے ہیں۔ لیکن اسی حدیث سے جو یہ ثابت ہوتا ہے کہ سنن کی بھی قضاء ہے اسکے منکر ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ صرف وتر اور فرائض کی قضاء لازم ہے‘ باقی کسی کی نہیں۔ حالانکہ مذکورہ حدیث سے سنن کی قضاء کا مسئلہ ثابت ہوتا ہے۔ الغرض اس کے نصف حصے کو مطلب پر آری کے لیے تسلیم کرتے ہیں مگر نصف کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

حیلہ نماز کار داور کفارہ نماز کی تردید

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس میں الفاظ نبوی ہیں:
((من نسي عن صلوة فليصلها اذا ذكرها لا كفارة لها الا ذلك ))
یعنی جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے تو اسے چاہیے کہ جب یاد آئے تو نماز کو پڑھ لے اس کے علاوہ اس کا کوئی کفارہ نہیں۔ ( بخاری ص 84 ج 1 و مسلم ص 241 ج 1‘ واللفظ للمسلم )
اس حدیث سے مبتد عین دیا بنہ قضاء نماز کو پڑھنے کے وجوب پر استدلال کرتے ہیں۔ ( حدیث اور اہل حدیث 696)
مگر آپ حضرات حیران ہو گے کہ اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہو رہا ہے که اگر نماز کسی وجہ سے رہ جائے تو اس کا کفارہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اس کو پڑھا جائے اس کے علاوہ قضاء نماز کا کوئی کفارہ نہیں ہے لیکن اس مسئلہ کو مبتد عیں دیا بیہ تسلیم نہیں کرتے اور قضاء نماز کا مالی کفارہ بھی تسلیم کرتے ہیں۔
مولانا سر فراز خان صفدر فرماتے ہیں کہ اگر کسی عاقل اور بالغ کے ذمہ کچھ نمازیں باقی ہوں اور اس حالت میں اس کی وفات ہو جائے تو فقہاء کرام نے روزہ پر قیاس کرتے ہوئے اس کے لیے فدیہ تجویز کیا ہے۔(راہ سنت 278)
پھر اس فدیہ کو بھی جس حیلہ سے ادا کرتا ہے اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ایک صاع گندم ایک فرض نماز کا اور نصف صاع گندم نماز وتر کا جس کو میت کے مال کے تیسرے حصے سے ادا کیا جائے گا‘ اگر بالفرض میت کی وراثت اتنی نہیں تو جب چند نمازوں کی مقدار کے برابر گندم کسی مسکین کو دے دیں اور پھر مسکین میت کے وارثوں میں سے کسی پر صدقہ کر دے اسی طرح ہی گندم کو چند بار گھمایا جائے حتی کہ میت کی تمام قضاء نمازوں کا فدیہ پورا ہو جائے۔ (البحر الرائق ص 91 ج 2)
خلاصہ کلام یہ کہ دیا بنہ اس حدیث کو قضاء کے وجوب کی دلیل دیتے ہوئے تو قبول کرتے ہیں مگر تردید فدیہ کے منکر ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
حالانکہ یہ مسئلہ ان کی دلیل بنائی ہوئی حدیث میں موجود ہے مگر تقلید کی وجہ سے آدھی کو مانتے ہیں اور آدھی کے منکر ہیں۔
نوٹ : اس مسئلہ پر تفصیل سے بحث راقم کی تالیف دین الحق حصہ دوم میں ملاحظہ کریں جو کتابت کے مرحلہ سے گزر چکی ہے۔ اللہ کرے اس کی طباعت کا بھی کوئی ذریعہ پیدا ہو جائے۔ ابو صہیب‘ 21 شعبان المعظم 1420 ھ

سفر کی حالت میں سنتیں پڑھنا

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کی صحبت اٹھائی ہے۔ آپ علیہ السلام سفر میں دور کعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔ ( بخاری ص 129 ج 1 و مسلم ص 242 ج 1)
اس حدیث سے مبتدعین دیابنہ ہے کا وجوب قصر پر استدلال ہے۔ ( حدیث اور اہل حدیث ص ۷۲۶)
مگر اسی حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ حالت سفر میں نوافل ادا کرنا جنہیں عرف عام میں سنتیں کہا جاتا ہے۔ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا معمول نہ تھا‘ حالانکہ مبتدعین دیابنہ کا مؤقف ہے کہ نوافل رواتب (سنتیں ) پڑھنے چاہئیں‘ حدیث اور اہل حدیث 738۔ الغرض مبتدعین کی عجیب حالت ہے کہ مطلب بر آری کے لیے اس سے استدلال بھی کرتے ہیں مگر تقلیدی مسائل میں اسی حدیث کا انکار بھی کرتے ہیں۔

نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ

(سنن نسائی ص 228 ج 1) میں حضرت ابی امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
((السنة في الصلوة على الجنازة ان يقرأ في التكبيرة الا ولى بام القرآن مخافة ثم يكبر ثلثا والتسليم عند الاخرة))
یعنی نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ کو آہستہ پڑھا جائے‘ پھر تین تکبیریں کہی جائیں جن کے آخر میں سلام پھیرا جائے۔ اس حدیث سے مبتدعین دیابنہ کا نماز جنازہ کو آہستہ پڑھنے پر استدلال ہے۔ ( حدیث اور اہل حدیث 877)
مگر آپ حیران ہو نگے کہ اسی حدیث سے یہ ثابت ہو رہا کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قرآۃ کرنا بھی عمل نبوی علیہ التحیۃ والسلام ہے۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ مبتدعین اس سے نماز جنازہ کو آہستہ پڑھنے پر استدلال کرتے ہیں مگر اسی حدیث سے ثابت دوسرے مسئلہ کا انکار بھی کرتے ہیں۔ ان سے ان کا دعویٰ پوچھو تو جھوٹ کہتے ہیں ہم اہل سنت ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!