سوال :
کیا جمعہ کے دونوں خطبوں میں عربی کے علاوہ اور کوئی زبان استعمال کر کے مخاطبین کو مسائل سمجھائے جا سکتے ہیں ؟ صحابہ کرام مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے تھے، انھوں نے وہاں جا کر کون سی زبان استعمال کی تھی ؟ اس مسئلہ کی وضاحت کریں۔
جواب : خطبہ کا مقصود سامعین و حاضرین کو وعظ ونصیحت ہے، جس بیان میں افہام (سمجھانا) نہ ہو وہ تو وعظ ہی نہیں ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء ورسل علیہم السلام کو ان کی قوم کی زبان سمجھا کر بھیجا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
”اور ہم نے کوئی بھی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قومی زبان کے ساتھ تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے۔ “ ابراھیم : 4
اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ خطاب کرنے والے حضرات کا خطبہ تب ہی مؤثر ہو گا جب وہ سامعین کی زبان میں ہو گا، اور اگر سامعین کی زبان کوئی اور ہو اور خطیب کی کوئی اور تو سامعین کو اس وعظ کا کوئی فائدہ نہ ہو گا اور مقصود فوت ہو جائے گا۔
صحیح مسلم وغیرہ میں خطبہ جمعہ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں :
يَقْرَءُ الْقُرْآنَ وَيُذَكَّرُ النَّاسَ [مسلم، كتاب الجمعة : باب ذكر الخطبتين قبل الصلوة (862)]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھتے اور لوگوں کو وعظ کرتے۔“
اور ظاہر ہے کہ افہام (سمجھانا) نہ ہو تو وعظ ہی نہیں ہوتا اور لفظ خطبہ بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ سامعین کی زبان کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ کیونکہ خطبہ خطاب سے ہے اور خطاب پر صرف عربی زبان کی پابندی اصل مقصود کو فوت کرتی ہے، جو خطاب سے مقصود ہوتا ہے۔ فتاویٰ شامی (543/1) میں مذکورہ مسئلہ کے بارے میں لکھا ہے :
”مصنف نے خطبہ کے عربی میں ہونے کی قید نہیں لگائی کیونکہ باب ”صفۃ الصلاۃ“ میں گزر چکا ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ شرط نہیں خواہ سامعین عربی پر قادر ہی ہوں برخلاف صاحبین کے کیوں کہ ان کے نزدیک عربی میں ہونا شرط ہے مگر عربی سے عاجز ہو تو پھر ان کے نزدیک بھی غیر عربی میں جائز ہے۔“
معلوم ہوا کہ ائمہ احناف کے ہاں بھی خطبہ کے لیے عربی زبان شرط نہیں۔ صحابہ کرام میں عربی زبان کے علاوہ خطبہ دینے کی مثال اس لیے نہیں کہ ان کی اور ان کے سامعین کی زبان عربی تھی۔
مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ : 371/2 تا 387