عطیات دینے میں بچوں کے درمیان امتیازی سلوک
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

کیا عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بیٹوں میں سے کسی ایک کو کا استقبال کرنے اور مرحبا کہنے میں دوسروں سے خاص کرے ، جبکہ وہ سب اس عورت (اپنی ماں) سے برابر حسن سلوک کرتے ہوں ، اور ایسے ہی اپنے پوتوں میں سے کسی کو خاص کرنا کہ وہ سب اس سے یکساں حسن سلوک اور سلام کلام کرتے ہیں ؟

جواب :

باپ (اور ماں) پر لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرے اور عطیہ ، تخفہ ، ہدیہ اور دیگر عنایات کے دینے میں وہ بعض کو بعض پر فضیلت نہ دے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
اتقو الله واعدلوا بين أولادكم [صحيح البخاري ، رقم الحديث 2447 ]
”اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو ۔“
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
أتحب أن يكونوا فى البر سواء فسو بينهم [ صحيح ۔ صحيح ابن حبان 505/11 ]
”کیا تو پسند کرتا ہے کہ وہ سب تیرے ساتھ حسن سلوک کریں ، تو تم بھی ان کے ساتھ برابری اور انصاف کرو“
اکا بر علماء کرام رحمہ اللہ تو بچوں کے درمیان بوسہ دینے ، خندہ پیشانی سے ملنے اور ان کو خش آمدید کہنے میں بھی برابری اور انصاف کو پسند کرتے تھے ، کیونکہ اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرنے کا واضح حکم ہے ۔ لیکن بعض اوقات ان میں سے بعض چیزوں میں برابری نہ کرنے میں رعایت اور گنجائش موجود ہے ، مثلاًً بلاشبہ باپ بعض اوقات چھوٹے بچے اور مریض و بیکار بچے کی بطور شفقت کے دوسروں پر فضیلت دے ۔ البتہ اس مسئلہ میں اصل میں ہے کہ تمام معاملات میں بچوں کے درمیان عدل و انصاف کیا جائے ، خاص طور پر جب وہ حسن سلوک ، صلہ رحمی اور اطاعت وغیرہ کرنے میں اس کے ساتھ برابری کے حصہ دار ہوں ۔

( عبداللہ بن عبد اللرحمن الجبرین حفظہ اللہ )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: