دوائی کرنا سنت اور مستحب ہے۔ شفاء اللہ کےحکم سے ہی ہوتی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض چیزوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے شفاء رکھی ہے۔ ذیل میں ان کا ذکر ملاحظہ فرمائیں :
مضمون کے اہم نکات:
(۱) کلونجی :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
إن فى الحبة السوداء شفاء من كل داء إلا السام
’’کلونجی میں موت کے علاوہ ہر بیماری کی شفاء ہے۔“ (صحيح بخاري : 5688، صحيح مسلم : 2215)
(۲) سنائے مکی :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ثلاث فيھن شفاء من كل داء إلا السام، السنا…
’’تین چیزوں میں سوائے موت کے ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔ ان میں سے ایک چیز سنائے مکی ہے۔“ (السنن الكبري للنسائي : 3467، وسنده حسن)
(۳) عود ہندی :
ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
عليكم بھذا العود الھندي، فإن فيه سبعة أشفية
’’تم اس عود ِ ہندی (قسط شیریں ) کو ضرور استعمال کرو کیونکہ اس میں سات بیماریوں کے لیے شفاء ہے۔“(صحيح بخاري : 5692، صحيح مسلم : 2214)
(۴) کھمبی:
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الكمأة من المن الذي أنزل الله عزوجل على بنى اسرائيل، وماء ھا شفاء للعين
’’کھمبی اس منّ کی ایک شکل ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر نازل کیا تھا۔ اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفاء ہے۔“ (صحيح بخاري : 5708، صحيح مسلم : 2049)
(۵) عجوہ کھجور :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
العجوة من الجنة، وفيھا شفاء من السم
’’عجوہ جنت کی کھجور ہے اس میں زہر کے لیے شفاء ہے۔“ (سنن الترمذي : 2066، وقال : حسن غريب، وسنده حسن)
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
من تصبح بسبع تمرات عجوة لم يضره ذلك اليوم سم ولا سحر
’’جو آدمی صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لے، اسے اس دن زہر اور جادو نقصان نہ دے سکے گا۔“ (صحيح بخاري : 5769، صحيح مسلم : 2047)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’ ’ (مدینہ منورہ کے) بالائی حصے کی عجوہ کھجوروں میں شفاء ہے یا صبح کے وقت ان کا استعمال شفاء کا باعث ہے۔“ (صحيح مسلم : 2048)
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وإن العجوة من فاكھة الجنة
’’عجوہ جنت کے پھلوں میں سے ایک پھل ہے۔“ (مسند الامام احمد : 351/5، وسنده حسن)
(۶) دنبے کی چکی :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
شفاء عرق النساء ألية شاة أعرابية تذاب، ثم تجزأ ثلاثة أجزاء، ثم يشرب علي الريق في كل يوم جزء
’’عرق النساء سے شفاء حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جنگلی بھیڑ (دنبے) کی چکی کو لے کر پگھلا لیا جائے، پھر اس کے تین حصےکر لیے جائیں، پھر روزانہ ایک حصہ نہار منہ پی لیا جائے۔“(سنن ابن ماجه : 3463، وسنده صحيح)
(۷) شہد :
شہد کے بارےمیں فرمانِ الٰہی ہے :
﴿فِيهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ﴾ ’’اس میں لوگوں کے لیے شفاء ہے۔“ (النحل:69)
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی میرے بھائی کو دست لگ گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اُسے شہد پلاؤ۔“ اس نے اپنے بھائی کو شہد پلایا، پھر حاضر ہو کر عرض کی کہ میں نے اس کو شہد پلایا تھا لیکن اس کے دست اور بڑھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ اسے یہی فرمایا : جب وہ چوتھی مرتبہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ”اس کو شہد پلاؤ۔“ اس نے کہا : اسے شہد پلایا تھا مگر اس کے دست اور بڑھ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ تعالیٰ کی بات سچی ہے اور تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔“ پھر اس نے شہد پلایا تو اس کا بھائی شفاء یاب ہو گیا۔ (صحيح بخاري : 5683، صحيح مسلم : 2217)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الشفاء في ثلاث : شربة عسل، وشرطة محجم، وكية نار، وأنھي أمتي عن الكى
’’ (کامل ) شفاء تین چیزوں میں ہے : ۱ شہد کا گھونٹ، ۲ سنگی لگوانا، ۳ آگ سے داغنا، لیکن میں اپنی امت کوآگ سے داعنے سے روکتا ہوں۔“ (صحيح بخاري : 5680)
(فائدہ :)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھے اور شہد کو پسند فرماتے تھے۔ (صحيح بخاري : 5431، صحيح مسلم : 1474/21)
(۸) آب زمزم :
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ آپ یہاں (حرم میں ) کب سے ہیں ؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی : تیس دنوں سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیس دنوں سے یہاں ہو؟ میں نے عرض کی : جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : آپ کا کھانا کیا تھا؟ میں نے کہا : زمزم کے علاوہ کوئی کھانا پینا نہیں تھا۔ یقیناً میں موٹا ہو گیا ہوں۔ میرے پیٹ کی سلوٹیں ختم ہو گئی ہیں۔ میں نے اپنے کلیجے میں بھوک کی وجہ سے لاغری اور کمزوری تک محسوس نہیں کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إنھا مباركة وھى طعام طعم وشفاء سقم ’’یقیناً یہ مبارک پانی ہے۔ یہ کھانا بھی ہے اور بیماری کے لیےشفاء بھی ہے۔“ (مسند الطيالسي : ص 61، ح : 457، وسنده صحيح)
(فائدہ :)
حدیث : ماء زمزم لما شرب له کی تمام سندیں ’’ضعیف“ ہیں۔
(۹) گائے کا دودھ :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما أنزل الله من داء إلا أنزل له شفاء، وفي ألبان البقر شفاء من كل داء
’’اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی شفاء نازل نہ کی ہو۔ گائے کے دودھ میں ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔“ (المستدرك للحاكم : 194/4، وصححه، ووافقه الذھبى، وسنده صحيح)
مسندالبزار (۳۰۰) اور السنن الکبری للنسائی (۷۵۶۸)کے الفاظ یہ ہیں :
فى ألبان البقر شفاء ’’گائیوں کے دودھ میں شفاء ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عليكم بألبان البقر، فإنھا ترم من كل شجر، وھو شفاء من كل داء
’’گائے کا دودھ ضرور استعمال کرو، کیونکہ وہ ہر درخت چرتی ہے۔ اس کے دودھ میں ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔“ (المستدرك للحاكم 403/4، وسنده صحيح)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح“ کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا ہم دوائی استعمال کر سکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
نعم تداووا، بأن الله لم ينزل داء إلا انزل له دواء، عليكم بألبان البقر، فإنھا ترم من الشجر
’’ہاں، دوائی استعمال کیا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی شفاء نازل نہ کی ہو۔ تم گائیوں کا دودھ ضرور استعمال کرو کیونکہ وہ (تمام ) درختوں سے چرتی ہے۔“(الجعديات لابي القاسم البغوي : 2164، وسنده حسن)
(۱۰) سنگی لگوانا :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنگی لگوائی اور فرمایا : تمہاری دواؤں میں سے بہترین چیز فصد کھلوانا، یعنی سنگی لگوانا ہے۔“ (صحيح بخاري : 5696، صحيح مسلم : 1577/62)
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے مقنع کی عیادت کی، پھر فرمایا : میں یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک تم پچھنے (سنگی ) نہ لگوا لو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ان فيه شفاء ”بلاشبہ اس میں شفاء ہے۔“ (صحيح مسلم : 2205)
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
إن كان فى شىء من أدويتكم خير ففى شرطة محجم او شربة من عسل أو لذعة بناز
’’اگر تمہاری دواؤں میں سے کسی میں خیر ہے تو سنگی لگوانے میں، شہد پینے میں یا آگ سے داغ دینے میں ہے۔“ (صحيح بخاري : 5683، صحيح مسلم : 2205)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من احتجم لسبع عشرة وتسع عشرة وإحدي وعشرين كان شفاء من كل داء
’’جو آدمی (اسلامی مہینے کی ) سترہ، انیس اور اکیس تاریخ کو سنگی لگواتا ہے، اسے ہر مرض سے شفاء ہو گی۔“ (سنن ابي داود : 3861، السنن الكبري للبيھي : 34/9، المستدرك للحاكم : 110/4، مختصرا، وصححه علي شرط مسلم واقره الذھي، وسنده حسن)
اس کے راوی سعید بن عبدالرحمٰن جمحی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وثقه الاكثر ’’اسے اکثر محدثین کرام نے ثقہ قرار دیا ہے۔“ (فتح الباري لابن حجر : 150/10)
(۱۱) آگ سے داغنا سے :
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الشفاء فى ثلاث : شربة عسل، وشرطة محجم، وكية نار، وأنھى امتى عن الكى
’’ (کامل ) شفاء تین چیزوں ہے : ۱ شہد کا گھونٹ، ۲ سنگی لگوانا، ۳ آگ سے داغنا، لیکن میں اپنی امت کو آگ سے داغنے سے روکتا ہوں۔“ (صحيح البخاري : 5680)
ایک روایت میں ہے :
وما أحب أن أكتوي ’’میں آگ سے داغنے کو پسند نہیں کرتا۔“ (صحيح بخاري : 5683، صحيح مسلم : 2205)
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک طبیب بھیجا۔ اس نے ان کی ایک رگ کاٹ کر آگ سے داغ دیا۔“ (صحيح مسلم : 2207)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کے بازو کی ایک رگ میں تیر لگا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے تیر کے پھالے کے ساتھ ان کو داغا۔ ان کے ہاتھ میں ورم آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوبارہ داغ دیا۔“ (صحيح مسلم : 2208)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كويت من ذات الجنب ورسول الله صلي الله عليه وسلم حى
’’مجھے ذات الجنب کی بیماری میں داغ دیا گیا، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے۔“ (صحيح بخارى : 5721)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت ہے کہ : إنه اكتوي من اللقوة. ”آپ نے لقوہ کی بیماری میں داغنے کو کہا۔“ (مصنف ابن ابي شيبة : 63/8، وسنده صحيح)
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ : كان … ينھي عن الكى، ثم اكتوى بعد. ’’آپ پہلے داغنے سے منع کیا کرتے تھے، پھر بعد میں داغنے کے قائل و فاعل ہو گئے۔“ (مصنف ابن ابي شيبة : 65/8، وسنده صحيح)
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے ان لوگوں کی صفات بیان فرمائیں جو بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ ان کی تعداد ستر ہزار ہو گی۔ ھم الذين لا يسترقون، ولا يتطيرون، ولا يكتوون، وعلي ربھم يتوكلون ’’یہ وہ لوگ ہوں گے جو دم کا مطالبہ نہیں کریں گے، نہ بدفالی اور بدشگونی کریں گے نہ داغ لگوائیں گے۔ وہ خاص اپنے رب پر بھروسہ کریں گے۔“ (صحيح بخاري : 5705، صحيح مسلم : 218)
الحاصل :
حاصل کلام یہ ہے کہ آگ سے داغنے سے شفاءحاصل ہوتی ہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو داغ دے کر اس کا جواز پیش کیا ہے۔ جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سے روکنے کی بات ہے تو یہ نہی و ممانعت اختیاری اور تنزیہی ہے، یعنی اس سے بچنا بہتر ہے لیکن اگر کوئی اور چارہ نہ ہو تو ایساکر لیا جائے۔ یہ عمل قابل مواخذہ نہیں ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے داغنے کو پسند نہ کرنے سے ممانعت ثابت نہیں ہوتی، دوسری بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکتویٰ کو ناپسند کیا ہے، یعنی کسی کو کہہ کر داغ لگوانے کو آپ پسند نہیں کرتے تھے۔ باقی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کو کہہ کر داغ نہ لگوانے والوں کی تعریف کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ افضل اور اولیٰ یہ ہے کہ داغ لگوانے سے اجتناب کیا جائے۔ والله اعلم بالصواب