سوال:
صرع کیا ہے ؟
جواب :
صرع انسان کو اس کی عقل میں پہنچنے والے خلل کا نام ہے۔ جس کی وجہ سے انسان اپنی کہی ہوئی بات یاد نہیں رکھ سکتا۔ کہی ہوئی بات اور آئندہ کہنے والی بات میں ربط قائم نہیں رکھ سکتا۔ یاد دہانی کے فقدان کے نتیجے میں اسے مغز کے اعصاب میں خلل کا سامنا ہوتا ہے، پھر وہ اپنی حرکات میں خبطی ہو جاتا ہے۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ علیہ نے ”صرع“کے بارے میں ”عالم الجن في ضوء الكتاب و السنة“ [ص: 250] اور ”عالم الجن و الملائكة“ [ص: 76] میں فرمایا : یہ ایک علت ہوتی ہے، جو اعضاے رئیسہ کو کام کرنے میں جزوی طور پر روکتی ہے اور اس کا سبب وہ غلیظ ہوا ہوتی ہے جو دماغ کی گزرگاہوں میں بند ہو کر رہ جاتی ہے یا ردی قسم کے بخارات ہوتے ہیں جو بعض اعضا سے دماغ کی طرف چڑھتے ہیں جس کے بعد اعضا میں سکیڑ پیدا ہو جاتا ہے اور انسان صحیح طور پر کھڑا بھی نہیں ہو سکتا۔
قرآن سے دلائل:
اللہ تعالی نے فرمایا:
«الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢٧٥﴾ »
”وہ لوگ جو سود کھاتے ہیں، کھڑے نہیں ہوں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر خبطی بنا دیا ہو۔ یہ اس لیے کہ انھوں نے کہا یہ تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا، پھر جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت آئے پس وہ باز آ جائے تو جو پہلے ہو چکا وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو دوبارہ ایسا کرے تو وہی آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“ [البقرة: 275]
امام قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا :
”اس آیت میں اس شخص کے انکار کا رد ہے، جس نے جن کی طرف سے لمس کا انکار کیا اور یہ گمان کیا کہ یہ طبیعتوں کا فعل ہے اور جو کہتا ہے کہ شیطان انسان میں نہ چل سکتا ہے اور نہ اسے چھو سکتا ہے۔“ [تفسير القرطبي 355/3]
امام طبری رحمہ اللہ نے فرمایا:
”قتادہ سے مروی ہے کہ بے شک جاہلیت کا سود یہ ہوتا تھا کہ آدمی ایک معین مدت تک بیع کرتا، پھر جب وہ مدت آ جاتی اور دوسرے کے پاس رقم نہ ہوتی تو یہ اس رقم کو بڑھا کر مدت ادائی میں اضافہ کر دیتا تھا، پس اللہ تعالی نے مذکورہ سود خوروں کے بارے میں فرمایا: «لَا يَقُومُونَ» یعنی وہ آخرت میں اپنی قبروں سے ایسے ہی اٹھیں گے جیسے وہ شخص اٹھتا ہے جسے شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس کر دیا ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان دنیا میں انسان کو چھو کر خبطی بنا سکتا ہے۔“ [تفسير الطبري 101/3]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
”یعنی وہ نہیں کھڑے ہوں گے، مگر جیسے گرایا ہوا گرے ہونے کی حالت میں ہو اور شیطان نے اسے حواس باختہ کیا ہوا ہو، یعنی وہ .قیامت کو انتہائی بری حالت میں کھڑا ہو گا۔“ [تفسير ابن كثير 326/1]