صدقے کے لیے کسی کو وکیل بنانا جائز ہے ؟
تحریر: حافظ مطیع اللہ
وَعَنْ أبى يَزِيدَ مَعْنِ بْن يَزِيدَ بْنِ الأَخْنسِ رضي الله عَنْهمْ، وَهُوَ وَأَبُوهُ وَجَدّهُ صَحَابِيُّونَ، قَال: كَانَ أبى يَزِيدُ أَخْرَجَ دَنَانِيرَ يَتصَدَّقُ بِهَا فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَجُلٍ فى الْمَسْجِدِ فَجِئْتُ فَأَخَذْتُهَا فَأَتيْتُهُ بِهَا. فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا إِيَّاكَ أَرَدْتُ، فَخَاصمْتُهُ إِلَى رسولِ اللَّهِ صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم فَقَالَ: "لَكَ مَا نويْتَ يَا يَزِيدُ، وَلَكَ مَا أَخذْتَ يَا مَعْنُ "رواهُ البخاريُّ.
حضرت ابو یزید معن بن یزید بن اخنس رضی اللہ عنہما ( یہ معن، ان کے والد یزید اور دادا اخنس تینوں صحابی ہیں ) بیان کرتے ہیں کہ میرے والد یزید نے کچھ دینار صدقہ کرنے کے لیے نکالے اور انہیں مسجد میں کسی آدمی کے پاس رکھ آئے ( تا کہ وہ کسی مستحق کو دے دے) پس میں مسجد میں آیا اور انہیں گھر لے آیا، پس انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے تو یہ ارادہ نہیں کیا تھا ( کہ یہ دینار تم لے آؤ ) پس میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آیا اور آپ کو اس مسئلے کے بارے میں بتایا تو آپ نے فرمایا: ” اے یزید ! تجھے تیری نیت کا ثواب مل گیا اور اے معن! جو تو نے لے لیا وہ تیرا ہے ۔“ [بخاري]
توثيق الحديث:
[ أخرجه البخاري 291/3 – فتح]
غريب الحديث :
فجنت فأخذتها : ” پس میں آیا اور انہیں لے لیا“
یعنی میں اس شخص کے پاس آیا جسے میرے والد دینار دے کر آئے تھے کہ وہ کسی مستحق کو دے دیں، پس میں نے ان کی اجازت سے وہ دینار لے لیے، زبر دستی نہیں۔
فاتيته : ”میں ان کے پاس آیا“ یعنی میں وہ مذکورہ دینار لے کر اپنے والد کے پاس آیا۔
فخاصمته : ”میں انہیں فیصلہ کرانے کے لیے لایا۔“
لك مانويت : ” تم نے جو نیت کی وہ تمہیں مل گیا ۔“
یعنی تمہیں ثواب مل گیا۔ یہ خطاب والد کے لیے ہے کہ تم نے کسی محتاج پر صدقہ کرنے کی نیت کی تھی اور ان کا اپنا بیٹا محتاج تھا، وہ لے گیا تو اس سے ثواب ضائع نہیں ہوا کیونکہ والد نے تو یہ نیت نہیں کی تھی کہ بیٹے پر صدقہ کروں گا۔
لك ما أخذت : ” جو تم نے لے لیا وہ تمہارا“ یعنی جو تم نے لے لیا وہ اب تمہاری ملکیت ہے۔ یہ خطاب بیٹے سے ہے کہ تم نے صحیح شرعی طریقے سے مال لیا ہے۔
فقه الحديث:
➊ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اظہار کرنا جائز ہے۔
➋ صدقے کے لیے کسی کو وکیل بنانا جائز ہے، بالخصوص نفلی صدقے کے لیے کیونکہ وہ تو مخفی قسم کا ہوتا ہے۔
➌ شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے باپ اور بیٹے کا کسی حاکم یا عالم دین کے پاس جانا جائز ہے اور یہ والد کی نافرمانی شمار نہیں ہوگی۔➍ اولاد کو نفلی صدقہ دینا جائز ہے۔
➎ صدقہ کرنے والے کو اپنی نیت کے مطابق ثواب مل جائے گا خواہ وہ کسی مستحق تک پہنچے یا نہ پہنچے ۔
➏ والد صدقہ کرنے کے بعد اپنے بیٹے سے وہ صدقہ واپس نہیں لے سکتا، جبکہ ہبہ واپس ہو سکتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!