سوال :
میرا خاوند – – اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرمائے۔ اگرچہ خشیت الہیٰ کا حامل اور اخلاق فاضلہ سے متصف ہے۔ مگر میری قطعاً کوئی پروا نہیں کرتا ہمیشہ ہی ترش روئی اور سنگدلی کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے۔ وہ اس کا زمہ دار مجھے ہی ٹھہراتا ہے، لیکن اللہ جانتا ہے کہ بحمد اللہ میں اس کے جملہ حقوق کی ادائیگی کرتی ہوں۔ ہمیشہ اس کی راحت و اطمینان کا سامان فراہم کرتی ہوں، اور اس کے لئے ہر ناگوار عمل سے پرہیز کرتی ہوں، اس کے باوجور جو سلوک وہ مجھ سے روا رکھتا ہے اس پر صبر کرتے ہوئے سب کچھ برداشت کرتی ہوں۔ میں جب بھی کسی چیز کے متعلق دریافت کرتی ہوں یا کسی مسئلے کے بارے میں بات کرتی ہوں تو غضب ناک ہو کر بھڑک اٹھتا ہے، اس کے برعکس وہ اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ خندہ رو اور ہشاش بشاش رہتا ہے، میں نے ہمیشہ ہی اس کی طرف سے بد معاملگی اور ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کیا ہے۔ اس کا یہ رویہ کبھی کبھی تو اتنا تکلیف دہ اور المناک ہوتا ہے کہ میں یہ سوچنے لگتی ہوں ؟ کیوں نہ اس گھر بار کو خیر باد کہہ دیا جائے۔ الحمد للہ ! میں مڈل حصے تک پڑھی لکھی خاتون ہوں اور اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض کی ادائیگی میں کوشاں رہتی ہوں۔ فضیلۃ الشیخ اگر میں گھر چھوڑ دوں، تن تنہا اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کروں اور زندگی کے دکھ سکھ برداشت کروں تو کیا میں گناہگار ہوں گی ؟ یا اسی جگہ اسی حالت میں اس کے پاس رہوں اور سب کچھ پس پشت ڈال کر زندگی کے باقی ایام پورے کروں ؟
جواب :
اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں بیوی دونوں پر حسن معاشرت، اخلاق فاضلہ اور خندہ روئی کا تبادلہ واجب ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ [ 4-النساء:19 ]
”بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت اپناؤ۔“
دوسری جگہ فرمایا :
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ 2-البقرة:228 ]
” اور عورتوں کا حق ( مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسا دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے، البتہ مردوں کو عورتوں پر (ایک گونہ) فضیلت حاصل ہے۔“
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
البر حسن الخلق [ صحيح مسلم كتاب البر والصلة حديث 14]
”نیکی حسن خلق کا نام ہے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد ہے :
لا تحقرن من المعروف شيئا ولو أن تلقى أخاك بوجه طلق [ صحيح مسلم كتاب البر والصلة باب 43]
”کسی بھی نیکی کو حقیر نہ سمجھو اگرچہ تو اپنے بھائی کو خندہ روئی سے ہی کیوں نہ ملے۔“
مزید فرمایا :
اكمل المؤمنين إيمانا أحسنهم خلقا، وخياركم خياركم لنسائهم، وأنا خيركم لأهلي
’’ ایمان والوں میں سے کامل ترین مومن وہ ہے، جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو۔ تم میں سے اچھے وہ ہیں جو اپنی عورتوں (بیویوں) کے لئے اچھے ہیں اور میں اپنے گھر والوں کے لئے تم سب میں سے اچھا ہوں۔ “
علاوہ ازیں کئی ایک احادیث نبوی جو کہ مسلمانوں میں عمومی طور پر حسن خلق، اچھی ملاقات اور حسن معاشرت کی ترغیب دلاتی ہیں، میاں بیوی اور عزیز، رشتے داروں کو تو کہیں زیادہ ان امور پر غور کرنا چاہئیے۔ آپ نے خاوند کے جور و ستم اور ایذا رسانی کے باوجود صبر جمیل کا مظاہرہ کیا جو قابل تعریف ہے۔ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان کے مطابق مزید صبر اور گھر نہ چھوڑنے کی نصیحت کرتا ہوں، کیونکہ اس میں بہت زیادہ بھلائی اور انجام بالخیر ہے۔ ان شاء الله .
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِينَ [ 8-الأنفال:46]
” اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“
دوسرے مقام پر یوں فرمایا :
إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ [ 12-يوسف:90 ]
”یقیناً جو شخص اللہ سے ڈر جائے اور صبر کرے پس بےشک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔“
مزید فرمایا :
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ [39-الزمر:10 ]
”یقیناً صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بغیر حساب دیا جائے گا۔“
ایک اور جگہ پر یوں فرمایا :
فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ [11-هود:49]
”پس صبر کیجئیے تحقیق بہترین انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے۔“(4-النساء:19)
خاوند کے ساتھ دل لگی کرنے اور ایسے اچھے الفاظ کے ساتھ، کہ جن سے اس کا دل نرم ہو جائے، مخاطب ہونے میں کوئی حرج نہیں، کہ وہی الفاظ آپ کے بارے میں خوش روئی کا سبب بن جائیں اور اس میں آپ کے حقوق ادا کرنے کا شعور بیدار ہو جائے۔ (یعنی ایسا انداز تکلم جو اس کے دل کو نرم کر دے )۔ جب تک وہ تمام ضروری اور اہم معاملات کی ادائیگی پر قائم ہے، حتیٰ کہ جب تک اس کا سینہ کھل نہیں جاتا اور تمہارے بڑے بڑے مطالبات کے لئے اس کے دل میں وسعت پیدا نہیں ہوتی، اپنی دنیوی ضروریات کے مطالبے کو چھوڑ دیں۔ بالآخر آپ کی ہی تعریف کی جائے گی۔ ان شاء اللہ۔
اللہ تعالیٰ آپ کو مزید صبر و استقامت سے نوازے، آپ کے خاوند کی اصلاح فرمائے۔ اسے رشد و خیر ودیعت کرے اور حسن خلق اور خندہ پیشانی کے ساتھ بیوی کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق بخشے کہ وہی سیدھا راستہ دکھانے والا ہے۔
(سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ)